کرونا وائرس اور معاشی ایمرجنسی کا خطرہ

emergency

سراج الدین فلاحی
ملک عزیز اس وقت ہنگامی حالات سے دوچار ہے۔ کورونا وائرس نامی مرض نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے پیش نظر ہمارے ملک کی سرکار نے اکیس دنوں کے لاک ڈاون کا اعلان کیا ہے. ماہرین نے اور مزید لاک ڈاون کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔اس لاک ڈاون سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور ملک کی معیشت جو پہلے ہی ہچکولے لے رہی تھی اب بالکل ڈوبنے کی کگار پر آ گئی ہے۔ عوام کی پریشانیوں کے مدنظر مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے بڑے بڑے راحتی پیکجز کا اعلان کیا ہے۔ آج RBI کے گورنر نے کئی بڑے اعلانات کئے ہیں۔ ریپو ریٹ 0.75 تو ریورس ریپو ریٹ 0.9 فیصد کم کر دیا ہے. اس سے لون اور اس کی EMI میں عوام کو چھوٹ ملے گی۔ اس کے علاوہ CRR میں کمی کی گئی ہے۔ 3.74 لاکھ کروڑ روپیے کی معیشت میں لیکویڈیٹی ڈالی گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ راحتی پیکجز کا اعلان کر کے سرکار اپنا خزانہ خالی دکھا کر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ چنانچہ ان مواقع کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی لیڈران معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
معاشی یا مالیاتی ایمرجنسی کیا ہے؟ اس کے نافذ ہونے سے ملکی معیشت اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس تحریر میں ہم یہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔معاشی ایمرجنسی ایک ایسی ایمرجنسی ہوتی ہے جس کو انڈیا میں دستور ہند کے آرٹیکل 360 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کو اگر لاگو کر دیا جائے تو عوام کا پیسہ، کمائی، اثاثے سرکاری تحویل میں جا سکتے ہیں اور سرکار جب چاہے اسے اپنے طریقے سے استعمال کر سکتی ہے۔ البتہ اس کو بہت خاص حالات میں نافذ کیا جاتا ہے۔ ملک میں لاک ڈاون کی وجہ سے جس طرح معاشی حالات خراب ہو گئے ہیں، ریلوئے، فلائٹ اور دیگر تجارتی منڈیوں کو بند کر دیا گیا ہے. شیئر مارکیٹ بجلی کی سی تیزی سے لڑھک رہا ہے اس طرح کبھی انڈیا میں لاک ڈاون نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ایسی صورت حال کبھی پیدا ہوئی تھی۔ اس لئے معاشی ایمرجنسی بعید از قیاس نہیں ہے. جب ہم دستور ہند کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دستور ہند میں تین طرح کی ایمرجنسیوں کا ذکر ملتا ہے:
(1) نیشنل ایمرجنسی، یہ دستور ہند کے آرٹیکل 352 کے تحت لگائی جاتی ہے۔
(2) اسٹیٹ ایمرجنسی، یہ دستور ہند کے آرٹیکل 356 کے تحت لگائی جاتی ہے۔
(3) معاشی ایمرجنسی، یہ دستور ہند کے آرٹیکل 360 کے تحت لگائی جاتی ہے۔
ابتدائی دو کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کیونکہ ان کو ماضی میں نافذ کیا جا چکا ہے۔ یہاں ہم تیسری ایمرجنسی جس کو معاشی ایمرجنسی کے طور پر جانا جاتا ہے اس کا ذکر کریں گے۔ آرٹیکل 360 کے تحت معاشی ایمرجنسی کا اعلان صدر جمہوریہ کے ذریعے اس وقت کیا جاتا ہے جب صدر کو مکمل یقین ہو جائے کہ اس وقت ملک میں زبردست معاشی بحران کا خطرہ ہے۔ ملک مختلف طرح کے معاشی مسائل سے دوچار ہے اور سرکار دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے تو آرٹیکل 360 کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ایمرجنسی میں عوام کے پیسوں اور اثاثوں پر سرکار کا حق ہو جاتا ہے۔ صدر جمہوریہ ریاستی اور مرکزی ملازمین کی تنخواہوں کو کم کر سکتا ہے گرچہ وہ سپریم کورٹ کا جج ہی کیوں نہ ہو، عوام کے اثاثے منجمد کر سکتا ہے، ریاستوں کے مالیاتی امور میں دخل دے سکتا ہے اور یہ ساری اتھاریٹیز اس کو آرٹیکل 360 کے نافذ ہوتے ہی مل جاتی ہیں. یہ ایمرجنسی مہینوں اور سالوں تک رہ سکتی ہے اس کو ہٹانا صدر کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ آرٹیکل 360 لاگو کرنے کے لئے وزیر آعظم اور منسٹر آف کونسل صدر جمہوریہ کو تجویز دیتے ہیں کہ آپ معاشی ایمرجنسی کا اعلان کیجیے۔ صدر جمہوریہ کے اعلان سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اسے پاس کروانا لازمی ہوتا ہے۔ جب یہ پاس ہو جاتی ہے تو مرکز کی Execute Authority پورے ملک میں لاگو ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرکز کا Execute Power بہت بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ مرکزی حکومت ریاستی حکومتوں کو مالیاتی فیصلے جاری کر سکتی ہے۔ ودھان سبھاؤں میں جتنے بھی Financial or Money Bill ہوتے ہیں وہ صدر کے پاس Approval کے لئے جاتے ہیں اور جب وہ منظور کرتا ہے تبھی وہ لاگو ہوتے ہیں۔ یعنی Money Bill کو لاگو کرنے کا اختیار بھی ریاستوں سے چھین لیا جاتا ہے اور مالیاتی امور میں تمام ریاستوں کو مرکز کا کہنا ہر صورت میں ماننا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا چند روز قبل بی جے پی لیڈر سبرامینیم سوامی نے بیان دیا تھا کہ حکومت کو معاشی ایمرجنسی نافذ کر دینی چاہیے۔ 24 مارچ کو وزیر آعظم نے کرونا پر قوم سے خطاب کیا تھا اس وقت بھی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ ہو سکتا ہے وہ معاشی ایمرجنسی نافذ کر نے کی صدر جمہوریہ سے اپیل کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ایسا ہو بھی نہ۔
آزاد ہند کی تاریخ میں آج تک معاشی ایمرجنسی نہیں لگی ہے۔ سن 1991میں ایک بار ملک میں معاشی ایمرجنسی لگتے لگتے رہ گئی جب ملک انتہائی خطرناک معاشی بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ زر مبادلہ صرف دس روز کا بچا ہوا تھا اور حکومت کو قرض لینے کے لئے عالمی بینک کے پاس اپنا سونا گروی رکھنا پڑا تھا۔ اس وقت عالمی بینک کے سجھاؤ پر انڈیا نے نئی معاشی پالیسی نافذ کی۔ جس میں Liberalisation, Privatisation and Globalisation کی پالیسیاں اہم تھیں۔ ان پالیسوں کی وجہ سے ملک میں FDI flow بڑھ گیا تھا اور ملک معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا لہذا سرکار کو معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہاڑی پر کام کرنے والے مزدور، دکان دار، ہوٹل، ریسٹورینٹ، ریلوئے، فلائٹ، سنیما گھر، ٹورزم، بی پی او غرض یہ کہ معیشت کے تمام شعبے جن سے آمدنی پیدا ہوتی ہے بالکل بند ہو گئے ہیں۔ انہیں سے عوام کو پیسہ ملتا ہے اور سرکار کو ٹیکس کی شکل میں ریونیو ملتا ہے ان سب کے بند ہونے سے ملک بھوک مری کی کگار پر آ گیا ہے۔ اگر یہ حالات زیادہ دنوں تک ایسے ہی برقرار رہتے ہیں تو کیا حالات ہوں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی معیشت Depression میں چلی جائے گی جو کہ بہت ہی بھیانک صورت حال ہوتی ہے کیونکہ اس صورت حال میں عوام کی ایک بڑی تعداد دانے دانے کو ترستی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا اس طرح کے حالات سے ابھری، لوٹ مار عام بات ہو گئی. دونوں عالمی جنگوں سے قبل دنیا کے معاشی حالات یہی تھے۔آگے آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم، اس لئے ہمیں حالات پر نظر بنائے رکھنا چاہیے۔ ایک خبر یہ آرہی ہے کہ سرکار بینک میں عوام کے رکھے پیسوں پر اپنی نظر جمائے ہوئے ہے۔ حالانکہ سرکار نے ان افواہوں کو خارج کیا ہے لیکن بقول مشتاق یوسفی یہاں کی افواہیں اکثر سچ نکلتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *