مدارس اسلامیہ کے معاشی مسائل ،لاک ڈائون اور ملی جذبہ

جامعۃ الفلاح کی کشادہ مسجد جو ہر آنے والے کو کامیابی کی طرف بلاتی ہے
جامعۃ الفلاح کی کشادہ مسجد جو ہر آنے والے کو کامیابی کی طرف بلاتی ہے

……..دانش ریاض
میں جس سوسائٹی میں رہتا ہوں وہاں کئی برس قبل سوسائٹی کے مکینوں نےمکتب عمر فاروق کی بنیاد رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ مقامی بچے دینی تعلیم سے مستفید ہوں اور اسلام کی بنیادی تعلیم سےاپنے آپ کو آراستہ کرلیں ۔بالآخر معمولی فیس پر تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور اب ایک بڑی تعداد فیضیاب ہو رہی ہے ۔میں نے ذمہ دار مکتب سے معاشی مسئلہ پر گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ فیس سے اتنی رقم آجاتی ہے کہ مزید کسی تعاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔میرے شناسائوں میں الہدایہ پبلک اسکول کے ذمہ دار بھی ہیں جنہوں نے عصری و دینی تعلیم کے امتزاج کے ساتھ اسکول و مدرسے کا کورس ڈیزائن کیا ہے اور اسکول کے بچوں کو ہر محاذ پر کامیاب رہنے والا سپاہی بنانا چاہتے ہیں۔اسکول کے ذریعہ حاصل ہونے والی فیس کے ذریعہ ہی وہ خدمت خلق کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔گذشتہ دس برسوں میں اسلامک انگلش اسکول کا چلن اس قدر عام ہوا ہے کہ اب بیشتر مذہبی گھرانے اپنے بچوں کا داخلہ انہیں اداروں میں کرواتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ ادارے ملی تعاون کے بغیرمحض حاصل ہونے والی فیس کے ذریعہ ہی اپنے کارواں کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں بلکہ بعض اداروں نے تو شرکت و مضاربت کے اصول پر اسے ایک ایسی تجارت میں تبدیل کردیا ہے جس کا حصہ بننا لوگ اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔

گذشتہ دس برسوں میں مدارس اسلامیہ کے تعلق سے ملت کا مزاج بھی تبدیل ہوا ہے ۔لہذا وہ متوسط گھرانے جو اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدارس میں داخل کروایا کرتے تھے اب ان کے ذہن میں بھی تبدیلی رونما ہوئی ہےاور انہوں نے مدارس کے بجائے اسلامک اسکول کی راہ تلاش کرلی ہے۔یقیناً وہ غریب گھرانے آج بھی مدارس کا رخ کررہے ہیں جو کم از کم یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ کسی طرح زیور تعلیم سے آراستہ ہوجائے۔ لہذا عام تاثر یہ ہے کہ مدارس سے ویسے پروڈکٹ ملت کو حاصل نہیں ہو رہے ہیں جس کی امت کو فی الحال ضرورت ہے۔اس فکر نے ملت کے صاحب ثروت کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ مدارس کے بجائے ایسے کاموں میں اپنا دست تعاون دراز کریں جس سے ملت کو حقیقی فائدہ مل سکے اس فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مدارس مالی بحران کا شکار ہورہے ہیں اور ویسا تعاون حاصل نہیں کرپا رہے ہیں جو ان کے اخراجات کی تکمیل کرسکے۔ستم بالائے ستم کساد بازاری اور پھر لاک ڈائون نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے اور اب بیشتر مدارس کے ذمہ داران اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ پیش آمدہ رمضان المبارک میں کس طرح کی پلاننگ کریں کہ مالی بحران سے بآسانی نکلا جاسکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مدارس اسلامیہ نے اسلامی تشخص کی بقا میں کلیدی کردار ادا کیا ہے پورے ہندوستان میں عربی مدارس کا بچھا ہوا یہ جال نہ صرف اسلام دشمن طاقتوں کی نظروں میں کھٹکتا ہے بلکہ اس پر شب خون مارنے کی کوششوں میں وہ کتنی ہی راتیں کالی کرچکے ہیں۔مدرسہ بورڈ بنانے سے لے کر مالی منفعت پہنچانے تک کی ہر کوشش میں یہ راز پوشیدہ رہا ہے کہ کس طرح چور دروازے سے داخل ہوکر اس پورے نظام کو تہہ و بالا کردیا جائے۔لیکن المیہ یہ رہا ہے کہ ان کی کوششوں کو غیر محسوس انداز میں ارباب مدارس نے تقویت پہنچانے کی بھی کوشش کی ہے اور اپنے نصاب تعلیم میں وہ تبدیلیاں نہیں لائیں جو وقت کی متقاضی تھیں,لہذا ایک طرف جہاں ملت میں وقار جاتا رہا وہیں دوسری طرف حکومت کی نظر میں بھی ان اداروں کا اعتبار گھٹتا رہا اور پھر یہ ادارے ان تمام اختیارات سے محروم ہوگئے جو کبھی ماضی میں مدارس اسلامیہ کا خاصہ ہوا کرتی تھیں

اسی اثناء ہر گلی محلے میں پچیس پچاس بچوں پر مشتمل اقامتی مدرسوں کے کھلنے کا سلسلہ شروع ہوا جو تعلیم سےزیادہ چندہ اگاہی کے کاروبار کو فوقیت دیتا تھا اور ہر اس چوکھٹ پر ناک رگڑنے پہنچ جاتا تھاجس کے بارے میں تھوڑا سا بھی شبہ ہوتا کہ وہ اپنی جیب خاص سے ضرور عنایت کرے گا۔ان گلی محلوں کے مدارس نے ایک بڑا نقصان یہ کیا کہ وہ جو اعتبار بڑے مدارس کا قائم تھا اس کی مٹی بھی پلید کردی اور پھر تمام لوگ ایک ہی ڈنڈے سے ہانکے جانے لگے
لہذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مجموعی طور پراس وقت ملت مدارس کے بارے میں بہت پرامید نہیں ہے۔جب ایسی صورتحال ہوتو لاک ڈاؤن میں وہ دست تعاون کیسے دراز کرے گی یا یوں کہیں کہ کساد بازاری کے دور میں مدارس اسلامیہ کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے کیسی پلاننگ ہونی چاہئے؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام تر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ملت کے اندر اب بھی ملی جذبہ برقرار ہے لیکن اس جذبے کو مثبت فکر عطا کرنا اب ارباب مدارس کی ذمہ داری ہے۔اس کی صورت یہ بن سکتی ہے کہ وہ بڑے مدارس جس کے معاشرے پر دوررس اثرات ہیں اصحاب خیر ان کے لئے دست تعاون دراز کریں جبکہ ان مدارس پرپابندی عائد کردی جائے جو محض دل بہلانے کے لئے کھولے گئے ہیں۔ہر گلی محلے میں مکاتب کے نظام کو مضبوط بنایا جائے اور مقامی طور پر ہی اس کی کفالت کی جائے۔بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ مکاتب کی فیس اتنی ہو کہ معلم کے اخراجات اسی سے پورے ہوجائیں۔مختلف جماعتوں ،تنظیموں کی طرف سے جو تصدیق نامے جاری کئے جاتے ہیں اس پر روک لگائی جائے اور محض ذاتی تعلقات کی بحالی کے لئے کسی کو تصدیق نامہ نہ دیا جائے۔ذاتی ملکیت والے مدارس جو ملت کے تعاون سے پھلنا پھولناچاہتے ہیں ان کا تعاون بھی اس موقع پر مناسب نہیں بلکہ شورائی نظام پر مبنی ادارے جن کے یہاں حساب کتاب کا نظام موجود ہو ان کو پرموٹ کیا جائے۔

یہ بات دیکھی گئی ہے کہ مدرسہ قائم کرنے یا مدرسہ کا نظام جاری رکھنے کے لئے دور دراز سے بچوں کو لایا جاتا ہےگذشتہ دنوں اس کی وجہ سے بھی بہت ساری پریشانیاں اٹھانی پڑی ہیں اور پولس و انتظامیہ نے ریلوے اسٹیشن پر روک کر ایسی تفتیش کی ہے کہ میڈیا کو چٹخارے لینے کا بڑا موقع میسر آیا ہےلہذا بہت چھوٹے بچوں کو لے کر ایک ریاست سے دوسری ریاست کا سفر نہ صرف نامناسب ہے بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے اور لوگ ناکردہ گناہوں کے الزام میں پابند سلاسل بھی کئے جاسکتے ہیں ,لہذا ان کوششوں پر پابندی عائد کی جانی چاہئے اور اگر کوئی ایسا کررہا ہو تو اصحاب حل و عقد کو چاہئے کہ وہ ان عناصر کو سمجھائیں۔
بیرونی ممالک سے آنے والے چندوں پر اب خاص نظر رکھی جا رہی ہے۔ وہ لوگ ملت کے خلاف زیادہ استعمال کئے جارہے ہیں جنہوں نے باہر کی دولت پر عالیشان محل تعمیر کر رکھا ہے۔ لہذا باہری چندوں کو صاف و شفاف طریقے سے استعمال میں لائیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ نئی مصیبت کو دعوت دینے والوں میں شمار کئے جانے لگیں۔ اس دوران مدارس اگر اپنا خود کفیل سسٹم تیار کرلیں تو میں سمجھتا ہوں کہ لمبے عرصہ تک مدارس کے نظام کو جاری رکھنے میں کامیابی حاصل کی جاسکے گی ورنہ آگے چل کر نہ دنیا کی لذتیں میسر آئیں گی اور نہ ہی دین کا حوالہ دے کر کچھ اکتساب کر پائیں گے اور پھر دنیا اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گی کہ:
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *