فسطائی طاقتیں ،خلیجی ممالک اور ہندوستانی مسلمانوں کا رویہ

شہزادی ہند القسیمی
شہزادی ہند القسیمی

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

ان دنوں ہندوستانی مسلمان خلیجی ممالک سے متعلق بڑی خوشگوار گفتگو کرتے نظر آ ر ہے ہیں۔کوئی انہیں مسیحا کے طور پر یاد کررہا ہے تو کوئی یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ اب ہندوستان میں فسطائی طاقتوں کے خلاف بس کارروائی ہوا چاہتی ہے ۔ان کی خوش گمانی میں اضافہ ان ٹوئٹس کے بعد ہوا ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جاری ہندتواوادی مظالم پر لب کشائی کی گئی ہے۔متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند القسیمی کا پولیٹِکل کیمپین مینیجر سوربھ اپادھیائے کے خلاف کارروائی ہو یا او آئی سی انسانی حقوق کمیشن کا ٹوئٹر پر بیان جاری کرنایاٹوئٹر کے سہارے ہی عرب کے مختلف شیوخ کا ہندوستانی حکومت پر دبائو ڈالنا۔یقیناً یہ باتیں ہمیں سننے میں اچھی لگ رہی ہیں لیکن حقیقت مندانہ تجزیہ کریں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’دل کو بہلانے کی خاطر غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہندتواوادی تحریک کو سب سے زیادہ تقویت خلیجی ممالک سے پہنچی ہے تقریباًپندرہ سترہ برس قبل کی بات ہے کہ انگریزی روزنامہ ایشین ایج نے اپنی ایک رپورٹ میں تذکرہ کیا تھا کہ صرف رام مندر تحریک کے لئے دبئی سے چار ہزار کروڑ روپیہ اس وقت جمع کیا گیا تھا۔دبئی میں مقیم کل آبادی میں ستائیس فیصد جو ہندوستانی آبادہیں ان میں بڑی تعداد ان تاجروں کی ہے جو سنگھ پریوار کو تعان دیتے ہیں۔دبئی کی معیشت کو ہندوستانی تاجر بی آر شیٹی نے جو یو اے ای ایکسچینج کے بانی بھی ہیں کس طرح تہہ بالا کردیایہ تو تحقیق طلب ہے لیکن انہوں نے چھ ارب 60 کروڑ ڈالر کے قرض کے ساتھ یو اے ای کے شاہی خاندان کی زمین ضرور کھسکا دی ہے۔ لہذاہندوستانی مسلمانوں سے متعلق ہمدردانہ کلمات تو محض گیڈر بھبکی ہے جس کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔
خلیجی ممالک کے سیاسی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں ان احادیث کا ضرور استحضار کرنا چاہئے جن میں اللہ کے رسول ﷺ نے عربوں کی ہولناکیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔مثلاً ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا کہ : ’اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے جو برہنہ بدن اور ننگے پائوں ہونگے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور فخر کریں گے۔(صحیح مسلم )دبئی کے ”بُرج خلیفہ“کے بعد ”برج العرب“ کی تعمیر اور شہزادہ ولید بن طلال کے ذریعہ جدہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان شاید اسی طرف اشارہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں لاک ڈائون کے دوران یوں تو تمام کاروبار بند تھے لیکن صرف تعمیراتی کام ہی ایسا تھا جو تیزی کے ساتھ جاری رہا ہے۔بلکہ تین تین شفٹوں میں لوگوں نے پروجیکٹ مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔خام تیل کی قیمت کا پانی سے زیادہ سستا ہو جانا عام بات نہیں ہے بلکہ اس حدیث کی طرف رہنمائی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ’’ جب اہل شام تباہی و بربادی کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں سے کوئی خیر باقی نہ رہے گی‘‘۔ملک شام کی جو حالت ہم نے دیکھی ہے ،کیا اس کے بعد بھی کسی خیر کی امید باقی ہے؟
یقیناً عربوں کی جس دولت پر یہاں کی مسلم تنظیموں نے داد عیش دی ہے ان کی قلعی تو دہلی فسادات نے ہی کھول دی ہےکہ محض چند کیلومیٹر پر رہتے ہوئے بھی وہ کس طرح بے دست و پا محسوس کررہے تھے۔مالیاتی خرد برد کی آڑ میں حکومتی شکنجہ تو ابھی مزید جکڑنے والا ہے جس کا کچھ لوگ تو پہلے ہی شکار ہوچکے ہیںباقی قطار میں کھڑے ہیں۔کیا بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا عربوں کی جانب سے اعزازات و اکرامات سے نوازا جانا کوئی معمولی واقعہ تھا یا اس صیہونی مقتدرہ کے اشارہ پرتھا جس نے عالم عرب کو شکنجہ میں لے رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” عرب کے لیے تباہی ہے، اس فتنے کے جوبہت نزدیک آ چکا ہے(بخاری، کتاب الیقین) ایک جگہ فرمایا” قبائل میں سب سے جلدی ختم ہونے والا قبیلہ قریش ہے۔ قریب ہے کوئی عورت کسی جوتی کے پاس سے گزرے اورکہے!یہ قریشی کی جوتی ہے(مسند احمد) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا” اے عائشہ میری امت میں سے تیری قوم بہت جلد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والی ہے، پوچھا کس وجہ سے، فرمایا موت انہیں میٹھا پھل سمجھی ہے اوران کی موت پرسانسیں لیتی ہے، پوچھا اس وقت لوگوں کی کیفیت کیا ہوگی، فرمایا “طاقتورٹڈی دل’ کمزورکو کھا جائے گی(مسند احمد)۔
آخر ہم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید کےبھارت کے سب سے بڑے صنعتکار مکیش امبانی کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو کیوں بھول جاتے ہیںجبکہ یہ جانتے ہیں کہ فسطائی طاقتوں کی سب سے بڑی پشت پناہ ریلائنس کمپنی رہی ہے۔دراصل خوش گمانی میں مبتلا رہنا بھارتی مسلمانوں کی فطرت میں شامل ہوگیا ہے ۔برائی میں خیر ڈھونڈھنے کی تمنا نے انہیں برائی کے خلاف محاذ آرائی سے ہی بے بہرہ بنا دیا ہے۔مختلف تحریروں میں میں نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب وہ زمانہ قریب آلگا ہے جس کی پیش گوئیاں پہلے کی جاچکی ہیں لہذا کسی بھی بین الاقوامی معاملے کو خیر سگالی کے طور پر قبول کرنا نہ صرف عافیت کی طرف مزید لے جائے گا بلکہ حقیقت واقعہ سے بھی دور کردے گا۔یاد رکھیں کہ مشرق وسطی اس میدان کارزار میں تبدیل ہوچکا ہے جس کے بارے میں سید نا معاذبن جبلؓ سے روایت ہے کہ’’ بیت المقدس (یروشلم) کی آبادی مدینہ کی تخریب کا سبب ہے، مدینہ کی تخریب کاری بڑی جنگ کا سبب ہے اور جنگ و جدال قسطنطنیہ کی فتح کا سبب ہے اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کے نکلنے کا سبب ہے‘‘۔
بھارت میں فسطائی طاقتوں کا عروج اور مسلمانوں کا شتر مرغ کی طرح ریت میں منھ چھپا لینے کی کوشش حالات کی تبدیلی کا سبب نہیں بنیں گے بلکہ وہ اقدامات جس کی تلقین کی گئی ہے اس پر عمل آوری ہے بہتری کی ضمانت دے سکے گا ۔بجا فرما یا علامہ اقبال رحمہ اللہ نے
ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے                    نہ کہیں لذت کردار، نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں                             آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں                         ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب              کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *