تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر…!!!

 عبد اللہ فیصل
عبد اللہ فیصل

ڈاکٹر عبد اللہ فیصل ممبئی
دور جاہلیت میں عورتوں کوحقیر، ذلیل نییچ، اور کمترسمجھاجاتاتھا. بچیوں کی پیدائش کو ناپسند کیا جاتا تھا. بچیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا بچی کی پیدائش کو لوگ رحمت کے بجائے زحمت سمجھتے تھے. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا سورہ نحل میں نقشہ کھینچا ہے. ترجمہ:ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے. اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے.سوچتا ہے کی کیا اس کو ذلت کے ساتھ روکے رکھے یا اسے مٹی میں دبادے،آہ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں. ( سورہ نحل آیت نمبر ۵۸/۵۹ احسن البیان.)مذہب اسلام نے عورتوں کو عزت بخشی بیٹی کو رحمت قرار دیا.
امام کائینات صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی کفالت کرتا ہے اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے.ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کی جو شخص دویاتین.بچیوں کی سر پرستی کرے گا وہ میرےساتھ جنت میں ہوگا. اسلام نے عورت کوجو مقام دیا ہے،جوعزت دی ہے وہ کسی مذہب نے نہیں دیا ہے. ایک دور ایسا بھی تھا جب مسلم معاشرے میں بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا.ناظرہ قرآن چند دینی مسائل اور معمولی اردو کے علاوہ انہیں قصدا اور عمدا تعلیم سے حاصل کرنے سے بازرکھاجاتاتھا.مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں لوگ سنجیدہ نہ تھے.مولانا الطاف حیسن حالی کی بہن تعلیم حاصل کرنے لگیں تو ان کے گھر میں طوفان کھڑا ہوگیا ان کی دادای نے رونا شروع کردیا اور کہا کی بچی پڑھ کر کیا کرےگی. ؟ کھنا پکانا اور گھر کے کام کاج کے علاوہ کرنا ہی کیا ہے . لڑکیاں پڑھ لکھ کر بہک جائیں گی .ایسی سوچ وفکر مسلم سماج میں بنی ہوئی تھی. عورتوں کی ناخواندگی پر تعلیم کے تعلق سے کئی ناولیں بھی لکھی گئیں ہیں اس سلسلے میں ڈپٹی نزیر احمد.اور علامہ راشد الخیری کا نام سر فہرست ہے. علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کا مسلم سماج پر گہرا اثر پڑا اور لوگوں کی سوچ میں زبر دست تبدیلی آئی. مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئ، لڑکیوں کو بھی تعلیم دلانےکارجحان پیدا ہوا. سماج کی تشکیل و ارتقاء میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی نمایاں کردار ادا کرسکتی ہیں. جب عورتیں تعلیم یافتہ ہوں گی تو گھر کا ماحول بھی بہتر ہوگا بچوں پر اس کی تعلیم وتربیت کا اثر بھی ہوگا. کہا جاتا ہے کی ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی ہوتی ہے اور ایک عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہوتی ہے.تعلیمی تحریک کا زور اتنا ہوا کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی آئی، تعلیم نسواں کے میدان میں جیسے پورا مسلم معاشرہ بیدار ہوگیا ہے.حالانکہ اسلام میں خواتین کاصاحب علم وفضل ہونے کی ایک پوری تاریخ ہے. امہات المومنین اور صحابیات ودیگر مسلم خواتین نے اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش رہی ہیں. دعوتی، تعلیمی، تصنیفی، تالیفی،وتبلیغی مشن کو آگے بڑھا یا ہے. ادبی وصحافتی خدمات انجام دیں ہیں. فلاحی ورفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا ہے،ان امور میں خواتین کا اہم وموثر رول رہا ہے.ہندوستان میں مسلم حکومت کے زوال کے بعد مسلم معاشرہ دفاعی پوزیشن میں آگیا.ان کو ایسا لگا کی اپنی بچیوں کو گھروں کو کے اندر محفوظ رکھنا چاہئے. خانہ داری امور کے علاوہ تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے. زیادہ پڑھ لکھ کر لڑکیاں کیا کریں گی؟ .لیکن رفتہ رفتہ حالات اور ماحول بدلے علماء اور ملی قیادت کو اس بات کا احساس ہوا کہ اپنی نصف آبادی کو ناخواندہ رکھر ہم نہ دین کے شعبے میں ترقی کرسکتے ہیں نہ دنیا میں اسی احساس کے نتیجے میں پورے ملک میں خواتین کے مدرسوں کا ایک جال سا بچھا دیا گیا ہے. آج قدم قدم پر نسواں اسکولوں ومدرسوں کا قیام زوروں پر ہے .عورتوں کےتعلیمی مراکز کھولے جارہے ہیں. دیہاتوں قصبوں اور شہروں میں اتنے زیادہ نسواں مدرسے کھول دئے گئے ہیں کہ مکاتب بند ہوگئے یا تو مکاتب ومدارس نسواں میں تبدیل کر دئے گئے ہیں. بے شک نسواں اسکول قائم کئے جائیں لیکن نونہال بچوں کے مکاتب بند نہ ہوں مکاتب میں بچو ں کا تعلیمی سلسہ جاری رہے. نسواں مدارس تجارت کی غرض سے بھی کھولے گئے ہیں جیسا کی راقم کو بتا یا گیا اس میں آمدنی زیادہ ہوتی ہے. تعلیم ضرورت ہے.تجارت نہیں آج نسواں اسکولوں سے زبردست مالی فائدے ہیں والدین وسرپرست حضرات بچیوں کی فیس کی ادائگی میں سستی بھی نہیں کرتے لیکن بچوں کی فیس میں لاہرواہی ہو جاتی ہے.افسوس ناک پہلو یہ ہے کی بغیر سوچے سمجھے ایک ایک کلو میٹر پر نسواں سکولوں کا جال بچھا دیا گیا ہے.جبکہ یہ سرمایہ دوسرے مد میں خرچ کیا جا سکتا ہے.نسواں اسکولوں میں خواتین کو ناظرہ قرآن کے علاوہ عربی زبان وادب وحدیث فقہ وغیرہ کی تعلیم دی جارہی ہے اور خواتین یہاں سے عالمہ فاضلہ اور معلمہ بن کر نکل رہی ہیں.اللہ کے فضل وکرم سے پورے معاشرے کو اس سے فیض پہونچ رہا ہے.دنیاوی تعلیم کے شعبے میں بھی مسلم خواتین نے اچھا خاصانام کمایا ہے.قرآن مجید کی نظر میں مرد وعورت دونوں اشرف المخلوقات ہیں دونوں کو مساوی درجے کا عزت و احترم حاصل ہے.
مذہب اسلام میں عورت کی عزت ومرتبہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت بتایا ہے. اس سے بڑھ کر اور کیا عزت دی جاسکتی ہے عورت کا وہ مقام ومرتبہ ہے کی جس جنت کو پانے کے لئےایک انسان اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کی اطاعت وفرماں برداری میں گزار دیتا ہے جنت کے حصول کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتا ہے.اسی جنت کو اسلام نے ماں کے قدموں تلے کا اعلان کردیا ہے. مسلم عورتوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں کارہا ئے نمایاں انجام دئیے ہیں. تعلیم کے نام پر مسلم معاشرہ کی بچیاں کالجز وانگلش اسکولوں میں تعلیم.حاصل کرتی ہیں جہاں مرد وزن کا اختلاط ہے جوان لڑکے لڑکیاں مخلوط بیٹھتے ہیں. بے حیائی بے شرمی عام ہوتی جارہی ہےایک شرمناک پہلو یہ بھی ہے تعلیم کے نام پر لڑکیوں کو جو آزادی دے دی گئی ہے. اس سے مسلم معاشرہ تباہ ہو رہا ہے. ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے بھی خبریں موصول ہوتی ہیں کی مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کے دام فریب میں پھنس کر مذہب تبدیل کر شادیاں بھی کر رہی ہیں اور ایسے شرمناک ذلت بھرے واقعات سامنے آرہے ہیں کی رونگٹے کھڑے ہو جائیں ایسی تعلیم سے توبہ جہاں مردو زن کا اختلاط ہو آج کالجز اور کنوینٹ اسکولوں کا حال یہی ہے جہاں عورت کا لباس پردہ عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے. اخلاقی قدریں پاش پاش ہیں.مقدس رشتے پامال ہورے ہیں. علامہ اقبال نے ایسے علم کو زہر قند کہا ہے.
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند.
کیا فائدہ کچھ کہ کے بنوں اور بھی معیوب.
اقبال آزادئ نسواں کے قائل ضرور تھے لیکن ایسی آزادی کے نہیں کی جہاں عزت وناموس نیلام ہوجائے .
کہتے ہیں اس علم کو ارباب ہنر موت.
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسہء زن.
اگر کوئی ان پڑھ گنوار مگر دیندار عورت بچے کی اچھی تربیت کرتی ہے. اور اپنی عفت وآبرو کو محفوظ رکھتی ہے تو وہ اس موڈرن پڑھی لکھی بے دین عورت سے افضل ہے.مغربیت زدہ عورت سے ان پڑھ رہنا بہتر ہے. اکبر الہ آبادی نے کہا ہے کہ تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر.خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *