چندرشیکھر کی وراثت

معصوم مرادآبادی
معصوم مرادآبادی

تحریر:معصوم مرادآبادی
آج سابق وزیراعظم چندرشیکھر(یکم جولائی1927 تا 8 جولائی 2007 ) کا یوم وفات ہے۔ چندرشیکھر قومی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ تھے۔ ہندوستانی سیاست میں ایک دور اندیش اور بااصول سوشلسٹ لیڈر کے طور پر ان کی شناخت بہت مستحکم ہے۔
انھوں نے10نومبر1990سے 21جون1991کے درمیان ملک کے آٹھویں وزیر اعظم کے طور پرخدمات انجام دیں۔وہ ایک اقلیتی حکومت کے سربراہ تھے، جو جنتادل کے ناراض گروپ نے کانگریس کی مدد سے تشکیل دی تھی۔
انھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بابری مسجد تنازعہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی جوسنجیدہ کوشش کی تھی، ایک رپورٹر کے طور پر میں اس کا عینی گواہ رہا ہوں۔ان کی سب سے بڑی خوبی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف ان کا مضبوط موقف تھا۔وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے زبردست علمبردار تھے اور انھوں نے پوری زندگی اس کے لئے عملی جدوجہد کی۔مجھے یاد ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں دہلی کے عید گاہ علاقہ میں فساد ہوا تو وہ وزیراعظم کا سارا پروٹوکول ایک طرف رکھ کر متاثرین سے ملنے وہاں پہنچ گئے اور ان کی داد رسی کی۔ آج کے سیاست دانوں میں اس اخلاقی جرات کا زبردست فقدان ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ فروری میں جب شمال مشرقی دہلی میں فساد پھوٹ پڑا تو دہلی کے وزیر اعلیٰ نے وہاں جانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
میں نے پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں بیٹھ کرچندرشیکھر کی درجنوں تقریریں سنیں۔وہ بہترین مقرر تھے اور جب بولتے تھے تو ایوان پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا۔ 2002 کی گجرات نسل کشی کے بعد انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے اندر جو معرکتہ الآراء تقریر کی تھی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔میں نے اس تقریر کو اپنے اخبار”خبردارجدید“ میں شائع کرکے اس کی ایک کاپی ان کی خدمت میں روانہ کی تو انھوں نے اس سلسلے میں مجھے شکریہ کا ایک خط لکھنا ضروری سمجھا۔ اس خط کو یہاں شیئر کرنے کا مقصد دراصل یہ یاددہانی کرانا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں کیسے کیسے عظیم کردار کے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ آج کے حالات میں آپ ان جیسے سیاست دانوں کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *