پانچ ٹرلین کی معیشت سے پانچ کلو اناج تک

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت کا خواب دیکھنے والا ملک اب پانچ کلو اناج پر آکر ٹک گیا ہے ۔ بھارت کے دماغ، یہاں کے بازار، تیز رفتار معیشت اور کارپوریٹ کی دنیا میںچرچا ہوتی رہی ہے ۔ ایسا کیا ہوا کہ ملک دو جون کی روٹی کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔ خود وزیراعظم کو ملک سے خطاب کر “غریب کلیان یوجنا” جو 30 جون کو ختم ہو رہی تھی ۔ اس کی معیاد بڑھا کر فی شخص پانچ کلو اناج اور فی خاندان ایک کلو چنا نومبر تک مفت فراہم کرنے کو کہنا پڑا ۔ دو کروڑ روزگار مہیا کرانے، کسانوں کی آمدنی دو گنی کرنے، دیگر ممالک میں جمع بلیک منی واپس لانے، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے بلٹ ٹرین چلانے، 100 اسمارٹ سٹی بنانے، ہوائی چپل والے کو ہوائی جہاز میں بٹھانے، میک ان انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، 30 سے 35 روپے میں پیٹرول ڈیزل دستیاب کرنے، ڈالر کے مقابلہ روپیہ کو مضبوط بنانے اور پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت کا ہدف حاصل کرنے کی زور شور سے بات کرنے والی حکومت اور برسراقتدار جماعت اب پانچ کلو اناج پر آگئی ہے ۔
آج حالات یہ ہیں کہ ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی بھک مری کے کگار پر ہے ۔ خود وزیراعظم نے اپنے خطاب میں غریبوں کی تعداد 80 کروڑ بتائی ہے ۔ جبکہ 29 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ 51 فیصد خواتین عدم تغذیہ کی شکار ہیں تو 40 فیصد بچے بھر پیٹ کھانے سے محروم ۔ ملک کے ہر تیسرے شخص کو دو وقت کا پورا کھانا میسر نہیں ہے ۔ 80 کروڑ غریبوں میں سے 44 کروڑ لوگ یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں رہتے ہیں ۔ انہیں مزدور پیدا کرنے والے صوبے بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اس وقت ہے جب پارلیمنٹ کا ہر چوتھا ممبر یوپی، بہار اور مدھیہ پردیش سے آتا ہے ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل 117 ممالک میں بھارت کا رینک 102 ہے ۔ جبکہ مئی 2014 میں ملک 55 ویں مقام پر تھا ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت کی رینک برابر گر رہی ہے ۔ کیوں کہ معیشت کو لے کر ملک کا کوئی ویژن نہیں ہے ۔ اوپر سے روزگار کی کمی اور سیاسی بالادستی قائم رکھنے کی چاہ نے حالات کو اور خراب کر دیا ہے ۔
پانچ ٹرلین ڈالر معیشت کی بات آئی تو ملک میں حالات بہتر ہونے کی امید بندھی ۔ اس کا اعلان وزیر خزانہ نے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا ۔ اگلے دن 6 جولائی 2019 کو وزیراعظم نے وارانسی میں بی جے پی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے اسے ملک کے لئے بڑا ہدف بتایا تھا ۔ اس پہل سے روزگار، کاروبار، پیداوار، سرمایہ کاری اور برآمد و درآمد کے لئے نئے امکانات کی توقع پیدا ہوئی تھی ۔ ماہرین کے مطابق پانچ کھرب ڈالر کی معیشت کے لئے شرح نمو 8 فیصد حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا ضروری ہے ۔ اس کے لئے ہر شعبہ میں سرمایہ کاری درکار تھی ۔ سرمایہ کاری بڑھانے سے نئے روزگار پیدا ہوتے، مانگ میں اضافہ ہوتا اور قوت خرید بڑھتی ہے ۔ عام الفاظ میں سمجھا جائے تو کھپت + نجی سرمایہ کاری + سرکاری خرچ + برآمد میں سے درآمد کو گھٹا دیا جائے تو یہ شرح نمو یا کسی ملک کی معیشت کہلاتی ہے ۔ معاشی سروے کے پہلے باب کے صفحہ چار پر پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت حاصل کرنے کے لئے “اگر” کے ساتھ کچھ شرائط کا ذکر کیا گیا ہے ۔ “اگر ایکسپورٹ بڑھے، اگر پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو، اگر روپے کی قیمت گھٹے، اگر جی ڈی پی بڑھنے کی حقیقی گروتھ 8 فیصد ہو اور مہنگائی کی شرح 4 فیصد کے آس پاس ہو تو معیشت 5 کھرب ڈالر تک پہنچے گی”۔ بے روزگاری کی وجہ سے کھپت اور سرمایہ کاری کی مانگ میں کمی ہے ۔ وہیں کلائمٹ چینج نے مانسون کی رفتار کو بگاڑ رکھا ہے، جس کا اثر زراعت پر پڑ رہا ہے ۔ اس سے دیہی معیشت مسلسل متاثر ہو رہی ہے ۔ سروس سیکٹر جس کی معیشت میں سب سے بڑی حصہ داری ہے اس کا حال بھی اس وقت اچھا نہیں ہے ۔
2019 کے انتخابات سے پہلے مودی حکومت نے 100 کروڑ روپے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اب سرکار نے ریلوے اور بنیادی ڈھانچے میں نجی کمپنیوں سے پی پی پی موڈ میں سرمایہ کاری کی بات کہی ہے ۔ مگر اس زمرے کی کمپنیاں پریشان چل رہی ہیں ۔ اس لئے مانا جا رہا ہے کہ اس کا قراء اڈانی یا امبانی کے نام کا ہی نکلے گا ۔ ایکسپورٹ میں بھارت لگا تار پچھڑ رہا ہے ۔ جی ڈی پی کے اوسط کے حساب سے یہ 14 سال کی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے ۔ ہند چین کے تنازعہ اور ٹیرف وار کا بھی اس پر منفی اثر پڑا ہے ۔ ادھر بے روزگاری کی سطح 3 مئی کو 27.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ سی ایم آئی کی رپورٹ کے مطابق جون کے تین ہفتوں میں یہ 17.5 اور 11.6 پر آگئی ۔ ان اعداد وشمار پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حکومت نے آنکڑوں کو درست کرنے کے لئے من ریگا کا سہارا لیا ہے ۔ نجی سرمایہ کاری میں گراوٹ آئی ہے، گھریلو کمپنیاں اپنا کاروبار ملک کے باہر منتقل کر رہی ہیں ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ملک کے حالات سازگار نہیں ہیں ۔ بنک، این بی ایف سی، این پی اے کے بوجھ سے ڈوب رہے ہیں ۔ ویسے سرکاری سرمایہ کاری جی ڈی پی گروتھ بڑھانے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔ مگر سرکار کی دلچسپی سرمایہ کاری کے بجائے ملک کے اثاثے اپنے چہیتوں کے حوالے کرنے میں ہے ۔
بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر سبرامنیم سوامی نے 31 اگست 2019 کو اپنے ٹویٹ کے ذریعہ حکومت کی اقتصادی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ “اگر کوئی نئی اقتصادی پالیسی نہیں لائی جاتی ہے تو پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت کو گڈ بائے کہنے کو تیار ہو جائیے”۔ ایک دن پہلے ہی 19 -2020 کی پہلی تماہی کی جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد بتائی گئی تھی ۔ یہ اس وقت تک چھ سال کی سب سے نچلی سطح تھی ۔ حالانکہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن معیشت کو رفتار دینے کے لئے آٹوموبائل، مینوفیکچرنگ اور ریئل اسٹیٹ کو بڑھاوا دینے کے لئے اہم اعلانات کر چکی تھیں ۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے دس سرکاری بینکوں کو چار میں ضم کر دیا تھا ۔ لیکن پھر بھی مارچ 2020 میں جی ڈی جی گروتھ 3.1 فیصد درج کی گئی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت کا مفروضہ بھی بی جے پی کے دوسرے وعدوں کی طرح ایک حسین خواب ہی ثابت ہونے والا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ معیشت، روزگار، کاروبار، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور بنیادی ضرورتوں کو اگر حکومت پورا نہیں کر پا رہی ہے تو بی جے پی کو ووٹ کون دے گا، وہ الیکشن کیسے جیتے گی ۔ 80 کروڑ لوگوں کو پانچ کلو اناج کا اعلان شاید اسی سوال کا جواب ہے ۔ بقول سینئر صحافی پونیہ پرسون واجپئی غریبوں کو پانچ مہینے پانچ کلو مفت اناج دینے پر سرکار کو 90 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے ۔ اگر 80 کروڑ لوگوں کو ایک سال تک ہر ماہ پانچ کلو اناج دیا جائے تو اس پر کل 2.25 لاکھ کروڑ روپیہ خرچ ہوگا ۔ سیاست میں 80 کروڑ لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کے لئے یہ خرچ بہت ہی معمولی ہے ۔ بی جے پی کو 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں 17.16 کروڑ اور 2019 میں 22،90،78261 ووٹ ملے تھے ۔ مفت اناج کی تھیوری غضب کی ہے، 2.25 لاکھ کروڑ کے اناج سے اگر دیش کی 80 کروڑ آبادی کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے تو زرا سوچیئے ملک میں کتنی نا برابری ہے، اور سیاست میں یہ کتنا سستا سودا ہے ۔ اگر اسے ووٹ سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ جمہوریت کے لئے اچھی علامت نہیں ہے ۔
پہلے سے چلائی جا رہی اسکیموں کے جائزہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مفت اناج کی اسکیم کامیاب ہوگی یا پھر سابقہ وعدوں کی طرح ایک جملہ ۔ حکومت نے 8 کروڑ ان مہاجر مزدوروں کو جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے مئی، جون میں راشن دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن وہ مئی میں ایک کروڑ اور 26 جون تک صرف 7920000 مزدوروں کو ہی راشن دے پائی ۔ وزیر خوراک رام ولاس پاسوان کے مطابق انہیں ایف سی آئی سے مئی میں 13.5 اور جون میں 10 فیصد سے بھی کم اناج مل پایا ۔ راشن کارڈ رکھنے والے 42 فیصد لوگ کورونا بحران کے دوران بھی راشن سے محروم رہے ۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ آندھرا پردیش، کیرالہ، بہار اور اترپردیش ایسی ریاستیں ہیں جنہوں نے راشن دوکانوں سے 90 فیصد راشن بانٹا ۔ دہلی، مدھیہ پردیش، اڑیسہ اور جھارکھنڈ میں 30 فیصد کو ہی راشن مل پایا ۔ ملکی سطح پر اوسطً 58 فیصد کو ہی راشن مل پاتا ہے ۔ 60 فیصد راشن کی دوکانیں تو بند ہی رہتی ہیں ۔ من ریگا کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔ بجٹ میں من ریگا کے لئے 61000 کروڑ روپے منظور کئے گئے تھے ۔ 40000 کروڑ کورونا راحت کے نام پر اور دینے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی تک اس مد میں 38999 کروڑ روپے ہی جاری کئے گئے ہیں ۔ جس میں سے نوے فیصد خرچ ہو چکا ہے ۔ حکومت نہ من ریگا میں رجسٹرڈ لوگوں کو کام دے پا رہی ہے اور نہ ہی تمام اسکولوں میں بچوں کو مڈ ڈے میل ۔ ایسی حالت میں حکومت پانچ کلو مفت اناج کا وعدہ پورا کر پائے گی یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ بھارت پانچ ٹرلین ڈالر کی معیشت والا ملک بھلے ہی نہ بنا ہو لیکن کووڈ -19 کے معاملوں کی وجہ سے وہ دنیا کا تیسرا ملک ضرور بن گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *