مسلم علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات ناپسندیدہ کیوں نہیں؟ 

طارق گارڈن

دانش ریاض، معیشت، ممبئی

مہاڈ ضلع رائے گڈھ مہاراشٹر کا دلخراش حادثہ جس میں “طارق گارڈن” کے سیکڑوں مکین بے راحت ہوچکے ہیں حساس دل مسلم بلڈروں کو دوبارہ غور وفکر پر آمادہ کرتا ہے۔ ممبرا میں جب ایسا ہی دلخراش واقعہ پیش آیا تھا تو مقامی ایم ایل اے نے فوری طور پر تمام غیر قانونی تعمیرات پر پابندی لگادی تھی لیکن سال چھ ماہ گزرنے کے بعد ہی دوبارہ تین چار ماہ میں سات سے آٹھ منزلہ عمارتیں بننی شروع ہوگئیں اور ادھر سال چھ ماہ میں تو اتنی تیزی آئی ہے کہ جدھر نظر اٹھائیں ادھر غیر قانونی عمارتیں بنتی دکھائی دے جائیں گی ۔

غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ اس کا بنانے والا شریف النفس بلڈر نہیں بلکہ علاقے کا وہ غنڈہ ہے جس کے شر سے لوگ باگ محفوظ رہنے کی دعا کیا کرتے ہیں ایسے میں جب وہ سیاسی آقاؤں کی پشت پناہی میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر سفید پوشی کا جھانسہ دیتا ہے تو سب سے زیادہ خوشی اس شیطان کو ہوتی ہے جو انسانوں اور انسانیت کا ازلی دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افراد سے وہ لوگ محفوظ رہنا چاہتے ہیں جنہیں اپنی عزت پیاری ہوتی ہے ۔

البتہ تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ غیر قانونی تعمیرات پر ہر شہر کا بااثر طبقہ ایسی چپی سادھے بیٹھتا ہے جیسے کوئی مہایگیہ ہورہا ہو اور انہیں سکوت کا روزہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہو۔ میں اگر یہ کہوں کہ سیکڑوں لوگوں کو جھانسہ دیکر”طارق گارڈن” جیسی عمارتیں اس لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ مافیاؤں کا بازار گرم رہے اور شریف النفس کنٹرول میں رہیں تو کسی کو انکار نہیں ہوگا۔

ممبئی، تھانے، رائے گڈھ سمیت مختلف اضلاع میں بیشمار مخدوش عمارتیں وہاں کے مکینوں کو منتقل ہونے کی وارننگ دیتی رہتی ہیں لیکن ایک طرف کسمپرسی کی حالت اور دوسری طرف مہنگے مکانات لوگوں کو نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن میں گرفتار رکھتی ہے۔

 میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کچھ لوگ بہترین ہاؤسنگ اسکیم لے کر آئیں تو نہ صرف خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ ان واقعات پر بھی قابو پایا جاسکے گا ساتھ ہی لوگوں کی دعائیں بھی کام آئیں گی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب لوگ غیر قانونی تعمیرات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *