وہ آدمی بہت اچھا تھا لیکن !

IMG_20200826_124044

عمر فراھی

انسان کی زندگی اور موت کے درمیان پروان چڑھنے والی ایک غیر مرئی حقیقت کا نام کردار ہے جو انسان کے مر جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے ۔جو چیزیں انسان کے اس کردار کو خوبصورت اور باوقار بناتی ہیں اسے ہم شعور اخلاص اخلاق غیرت خودداری جرآت حمیت ,تقوی, ضمیر اور بیداری کہتےہیں ۔

انسان کی یہ صفات اور خصوصیات ایسی ہیں جونہ صرف اس کی ذہانت کا پتہ دیتی ہیں ,سماجی اور سیاسی انقلاب کیلئے آمادہ کرتی ہیں اس کی ترقی اس کے عقیدے اور رخ کا بھی تعین کرتی ہیں ۔تاریخ میں ایسے مثبت کردار جہاں حضرت عمر حضرت خالد حسین اور طارق و قاسم کے نام سے معزز قرار پاتے ہیں ابو جہل ابو لہب اور جعفر و صادق کے اپنے منفی کردار کی وجہ سے اپنا مقام اور مرتبہ کھودیتے ہیں ۔انسان کا مثبت کردار یہ ہے کہ وہ اپنی ذہانت صلاحیت اور جدوجہد کو اپنی ذہنی تسکین اور نفس کا غلام نہ بناکر اپنے خالق اور مالک کے ضابطے اور اصول کے مطابق سونپ دے ۔خالق کا ضابطہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیت جدوجہد اور جان و مال سے دوسروں کیلئے بھی ڈھال بن جائے ۔انسان کے اسی سوشل کردار کی نشاندہی قرآن میں کنتم خیر امة اخرجت الاالناس کے مفہوم سے بھی ہوتی ہے ۔

بدقسمتی سے ہم تلبیس حق و باطل کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں عالم انسانیت ایک نئے عالم گیر ورلڈ آرڈر کے ماتحت ہے اور اس معاشرے کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی کفر و شرک اور معصیت میں مبتلا ابو جہل اور ابو لہب کے جانشینوں کی طرف سے ہو رہی ہے ۔اس معاشرے میں خیر امت کا اپنا مثبت کردار بھی چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ۔رعایا کی شکل میں ہو یا حکمراں کے مشتبہ بنا دیا گیا ہے ۔بظاہر قوم مسلم کے لوگ اپنے ہاشمی صدیقی فاروقی عثمانی علوی انصاری اور مومن وغیرہ وغیرہ کے لاحقے سے مومن ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن کیا حقیقت میں وہ اپنے کردار سے بھی مومن ہیں تاکہ یوم الدین کا مالک اپنے مومن بندوں کو نظام عالم پر غلبہ عطا کر کے اپنی نعمت کو تمام کرے ۔ جبکہ اکثر شرک بدعت فحاشی اور خرافات میں مبتلا قوموں کے اندر بھی خودداری غیرت اخلاص تقوی اور بیداری کے جذبات موجود ہوتے ہیں اور یہی صفات کبھی کبھی ایسی قوموں کے ایمان میں داخل ہونے کا سبب بھی بنتا ہے ۔جیسا کہ آج بھی کچھ غیر مسلم جن کا عقیدہ اسلام کے منافی ہے ان میں بھی منصف مزاج لوگ پائے جاتے ہیں اور ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ستائے بھی جاتے ہیں ۔اس کے برعکس اپنے ایمان کا دعویٰ اور پختہ عقیدے کی گواہی دینے والے بھی ظلم اور معصیت کے طرفدار دکھائی دیں یا باطل کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر وقت ظالم حکمرانوں کی ثناخوانی کریں تو انہیں مومن کے کس درجے میں شمار کیا جائے !

سچ تو یہ ہے کہ مومن اپنی شناخت کیلئے اپنے آباؤاجداد کے لاحقے اور مسلکی پروپگنڈے کا محتاج نہیں ۔مومن ایک کردار ہے جس کی اپنی جدوجہد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ دین کو غالب کرنے میں اپنی زندگی کو قربان کر دے ۔دنیا میں انبیاء کرام کا یہی اسوہ رہا ہے ۔وہ یا تو غالب آئے یا کفر اور شرک کی بستی سے ہجرت کر گئے یا شہید کر دئیے گئے مگر انہوں نے کسی انسانی گروہ کی حاکمیت کبھی قبول نہیں کی ۔یہ الگ بات ہے کہ موجودہ صدی میں بہت سے ممالک میں مسلمان نبوی طرز کے انقلاب کے اہل نہیں ہیں لیکن وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے اہل و عیال اور معاشرے کی تربیت سے اپنے اجتماعی کردار کا مظاہرہ تو کر ہی سکتے ہیں ۔ہماری نماز ہمیں اسی تربیت پر آمادہ کرتی ہے ۔ یہ بھی ایک المیہ کہیں کہ مسلمانوں کے علماء کی ایک صدی صرف یہ بحث کرنے میں گزر گئی کہ امام کے پیچھے آمین زور سے کہا جائے یا دھیرے سے مگر صراط مستقیم کا مفہوم کسی نے نہیں سمجھایا۔

بدقسمتی سے مغرب کے فحش اور لبرل جمہوری ماحول کے غالب آنے کے بعد نہ صرف علماء دین بھی فکری انتشار میں مبتلا ہوئے اہل ایمان کا سواد اعظم بھی اپنی مومنانہ شناخت اور فراست سے محروم ہونا شروع ہوگیا ۔بیسویں صدی کے نصف تک علماء کی اکثریت میں مخلصین کی ایک بہت بڑی تعداد نے حالات کے منفی رخ کو سمجھتے ہوئے احیاء اسلام کی تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے کی جدوجہد تو کی مگر لوگوں کے اذہان پر جس طرح مغرب کی ترقی پسند سرمایہ دارانہ سوچ غالب آ چکی تھی یہیں سے عالم اسلام کی بچی کھچی ریاستوں کے حکمرانوں کے اصل کردار کا زوال بھی شروع ہوگیا ۔سوال صرف سلطنت عثمانیہ کے زوال اور پھر مصطفیٰ کمال پاشا کے عروج کا نہیں تھا ۔مغرب نواز الو ہر شاخ پر قابض ہو چکے تھے ۔کہیں پر سیخ الاسلام اور سیخ الحدیث دھوکہ کھا گئے کہیں پر حکمرانوں کے اسلامی کردار کے زوال کے سبب روئےزمین پر اسلام باضابطہ دین کی حیثیت سے اپنی شناخت کھو بیٹھا ۔یوروپ اور یوروپ کی آزاد کردہ نوآبادت میں لارڈ میکالے کے جدید تعلیمی نصاب نے مادہ پرستی کا جو زہر بویا دیگر قوموں کے ساتھ ساتھ اہل حق کی اکثریت بھی اس فتنے سے محفوظ نہیں رہ سکی۔بیسویں صدی کے آخر تک جدید لبرل تحریک کے علمبرداروں نے مختلف بہانوں سے مذہب کو جس طرح فساد کی علامت بنا کر خوف کا ماحول پیدا کیا غلبہ دین کی بحث کون کرے ہمارے اپنے خود ساختہ جدید اسلامی اسکالروں نے بھی دین کا مفہوم بدل دیا۔اب ایک مخلوط کلچر اور ماحول میں دین دین تو نہیں رہامسلمانوں کیلئےایمان بچانا بھی ایک مسئلہ ہے ۔ جو فتنے مسلم حکومتوں کے دور میں دبے ہوئے تھے دین کے اجتماعی نظم کے درہم برہم ہونے کے بعد سر چڑھ کر بول رہے ہیں ۔ایسے میں مسلمان صرف مشتعل ہو سکتا ہے کچھ کر نہیں سکتا ۔ہر شخص جو لکھ پڑھ سکتا ہے وہ مسلمانوں کا قائد اور مشیرکار ہے تو اس لئے کہ مسلمانوں کا نظریاتی بحران اور تضاد اپنے عروج پر ہے۔ لوگ بے صبری کے ساتھ اس کردار کی تلاش میں ہیں جو حالات کا رخ پھیر دے مگر حضرت عمر سے لیکر وہ جتنے کردار جن کی حکمرانی شہادت اور فقہی کارناموں پر ہم فخر کر سکتے ہیں وہ تمام خوبصورت کردار بھی مسلمانوں کی خالص حکمرانی کے دور میں ہی پیدا ہوئے تو اس لیے کہ یہ دور فحاشی بے حیائی اور حرام خوری کی بیماری سے کسی حد تک پاک تھا اور ان کرداروں کو تحفظ حاصل تھا ۔فرعون کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کا قتل کروا دیا انہیں اس طرح بندی بنا کر رکھا گیا کہ مرد اپنی عورتوں سے نہ مل سکیں تاکہ فرعون کی حکومت کو تباہ کرنے ہوالا کردار ہی نہ پیدا ہو سکے ۔لیکن مغرب کے موجودہ لبرل جمہوری انقلاب نے حرام و حلال کی تمیز مٹا کر بیٹیوں کے تقدس کو ہی پامال کرنے کا ایسا نظم کر رکھا ہےکہ یہ کردار ماؤں کی کوکھ میں ہی قتل کر دئیے جاتے ہیں ۔یقینا شاخ نازک پر تعمیر یہ آشیانہ بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور یہ تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی لیکن اقبال کے اس اقبال تک پہنچنے کیلئے اقبال کے ماؤں کی تربیت بھی بہت ضروری ہے ۔ یزید کی یزیدیت کا رونا اپنی جگہ حسین کی حسینیت حضرت فاطمہ کے کردار سے ہے !! یہ کردار بہت مشکل اور تکلیف سے پیدا ہوتے ہیں اور تکلیف سے گزرتے ہیں ۔آج کے فتنہ پرور دور میں اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ایسے کرداروں کی حقیقت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا !

رشید کوٹر فاروقی نے ایسے کرداروں کی نشاندھی کی ہے کہ

وہ آدمی بہت اچھا تھا لیکن

وہ اچھا تھا تو ستایا کیوں نہ گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *