جسٹس کاٹجو کی جرأت

جسٹس کاٹجو
جسٹس کاٹجو

ایم ودود ساجد
اگر کوئی سوال کرے کہ مفرور نیرو مودی اور جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے درمیان کیا کوئی رشتہ داری ہے؟ تو اس کا معلوم جواب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہےاب دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر کیا دونوں کے درمیان کوئی پیشہ ورانہ تعلق ہے؟ تو اس سوال کا بھی یہی جواب ہوگا کہ دونوں کے درمیان کوئی پیشہ ورانہ تعلق بھی نہیں ہے‘کیونکہ جسٹس مارکنڈے کاٹجو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ہندوستان کی کسی بھی عدالت میں وکالت نہیں کر رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ بنیادی طور پر مذکورہ دو سوال پیدا ہی کیوں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ Economic Times کے مطابق جسٹس کاٹجو نے لندن کی ایک عدالت میں اُس نیرو مودی کے حق میں تحریری اور تقریری بیان درج کرایا ہے جو ہندوستان کے مختلف بنکوں کے ساتھ 20  لاکھ امریکی ڈالر کا فراڈ کرکے بھاگا ہوا ہے۔
حیرت اسی پر ہے کہ آخر اتنے بڑے ماہر قانون اورسپریم کورٹ کے سابق جسٹس اتنے بڑے فراڈ کے ملزم کی حمایت میں ایک غیر ملکی عدالت میں اپنے ہی ملک کی حکومت اور عدلیہ کے خلاف کیوں بیان درج کرا رہے ہیں۔ہندوستانی حکومت نیرو مودی کے خلاف لندن میں حوالگی کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔یعنی حکومت نے برطانیہ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔برطانیہ کا قانون یہ ہے کہ کوئی ملک اگر اپنے کسی مفرور شہری کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو پہلے اس کا مقدمہ وہاں کی متعلقہ عدالت میں جاتا ہے۔وہاں کی عدالت کو جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ متعلقہ فرد کو اگر اس کے ملک کے حوالہ کیا گیا تو وہاں اس کے خلاف آزاد اور منصفانہ ماحول میں مقدمہ چلایا جائے گا اور اسے اپنی بات رکھنے کا پورا موقع دیا جائے گا تو وہ اس کی حوالگی کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس کے بعد پھر سرکاری process شروع ہوتا ہے۔اس میں بھی اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ نیرو مودی کی حوالگی کی ہندوستان سرکار کی اپیل پر لندن کی ویسٹ منسٹر کورٹ میں سنوائی ہورہی ہے۔جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے لندن کی ویسٹ منسٹر کورٹ کے سامنے درج اپنے بیان میں عدالت سے کہا ہے کہ نیرو مودی کو ہندوستان کے حوالہ نہ کیا جائے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں نیرو مودی کو انصاف ملنے کا امکان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی ایجنسیاں حکومت اور سیاسی آقاؤں کے زیر اثر کام کرتی ہیں اور ایسے میں نیرو مودی کا آزاد اور منصفانہ ماحول میں Trial ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت میں اپنے بیان میں مزیدجو کچھ کہا ہے وہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔
” نیرو مودی ایک ’آسان بلی کا بکرا‘ ہے۔اسے مقدمہ چلائے بغیر ہی مجرم بنادیا گیا ہے۔آخر ایک وزیر قانون کسی کو کیسے مجرم ڈکلیر کرسکتا ہے۔ یہ کام تو صرف عدالت کرسکتی ہے۔ لیکن یہاں ایک وزیر قانون فیصلہ سنارہا ہے۔میڈیا بھی اس کا ٹرائل کر رہا ہے اور اس نے نیرو مودی کو سب سے بڑا فراڈی قرار دے دیا ہے۔اس سے ان ججوں کا ذہن متاثر ہوسکتا ہے جو نیرو مودی کا مقدمہ سن رہے ہیں۔“جسٹس کاٹجو نے اپنے دلائل میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ کو ہندوؤں کے حوالہ کرنے والے فیصلہ کے بعد ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو بی جے پی کے ذریعہ راجیہ سبھا کا ممبر بنادیا گیا۔ انہوں نے مشرقی دہلی کے فسادات کے تناظر میں کپل مشرا وغیرہ کے خلاف کارروائی کے احکامات دینے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر کے راتوں رات تبادلہ کو بھی دلیل کے طورپر پیش کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ نیرو مودی کے معاملہ میں انکوائری کرنے والا محکمہ ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ) بھی آزادانہ طورپر کام نہیں کر رہا ہے بلکہ سیاسی آقاؤں کے زیر اثر ہوکر کام کر رہا ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ اپنے قیام کے دن سے آج تک ای ڈی نے محض 15ملزموں کو سزا دلوائی ہے۔اسی طرح انہوں نے سی بی آئی کو بھی سیاسی آقاؤں کے زیر تصرف قرار دیتے ہوئے سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما کو ستائے جانے کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کے اعلی گروپ بھی کھلے طور پر سیاستدانوں اور افسر شاہوں کے زیر اثر ہیں اوراہمیت کے حامل عوامی معاملات ایسی منتخب بنچوں کے سپرد کئے جارہے ہیں جو برسر اقتدار پارٹی کے حق میں ہوں۔عدلیہ حکومت کے لئے بولی لگا رہی ہے اور عام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والے ایک آزاد سرکاری ادارہ کے طور پر کام نہیں کر رہی ہے۔
جو لوگ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کو جانتے ہیں انہیں ان کے اس بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔انہوں نے ایک وضاحت کر بھی دی ہے کہ وہ نیرو مودی کو نہ مجرم قرار دے رہے ہیں اور نہ اسے کلین چٹ دے رہے ہیں۔ وہ اس کے کیس کی میرٹ پر کوئی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ صرف ہندوستان میں عدلیہ کے احوال کے بارے میں متنبہ کر رہے ہیں۔مجھے بھی ان کے اس اقدام پر کوئی حیرت نہیں ہورہی ہے۔حیرت اس امر پر ہے کہ ان کے بیان پر ہندوستان کے کسی ٹی وی چینل پر کوئی دھنواں دھار بحث نہیں ہو رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے مسائل بس سشانت سنگھ راجپوت کی موت‘ اس کی مبینہ خود کشی میں ریا چکرورتی کے کردار اور کنگنا رناوت کی ہرزہ سرائی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ خیر چینل تو اس پر کیا بحث کرتے خود “ہمارے” اخبارات نے اس کی کوئی تفصیل نہیں شائع کی ہے۔ جبکہ یہ اشو اس کا متقاضی ہے کہ اس پر اپوزیشن لیڈروں اور ماہرین قانون کی آراء پر مشتمل رپورٹ شائع کی جاتی۔ لندن کی عدالت میں جسٹس کاٹجو کا Deposition  کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ وہ سپریم کورٹ میں 6 سال سے زائد عرصہ تک جج رہے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کی کئی ہائی کورٹس میں جج اور چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔وہ کسی عدالت میں وکالت بھی نہیں کر رہے ہیں۔بلکہ وہ ایک سابق جسٹس کی حیثیت سے Dignified ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں نیرو مودی جیسے 20 لاکھ ڈالر کے فراڈ کے ملزم کی حمایت میں اپنے ملک کی عدلیہ کو کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی اگر انہوں نے جرات کی ہے تو اس کا کوئی مفہوم و معنی ہے۔
اس سے ہندوستان کی عدلیہ کے خلاف عالمی سطح پر ایک بُرا اثر پڑے گا اور اس کی ایک منفی شبیہ بنے گی۔ بابری مسجد کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد ملک کا مسلمان دلبرداشتہ ہے۔ عدلیہ نے اس کے اعتماد کو بری طرح متزلزل کیا ہے۔ ایسے میں جسٹس کاٹجو کا بیان کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس واقعہ کی شدت اور اہمیت کو الفاظ میں بیان کرنا خلاف مصلحت ہے۔ لیکن یقیناً یہ اللہ کی طرف سے ایک انتظام ہے۔ایک انتقام ہے اور شرپسندوں کی ٹولی کے اخلاقی زوال اور مادی خاتمہ کی ابتدا کا ایک بڑا اشاریہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *