
عبدالسلام عاصم
عبدالسلام عاصم
قومی سیاست اور مسلمانوں کے حوالے سے ملت کے ایک سے زیادہ حلقوں میں وقفے وقفے سے یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ کیا اس ملک میں قومی سطح پر مسلمانوں کی ایک اپنی سیاسی پارٹی ہونی چاہئے۔ ملک کی دو ریاستوں تلنگانہ اور کیرالہ میں بالترتیب مجلس اتحاد مسلمین اور انڈین یونین مسلم لیگ کی موجودگی بھی اکثر اس بحث کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ملک کی کسی اور ریاست میں ایسا کوئی بڑا تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔مغربی بنگال میں کسی زمانے میں مسلم لیگ کا قانونسازانہ وجود تھا جو اب معدوم ہے۔ادھر اِن دنوں بہار میں بھی مسلمانوں کو ایک تیسرے محاذ کے قیام کی طرف بالواسطہ تحریک دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ملی انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو خوب پتہ ہے کہ انتخابات کے موقع پر ایک سے زیادہ ناموں سے ملّی پارٹیاں سامنے آجاتی ہیں جو کچھ دنوں اخباروں کے اشتہاری افق پر چھا ئی رہتی ہیں۔ الیکشن ختم ہوتے ہی بہر حال ان پارٹیوں سے ملت کو نجات مل جاتی ہے اور ان کے بنیادی محرکین آئندہ سیزن تک کے لئے دوسرے کاروبار میں لگ جاتے ہیں۔ میری یہ باتیں نہ توکسی انکشاف کی حیثیت رکھتی ہیں نہ ہی کسی کے ماننے نہ ماننے کی شرط سے مشروط ہیں۔
باوجودیکہ یہ باتیں موضوع بحث کیوں بنیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض حلقے موجودہ منظر نامے کو جو سابقہ تجربے کا نتیجہ ہے کوئی انقلاب نہیں، بدلنے کیلئے گھسے پٹے انداز میں ہی سوچ رہے ہیں۔ سیاسی اور معاشرتی سائنسدانوں کو کسی بھی تبدیلی کیلئے جس طرح سوچنا چاہئے اس کی نوعیت کسی مجلسی تقریب کے بجائے ذہنی مشق والی ہونی چاہئے۔ کسی حلقے کا محض یہ جائزہ لینا کہ مسلمانوں کے لئے ایک ملی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے یا نہیں، اُنہیں کسی ایسے نتیجے تک نہیں پہنچا سکتی جو قوم کے حق میں اجتماعی طور پر سود مند ہو۔انتخابی موسم سے شخصی یا گروہی استفادہ کرنے کی چاہت ملک و ملت کے مشترکہ بہبود کی آئینہ داری نہیں کر سکتی۔
اتفاق اور اختلاف کا ماحول کو اس لحاظ سے صحتمند بنانے کی کوشش کی جائے کہ جو لوگ مسلمانوں کی ایک الگ سیاسی پارٹی کی سوچ رکھتے ہیں ان سے مروجہ نفع اور نقصان کی باتیں کرنے کے بجائے یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ اس سوچ کا تعلق کسی نیک جذبے سے تو سکتا ہے لیکن اس کا تعلق کسی قابل عمل حل سے نہیں۔ قومی سیاست میں ایک سے زیادہ کیفیات اور نتائج کا تجربہ رکھنے والی ملت اسلامیہ ہندکو چاہئے کہ وہ واقعات اور سانحات کے پیش نظر ملک و ملت دونوں کے لئے بہتر امکانات کے رخ پر اشتراک کی سیاست کوقومی سطح پر اس طرح فروغ دے کہ مجلس اتحاد المسمین اور انڈین یونین مسلم لیگ کی نظیر سے کسی تصادم کو تحریک نہ ملے۔
کسی بھی بحث طلب معاملے کو محض اتفاق یا اختلاف سے مشروط کرکے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیاجا سکتا۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کو ہی لے لیں۔ اس کی تمام تر صداقت کے باوجود ملت اسلامیہ ہند نے گذشتہ سات دہائیوں میں جوسیاسی، سماجی، اقتصادی اور تعلیمی سفر طے کیا ہے وہ مجموعی طور پر غیر متوازن ہوتے ہوئے بھی ہمسایہ ملکوں میں آباد اقلیتوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ہندستان میں زندگی کو کوئی شعبہ مسلم نمائندگی سے محروم نہیں۔باوجودیکہ اس حقیقت کا بہر حال ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ نمائندگی آبادی کے تناسب سے کہیں کم تو کہیں تو انتہائی غیر متناسب ہے۔اس صورتحال کے بدستور قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملی سیاست کرنے والے اس ناموافق منظر نامے کو بدلنے کی اپنی کوششوں کو ملت کے لئے کامیاب بنانے سے زیادہ اپنے لئے کیش کرتے آئے ہیں۔یہ ایک ایسی عریانی ہے جس پر فی زمانہ پردہ ڈالنے کی کوشش نے ملت کو اور بھی خوار کیا ہے۔
ہندستانی مسلمانوں کے لئے انضمام کی سیاست کی مولانا آزاد کی وکالت سے آج بھی کسی نے اختلاف نہیں لیکن اسے وقت کی ضرورت تسلیم کرنے سے بھی اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔گزرتی دہائیوں کے ساتھ سیکولر حکومتوں کی سیاسی مجبوریوں والی حکمرانی سے پیدا صورتحال کے دوتوک نتیجے میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آجانے کے بعد کے تقاضوں کو سب اپنے اپنے طور پر محسوس تو کر رہے ہیں لیکن کسی بھی تبدیلی کو سابقہ خرابی کے ازالے میں بدلنے کی سوچ پر صرف ردعمل حاوی ہے۔
ماضی کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد ہندستان میں مسلم لیگ کو انڈین یونیں مسلم لیگ کا نام کسی ایک علاقے تک محدود رکھنے کے لئے نہیں دیا گیا تھا لیکن اسے دودھ کے جلے ہندستانی مسلمانوں نے ملک گیر سطح پر منھ نہیں لگا یا۔اس سچ کے ساتھ ہی دوسرا سچ یہ بھی ہے کیرالہ میں مسلم لیگ نے صرف اپنے وجود کی سیاست نہیں کی بلکہ اشتراک کی سیاست میں بائیں اور جمہوری دونوں محاذوں کا احترام بھی حاصل کیا۔سید شہاب الدین کی انصاف پارٹی بہر حال مسلمانوں کے ساتھ یا مسلمانان ہند اس کے ساتھ انصاف نہیں کر پائی۔موصوف کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ درج فہرست ذات و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مل کر مسلمان کانگریس کو متوازن انصاف پر مجبور کر سکتے ہیں۔
ایک استدلال یہ بھی کیا گیا کہ جب تک یادو اور دلت انضمام کی سیاست کرتے رہے تب تک ان کی حیثیت حکمرانوں کے نائبین سے آگے نہیں بڑھی۔البتہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بالترتیب یادو اور دلت برادران کانسٹبل سے افسرضرور بن گئے اور جن کے سامنے وہ غیر معلنہ طور جھکنے کے پابند تھے انہیں کسی اعلان کے بغیر اپنے آگے جھکنے پر مجبور کیا۔ چونکہ اس استدلال میں فکر سے زیادہ جذبات کا دخل تھا اس لئے اس میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہوا۔دوسری طرف مذہب کا استحصال جاری رہا۔مذہب کو ویسے تو سبھی کیش کرتے آئے ہیں۔بی جے پی نے بھی اسے آزمایا تو ہے لیکن وہ بھی اسے پوری طرح کیش نہیں کر سکی۔ ذات پرستی اور علاقہ واریت کا آج بھی بول بالا ہے۔
ایسے میں ہندستانی مسلمانوں کو جاری دہائی کے سیاسی تجربے سے مثبت استفادہ کرنا چاہئے اور ردعمل کی سیاست کرنے والوں سے پیچھا چھڑا کر شمولیت پسندانہ سیاست میں حصہ لینا چاہئے تاکہ بی جے پی اور کانگریس کی دم چھلہ پارٹیوں کے عزائم کو شکست ہو۔ ان دم چھلہ پارٹیوں نے دونوں کو ایک ایک ٹانگ کے مرغوں میں تبدیل کر دیا ہے۔منزل رخی چال کو متوازن رکھنے کیلئے دائیں اور بائیں دونوں پیروں پر یکساں بوجھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ایک ٹانگ پر اچھل اچھل کر کرتب بازی تو کی جا سکتی ہے، تہذیبی گوناگونی والی قوم کی صحیح اور صحتمند رہنمائی نہیں کی جا سکتی۔وطن عزیز کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی ایک پارٹی یا نظریہ کی دین نہیں، اسے مل کر پروان چڑھایا گیا ہے اور موجودہ منظر نامے کو ہار جیت کے مقابلے کے منچ میں بدلنے کے بجائے انتہائی گنجائشوں والے ہندستان میں بدلنے کیلئے تزویراتی کوششوں سے کام لینا ہوگا۔ ردعمل کی سیاست موجودہ نظم سے بیزار لوگوں کو ایک اور تبدیلی آزمانے کا جوا کھیلنے کی تحریک تو دے سکتی لیکن اس سے وہ تبدیلی نہیں آئے گی جو نسل آئندہ کا مطلوب ہے جس میں کسی عمر خالدیاکپل مشراکی کہانی ان کے کسی ردعمل کی سزا اور جزا تک محدود نہ رہے۔ (بشکریہ روزنامہ میرا وطن)