سدرشن چینل کا زہریلا پروپیگنڈہ اور سپریم کورٹ کا رخ

سہیل انجم
سہیل انجم
سہیل انجم
سدرشن چینل کے مالک اور اینکر سریش چوانکے کے مسلمانوں اور ملک کے ایک انتہائی باوقار اور غیر جانبدار ادارے یو پی ایس سی کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ملک کی ایک سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ، عدالت عظمیٰ اور سنجیدہ افراد اور متعدد موجودہ و سابق افسر شاہوں کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ’یو پی ایس سی جہاد‘ کے نام سے نشر کیا جانے والا یہ پروگرام اگر چہ سماجی تانے بانے کو بگاڑنے میں کوئی اہم رول تو ادا نہیں کر پائے گا لیکن اگر اس پر قدغن نہیں لگائی گئی تو متعصب اور شرپسند قوتوں کی زبردست حوصلہ افزائی ہوگی اور سریش چوانکے جیسے اور بھی خطرناک لوگ میدان میں آجائیں گے اور فرقہ وارانہ اتحاد و یکجہتی کو توڑنے اور ملک کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی سازشوں میں مصروف ہو جائیں گے۔ اس پروگرام میں جس کی متعدد قسطیں نشر ہو چکی ہیں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان ایک سازش کے تحت یو پی ایس سی میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں اور آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر ہندووں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں ہندووں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ذرا سوچیے کہ جامعہ کے جہادی اگر آپ کے ضلع مجسٹریٹ اور مختلف وزارتوں میں سکریٹری کے منصب پر فائز ہو جائیں گے تو کیا ہوگا۔ حالانکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں آئی اے ایس کی تیاری کے لیے جو کوچنگ کرائی جاتی ہے اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اسٹوڈنٹ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ آئی اے ایس کے امتحان میں مسلمان اس تناسب میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں جس تناسب میں انھیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کچھ مسلمان امیدوار اپنی محنت و کوشش سے کامیاب ہو رہے ہیں تو مذکورہ چینل کے مالک کے پیٹ میں درد ہونے لگا ہے۔ جب اس پروگرام کا پرومو جاری ہوا تھا تو اس کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعض سابق اور موجودہ طلبہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے پروگرام پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک کوئی ایپی سوڈ نشر نہ ہو جائے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ قابل اعتراض ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے دے دیا تھا اور چینل اور مرکزی حکومت سمیت کئی لوگوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ حکومت نے اپنے جواب میں اس پر پابندی لگانے سے انکار کیا اور اس نے بھی وہی دلیل دی کہ پیشگی پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے۔ لیکن جب اس کی دس قسطیں نشر ہو چکیں تو ایک وکیل فیروز اقبال خان نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ اس عرضداشت پر ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج حضرات نے جو تبصرے کیے وہ قابل قدر ہیں۔ انھوں نے اس پروگرام کو مسلمانوں کو بدنام کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ میڈیا کی آزادی کے نام پر اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس اندو مہوترہ کی بینچ نے کہا کہ ملک کی سپریم کورٹ کے ناطے ہم تمھیں یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان یو پی ایس سی میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس پروگرام کو ملک کے لیے انتہائی خطرناک اور ہلاکت خیز قرار دیا اور کہا کہ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔ یہ عدالت آئینی اقدار کی محافظ ہے اور وہ ایسا ہرگز نہیں کرنے دے گی۔ یہ کہنا کتنا عجیب ہے کہ ایک فرقے کے لوگ انتظامیہ میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔ دیکھیں اس پروگرام کا موضوع کتنا اشتعال انگیز ہے۔ یو پی ایس سی کے صاف شفاف امتحان کو بغیر کسی ثبوت کے شکوک و شبہات کے دائرے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ جب سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور چینل کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شیام دیوان نے اسے میڈیا کی آزادی سے تعبیر کیا تو ججوں نے میڈیا کو جم کر لتاڑا۔ بینچ نے شیام دیوان سے کہا کہ آپ کا موکل ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ بات قبول نہیں کر ہا ہے کہ یہ ملک متنوع تہذیب و ثقافت والا ملک ہے۔عدالت نے اس پروگرام کے اس جملے پر کہ ’چور کی داڑھی میں تنکہ، یہاں چور بھی ہے اور داڑھی بھی‘ پر چینل کو بری طرح لتاڑا۔ اس نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا کہ پروگرام میں مسلمانوں کو داڑھی، گول ٹوپی اور ہری قمیض میں دکھایا گیا ہے اور اس کے پس منظر میں شعلے بھڑکتے دکھائے گئے ہیں۔ اس نے اسے نفرت انگیز قرار دیا۔ اس نے میڈیا کو بھی جم کر سنائی اور کہا کہ میڈیا میں یہ پیغام جانا چاہیے کہ آپ ایک فرقے کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔ یہ ملک اس قسم کے ایجنڈے سے نہیں چل سکتا۔ اس نے وزارت اطلاعات و نشریات، پریس کونسل اور نیشنل براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن کو بھی خوب جھاڑ پلائی اور میڈیا کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کی بات کہی۔ عدالت نے اور بھی تبصرے کیے جس کی تفصیل میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
سریش چوانکے نے پروگرام کا عنوان ’یو پی ایس سی جہاد‘ رکھنے کے پیچھے یہ دلیل دی کہ مسلم امیدوراوں کو کوچنگ دینے والے ایک ادارے زکوة فانڈیشن کو برطانیہ کی ایک ہند مخالف تنظیم سے فنڈ ملتا ہے۔ اسے بعض ایسی تنظیمیں بھی فنڈ فراہم کرتی ہیں جو دہشت گردی کی بھی فنڈنگ کرتی ہیں۔ زکوة فاونڈیشن ایک سابق آئی اے ایس افسر اور سچر کمیٹی کے سلسلے میں اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی سید ظفر محمود نے ۷۹۹۱ءمیں قائم کیا تھا۔ عدالت نے ان کے وکیل سنجے ہیگڑے سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اس معاملے میں فریق بننا چاہیں گے۔ انھوں نے پیر کی سماعت کے دوران اپنا فیصلہ بتانے کو کہا ہے۔ ظفر محمود نے ایک نیوز پورٹل ’دی وائر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے مالی بے ضابطگی کے الزام کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ فاونڈیشن وزارت داخلہ، ایف سی آر اے اور محکمہ انکم ٹیکس کے تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچر کمیٹی کے اس تبصرے کے بعد کہ سول سروسز میں مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے، امیدواروں کی کوچنگ کا فیصلہ کیا گیا۔ فاونڈیشن نے ’سرسید کوچنگ اینڈ گائڈنس سینٹر فار سول سروسز‘ قائم کیا اور ان برسوں میں متعدد اسٹوڈنٹس کو مختلف امتحانوں کے لیے تربیت دی اور سو سے زائد امیدواروں کے سول سروسز میں داخلے کو یقینی بنایا۔ مذکورہ چینل نے زکوة فاونڈیشن پر الزام تراشی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اڑان یوجنا کے تحت اقلیتی فرقے کے افراد کو سول سروس امتحان میں بیٹھنے کے لیے ایک لاکھ روپے کی امداد سے ہندو امیدواروں کے مقابلے میں اقلیتی امیدواروں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کو ۵۳ سال کی عمر تک نو مرتبہ امتحان میں شریک ہونے کی اجازت ہے جبکہ ہندووں کو ۲۳ سال کی عمر تک صرف چھ مرتبہ بیٹھنے کی اجازت ہے۔ اردو زبان اختیار کرکے کامیابی حاصل کرنا بھی اسے گوارہ نہیں ہے۔ اس کو شکایت ہے کہ انٹرویو کے دوران مسلم امیدواروں کو ہندووں کے مقابلے میں نو فیصد زیادہ نمبر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اسے سول سروسز کے بھگوا کرن کے مقصد سے آر ایس ایس سے وابستہ اداروں کی جانب سے کوچنگ دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ ادارہ ’سنکلپ فاونڈیشن‘ ۶۸۹۱ءمیں اسی مقصد سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ۰۲۰۲ءکے سول سروس امتحان میں اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد ۱۶ فیصد رہی۔ ۹۵۷ منتخب امیدواروں میں سے اس نے ۶۶۴ کی سرپرستی کی تھی۔ اس کی جانب سے اپنے پروگراموں میں بی جے پی رہنماو ¿ں کو پابندی سے مدعو کیا جاتا ہے۔ ۰۲ ستمبر کو (یعنی آج ہی) اس نے اپنے ایک پروگرام میں مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کو مدعو کیا ہے۔ سدرشن چینل کے مذکورہ پروگرام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بعض طبقات کو سول سروسز میں مسلمانوں کا داخلہ قطعاً پسند نہیں ہے۔ حالانکہ آبادی کے تناسب میں مسلم افسران کی تعداد بے حد کم ہے۔ در اصل ملک کا متعصب طبقہ چاہتا ہی نہیں کہ مسلمان بھی تعلیم یافتہ ہوں اور اعلیٰ مناصب پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ وہ مسلمانوں کو تعلیمی و اقتصادی لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ مذکورہ چینل کا پروگرام ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پروگرام پر ابھی تو روک لگا رکھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیر سے پھر شروع ہونے والی سماعت میں عدالت کا کیا رخ رہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *