دیوبند کے فتویٰ کی خامیاں

dEOBAND

تحریر: عبد الکبیر ندوی

مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کے تعلق سے دار العلوم دیوبند سے فتویٰ شائع ہوا ہے، جس میں مولانا کے نظریات کی وجہ سے اُنکے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحريمی، اُنکے مدرسہ میں اپنے بچوں کو پڑھانے، اُنکے بیانات سُننے اور کتابوں کو پڑھنے کو نہ صرف ناجائز کہا بلکہ ایمان کے ضائع ہونے کے خطرہ کا اظہار بھی کیا ۔۔۔ ہم بنا کسی تفصیل و تمہید کے دیوبند کے فتوے کا جائزہ لیتے ہیں

مفتی حضرات فتویٰ میں سلف و خلف کے اقوال نقل کرنے کے بعد اُنکا مقصود بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

(۱) “”سلف و خلف، متقدمین و متاخرین، اصولیین و محدثین فقہاء اور اکابر کی مذکورہ واضح تصریحات سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عدالت اور ثقاہت اور ان کا جرح و تنقید سے بالاتر ہونا قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے””

15 صفحات کے پورے کتابی فتوے میں کہیں بھی آیات اور احادیث صحیحہ کا ذکر نہیں ہے، یا پھر سلف و خلف کی تصریحات ہی واضح قرآن کی آیات اور احادیثِ صحیحہ ہیں ؟

اگر اس امر پر واقعی واضح قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ موجود ہیں تو ان کو نقل کرنے کے بجائے فتویٰ میں سلف اور خلف کی تصریحات نقل کرنے کو ترجیح کیوں دی گئی ؟

وہ کونسی آیات اور احادیث صحیحہ ہیں جن کی تصریحات آپنے سلف و خلف سے نقل کی ہیں اُن آیات اور احادیث کے مختصر نمبر ہی شائع کیوں نہیں کیے ۔۔۔ تاکہ ہم بھی دیکھ لیتے کہ وہ کونسی آیات ہیں جن کی بنیاد پر صحابہ تنقید سے بالاتر ہیں،

سلف سے خلف کی تصریحات کے مطابق کیا صحابہ مطلق تنقید سے بالاتر ہیں یا صرف اُصول حدیث میں قبول حدیث کی شرائط والی تنقید سے بالاتر ہیں ؟

(٢) “”جمہور امت کا اجماع ہے کہ اُنکے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے اُن کو اجتہادی قرار دیتے ہوئے سکوت اختیار کرنا اور کسی بھی صحابی کی شان میں منفی تبصرے کرنے سے احتراز کرنا بھی اہل سنت کا مذہب ہے””

کیا اُنکے درمیان صرف اختلاف ہوئے تھے یا جنگ بھی ہوئی تھی جس میں ہزاروں ایمان والوں کی جانیں گئی تھیں ؟

حضرت معاویہ نے اجتہاد کیا تھا یا حضرت علی نے ؟ فتویٰ میں اسکی وضاحت کیوں نہیں کی گئی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دیوبند کے علماء حضرت علی کو اجتہادی خطا پر مانتے ہوں ؟

کیا اُنکی جنگ اور دیگر ثابت شدہ باتوں کو اجتہاد پر محمول کرنا واقعی حقیقت ہے یا یہ صرف اہل سنت کا حسن ظن ہے ؟

اگر یہ صرف حسن ظن ہے تو یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ یہ ظن غلط بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو اُنکے اس اجتہاد کے کچھ مستدلات بھی ضرور ہوں گے۔

لہٰذا اگر حضرت معاویہ نے حضرت علی سے جنگ کرنے میں اجتہادی خطا کی تھی اور یہی اہل سنت کا موقف ہے تو اہل سنت بتائیں کہ حضرت معاویہ کے مستدلات کیا تھے ؟

کونسی آیات یا کونسی احادیث کی بنیاد پر اُنہوں نے حضرت علی کے خلاف صف بندی کو ترجیح دی تھی ؟

حضرت معاویہ نے سونا چاندی کی بیع کو تفاضل کے ساتھ بیچنے پر کس آیت یا حدیث سے استدلال کیا تھا ؟ (صحیح مسلم 1587، سنن النسائی 4562)

حضرت معاویہ کے تلبیہ پر پابندی لگانے کے پیچھے کیا مستدلات تھے ؟ (سنن النسائی 3009، سنن البیہقی الکبریٰ 9230)

صریح جہنم کی وعید کے بعد بھی زیاد بن ابيه کو اپنے والد ابو سفیان کا نسب دینے میں حضرت معاویہ نے کس آیت یا حدیث سے استدلال کیا تھا ؟ (صحيح مسلم 63، صحيح البخاري 4327، 4326، 6767، 6766، سنن ابي داود 5113، سنن ابن ماجه 2610، سنن الدارمي 2902، 2572، سنن البیہقی الکبریٰ 15337 مسند احمد 1454، 1497، 1499، 1504، 1553، ،20396 ،20466)

اس طرح کتب صحاح میں بےشمار صحیح الاسناد روایات سے ثابت باتیں ہیں جن پر میرے طالبِ علمانہ سوالات ہیں، براہ کرم اہل سنت کے ذمےدار حضرات ان امور پر حضرت معاویہ کے مستدلات بیان کر دیں، تو میرے جیسے لاکھوں لوگ گمراہی سے بچ سکتے ہیں۔۔۔

یہ تو ہوئے فتویٰ کی بنیاد پر مختصر سوالات۔۔۔

آئیے اب فتویٰ میں جو حکم ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔

(٣) “”سوالنامے کے ساتھ تحریر اور تقریر کے جو اقتسابات منسلک کیے گئے ہیں اُنکو پڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے عقائد اور نظریات جمہور اہل سنت کے قطعا خلاف ہیں اور موجب فسق ہیں منسلکہ صفحات میں جن نصوص سے استدلال کیا گیا ہے وہ قطعا درست نہیں ہیں، یہ محض کم علمی اور کم فہمی سے عبارت ہے””

سوالنامے کے ساتھ تحریر اور تقریر کے جو اقتسابات منسلک کیے گئے ہیں وہ کیا ہیں ؟ اُنکو شائع کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا آپ کو یہ اطمینان ہے کہ مستفتی نے اقتسابات کو سیاق سے کاٹ چھانٹ کر پیش نہیں کیا ہے ؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اقتسابات اسی طرح پیش کیے گئے ہوں جس طرح اکثر دیوبندی علماء علامہ مودودی کی باتوں کو غلط مفہوم و سیاق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں، اور بریلوی و اہل حدیث حضرات دیوبندی علماء کی باتوں کو غلط مفہوم و سیاق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں ؟ جبکہ مستفتی کی نیت اس بات سے بالکل واضح ہے کہ اس نے اپنے سوالنامے میں حضرت ابو ھریرہ کے تعلّق سے حدیث گول کر دینے کا ذکر کیا ہے، جبکہ صاحبِ معاملہ نے وہ بات بُخاری کے حوالہ سے کی تھی جسے بیان کرنے میں الفاظ کا احتیاط نہ رہا جس پر اگلے ہی دن صاحبِ معاملہ نے وضاحت بھی کی اور رجوع و معافی بھی مانگی، کیا اسکے بعد بھی اس کا ذکر کرنے پر مستفتی کے باقی اقتسابات قابل اعتماد ہو سکتے ہیں ؟ اور اگر واقعی گمراہی اُن اقتسابات کی روشنی میں واضح ہوئی ہے تو 15 صفحات کے فتویٰ میں بزرگوں کے اقوال نقل کرنے سے بہتر تھا کہ وہ اقتسابات نقل کیے جاتے تاکہ لوگ اس گمراہ کن فکر کو خود پڑھ لیتے اور پھر آپکے فتویٰ پر فیصلہ کرتے۔۔۔ آخر لوگوں کو اب کیسے معلوم ہوگا کہ فتویٰ کن گمراہکن نظریات یا عقائد پر صادر فرمایا گیا ہے ؟

اور کیا واقعی جمہور اہل سنت کے موقف سے ہٹنا موجب فسق ہے ؟ اگر ایسا ہے تو بیشمار علماء جنکی رائے الگ الگ مسائل میں جمہور سے ہٹی ہوتی ہے تو اُن پر کیا حکم لگے گا ؟ یا وہ سب جمہور سے ہٹنے کی پاداش میں فاسق ٹھہرے ؟ منسلکہ اقتسابات پر جن نصوص سے استدلال کیا ہے وہ اگر کم علمی اور کج فہمی سے عبارت ہیں تو اُن نصوص کا صحیح مفہوم اور تشریح کیا ہے ؟ اعلیٰ علم اور سالم فکر کی روشنی میں اُن نصوص کو شائع کیوں نہیں کیا ؟ اور صاحبِ معاملہ جب خود یہ کہ رہا تھا کہ دیوبند یا ندوہ کا کوئی محدث طے کیا جائے جو مجھ سے بات کرے میں طالبِ علمانہ سوال کرونگا وہ اُنکا صحیح جواب مجھے دے دیں اور میرے دلائل مجھے سمجھادیں تو میں توبہ کر لوں گا لہٰذا اس تعلق سے آپنے کیا کیا ؟ جن نصوص کے جس مفہوم کو آپنے کج فہمی اور کم علمی سے تعبیر کیا ہے وہ محض اقتسابات کی بنیاد پر کیا ہے یا صاحبِ معاملہ سے بھی اسکے اس غلط مفہوم کی تصدیق کی ہے ؟

(٤) “”برملا صحابہ کی شان میں باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم جیسے الفاظ استعمال کرنا اور ان کی تنقیص و تفسیق کرنا براہ راست ایمان کے لیے نہایت خطرناک ہے، ایسے نظریات کا حامل کوئی بھی ہو بلا شبہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کی بھی ضلالت کا سبب ہے””

کیا حضرت معاویہ کی واحد ذات کو لفظ “صحابہ” سے تعبیر کرنا درست ہے ؟ یا صاحب معاملہ نے تمام صحابہ کو باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم کہا ہے ؟

یہاں 5 لفظ ذکر کیے ہیں، باغی، طاغی، مجرم، حکومت کا حریص اور ظالم…. 15 صفحات کا فتویٰ پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فتویٰ کی بنیاد کو دیکھا جائے تو ان 5 الفاظ کی روشنی میں لگایا گیا ہے، لہٰذا ہم ان پانچوں کا جائزہ لیتے ہیں،

(1) پہلا لفظ باغی۔۔۔ یعنی حکومت کے خلاف ناحق خروج کرنے والا۔۔۔

حضرت معاویہ کے باغی ہونے پر تو پوری اُمت کا اجماع ہے، کیونکہ پوری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت علی خیلفہ برحق تھے، اور اُنکے خلاف خروج بلا کسی شک کے بغاوت تھا۔۔۔

آپ نے اپنے فتویٰ میں جن حضرات کے حوالہ سے بات کی ہے وہ یہ ہیں، حافظ ابن عبدالبر، امام طبری، خطیب بغدادی، ابن عساکر، ابنِ تیمیہ، امام قرطبی، ابن کثیر، حافظ العراقی، ابن حجر، ابنِ ہمام، علامہ سیوطی، امام غزالی، ملا علی قاری، امام نووی، علامہ عینی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبد العزیز دہلوی۔۔۔ ممکن ہے مجھ سے دو تین نام چھوٹ گئے ہوں۔۔۔

خیر انکے ذکر کا مطلب یہ کہ یہ علماء آپکے یہاں معتبر ہیں، اور اہل سنت سے تعلّق رکھتے ہیں، اور انکی کتابیں راہ حق پر ہیں،

آئیے دیکھتے ہیں ان پانچ الفاظ کے تعلق سے صحابہ اور پھر ان حضرات کی کتابوں سے اسکا فیصلہ۔۔۔

(1) ابنِ تیمیہ اپنی کتاب “حقوق آل البیت” میں خود حضرت علی سے روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 “أنه صلى على قتلى الطائفتين بالجمل وصفين, وقال : إخواننا بغوا علينا”

( ابن تيمية في حقوق آل البيت – 34

و قال ثابت من وجوه)

حضرت علی سے روایت ہے کہ اُنہوں نے صفین اور جمل کے مقتولین کی نماز پڑھائی، اور کہا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہم سے بغاوت کی۔۔۔ یہ حضرت معاویہ کی بغاوت پر خود حضرت علی کی گواہی ثابت ہے

(2) امام بُخاری کے استاد ابو بکر ابنِ ابی شیبہ اپنی مصنف میں مختلف صحیح الاسناد طرق سے حضرت عمار رض. سے روایت نقل کرتے ہیں:

“وكيع عن مسعر عن عبد الله عن رباح عن عمار قال : لا تقولوا : كفر أهل الشام ولكن قولوا : فسقوا ظلموا”.( مصنف ابن ابي شيبه ٣٨٩٩٧ و ٣٨٩٩٨ )

حضرت عمار نے کہا “”یہ مت کہو کہ اہل شام نے کفر کیا بلکہ یہ کہو کہ اُنہوں نے فسق کیا اور ظلم کیا””

یہ روایت بالکل صحیح اور ثابت ہے، اسکے مطابق ایک جلیل القدر صحابی کی گواہی کے مطابق حضرت معاویہ اور اُنکی جماعت نے فسق کیا اور ظلم کیا۔۔۔

اب خود حضرت معاویہ کی جماعت میں سے بھی اسکی گواہی دیکھ لیں

(3) مسند احمد میں صحیح الاسناد روایت ہے کہ جب حضرت عمار بن یاسر قتل کیے گئے تو عمرو بن العاص نے حضرت معاویہ سے کہا کہ عمار قتل ہو گئے ہیں تو حضرت معاویہ نے کہا اگر عمار قتل ہو گئے ہے تو کیا ہوا ؟ حضرت عمرو نے جواب دیا کہ میں نے اللہ کے رسول ص سے سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کریگی، اس پر حضرت معاویہ نے حضرت حضرت عمرو سے کہا: “دحضت في بولك” “تو اپنے پیشاب میں پھسل” (مسند احمد 17778، مجمع الزوائد 7/244 و 9/299، صحیح دلائل النبوۃ – 514، اتحاف الخیرۃ المھرۃ 7/297)

(4) اسی طرح صحیح الاسناد روایت عبداللہ بن عمرو سے ہے جب اُنہوں نے عمار کے قتل کی خبر دی اور یہ کہا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ اُنہیں ایک باغی جماعت قتل کریگی تو حضرت معاویہ نے عبداللہ رض کے والد حضرت عمرو سے کہا “”أَلَا تُغْنِي عَنَّا مَجْنُونَكَ يَا عَمْرُو، فَمَا بَالُكَ مَعَنَا”” اے عمرو تم اپنے اس پاگل کو ہمسے دور کیوں نہیں کر دیتے، اور پھر یہ ہمارے ساتھ کیوں ہے ؟ پھر عبداللہ رض نے اُنکے ساتھ ہونے کی وجہ بیان کی۔۔۔ مسند احمد 6929، اتحاف الخیرۃ المھرۃ 8/15)

(5) بغاوت کی پیشین گوئی سن کر حدیث سنانے والے دو صحابہ کی شان میں حضرت معاویہ نے کس طرح الفاظ استعمال کیے ہیں وہ آپکے سامنے ہیں، اسکے بعد حضرت معاویہ نے جو تاویل کی کہ عمار کو تو اُنہوں نے قتل کیا ہے جو اُنکو جنگ میں لیکر آئے اس تاویل کو ملا علی قاری رح بدترین تاویل کہتے ہیں۔۔۔

“و قد حكى عن معاوية تأويل أقبح من هذا حيث قال” اسکے بعد حضرت معاویہ کا جملہ نقل کیا۔۔۔ دیکھیے (مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل و شمائل، باب فی المعجزات جلد 11 صفحہ 17، 18)

(6) علامہ انور شاہ کشمیری نے بُخاری کی شرح انوار الباری میں ج 14 ص 55 پر لکھا ہے

“جب جنگ صفین میں حضرت عمار کے شہید ہونے کی خبر حضرت معاویہ کے لشکر میں پہنچی اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اپنے والد اور حضرت معاویہ دونوں کو حضور علیہ السلام کا ارشاد یاد دلایا تو حضرت معاویہ نے فورا اس کی یہ تاویل کی، کیا ہم نے عمار کو قتل کیا ہے ؟ اُن کو تو اس نے قتل کیا جو انہیں میدان میں لایا (طبری ج 4 ص 29، ابنِ الاثیر ج 3 ص 158، ہدایہ ج 7، ص 268 ) علامہ ابن کثیر نے اس تاویل کو مستبعد قرار دیا۔

ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں لکھا کہ حضرت علی کو جب حضرت معاویہ کی یہ تاویل پہنچی تو فرمایا: اس طرح کی تاویل سے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت حمزہ کے قاتل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے العیاذ باللہ””

دونوں جماعت کے صاحب معاملہ کی گواہی سے باغی کا ثبوت ہونے کے بعد اب آتے ہیں دیگر علماء پر۔۔۔

(7) علّامہ قرطبی اپنی کتاب التذكرة باحوال الموتى و امور الآخرة میں لکھتے ہیں

“و الاجماع منعقد على ان طائفة الإمام طائفة عدل و الأخرى طائفة بغي”” (ج 2 ص 626)

“اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت علی کی جماعت عدل و انصاف والی جماعت تھی اور دوسری جماعت باغی تھی”

 اسکے بعد امام قرطبی نے عمار تجھے باغی جماعت قتل کرے گی والی حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ متواتر اور اصح الاحادیث ہے

(8) امام بیہقی اپنی کتاب الاعتقاد و الهداية على سبيل الرشاد میں ص 531 پر لکھتے ہیں

“وكل من نازع أمير المؤمنين علي بن أبي طالب فى عمارته فهو باغ. على هذا عهدت مشايخنا وبه قال إبن إدريس – يعني الشافعي رحمه الله”

ہر وہ شخص جس نے امیر المومنین علی بن ابی طالب سے جنگ کی وہ باغی ہے، یہی ہمارے مشائخ کا موقف ہے، اور یہی امام شافعی کا قول ہے،

(9) فیض القدیر میں امام عبد الرؤوف مناوی نے ج 6 ص 474 اور العواصم و القواصم میں محمد بن ابراہیم الیمانی نے ج 2 ص 20 پر امام عبد القاھر جرجانی کے کا قول نقل کیا ہے

“أجمع فقهاء الحجاز والعراق من فريقي الحديث والرأي منهم مالك والشافعي وابوحنيفة والأوزاعي والجمهور والأعظم من المتكلمين والمسلمين ان عليا مصيب فى قتاله لاهل صفين كما هو مصيب فى أهل الجمل وان الذين قاتلوه بغاة ظالمون له لكن لا يكفرون ببغيهم”

حجاز اور عراق کے اہل الحدیث و اہل الرائ کے فقہاء جن میں امام مالک، شافعی، ابو حنیفہ، اوزاعی ہیں کا اجماع ہے اور متکلمین اور مسلمانوں کے جمہور کا اتفاق ہے کہ حضرت علی اہل صفین سے جنگ کرنے میں حق پر تھے، جیسا کہ وہ اہل جمل سے جنگ میں حق پر تھے، اور جن لوگوں نے حضرت علی سے جنگ کی وہ باغی تھے، اور اُن پر ظلم کرنے والے تھے لیکن اُنکی بغاوت کی وجہ سے اُنکی تکفیر نہیں کی جائے گی،

(10) شرح الشفا للقاضی عیاض کی شرح میں ملا علی قاری ہروی حنفی ج 2 ص 552 پر لکھے ہیں

“وأما معاوية وأتباعه فيجوز نسبتهم إلى الخطأ والبغي والخروج والفساد واما لعنهم فلا يجوز”

جہاں تک معاویہ اور اُنکے ساتھیوں کا تعلق ہے تو اُنکی نسبت خطا و بغاوت اور خروج و فساد کی طرف کرنا جائز ہے، لیکن اُن پر لعنت جائز نہیں ہے،

(11) الخطط المقريزية میں ج 4 ص 360 پر اہل سنت کے عقیدہ کے امام ابو الحسن اشعری کا قول ہے

“”ولا أقول فى عائشة وطلحة والزبير رضي الله عنهم الا أنهم رجعوا عن الخطأ وأقول ان طلحة و الزبير من العشرة المبشرين بالجنة وأقول فى معاوية و عمرو بن العاص انهما بغيا على الإمام الحق علي بن أبي طالب رضي الله عنهم فقاتلهم مقاتلة أهل البغي وأقول أن النهروان الشراة هم المارون عن الدين و أن عليا رضي الله عنه كان على الحق فى جميع احواله والحق معه حيث دار””

میں حضرت عائشہ، طلحہ، اور زبیر رضی اللہ عنہم کے بارے کچھ نہیں کہتا الا یہ کہ اُنہوں نے اپنی غلطی سے رجوع کر لیا تھا، طلحہ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اور میں معاویہ و عمرو بن عاص کے بارے میں کہتا ہوں کہ اُنہوں نے امام حق علی بن ابی طالب کے خلاف بغاوت کی اسلئے حضرت علی نے جن سے باغیوں کی طرح جنگ کی، اور اہل نہروان والے دین سے نکلنے والے ہیں، بلا شک علی اپنے تمام حالات میں حق پر تھے اور حق انکے ساتھ تھا۔

(12) امام الجويني اپنی کتاب الإرشاد میں ص 365 پر لکھتے ہیں

“علي ابن أبي طالب كان إماما حقا في توليته , ومقاتلوه بغاة”

حضرت علی اپنی حکومت میں حق پر تھے اور اُنسے جنگ کرنے والے باغی تھے۔

(13)ماتوردیہ کے امام علامہ تفتازانی اپنی کتاب شرح المقاصد میں ج 5 ص 309 پر بغاوت کی تشریح کرتے ہوئے جمہور کا موقف لکھتے ہیں

“ولهذا ذهب الأكثرون إلى أن أول من بغى فى الإسلام معاوية”،

 جمہور کا موقف ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے بغاوت کرنے والا معاویہ ہے۔۔

(14) شرح العقائد میں بھی علامہ تفتازانی ایک بحث کے تحت لکھتے ہیں

“وبالجملة لم ينقل عن السلف المجتهدين والعلماء الصالحين جواز اللعن على معاوية وأحزابه لأن غابة أمرهم البغي و الخروج على الإمام وهو لا يوجب اللعن”

خلاصہ یہ کہ سلف مجتہدین اور علماء سے معاویہ اور اُنکی جماعت پر لعنت کا جواز نقل نہیں ہوا ہے، کیوںکہ اُنکے عمل کی انتہا امام کے خلاف بغاوت اور خروج ہے اور یہ لعنت کا موجب نہیں ہے،

(15) فتح القدیر میں علامہ ابن ہمام حنفی ج 7 ص 245 پر لکھتے ہیں

“فكان على الحق فى قتال أهل الجمل وقتال معاوية بصفين – وقوله عليه الصلاة والسلام لعمار : “ستقتلك الفئة الباغية ” وقد قتله أصحاب معاوية يصرح بأنهم بغاة”

حضرت علی اہل جمل و صفین سے جنگ کرنے میں حق پر تھے اور حضور کا حضرت عمار کے بارے میں یہ قول کہ “ستقتلك الفئة الباغية” تو اُنھیں معاویہ کے ساتھیوں نے قتل کیا اس سے صراحت ہوتی ہے کہ وہ باغي ہیں،

(16) علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب مجموع الفتاویٰ میں ج 4 ص 268 پر لکھتے ہیں

“وهذا يدل على صحة إمامة علي، و وجوب طاعته، و أن الداعي إلى طاعته داع إلى الجنة والداعي الى مقاتلته داع إلى النار- وان كان متأولا، وهو الدليل على انه لم يكن يجوز قتال علي، وعلى هذا فمقاتله مخطئ، و ان كان متأولا أو باغ بلا تأويل، و هو أصح القولين لأصحابنا”

اور یہ حدیث بھی حضرت علی کی امامت کے حق ہونے اور آپ کی اطاعت کے واجب ہونے پر دال ہے، لہٰذا آپ کی اطاعت کا داعی جنت کی طرف بلانے والا تھا اور آپ کے خلاف جنگ کی دعوت دینے والا جہنّم کی طرف بلانے والا تھا اگرچہ وہ تاویل سے کام لے رہا تھا، اور یہ حدیث دلیل ہے کہ حضرت علی کے خلاف جنگ جائز نہ تھی، اس وجہ سے اُنسے جنگ کرنے والا خطاکار تھا چاہے وہ تاویل کرنے والا ہو یا بلا تاویل کے باغی تھا، اور یہی ہمارے اصحاب کا صحیح قول ہے

(17)علامہ ابن قیم اپنی کتاب الصواعق المرسلة من الجهمیة و المعطلة میں ج 1 ص 185 پر لکھتے ہیں

 “نعم التأويل الباطل تأويل أهل الشام قوله “صلى الله عليه وسلم ” لعمار ؛ ” تقتلك الفئة الباغية ” فقالوا : نحن لم نقتله، إنما قتله من جاء به حتى أوقعه بين رماحنا . فهذا هو التأويل الباطل المخالف لحقيقة اللفظ و ظاهره، فإن الذي قتله هو الذي باشر قتله لا من استنصر به.

” جی، باطل تاویل اہل شام کی تاویل ہے، اللہ کے رسول ص نے عمار سے فرمایا تھا کہ تجھے باغی جماعت قتل کریگی لیکن اہلِ شام نے کہا کہ اس کو ہم نے قتل نہیں کیا، اُسنے قتل کیا جو اس کو لیکر آیا، اور ہمارے نیزوں کے سامنے ڈال دیا، یہ باطل تاویل ہے. لفظ کی حقیقت اور اسکے ظاہر کے خلاف ہے۔ عمار کے قاتل وہ تھے جن لوگوں نے اُنکو قتل کیا وہ نہیں جنہوں نے ان سے مدد لی،

(18) تنویر شرح الجامع الصغیر میں علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی ج 11 ص 42 پر لکھتے ہیں

“تقتلك الفئة الباغية هو معاوية و اصحابه”

حدیث “تقتلك الفئة الباغية” سے مراد معاویہ اور اُنکے ساتھی ہیں،

(19) بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی کتاب الجنایات میں باب قاتل اہل البغي کے تحت لکھتے ہیں

والحديث دليل على أن الفئة الباغية معاوية ومن فى حزبه. والفئة المحقة علي رضي الله عنه ومن فى صحبته؛ وقد نقل الإجماع من أهل السنة بهذا القول جماعة من أئمتهم؛ كالعامري وغيره،

حدیث تقتلك الفئة الباغية اس بات کی دلیل ہے کہ باغی جماعت معاویہ اور اُنکے ساتھیوں کی ہے، اور حق جماعت حضرت علی اور اُنکے ساتھیوں کی ہے، اور اس پر اہل سنت کے ائمہ کی ایک جماعت نے اجماع نقل کیا ہے جیسے عامری اور دیگر۔۔۔

(20) ازالۃ الخفاء میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی حصہ دوم فصل ہفتم ص 371 پر لکھتے ہیں،

“حضرت معاویہ سے اللہ کے رسول ص نے فرمایا کہ اگر تو بادشاہ ہو جائے تو نیک کام کرنا اور فرمایا کہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا اگر اللہ نے تجھے قمیص پہنائی۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافت مراد لے رہے تھے۔ تو (ام المومنین) ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا اللہ میرے بھائی کو قمیص پہنانے والا ہے؟ فرمایا کہ ہاں! اور لیکن اس میں فسادات ہوں گے اور فسادات اور فسادات اور اس کلمہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی خلافت تسلط کے ذریعہ سے منعقد ہوگی۔ بیعت کے ذریعہ سے نہ ہوگی اور ان کی سیرت شیخین کی سیرت کے موافق نہ ہوگی اور وہ خلافت امام وقت سے بغاوت کے بعد منعقد ہوگی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ لفظ هنات (فسادات)”

“صاف لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کی حکومت تسلط کے ذریعہ سے ہوگی، اور امام وقت سے بغاوت کے بعد ہوگی”

(21) شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تکمیل ایمان میں صفحہ نمبر 171 پر لکھا ہے

“علمای اھل سنت و جماعت گوبند که نھایت کار معاویه و امثال وی بغی و خروج است برامام برحق و خلیفه مطلق علی مرتضیٰ باشد چنانچه در حدیث عمار بن یاسر که بسر حد شھرت و تواتر معنوی رسیدہ است”۔۔۔

علماء اھل سنت کا‌ اجماع ہے کہ حضرت معاویہ کا عمل امام برحق امام مطلق علی مرتضیٰ کے خلاف بغاوت و خروج تھا اور حدیث عمار حد شہرت و تواتر کو پہنچی ہوئی ہے،

(22) تقریر بخاری شریف میں شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی حدیث عمار کے تحت لکھتے ہیں،

 “حضرت عمار حضرت علی کی جماعت میں تھے اور جنگ صفین میں حضرت معاویہ کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اس سے حضرت معاویہ کی جماعت کا باغی ہونا معلوم ہوتا ہے”

(23) شیخ الحدیث عبد الرشید نعمانی اپنی کتاب “حادثہ کربلا کا پسِ منظر” میں ص 161 – 162 پر امام اہل سنت ابو الحسن اشعری کے قول کو تمام اہل سنت کا اجماعی اور اتفاقی موقف قرار دیا ہے،

“میں کہتا ہوں کہ معاویہ اور عمرو بن عاص نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی تھی، جو امام برحق تھے، اور حضرت علی نے اُن سے اسی طرح جنگ کی جس طرح باغیوں سے کرنی چاہیے”

ان تمام علماء نے برملا باغی لکھا ہے اس پر مفتیانِ دیوبند کا کیا فتویٰ ہے ؟ اور بھی حوالے نقل کیے جا سکتے تھے لیکن میں نے اُنکو ترجیح دی جو آپکے فتویٰ میں مذکور ہیں، کیا یہ سب علماء گمراہ ہیں ؟ اہل سنت سے خارج ہیں ؟ انکے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کا اور اُنکی کتب پڑھنے والوں کا کیا حکم ہے ؟

(2) دوسرا و تیسرا لفظ طاغي و ظالم۔۔۔

آپکے فتویٰ میں مذکورہ اہل سنت کے بڑے اور معتبر علماء میں سے۔۔۔

(24) حافظ ابو عمر ابن عبد البر اپنی کتاب الاستیعاب میں ج 4 ص 1789 ، اور حافظ ابن الحجر اپنی الاصابہ میں ج 13 ص 154 پر روایت نقل کرتے ہیں،

“أنّ عليّا لما حضرته الوفاة قال لأمامة بنت العاص : إني لا آمن أن يخطبك هذا الطاغية بعد موتي ، يعني معاوية ، فإن كان لك في الرجال حاجة فقد رضيت لك المغيرة بن نوفل عشيرا .

فلما انقضت عدّتها كتب معاوية إلى مروان يأمره أن يخطبها عليه ، وبذل لها مائة ألف دينار ، فأرسلت إلى المغيرة : إن هذا قد أرسل يخطبني ، فإن كان لك بنا حاجة فأقبل ، فخطبها إلى الحسن فزوجها منه “

جب حضرت علی کی وفات کا وقت تھا تو آپ نے امامہ بنت عاص سے کہا، مجھے ڈر ہے کہ یہ طاغیہ یعنی معاویہ تمہے شادی کا پیغام بھیجے گا، اگر تجھے شادی کی حاجت ہو تو مغيرہ بن نوفل سے کرنا، جب حضرت علی کی وفات کے بعد حضرت امامہ کی عدت پوری ہو گئی تو حضرت معاویہ نے مروان کو لکھا کہ امامہ کو اُنکا پیغام بھیجے، اور اسکے لیے حضرت معاویہ نے لاکھوں دینار خرچ کیے، لیکِن امامہ نے مغيرہ کو پیغام بھیجا کہ اس شخص نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے، لہٰذا اگر آپ چاہیں تو ہمارے پیغام کو قبول کریں، تو مغیرۃ نے حضرت حسن کو پیغام بھیجا اور اُنہوں نے اُنکا نکاح اُن سے کروا دیا،

یہ روایت طاغیہ کے لفظ سے صریح ہے، روایت کس درجے کی ہے اسکی تحقیق دیوبند کے مفتی حضرات کر لیں لیکن پھر یہ بھی بتا دیں کہ ایسی روایات بیان کرنے پر مذکورہ ائمہ پر کیا حکم لگے گا ؟ اُنکی کتابیں پڑھنا جائز ہوگا یا نہیں ؟ اس درجہ کی بےشمار روایات علمائے دیوبند کی کتب میں کثرت سے موجود ہیں اُنکا کیا حکم ہے ؟

(25) ملا علی قاری ہروی حنفی اپنی کتاب مرقاۃ المفاتیح میں ج 11 ص 17 پر ابنِ الملک کا قول نقل کرتے ہیں،

“وقال إبن الملك: اعلم أن عمار قتله معاوية و فئته فكانوا طاغين باغين بهذا الحديث لأن عمار كان فى عسكر علي و هو المستحق للإمامة فامتنعوا عن بيعته…”

جان لو کہ حضرت عمار کو معاویہ اور اُنکی جماعت نے قتل کیا، لہٰذا وہ اس حدیث کی وجہ سے طاغی تھے باغی تھے، کیوںکہ حضرت عمار حضرت علی کی فوج میں تھے، اور حضرت علی ہی امامت کے مستحق تھے، لیکِن معاویہ اور اُنکی جماعت نے اُنکی بیعت نہیں کی۔

(26) امام محی الدین عبد القادر القرشی الحنفی اپنی کتاب “الجواھر المضیۃ طبقات الحنفیۃ” میں ج 3 ص 171 پر صحیح سند سے امام محمد الشیبانی کا قول نقل کرتے ہیں

“لو لم يقاتل معاوية عليا ظالما له متعديا باغيا كنا لا نهتدى لقتال اهل البغي”

اگر معاویہ حضرت علی سے ظلم کرتے ہوئے، سرکشی کرتے ہوئے، اور بغاوت کرتے ہوئے جنگ نہیں کرتے تو ہمیں باغیوں سے جنگ کرنے کی رہنمائی نہ ملتی،

(27) علامہ ابن ہمام حنفی ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ج 7 ص 245 پر کتاب الادب للقاضی میں ہدایہ کی عبارت “ويجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من السلطان العادل لان الصحابة تقلدوه من معاوية والحق كان بيد علي في نوبته” کے تحت لکھتے ہیں

هذا تصريح بجور معاوية و المراد في خروجه لا فر اقضيته

ہدایہ کی یہ عبارت حضرت معاویہ کے ظلم پر صریح ہے، اور اس سے مراد اُنکے خروج میں ظلم کا ہونا ہے اُنکے دوسرے فیصلوں میں نہیں۔۔۔

(28) شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی نے بھی ہدایہ کے حوالہ سے شرح کرتے ہوئے “اعلاء السنن” میں ج 15 ص 62 -63 مذکورہ عبارت کے تحت یہی لکھا ہے،

(29) ہدایہ کی مشہور زمانہ شرح اشرف الہدایہ میں جمیل احمد سیکڑوڈھی ج 9 ص 253 پر اس مسئلہ کی تشریح میں لکھتے ہیں

 شہادت عثمان کے بعد خلافت کا حق حضرت علی کو تھا مگر اُسکے باوجود حضرت معاویہ کا علی کے ہاتھ بیعت نہ کرنا اور ملک شام میں اپنی حکمرانی کا اعلان کرنا کھلی ہوئی بغاوت تھی پس حضرت معاویہ کا سلطان جائر (ظالم بادشاہ) ہونا ثابت ہوا۔۔۔

(30) ازالۃ الخفاء میں شاہ ولی اللہ دہلوی “حضرت علی سے روایت نقل کرتے ہیں

رسول اللہ ص نے جو اختلاف انکے بعد ہونے ولا تھا اسکی مجھے خبر دی اور مجھے حکم دیا کہ عہد شکنوں، دین سے نکل جانے والوں، ظالموں سے لڑوں اور آپ نے مجھے اس حادثہ کی خبر بھی دی تھی جو مجھ پر پڑا ہے، اور آپ نے مجھے خبر دی کہ معاویہ اور اسکا بیٹا یزید بادشاہ بنیں گے”

اس روایت کے مطابق عہد شکن اہل جمل ہیں، دین سے نکل جانے والے خوارج ہیں، اور ظالم معاویہ و انکی جماعت ہیں،

(3) چوتھا و پانچواں لفظ مجرم و حکمت کا حریص۔۔۔

(31) حافظ ابو عمر بن البر الاستیعاب میں ج 3 ص 214 پر ابو قیس الاودی کا قول نقل کرتے ہیں

“ادركت الناس وهم ثلاث طبقات، اهل دين يحبون عليا واهل دنيا يحبون معاوية وخوارج”

میں نے لوگوں کو تین طبقوں میں پایا، دین دار جو علی سے محبت کرتے ہیں، دنیا دار جو معاویہ اور خوارج سے محبت کرتے ہیں،

(32) شرح المقاصد للقاضی عضد الدین میں سید شریف علی بن محمد جرجاني لکھتے ہیں “والذي عليه الجمهور من الأمة هو ( أن المخطئ قتلة عثمان ومحاربو علي لانهما إما إمامان فيحرم القتل والمخالفة قطعا ) إلا أن بعضهم كالقاضي أبي بكر ذهب إلى أن هذه التخطئة لا تبلغ إلى حد التفسيق ، ومنهم من ذهب إلى التفسيق كالشيعة وكثير أصحابنا”

جمہور اُمت کا جو مسلک ہے وہ یہ کہ حضرت عثمان کے قاتل اور حضرت علی سے جنگ کرنے والے غلط کار ہیں کیونکہ یہ دونوں امام ہیں لہٰذا اُنکا قتل اور اُن سے جنگ قطعا حرام ہے، سوائے یہ کہ اُن میں سے بعض جیسے قاضی ابو بکر کا موقف یہ ہے کہ اُنکی یہ غلطی اُنکو فسق تک نہیں لے جاتی ہے، اور اُن میں ایسے بھی ہیں جو فسق کا حکم لگاتے ہیں، جیسے شیعہ اور ہمارے اکثر اصحاب۔

(33) عقائد ماتريدیہ کے بڑے امام علامہ سعد الدین تفتازانی شرح المقاصد میں ج 5 ص 310 پر لکھتے ہیں

“ان ما وقع بين الصحابة من المحاربات و المشاجرات على وجه المسطور فى كتب التواريخ و المذكور على ألسنة الثقات يدل ظاهره على ان بعضهم قد حاد من طريق الحق، و بلغ حد الظلم و الفسق و كان الباعث له الحقد و العناد و الحسد و اللداد و طلب الملك و الرياسة و الميل الى اللذات و الشهوات. اذ ليس كل صحابي معصوما و لا كل من لقي النبي بالخير موسوما إلا ان العلماء لحسن ظنهم با

بأصحاب رسول ذكروا لها محامل و تاويلات بها تليق، و ذهبوا انهم محفوظون عما يوجب التضليل و التفسيق صونا لعقائد المسلمين عن الزيغ و الضلالة فى حق كبار الصحابة”

صحابہ کے درمیان جو اختلافات اور جنگیں ہوئیں اُنکے تعلّق سے جو کچھ تاریخی کتابوں میں آیا ہے اور ثقہ راویوں سے بیان ہوا ہے، اسکا ظاہر دال ہے کہ بعض صحابہ حق سے ہٹ گئے تھے، اور ظلم و فسق تک پہنچ گئے تھے، اسکی وجہ جلن، نفرت، حسد، دشمنی، اور حکومت و ریاست کی طلب اور خواہشات و شہوات کی طرف میلان تھا، ہر صحابی معصوم نہیں ہے، نہ ہی ہر وہ شخص جو نبی سے ملا خیر سے منسوب ہے، مگر علماء نے مذکورہ روایات کی مناسب تاویل اور محمل بیان کیے ہیں، اور یہ موقف بنایا ہے کہ وہ ایسے اعمال سے بری ہیں جو فسق و ضلال کے موجب ہوں اور یہ موقف اسلئے بنایا تاکہ کبار صحابہ کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد محفوظ رہیں۔۔۔

علامہ تفتازانی نے اس عبارت میں پوری حقیقت کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے، کہ صحابہ میں حکومت کے حریص، آپس میں کینہ، حسد و دشمنی رکھنے والے، خواہشات کے پیروکار اور مجرم بھی تھے، لیکن اُنکی تاویل کر لی جاتی ہے۔۔۔

کیا تاویل کو نہیں مان کر حقیقت و ظاہر رویات کو بیان کرنے والے گمراہ ہو سکتے ہیں ؟

(34) ملّا علی قاری ھروی حنفی مشکوۃ میں جلد 11 ص 18 پر حدیث عمار کی تشریح کے تحت لکھا ہے،

“قلت : فإذا كان الواجب عليه أن يرجع عن بغيه بإطاعته الخليفة و يترك المخالفة و طلب المخالفة المنيفة فتبين بهذا أنه كان فى الباطن باغيا و فى الظاهر متسترا بدم عثمان مراعبا مرائيا. فجاء هذا الحديث عليه ناعيا و عن عمله ناهيا. لكن كان ذلك فى الكتاب مسطورا. فصار عنده كل من القرآن و الحديث مهجورا”

میں کہتا ہوں، جب (عمار کے قتل اور حضور کی حدیث حضرت معاویہ کو پہنچی) تو اُن پر خلیفہ کی اطاعت کرکے اپنی بغاوت سے رجوع کرنا واجب تھا اور مخالفت و خلافت کی طلب کو چھوڑ دينا تھا، تو اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ باطن میں تو باغی تھے اور ظاہر میں دھوکہ دیتے ہوئے دکھاوا کرتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کی آڑ میں چھپے ہوئے تھے تو یہ حدیث ان پر جرح کرنے والی اور اُنکے عمل سے روکنے والی ہے لیکن یہ سب چیزیں تقدیر میں لکھی ہوئی تھیں لہٰذا اُنکے نزدیک قرآن و حدیث دونوں ہی مہجور ہو گئے،

(35) صحيح مسلم کی شرح إكمال إكمال المعلم للأبي اور اسکی شرح مكمل إكمال الإكمال للسنوسي ج 1 ص 228 پر عمرو بن عاص کا قائل نقل کرتے ہیں

“لما حضرته الوفاۃ نظر الى ماله فقال ليتك بعراو ليتمي مت فى غزوة ذات السلاسل لقد دخلت فى امور ما ادري ما حجتي فيها عند الله اصلحت لمعاوية دنياه و افسدت آخرتي”

جب عمر بن عاص کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے اپنے مال کی طرف دیکھا اور کہا کہ کاش میں پہلے مر گیا ہوتا میں ایسے کاموں میں پڑ گیا کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کے نزدیک میرا کیا جواب ہوگا میں نے معاویہ کی دنیا کو سنوار دیا اور خود کی آخرت برباد کر لی۔۔

(36) علامہ شوکانی اپنی کتاب وبل الغمام على شفاء الأوام میں ص 416 پر لکھتے ہیں

“واما اهل الصفين، فبغيهم ظاهر لو لم يكن فى ذلك الا قوله لعمار تقتلك الفئة الباغية لكان ذلك مفيدا للمطلوب، ثم معاوية ليس ممن يصلح لمعارضة علي، لكنه اراد طلب الدنيا و الرياسة، والدنيا بين قوم اغتام لا يعرفون معروفا، ولا ينكرون منكرا فخاعدهم بانه طالب بدم عثمان، فنفق ذلك عليهم”

جہاں تک اہل صفین کا تعلّق ہے تو اُنکی بغاوت ظاہر ہے، اور اگر اس مسئلہ میں کچھ نہ ہوتا تو بھی حضور کا حضرت عمار سے یہ کہنا کہ تجھے باغی جماعت قتل کریگی اُنکے باغی ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہوتا، اور معاویہ اس درجہ کے لوگوں میں نہیں تھے کہ علی جیسی عظیم ہستی کے مقابلہ میں آتے لیکن دنیا اور حکومت کی طلب میں اُنہوں نے ایسے لوگوں کو استعمال کیا جو کسی بھلائی کو نہیں جانتے تھے نہ کسی برائی سے رکتے تھے، تو حضرت معاویہ نے اُنکو دھوکہ دیا کہ وہ عثمان کا قصاص طلب کر رہے ہیں،

(37) شیخ الحدیث عبد الرشید نعمانی اپنی کتاب حضرت علی اور قصاص عثمان میں ص 33 پر امام ابن مازہ حنفی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں

“امام مازہ نے جناب معاویہ کو عہدے مرتضی میں امام جائر قرار دیا ہے کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے عہد خلافت میں خلیفہ راشد تھے اور ان سے بغاوت کرنا جرم تھا”

(38) فتاویٰ عزیزی از حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ص 413 پر ایک سوال کا جواب دیتے ہیں،

“سوال: حضرت معاویہ اور مروان کو برا کہنے کے بارے میں اہل سنت کے نزدیک کیا ثابت ہے ؟

جواب : اہل بیت کی محبت فرائض ایمان سے ہے، نہ کہ لوازم سنت اور محبت اہل بیت سے ہے، کہ مروان علیہ اللعنہ کو برا کہنا چاہیے، اور اس سے دل سے بے زار رہنا چاہیے، علی الخصوص اس نے نہایت بد سلوکی کی حضرت امام حسین اور اہل بیت کے ساتھ، اور کامل عداوت ان حضرات سے رکھتا تھا، اس خیال سے اس شیطان سے نہایت بیزار رہنا چاہیے، لیکن حضرت معاویہ بن ابی سفیان صحابی ہیں اور آںجناب کی شان میں بعض احادیث وارد ہیں، آنجناب کے بارے میں علماء اہل سنت میں اختلاف ہے، علماء ما وراء النہر اور مفسرین اور فقہاء کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ کے حرکاتِ جنگ و جدال جو حضرت علی کے ساتھ ہوئیں وہ صرف خطائے اجتہادی کی بنا پر تھیں۔ محققین اہل حدیث نے بعد تتبع روایات دریافت کیا ہے کہ یہ حرکات شائبہ نفسانی سے خالی نہ تھے، اس تہمت سے خالی نہیں کہ جناب ذی النورین حضرت عثمان کے معاملہ میں جو تعصب امویہ اور قریشیہ میں تھا اسی کی وجہ سے یہ حرکات حضرت معاویہ سے وقوع میں آئے جس کا غایت نتیجہ یہی ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ اور باغی قرار پائے، “و الفاسق لیس باهل اللعن” تو اگر مراد برا کہنے سے اسی قدر ہے کہ اُن کے اس فعل کو برا کہنا اور برا سمجھنا چاہیے تو بلاشبہ اس امر کا ثبوت محققین پر واضح ہے،

فتویٰ میں بالکل واضح صراحت ہے کہ اجتہادی خطا ہی نہیں بلکہ نفسانی خواہش بھی تھی، اور وہ کبیرہ کے مرتکب تھے اور یہ بات محققین پر واضح ہے،

(39) تحفہ اثنا عشرہ میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی شیعوں کے اشکال پر جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں دیکھیے اردو ترجمہ ص 360۔۔۔

 “اب رہا یہ شک کہ حضرت معاویہ کا کردار باغیانہ تھا اور وہ ناحق غلبہ حاصل کرنے والے تھے تو ان پر لعن کیوں نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب پر لعن جائز نہیں چونکہ بغاوت بھی گناہ کبیرہ ہے اس لیے اس پر بھی لعن منع ہے اور جائز نہیں”

(40) محمد رشید رضا اپنی تفسیر المنار میں ج 11 ص 260 پر لکھتے ہیں

“قال أحد كبار علماء الألمان في الاستانة لبعض المسلمين و فيهم أحد شرفاء مكة: انه ينبغي لنا أن نقيم تمثالا من الذهب لمعاوية بن أبي سفيان في ميدان كذا عاصمتنا ( برلين ) قيل له لماذا قال لانه هو الذي حول نظام الحكم الاسلامي عن قاعدته الديمقراطية إلى عصبية الغلب ، و لو لا ذلك لعم الإسلام العالم كله ولكنا نحن الألمان و سائر شعوب أوربة عربا مسلمين”

جرمن کے کچھ بڑے پروفیسر حضرات نے مسلمانوں سے جن میں بعض مکہ کے شرفاء بھی تھے کہا کہ ہمیں اپنے دار الحکومت برلن کے کسی میدان میں معاویہ بن ابی سفیان کا مجسمہ بنانا چاہیے، تو اُن سے کہا گیا کیوں ؟ تو انہوں نے کہا اس لیے کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام کے نظام حکومت کو ڈیموکریسی سے غلبہ والی عصبیت میں بدلا، اگر وہ نہ ہوتے تو ہم سب جرمن اور یورپ کے تمام قبائل عرب مسلمان ہوتے

یہ وہی رشید رضا ہیں جنکی تعریف کرتے ہوئے دیوبند کے حضرات تھکتے نہیں ہیں، کیوںکہ دیوبند کی شان میں انہوں نے قصیدے پڑھے ہیں، پچھلے سال مرحوم سعید صاحب پالنپوری نے بھی دیوبند کے عالمی ادارہ ہونے کی بحث میں انکا حوالہ دیا تھا۔۔۔ انہوں نے دیوبند کو ازہر الہند لکھا ہے، حضرت معاویہ کے بارے میں انکے کئی رسائل ہیں اور انکی رائے اس مسئلہ میں سلمان حسینی ندوی سے زیادہ سخت ہے، لیکِن یہ گمراہ نہیں دیوبند کے سر کا تاج ہیں،

حضرت معاویہ کے جرائم کی ایک مختصر فہرست صحاح کتب احادیث سے واضح ہوتی ہے، جنکو تحریر کے شروع میں اجتہاد کے مستدالات پوچھتے وقت بحوالہ ذکر کر دیا ہے،

فتویٰ میں مذکور پانچوں الفاظ کو یہاں مختصر 40 حوالوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ کہ ان الفاظ کے ثبوت پر ایک اچھی خاصی کتاب مرتب کی جا سکتی ہے،

آخر میں نفس موضوع کے تعلق سے یہ واضح کر دوں کہ گستاخ صحابہ ہونے پر کوئی اگر گمراہ اور اسلام سے خارج ہوتا ہے اور اُنکے ایمان کا خطرہ ہے، تو یہ جان لینا چاہیے کہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق صحابہ کی شان میں گستاخی کی شروعات حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو “سب” کرکے کی تھی، جس پر حضور نے اُنکو تنبیہ کی۔۔۔

لیکن واضح حدیث ہونے کے بعد بھی حضرت معاویہ حضرت علی کی شان میں گستاخی کرتے اور ان پر “سب” کرواتے تھے، اور اُنکے ساتھیوں میں یہ عام تھا جسے صراحت سے کتب صحاح میں ائمہ محدثین نے ذکر کیا ہے، اور سلف سے خلف تک تمام شارحین اور محققین نے اسکی تصحیح کی ہے،

دیوبند کے مفتیوں کی خدمت میں ایک نمونہ یہاں پیش کر دیتا ہوں تاکہ انہیں حکم لگانے میں ذرا آسانی ہو جائے،

حضرت مولانا قاسم نانوتوی اپنی کتاب ” ہدایتہ الشیعہ ” میں لکھتے ہیں :

شیعوں کا شیوہ تبرابازی، امیر کی اتباع سے نکال کر ان کا قدم امیر معاویہ پر جمانا ہے ۔ یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جب امیر رضی اللہ عنہ ( مراد حضرت علیؓ ہیں) نے یہ سنا کہ اصحاب امیر معاویہ ہم پر لعن طعن کرتے ہیں تو آپ نے اپنے لشکریوں کو ان کی لعن طعن کرنے سے منع فرمایا، چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب میں موجود ہے۔ افسوس کہ شیعوں نے امیر معاویہ کی تقلید اختیار کرلی اور تبرا اپنا شیوہ بنا لیا، حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا اتباع نہ کیا کہ کسی کو برا نہ کہیں، مگر ان کے کہاں نصیب جو حضرت امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کا اتباع اختیار کریں، اس نعمت کے لائق سنی ہی تھے

حضرت قاسم نانوتوی نے صحابہ پر تبرا کرنے کو حضرت معاویہ کے ساتھیوں کی سنت قرار دیا ہے، اب مفتی حضرات حضرت معاویہ اور اُنکے ساتھیوں پر گستاخِ صحابی ہونے کی وجہ سے کوئی حکم لگائیں،

واقعہ یہ کہ ہمارے یہاں جب بھی گستاخِ صحابہ کے تعلّق سے بات ہوتی ہے تو لوگوں کا ذہن حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی جانب چلا جاتا ہے، کیوںکہ حضرت علی سے جنگ کی پاداش میں اللہ نے قیامت تک کے لیے انکی ذات کو متنازع بنا دیا ہے۔۔۔ ہر دس پانچ سال میں کوئی شخصیت اٹھتی ہے اور تاریخ بیان کرتے وقت حضرت معاویہ کا تذکرہ آتے ہی گستاخِ صحابہ ثابت ہو جاتی ہے، لہٰذا اس وجہ سے اب تک مسلمانوں نے بےشمار عبقری و انقلابی شخصیات کو ضائع کیا ہے، حال ہی کہ دور میں سید قطب، علامہ مودودی، عبداللہ عباس ندوی جیسے کئی بڑے نام اسکی واضح مثال ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *