سیاست اور علماء دین

نقی احمد ندوی
نقی احمد ندوی

نقی احمد ندوی ،ریاض ، سعودی عرب

مدارس کے طلبا سیاست کے میدان میں بھی اپنا کیریر شروع کرسکتےہیں ۔ سیاست کا میدان ایماندار اور ملت کے لئےاخلاص کا جذبہ رکھنے والے علماءاور فارغینِ مدارس کے لئے پوری طرح خالی ہے، وقت کا مطالبہ ہے کہ فارغین مدارس وارڈ ممبر سے لے کر ممبر پارلیمنٹ تک کا سفر طے کریں اور قوم کے ایماندار اور جذبہ خدمت سے سرشار افراد کو اس میدان میں لانے کی کوشش کریں۔
ابھی چند دہائی پہلے کی بات ہے کہ سیاست کے آسمان پر علماءاور فضلاءستاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسر ت موہانی، مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اس کی تابناک مثالیں ہیں۔ آج علماءنے اس میدان سے پوری طرح کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ تاہم ایک عالم نے اس دور میں بھی ایک ایسی مثال پیش کی ہے جو فارغین مدارس کےلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا نام مولانا بدرالدین اجمل قاسمی ہے۔ یوں تو مولانا بدر الدین اجمل صاحب بہت سارے تعلیمی و فلاحی اداروں کے بانی، ایک کامیاب بزنس مین اور ہندوستان کے کئی معروف اور موقر تنظیموں کے ممبر ہیں، مگر سیاست کے اندر اپنی شاندار کامیابی کے ذریعے انھوںنے ثابت کردیا ہے کہ ایک عالم اور مولوی اگر چاہے تو سیاست کے وسیع میدان میں ملک و قوم کی شاندار خدمت بخوبی انجام دے سکتا ہے اور شاید ہندوستان میں یہ چند گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں جو بیک وقت عالم دین بھی ہیں اور سیاست کے بازیگر بھی۔ ان کی پیدائش 12فروری 1950ءکو ہوئی، دارالعلوم دیوبند سے انھوںنے تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے عطر کے بزنس کو آگے بڑھایا، مرکز المعارف این جی او کے وہ بانی ہیں جس نے بہت سے تعلیمی ادارے اور یتیم خانے قائم کررکھے ہیں۔ آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں پسماندہ اور غریب لوگوں کے لئےتعلیمی اور معاشی میدانوںمیں انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے۔ چنانچہ اس وقت بیس سے زیادہ اسکول، چھ یتیم خانے، چار خیراتی اسپتال، 21کالجز اور دسیوں ٹریننگ سینٹرس مولانا کی نگرانی میں چل رہے ہیں۔ مولانا کی پارٹی کا نام آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ہے، وہ 2006سے 2009تک آسام لیجسلیٹیو اسمبلی کے ممبر تھے اور اس کے بعد وہ 2009سے2014، پھر2014سے 2019تک لوک سبھا کے ممبر رہے۔
مولانا بدرالدین اجمل کی سیاست کے میدان میں قابل قدر خدمات فارغین مدراس مدرسے کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے کہ سیاست کے میدان میں علمائے کرام کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی چند فارغینِ مدارس نے سیاست میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔ پاکستان کے ایک مشہور سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن صاحب کا نام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کے مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماءاسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر اور اسی جماعت کے سابق سربراہ اور صوبہ خیبر پختونخوا ںکے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ وہ بھی دارالعلوم دیوبند کے مسلک کے پیروکار ہونے کی وجہ سے دیوبندی حنفی کہلاتے ہیں۔ مولانافضل الرحمن کی جماعت پاکستان کے صوبوں خیبر پختوانخوا ںاور بلوچستان میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہے، بلوچستان میں ان کی جماعت کے بغیر کوئی پارٹی اب تک حکومت نہیں بناسکی ہے۔
مولانا فضل الرحمن 19جون 1953کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں کے علاقے عبدالخیل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ پشاور سے 1983میں اسلامک اسٹڈیز میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اس کے بعد مصر کے جامعہ ازہر سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انھوںنے علم ذات میں تعلیم حاصل کی اور اسی صنف میں تحقیق کی 1987ءمیں انھوں نے اسلام کے سیاسی منظر کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ شائع کیا اور مطالعہ مذاہب میں جامعہ ازہر سے سےایم ا ے کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد 1988ءمیں پاکستان واپسی پر اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انھوں نے 1988ءکا الیکشن جمعیت علماءاسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لڑا، بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ خارجہ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے۔ (1)
اسی طرح بنگلہ دیش میں بھی فضلاءمدارس نے سیاست میں نمایاں حصہ لیا ہے، جن میں ایک قابلِ ذکر نام ڈاکٹر ابوالرضا نظام الدین ندوی (ایم پی) کا ہے۔ مولانا عبدالرضا کی پیدائش 15اگست 1968کو ہوئی، ان کے والد ماجد بھی ایک مشہور عالم دین تھے۔ انھوںنے ابتدائی تعلیم بنگلہ دیش میں حاصل کی ، پھر ہندوستان کے مشہور مدرسہ دارالعلوم ندوة العلماءمیں داخلہ لیا اور 1987ءمیں وہاں عالمیت مکمل کی اور فضیلت 1989ءمیں کی اس کے بعد لکھنویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ موصوف بہت ساری تنظیموں اور اداروں کے ممبر اور چیئرمین ہیں۔ علامہ فضل اللہ فاونڈیشن کے سربراہ ہیں اور اس تنظیم کے ذریعے ملی و تعلیمی میدان میں قابلِ ذکر خدمات انجام دےنے میں مصروف ہیں۔ وہ چٹاگونگ یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف دعوہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے ایسوسیٹ پروفیسر ہیں اور بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ممبر رہ چکے ہیں۔
سیاست کے میدان میں ان علماءکی شاندار کاکردگی اور جدوجہد اس بات کی بین ثبوت ہے کہ فارغین مدارس سیاست کے میدان میں ملی و ملکی خدمات انجام دینے کے مکمل طور پر اہل ہیں اور ہر ملک میںاس بات کی ضرورت ہے کہ قوم و ملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار علماءسیاست کے میدان میں آئیں اور ملک و ملت کی خدمت میں اپنا رول ادا کریں۔ا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *