متھرا کی شاہی عیدگاہ بھی نشانے پر

متھرا

معصوم مرادآبادی
متھراکے ضلع جج نے شاہی عید گاہ کے خلاف عرضی سماعت کے لئے منظور کرلی ہے۔ بھگوان شری کرشن وراجمان کی طرف سے دائر کی گئی اس عرضی میں مندر سے متصل شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں سینئر ڈویژن جج نے ایسی ہی ایک عرضی کو خارج کردیا تھا۔مگرگزشتہ ہفتہ ضلع جج نے اس عرضی کو منظور کرتے ہوئے شاہی عیدگاہ اوریوپی سنّی سینٹرل وقف بورڈ کو نوٹس جاری کردئیے۔ عرضی میں کہا گہا ہے کہ اس معاملے میں 1968میں فریقین کے درمیان جو سمجھوتہ ہوا تھا وہ فرضی ہے، لہٰذا اسے رد کرکے اس معاملے کو دوبارہ فیصل کیا جائے۔اس طرح اجودھیا میں بابری مسجد کو غصب کرنے میں مکمل کامیابی کے بعد ایک اور تاریخی مسجد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ملک کے اندر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی اور تصادم کی فضابرقرار رہے اور حکمراں جماعت کو اپنا سیاسی ایجنڈا پورا کرنے میں مزید کامیابی ملے۔
واضح رہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کو دی ہے تب سے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے حوصلے آسمان کو چھورہے ہیں اور وہ ہر مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس خطرناک مہم کا مقصد مسلمانوں کو دیوار سے لگانے اور انھیں دوئم درجہ کا شہری بناںےکے سوا کچھ نہیں ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں سادھوؤں کی ایک تنظیم نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ 1991 کو ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔اس قانون کی رو سے1947میں ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں تبدیلی کاحق کسی کو نہیں ہوگا۔اس ایکٹ کی منظوری کے بعد لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ اب مستقبل میں سنگھ پریوار کو بابری مسجد جیسا تنازعہ کھڑا کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور تمام عبادت گاہیں شرپسندوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہیں گی۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کی خام خیالی اور خوش فہمی تھی کیونکہ اب اس تعلق سے نئے نئے فتنے سر اٹھارہے ہیں اور ملک کو نئی آزمائشوں میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔
عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ دراصل ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر اپنا دعویٰ پیش کرنے کی راہ ہموار کرناہے۔ 1991میں نرسمہا راؤ سرکار نے اپوزیشن کے دباؤ میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جوایکٹ پاس کیا تھا اس کا مقصد مستقبل میں ایودھیا جیسا تنازعہ پیدا ہونے سے روکنا تھا۔دراصل اس تنازعہ نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور ملک کا سیکولر تانا بانا بری طرح بکھر گیا تھا۔آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی خطرناک تحریک شروع ہوئی تھی تو وشو ہندو پریشد کے ہاتھوں میں ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی جو ان کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ ان تین ہزار مسجدوں میں تین تاریخی مسجدیں یعنی ایودھیا کی بابری مسجد، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ سرفہرست تھیں۔ان کا نعرہ تھا”ایودھیا تو جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔“
جس وقت وشوہندو پریشد کا رام جنم بھومی مکتی آندولن اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ جاری تھا تو بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ بابری مسجد پر سمجھوتہ کرکے باقی مسجدوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دور اندیش لوگوں کا موقف اس وقت بھی یہی تھا کہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک ایک انتہائی خطرناک سیاسی سازش کا حصہ ہے اور اس کامقصد مسلمانوں کو زیر کرکے انھیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔فرقہ پرست اور فسطائی جماعتوں کا اصل مقصد اس ملک سے مسلمانوں کے پاؤں اکھاڑنا یا پھر انھیں اپنے اندر ضم کرنا ہے تاکہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا خواب پورا کیا جاسکے۔
ایودھیا میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا ایک طویل اور خطرناک منصوبہ بندی کا حصہ تھاجس میں انھیں پہلی کامیابی 6دسمبر1992کو اس وقت ملی جب پولیس، انتظامیہ اور حکومت کی مدد سے دن کے اجالے میں بابری مسجد کوشہید کردیا گیا۔ دوسری اور حتمی کامیابی فرقہ پرستوں کو گزشتہ سال نومبر میں ملی جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بابری مسجد کے خلاف کئے گئے فرقہ پرستوں کے تمام جرائم پر مہر لگانے کے باوجود مسجد کی ملکیت کا فیصلہ ان ہی کے حق میں سنادیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے بابری مسجد انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی قرار دینے کے باوجود اس کے کسی مجرم کو کوئی سزا نہیں ملی اور وہ سب ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پرباعزت بری کردئیے گئے۔
گزشتہ جون کے مہینے میں ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے عبادت گاہ (خصوصی انتظام) ایکٹ1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”18ستمبر 1991 کو پاس کیا گیا مرکزی قانون ہندوؤں کو ان لاتعداد مندروں سے محروم کرتا ہے جنھیں مسمار کرکے وہاں مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ہندوؤں کے پاس ان تاریخی عبادت گاہوں پر اپنی ملکیت ثابت کرنے حق ہونا چاہئے۔اس حق کی راہ میں 1991میں پاس کیا گیا ایکٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔“ عرضی گزار پجاریوں نے کاشی اور متھرا کی عبادت گاہوں کے معاملے میں قانونی عمل دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔عرضی میں کہا گیا تھا کہ ”اس ایکٹ کوکبھی چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی عدالت نے قانونی طریقے سے اس پر غور کیا۔“
بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ دونوں ایسی عبادت گاہیں ہیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے اور یہاں بلا روک ٹوک نمازہوتی رہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کے بغل میں ہے اور اسی طرح متھرا کی عیدگاہ شری کرشن جنم بھومی مندر سے متصل ہے۔ پچھلے دنوں بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا گیا تھا کہ1664میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ایک مندر کوتوڑ کر یہاں مسجد تعمیر کروائی تھی۔اسی طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ پرفرقہ پرستوں کا الزام ہے کہ اورنگزیب نے1669میں ایک مندر کو تڑواکر یہاں عیدگاہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ تنازعہ انگریزوں کے دور میں عدالت پہنچاتھا لیکن اس پرہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی تھی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔ تب سے وہاں باضابطہ نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔1951 میں صنعت کار یوگل کشور برلا نے متھرا میں مندر کی زمین خرید ی اور کرشن جنم بھومی ٹرسٹ بناکر زمین ٹرسٹ کو سونپ دی۔ 1968 میں ٹرسٹ اور عید گاہ کمیٹی نے ایک سمجھوتہ کیا کہ تقریبا 13.37ایکڑ زمین جس پر عیدگاہ اور مسجد بنی ہوئی ہے، عیدگاہ کمیٹی کے زیر انتظام رہے گی۔ اس سے متصل زمین پرجہاں کبھی بدحال کیشو ناتھ مندر تھا وہاں اب شاندار شری کرشن جنم بھومی مندر موجود ہے، لیکن شرپسندوں کی نظریں شاہی عیدگاہ پر لگی ہوئی ہیں اور وہ اسے ہڑپنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد جب بعض انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کاشی اور متھرا کا سوال اٹھایا تھا تو اس وقت آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ کاشی اور متھرا ان کے ایجنڈے میں نہیں ہیں۔لیکن اب جس انداز میں متھرا کی شاہی عید گاہ کے خلاف کیس دائر کیا گیا ہے اور عدالت نے اس کو منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کئے ہیں، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار اپنا کھیل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ملک کے وسیع تر مفاد میں اس خطرناک کھیل پر روک لگانا بے حد ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *