ایک دیش ایک الیکشن کی قواعد 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ایک دیش ایک الیکشن کے موضوع کو الیکشن اور قانون کمیشن نے شدید مخالفت کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا، مگروزیراعظم نے اس پر دوبارہ بحث شروع کردی ہے۔ یوم آئین کے موقع پر انہوں نے گجرات میں منعقد پریزائڈنگ آفیسرز کانفرنس سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے اسے زورو شور سے اٹھایا۔ ون نیشن ون الیکشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ محض گفتگو کا موضوع نہیں ہے بلکہ بھارت کو اس کی ضرورت ہے۔ ایک دیش ایک الیکشن پر گہرا مطالعہ اور غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ یہ ملک کےلئے کیوں ضروری ہے، اسے ثابت کرنے کےلئے مودی جی نے معقول وجہ تو نہیں بتائی۔ البتہ گھسی پٹی دلیل کا سہارا لیا کہ ملک میں ہر وقت کہیں نہ کہیں انتخاب ہوتے رہتے ہیں، اس سے ترقی کے کام متاثر ہوتے ہیں۔ افرادی قوت اور کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔ سرکاری گھاٹا بڑھ جاتا ہے۔ ہر ریاست کو بلدیاتی اداروں، پنچایت، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات سے پانچ سال میں گزرنا پڑتا ہے۔ عوام کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جمہوریت کی ایک قیمت ہوتی ہے لیکن کتنی ہو یہ ضرور طے کیا جانا چاہئے۔
بلاشبہ پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہونے سے کئی طرح کی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ الگ الگ الیکشن ہونے سے ترقی کے کام متاثر ہوتے ہیں،یہ پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ ملک میں ترقی کا مطلب انفراسٹرکچر(سڑک، بجلی، ڈرینج وغیرہ) میں بہتری کو مانا جاتا ہے۔ جبکہ اصل ترقی زندگی کے معیار کی بلندی سے ماپی جاتی ہے۔ مثلاً فی شخص آمدنی کتنی ہے، معیاری تعلیم کا کیا انتظام ہے۔ صحت کی سہولیات، پینے کے صاف پانی اور اچھی غذا کی دستیابی کا کیا نظام ہے۔ کیا ہر شخص کی ان تک آسانی سے رسائی ہے وغیرہ۔ بھارت میں اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ عوام کو اس بارے میں سوچنے اور آواز اٹھانے سے روکنے کےلئے انہیں ذات، مذہب، علاقہ اور فروعی مسائل میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ ایک دیش ایک ٹیکس، ایک دیش ایک الیکشن بھی اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔
ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے انتخابات 1967 تک ایک ساتھ ہوتے تھے۔ آئین بنانے والوں نے بھی لوک سبھا اور ودھان سبھاو ¿ں کے الیکشن ایک ساتھ کرانے کا انتظام کیا تھا، مگر 1967 کے بعد ملک کی سیاست نے کروٹ لی اور رام منوہر لوہیا کے غیر کانگریس واد کے نعرے پر کئی ریاستوں میں غیر کانگریسی حکومتیں بن گئیں، جو مختلف وجوہات سے اپنی میقات پوری نہیں کر پائیں۔ ان کے انتخابات 68-1969 میں کرائے گئے۔ اسی طرح 1971 میں پارلیمنٹ کا انتخاب وقت سے پہلے کرایا گیا۔ 80-1981 میں جنتاپارٹی کو اسی کی زبان میں جواب دیئے جانے اور 96-1999 کے درمیان تین پارلیمانی چناو ¿ ہونے کی وجہ سے انتخابات کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔ البتہ بار بار انتخابات نے صوبائی سیاسی جماعتوں کو طاقتور بنا دیا۔ ایک ساتھ انتخابات کرانے کےلئے انتخابی کمیشن نے 1983 میں پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی تھی۔ 1999 میں وزارت قانون نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں بھی اس طرح کی تجویز پر زور دیا تھا۔ ایک ساتھ الیکشن کرانے کےلئے آئین کی دفعہ 172،85،83 اور 174 میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ دفعہ 83 لوک سبھا اور دفعہ 172 اسمبلی کی میقات پانچ سال مقرر کرتی ہے۔
مگر موجودہ مرکزی حکومت کی نیت اور حزب اختلاف کے تئیں اس کے رویہ کی وجہ سے اتفاق رائے بننا آسان نہیں ہے۔ ایک طرف اس کے قول و فعل میں تضاد نے اس کا بھروسہ کم کیا ہے۔ دوسری طرف اجارہ داری کی خواہش نے اس کے اپنے ساتھیوں کو بھی اس سے دور کر دیا ہے۔ صوبائی پارٹیوں کے دم پر آگے بڑھنے والی بی جے پی انہیں کو ختم کرنے کے در پر ہے۔ کیوں کہ صوبائی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے اسے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ ایک دیش ایک الیکشن اس کے اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نے اسے بڑھا کر اس کے ساتھ ایک ووٹر لسٹ کو جوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوک سبھا ہو، اسمبلی ہو یا پنچایت کا الیکشن، اس کےلئے ایک ہی ووٹر لسٹ کام میں آئے۔ ایک نظر میں ان کا یہ قول جائز لگ سکتا ہے کہ ہر الیکشن کے الگ الگ ووٹر لسٹ پر خرچ کیوں کیا جائے؟ لیکن یہ غور طلب ہے کہ ووٹر لسٹ کے بہانے انہوں نے’ایک‘ کے نعرے کو لوک سبھا سے پنچایت تک پھیلا دیا ہے۔ لوک سبھا سے پنچایت تک کے انتخابات ایک جھٹکے میں کرانے کی منشاءحکومت کرنے والوں کو عوام کی خوشی نا خوشی سے پانچ سال کےلئے چھٹی دلانے کی ہی تو نہیں ہے۔
اس طرح کا انتخابی نظام عوام کی رائے کے معیار کو اتنا کم کر دے گا کہ جمہوریت کا صرف خول رہ جائے گا۔ مثال کے طور پر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ انہیں ریاستوں میں لوک سبھا کے مقابلے میں خراب اور کافی خراب رہا ہے۔ بہار میں تو این ڈی اے ہار سے بال بال بچا ہے۔ مودی جی کے ایک چناو ¿ کے تصور میں کیا عوام کو ایسی رائے دہندگی کا موقع ملتا؟ کوئی بھی پارٹی وعدوں، نعروں، جھوٹے پروپیگنڈے اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کر اپنے حق میں ماحول بنا کر ایک ہی ساتھ پارلیمنٹ اور اسمبلی پر قبضہ کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ہر سطح پر، ہر سیٹ پر کسی امیدوار کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ ہمارے جیسے تکثیری ملک اور سماج میں عوامی رائے کی سب سے کم آزادی کا ہی ووٹ ہوگا۔ البتہ اس سے اجارہ دار حکومت اور حکمرانوں کے لئے انتخابی سر دردی کافی کم ہو جائے گی۔
بی جے پی، سنگھ کی یہ مہم جمہوریت اور عوام کی خوشی نا خوشی سے حکومت کو آزادی دلانے سے بھی بہت آگے تک جاتی ہے۔ وہ شہریوں کی حیثیت، شہریوں اور حکومت کے رشتوں کے توازن میں بنیادی بدلاو ¿ کرنا چاہتی ہے۔ بھاجپا اور سنگھ کے ذریعہ شہریوں کی ذمہ داریوں پر دیا جا رہا زور اسی کھیل کا حصہ ہے۔ ان کا نریٹو یہ ہے کہ ابھی تک حقوق پر غیر مناسب طور پر زیادہ زور دیا جاتا رہا جو ساری جدوجہد کی جڑ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمارے آئین میں کئی خاص خوبیاں ہیں پر ایک بہت ہی خاص خوبی ہے اس میں حقوق کو دی گئی اہمیت ہے‘۔ مہاتما گاندھی کے نام کی دہائی دے کر انہوں نے کہا کہ ’سب اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں تو حقوق اپنے آپ محفوظ ہو جائیں گے‘۔ دراصل ذمہ داریوں کے وظیفہ کی آڑ میں شہریوں کے حقوق اور ان کے تئیں ریاست کی ذمہ داریوں کو پوری طرح آنکھوں سے اوجھل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ جمہوریت کے اصول اور ریاست کے ساتھ سوشل معاہدہ کا انکار ہے۔ یہ آمریت کی بنیاد ہے جس میں حکومت کے حقوق ہوتے ہیں اور عوام کی صرف ذمہ داریاں۔
عام لوگ آئین میں دیئے گئے اپنے حقوق کے بارے میں جانتے ہیں۔ اسی لئے وہ سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کےلئے احتجاج کرتے ہیں۔ کبھی سرکاری ملازمین تو کبھی بے روزگار نوجوان، کبھی اساتذہ تو کبھی آنگن واڑی کارکنان اپنے حقوق کےلئے سڑکوں پر اترتے ہیں۔ اس وقت ہزاروں کسان، مزدور اپنے مسائل کو لے کر دہلی کی سرحدوں پر گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ملک کی دوسری ریاستوں کے کسانوں کے جڑنے سے یہ آندولن اور بڑا ہو گیا ہے۔ آگے بھی لوگ اپنے حق کےلئے لڑیں گے اور جیتیں گے بھی۔ مگر بی جے پی اور سنگھ اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ایک دیش ایک الیکشن کا مفروضہ عوام کی آواز کو دبانے کےلئے ہی گڑھا جا رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *