۲۰۲۰ کا سال کیا کھویا کیا پایا!

نقی احمد ندوی
نقی احمد ندوی

ْْْْنقی احمد ندوی ، ریاض ، سعودی عرب
سال کے اخیر میں اپنا محاسبہ اور اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ کسی بھی شخص، جماعت یا تنظیم کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۲۰ کا جائزہ لے لیا جائے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں نے کیا کھویا اورکیا پایا ۔ سال کی شروعات سی اے اے اور این ار سی کے پرشور مظاہروں اور احتجاجوں سے ہوئی، گرچہ ملک میں خواتین اور نوجوان کڑاکے کی سردی میں بھی اپنے ملک وملت کی خاطر سڑکوں پر تھے ، مگر وہیں ہندوستان کی تمام مسلم تنظیموں کے بیشتریاد ریکھے تمام نہیں بلکہ بیشتر سربراہران ، اور خاص طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کہیں نظر نہیں آئے ، البتہ ان کی طرف سے گاہے بہ گاہے بیانات ضرور جاری کئے گئے ، اردو اخبارات میں چھپے ان کے بیانات سے امید تھی کہ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ آجائیگا، مگر ایسا نہ ہوا، اور اچھا ہوا کہ کچھ نہ ہوا اگر ان کے کسی بیان سے کسی ایوان کے چھوٹے سے ستون میں بھی جنبش آجاتی تو ایک الگ ہی کیس بن جاتا ۔ مگر انھوں نے اپنا کام کردیا تھا، اب اثر دینا نہ دینا تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے انسان تو بس صرف کرگزرنے کا ذمہ دار ہے، قوم کو بتایا گیا کہ اپنی قیادت نے سرگرمی اس لیے نہیں دکھائی کہ معاملہ کمیونل ہوجایگا، مگر ان کی عدم شرکت کے باوجود کمیونل ہی رہا ۔ تقریبا سو نوجوان شہید ہوے اور سیکڑوں گرفتا ر ہوے ، دلی فساد کا انعقاد ہو ا ، جتنا بھیانک فساد تھا اس سے زیادہ بھیانک گرفتاری کا وہ عمل تھا جو تھمتا نظر نہیں آرہا تھا ، جو تھے وہ بھی اندر ہوے جو نہیں تھے وہ بھی اندر ہوے بس کوی اندر نہیں ہوا تھا تو قومی سطح کا مسلم قاید اور لیڈر ، مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منایے گی، کبھی نہ کبھی انکی بھی باری آیگی ۔ کرونا آگیا اور ایک خاموشی پورے ملک پرچھاگئی ، مگر اس خاموشی کے درمیان بھی کئی نامور نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ، احتجاج ختم ہوگیا، دلی کے الکشن میں اس سے سیاسی پارٹیوں کو جتنا فایدہ اٹھانا تھا اسکی کوشش میں ساری پارٹیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی رہیں۔
کرونا آیا او ر تبلیغی جماعت کے لیے ایک نیا تحفہ ساتھ لایا ، کرونا کے پھیلانے کے نام پر تبلیغی جماعت کے لوگوں پر میڈیا ٹرایل ہوا ، ملک کے اہم اشوز سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اس کا بھرپور استعمال ہوا ، بہت سے تبلیغی بھائی گرفتار ہوے اور مولانا سعد صاحب پر کیس بھی درج ہوا، کسی اور جماعت اور مسلک والوں نے شکر ہے کہ خوشیاں نہ منایں، پٹاخے نہیں پھوڑے مگر ساتھ بھی نہیں دیا اور دیتے بھی تو کیسے ؟ تبلیغی جماعت نے بھی تو کبھی کسی اشو پر کسی کا ساتھ اس لیے نہیں دیا تھا کہ انکے دایرہ کار میں نہیں آتا ۔ تبلیغی جماعت کا سیاست سے کیا لینا دینا؟ مگر سیاست کے پہیہ میں پھنستی اور پستی اس جماعت کو پتہ چل گیا کہ سیاست بھی کوی چیز ہے ۔ دوسرے مسلک ومذہب والوں نے کوی آواز نہ اٹھای کیونکہ یہ ایک خاص جماعت کا معاملہ تھا ۔ اور کسی دوسرے مسلک اور جماعت والوں کے اندرونی معاملہ میں مداخلت بے جا مداخلت سمجھی جائیگی جس کی اجازت نہ تو شریعت دیتی ہے اور نہ قانون۔
سال ختم ہوتے ہوتے بہار کا الکشن ہوا، گذشتہ ستر سالوں کی طرح اس سال بھی مسلم قوم یہ فیصلہ نہ کرسکی کہ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیاجاے یا مسلم پارٹیوں کو، قیادت کی طرف سے بھی کوی پیغام نہیں آیا کیونکہ ان کے نذدیک سیاست مذہب کا حصہ نہیں ، حالانکہ سیاست نے پورے سال مذہب کو چاروں طرف سے گھیرے رکھا۔ جب بہار کے الکشن میںایک خاص پارٹی کے پرانے نعرے کمزور پڑنے لگے اور الکشن کے بعد جایزہ لیا گیا تو محسوس ہوا کہ اب ہندو مسلم جھگڑے کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑیگا چنانچہ لو جہاد کی سیٹی بجای گئی ، ابھی کئی الکشن ہونے والے ہیں اس لیے یوپی سمیت کئی صوبوں میں قانون لایا گیا، غور کرنے کی بات یہ ہیکہ جو صوبے زیادہ بیک وارڈ اور پچھڑے ہوے ہیں وہیں یہ نعرے زیادہ کام کرتے ہیں ، مگر اسی دوران فارم بل کے خلاف کسانوں نے مورچہ کھول دیا، گرچہ بعض سکھوں نے مسلمانوں کے احتجاج میں خوب ساتھ دیا تھا ، تو یہ امید کی جارہی تھی کہ مسلم بھی بڑی تعداد میں ان کا ساتھ دیں گے حالانکہ یہ سکھوں کا اشو نہیں تھا بلکہ پورے بھارت کے لوگوں کا اشو تھا مگر صرف اس لیے مسلم قیادت سامنے نہیں آئی کہ یہ معاملہ بھی کمیونل ہوجایگا، حالانکہ ان کی عدم شرکت کے باوجود یہ اشو بھی کمیونل ہوگیا ۔ ہماری مسلم قیادت ہمیشہ یہ کوشش کرتی رہی ہے کہ کوئی اشو کمیونل نہ ہوجاے اور اگر کمیونل ہوجاتا ہے تو اس میں انکا کوئی قصور نہیں ، کیونکہ انھوں نے کوئی رول نہ ادا کرکے اپنا رول تو ادا کردیا تھا ، یہ تو آپ کے اوپر منحصر ہے کہ آپ انکو کیسے دیکھتے ہیں ۔ یہ فارم بل صرف سکھ لوگوں کا مسئلہ نہیں تھا ، اس بل کے نفاذ کا اثر ہر آدمی پر پڑیگا جس میں سبھی کو آگے آنے کی ضرورت تھی مگر مسلم قوم اور انکے رہنماوں کا یہ ہمیشہ شیوہ رہا ہے کہ وہ صرف اپنے مسایل پر آنسو بہاتے ہیںاور کسی بھی ملکی اور قومی اشو پر بولنا اور کچھ حرکت کرنا تہذیب وتمدن کے خلاف سمجھتے ہیں ہاں یہ ضرور امید کرتے ہیں کہ ان کے مسایٰل میں دوسری ساری قومیں ضرور ساتھ دیں۔
یوں تو کرونا نے ڈھیر سارا پانی سی اے اے اور این ار سی کے مظاہروں اور احتجاج کی بھڑکتی ہوئی آگ پر ڈال دیا تھا جس سے وہ ٹھنڈا بھی ہوگیا تھا مگر راکھ کے اندر چنگاری ابھی بھی باقی تھی جسکو بنگال کے الکشن نے ہوا دیدی ، اعلان کیا گیا کہ کرونا ختم ہوتے ہی یہ قانون نافذہونے لگے گا، مگر این ار سی کی بات نہیں کہی گئی ۔
سال کے بارہ مہینے گزر گئے ، مگر اس پورے سال میں کہیں سے کوئی نیوز غلطی سے بھی نہیں آئی کہ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم رہنماوں نے ملک میں مسلمانوں کے حالات کا جایزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ میٹینگ بلائی ہے اور اس میںکوئی تجاویز پاس ہوئی ہیں ۔ یہ ایک طویل وقفہ جو جنوری سے دسمبر تک ملا تھا تقریبا ایک سال کا عرصہ کسی بھی پلان، منصوبہ اور لایحہ عمل کے لیے کم نہ تھا، قوم کو امید تھی کہ اب تو ضرور مسلک اور جماعت کو نظر انداز کرکے ہمارے سارے رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور خاص طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ جو واقعی ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے اس کے ذمہ داران کوی نہ کوی لایحہ عمل تیار کریں گے کہ اگر این آر سی پورے ملک میں کرائی جاتی ہے تو اس کے خطرات سے کیسے نمٹا جائیگا ۔ اگر کبھی جمہوری نظام کو خطرہ لاحق ہوا تو اپنے دیش اور ملک کو بچانے کی کیا اسٹریٹیجی ہوگی ۔ مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داران کی طرف سے کہا گیا کہ سی اے اے اور این آر سی جیسے مسایل پرسنل لاء کے دایرہ کار میںہی نہیں آتے ، اس بورڈ کی تشکیل تو پرسنل لاء کی حفاظت کے لیے ہوی تھی ۔مگر عوام تو عوام ہے ِ عوام بیوقوف ہوتی ہے ، ان کو کون سمجھائے کہ عایلی قوانین مسلمانوں کے وجود وبقاء سے زیادہ اہم ہیں، اگر ہمارے عایلی قوانین باقی رہے تو دین باقی رہے گا، اور دین کی حفاظت مسلمانوں کی حفاظت سے زیاوہ اہم ہے ۔
یہ بات یاد رکھیں کہ قوم کوی بھی ہو ، ملک کوی بھی ہو ، اور حکومت کوی بھی ہو، جب مصیبت آتی ہے تو رہنماوں ، نیتاوں اور امیروں پر نہیں ، بلکہ سماج کے غریب لوگوں پر آتی ہے ، فارم بل کا مسئلہ ہو یا سی اے اے اور این ار سی کا ان دونوں کے اثرات غریب عوام پر ہی زیادہ پڑیں گے اور جہاں تک بڑی بڑی تنظیموں اور بورڈ کے ذمہ داران کا مسئلہ ہے تو ان پر یا تو کوی اثر نہیں پڑیگا یا بہت ہی کم پڑیگا ۔ لہذا ان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ آبیل مجھے مار کہیں ۔ وہ کیوں اپنے لیے کوئی مصیبت مول لیں ۔ انکی بھی بات بھلی معلوم ہوتی ہے ، جب اپنی زندگی ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے تو ہم کیوں خود ہی پریشانی مول لیں ۔ پروبلم آپ کا ہے کہ آپ نے ان سے کچھ زیادہ ہی امیدیں باندھ رکھی ہیں ، آج کے نیتاوں کونہرو ، گاندھی اور پٹیل سمجھ رکھا ہے اور اپنے علماء کو حسرت موہانی، آزاد اور محمد علی جوہر کا جانشین مان لیا ہے ۔ وہ تھے پرانے لوگ ، فرسودہ خیالات کے حامی اور پرانی سوچ کے حامل جو اپنی جان مال اور اہل وعیال پر اپنے ملک اور قوم کو ترجیح دیتے تھے، اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے لیے جیل کی ہوا کھاتے تھے اور انگریزوں کے ڈنڈے کھاکر بھی اپنے کام سے باز نہیں آتے تھے اب ویسے بے وقوف لوگ اس نیے زمانہ میں تو نہیں ملیں گے تو غلطی انکی نہیں بلکہ امید لگانے والوں کی ہے ۔
سال گزر گیا ، موت کا خوف چاروں طرف منڈلاتا رہا مگر اس کروناکے خوف کے سایہ میں بھی ایک اور خوف ایک قوم کے دل میں پنپتا رہا ، وہ خوف جس نے انکو شاہین باغ پورے ملک میں قایم کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔ خوف بہت ہی بھیانک چیز ہوتی ہے ۔ حادثہ بری چیز نہیں ہے ، موت ڈراونی نہیں ہوتی ، مگر خو ف اگر پیدا کردیا جاے تووہ خوف بہت دردناک اور خوفناک ہوتا ہے جو نہ جنیے دیتا ہے اور نہ مرنے ۔ مگر اسی خوف کے بھیانک سایہ میں جو امید کی کرنیں نظر آئیں وہ تھیں ہماری نئی نسل اور ہمارے نوجوانوں کے حوصلے اور ولولے ، جن میں ہندو بھی تھے اور مسلم بھی سکھ بھی اور عیسائی بھی، جو کبھی جے این یو کی چہاردیواری میں نظر آیے تو کبھی جامعہ کے ہاسٹل میں ، کبھی علی گڈھ کے احاطہ میں تو کبھی ممبی کے آی آی ٹی کالج میں ، کبھی کسی شہر کی سڑکوں پر تو کبھی کسی گاوں کے چوراہے پر ، کبھی رات کی تاریکی میں تو کبھی دن کی روشنی میں جو اپنے ملک ، دیش اور آیین کے لیے اپنی جان کی بازی لگاتے نظر آیے ۔ جنہوں نے اپنی تمام تر تنگ دامانیوں کے باوجود کچھ کرنے کی کوشش کی، پولس کی لاٹھیا ں کھائیں ، گولیاں کھایں، جیل میں گئیے اور وہ سب کچھ کیا جو اپنے ملک کے لیے کوئی کرسکتا ہے ۔اور سچ تو یہ ہے کہ آپ جیسے نوجوانوں نے جو کچھ کردکھایا ، اس کے لیے پورا ملک آپ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے ، ہم میں بیشتر لوگ نہیں جانتے کہ آپ نے کتنی لاٹھیا ںکھائیں ، کتنی پریشانیا ں اٹھائیں اور آپ کون ہیں؟ مگر ہم اپنے پورے ملک کی طرف سے آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور آپ کو سلام کرتے ہیں اور جوکچھ بھی اس ملک کو امیدیں ہیں وہ آپ ہی جیسے نوجوانوں سے ہیں ۔ آپ ناتجربہ کار تھے مگر آپ کی ہمت قابل ستایش تھی ، آپ بے یار ومددگار تھے مگر آپ کا جذبہ قابل تحسین تھا ۔بلاشبہ آپ ہی جیسے نوجوان ہمارے ملک کے مستقبل ہیں اور کون ایسا شخص ہے جو اپنا مستقبل تابناک ، منور اور روشن نہیں چاہے گا، تو آیے اسی جوش وجذبہ کے ساتھ اس نیے سال کا استقبال کرتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرنے کا عزم کرتے ہیں ، نیا سال مبارک ، نیا عزم وحوصلہ مبارک !
پیٹوگے کب تلک سر رہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کر نکل گیا
اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کمان سے نکل گیا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *