كاغذی دولت كا انجام خطرناك هے

كاغذی نوٹ اب اپنی قیمت كھوتے جا رهے هیں ،سونے اور چاندی كے سكوں كی جگه آخر ان نوٹوں نے كیسے لے لی پیش هے تجزیاتی رپورٹ

زر یا سکہ یا کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی، کاغذی سکہ یا زر کاغذ کہلاتی ہے۔ ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سکے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔

“ریزرو بینك آف انڈیا مركزی حكومت كی توثیق سے ایک ہزار روپیہ حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کرنے كا یقین دلاتا هے”۔هندوستان کے ہزار روپیہ کے بینك نوٹ پر لکھے اس ادائیگی کے وعدے کا مطلب کیا ہے؟ بڑے نوٹ کے بدلے چھوٹے چھوٹے نوٹ تو كوئی بھی دوکاندار دے سکتا ہے پھر اس کے لیےسرکاری بینك کی ہی کیا ضرورت ہے؟

ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر کر کے جب مئی 1275 میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام .مارکو پولو لکھتا ہے “آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائی خان( کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی سکہ جاپان میں استعمال ہوا ۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔کاغذی سکّہ موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ جولائی 2006 کے ایک میگزین وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا ادارہ “فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔1927 میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ ا سٹیمپ ( جو انگلینڈ کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ”جدید بینکنگ نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔ بنجمن ڈی اسرائیلی (جو انگلستان کا واحد یہودی وزیر اعظم تھا) نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کےعوام بینکنگ اور مالیاتی سسٹم کےبارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔Mayer Amschel Rothschild نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پرواہ نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔

بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام) شامل ہیں۔               حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکہ اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایا سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سپرم وھیل کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سكتی تھی یا خون بہا ادا کیا جا سکتا تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ سونا بادشاہوں کی کرنسی رہا ہے۔چاندی امرا اور شرفا کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔چیز کے بدلے چیز کا نظام یعنی بارٹر سسٹم کسانوں اور مزدوروں کی کرنسی تھا اورقرض غلاموں کی کرنسی ہوا کرتا تھا۔دراصل سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعہ کی جانے والی لین دین بارٹر نظام ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے۔ کاغذی سکے سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آیندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی صرف قرض ادا کرنے کے وعدے تک محدود ہوتی ہے۔

سکّوں کی تاریخ

 آٹھویں صدی عیسوی سے قبل جاپان میں تیر کے سر، چاول اور سونے کا چورا رقم کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

 600 سال قبل از مسیح استعمال ہونے والے سکے

. 300 سال قبل از مسیح کا سکندر اعظم کا سونے کا سکہ

 قدیم روم میں استعمال ہونے والا چاندی کا سکہ جو دیناریس کہلاتا تھا

 سن 1540-1545 میں شیر شاہ سوری کا جاری کردہ سب سے پہلا روپیہ جو تقریباً ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا اور تانبے کے بنے 40 پیسوں کے برابر تھا

 1565-1575شہنشاہ اکبر کا جاری کردہ روپیہ جو ایک تولہ چاندی کا بنا ہوا تھا

 1739چاندی کا بنا ہسپانوی ڈالر

 فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محمد شاہ رنگیلے (1719-1748) کے نام پر چاندی کا روپیہ جاری کیا تا کہ شمالی ہندوستان میں تجارت کر سکیں۔ یہ پانڈے چری میں ڈھالہ جاتا تھا۔ہیروڈوٹس کے مطابق ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔

تاریخی حقائق

•             قدیم چین کے سکے گول ہوتے تھے جن میں چوکور سراخ ہوتا تھا جس کی مدد سے یہ ڈوری میں پروئے جا سکتے تھے۔       ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح برطانوی پائونڈ سے مراد ایک پاونڈ وزن کی چاندی ہوا کرتی تھی۔اٹھارویں صدی میں اسپینی ڈالر یورپ امریکہ اور مشرق بعید میں تجارت کے لیئے بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ چاندی کا سکہ تھا جس میں 25.56 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ اسی کی طرز پر بعد میں امریکی ڈالر بنایا گیا تھا۔پہلا امریکی ڈالر 1794 میں بنایا گیا جس میں% 89.25 چاندی اور 10%.75 تانبہ ہوتا تھا۔امریکہ کے 1792 کے سکوں سے متعلق قانون کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے سکے میں 24.1 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ 1792 سے 1873 تک سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا ہوتا تھا۔ جیسے جیسے چاندی کی نئی کانیں دریافت ہوتی چلی گئیں چاندی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اب سونا چاندی سے 50 گنا سے زیادہ مہنگا ہے۔سن 1900 میں امریکہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ ایکٹ پاس ہوا جس پر صدر ولیم میک کنلے کے دستخط تھے۔ اس قانون کے تحت صرف سونا کرنسی قرار پایا اور چاندی سے سونے کا تبادلہ روک دیا گیا کیونکہ چاندی کی قیمتیں گر رہی تھیں اور چاندی کی دستیابی بڑھنے کی وجہ سے بڑے بنکوں کی اس پر اجارہ داری برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس قانون کے مطابق 20.67 ڈالر ایک ٹرائے اونس (31.1 گرام) سونے کے برابر قرار پائے۔ 25 اپریل 1933 کو امریکہ اور کینیڈا نے معیار سونا ترک کر دیا کیونکہ اس سال امریکہ میں عوام پہ سونا رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔پہلے سکے اپنی اصل مالیت کے ہوا کرتے تھے یعنی ان میں جتنے کی دھات ہوتی تھی اتنی ہی قدر ان پر لکھی ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سکے جاری کرنے والی حکومتیں کم قیمت کی دھات پر زیادہ قدر لکھنے لگیں۔ آجکل سکوں پر لکھی ہوئی قدر ان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔اگر کسی وجہ سے سکوں پر لکھی ہوئی رقم دھات کی مالیت سے کم ہو جائے تو لوگ سکے پگھلا کر استعمال کی دوسری دھاتی چیزیں بنا لیتے ہیں۔

سکّے

 چاندی کا بنا پہلا امریکی ڈالر۔ اس میں دو تولے سے تھوڑی زیادہ خالص چاندی ہوتی تھی

 1841 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ گولڈ مہر۔ اس پر فارسی میں ایک اشرفی لکھا ہے۔ پہلا سونے کا مہر سکہ شیر شاہ سوری نے جاری کیا تھا جسکا وزن 10.95 گرام تھا اور یہ چاندی کے 15 روپے کے برابر تھا۔

ملکہ وکٹوریہ کی تصویر والا برطانوی عہد کا ہندوستانی چاندی کا روپیہ۔ 1862

 1915 half sovereign: reverse آدھے پاونڈ یعنی 10 شلنگ کا برطانیہ کا سکّہ جس میں 3.6575 گرام خالص سونا ہوتا تھا۔ یہ 1817 سے 1937 تک کئی ملکوں میں استعمال ہوتا رہا۔

 ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ ایک روپیہ کا سکہ، 1835،پچھلا رخ۔

 ریاست بہاولپور (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) کا سونے سے بنا ایک روپیہ جس پر صادق محمد خان (1907-1947) کا نام درج ہے۔ ریاست بہاولپور میں چاندی کا روپیہ بھی استعمال ہوتا تھا۔

 1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ یہ ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا۔

 1918 کا بنا ہوا برطانوی عہد کا ہندوستانی روپیہ۔ پچھلا رخ۔

 پاکستان کا پہلا دھاتی روپیہ۔ یہ اگرچہ چاندی کا روپیہ کہلاتا تھا مگر یہ نکل کا بنا ہوا تھا اور مقناطیس پر چپکتا تھا۔ اسی روپیہ کی ادائیگی کا جھوٹا وعدہ آج بھی پاکستان کی کاغذی کرنسی پر لکھا ہوتا ہے اور اس وعدے کو کبھی پورا نہیں ہونا۔

ہزاروں سال پہلے جو رقم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مگر ایسی چیزوں کو رقم کے طور پر استعمال کرنے میں یہ خرابی تھی کہ انہیں عرصے تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لیئے دھاتوں کا رقم کے طور پر استعمال شروع ہوا جو لمبے عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی تھیں۔ سونے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ موسمی حالات سے خراب نہیں ہوتا ( جیسے زنگ لگنا ) اور یہ کمیاب بھی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسے دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیئے چنا گیا۔کرنسی بننے کے لیئے ایسی چیز موزوں ہوتی ہے جو پائیدار ہو، کمیاب ہو، اور ضخیم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کچھ صدیوں میں سونے چاندی تانبے کانسی وغیرہ کے سکے استعمال ہوتے رہے۔ دھاتوں کی اپنی قیمت ہوتی ہے اور ایسے سکے کو پگھلا کر دھات دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے سکے کسی حکومتی یا ادارتی سرپرستی کے محتاج نہیں ہوتے اور یہ زرِ کثیف یعنی ہارڈ کرنسی کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومتی سرپرستی کی وجہ سے وہ قدر رکھتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔ یہ زرِ فرمان یعنی fiat کرنسی کہلاتی ہے اور جیسے ہی حکومتی سرپرستی ختم ہوتی ہے یہ کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں پاکستانی کرنسی رائج تھی جو اپنی قدر کھو چکی تھی۔ اسی طرح صدام حسین کے ہاتھوں سقوط کوِیت کے بعد کویتی دینار کی قدر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کاغذی کرنسی کے پیچھے ایک فوجی طاقت کتنی ضروری ہے۔

•             آج بھی هندوستان کا کاغذی روپیہ نیپال اور بھوٹان میں چلتا ہے کیونکہ نیپال اور بھوٹان کے مقابلے میں هندوستان کہیں زیادہ بڑا اور مستحکم ملک ہے اور اس وجہ سے اسکی کرنسی زیادہ اعتبار رکھتی ہے۔ مضبوط فوجی طاقت کاغذی کرنسی کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی کرنسی هندوستان میں نہیں چلتی۔

•             1791 سے 1857 تک اسپین کا سکہ متحدہ امریکہ میں قانونی سکے کے طور پر چلتا تھا کیونکہ یہ چاندی کا بنا ہوا تھا اور اپنی قدر خود رکھتا تھا۔

•             1959 تک دبئی اور قطر کی سرکاری کرنسی ہندوستانی روپیہ تھی جو چاندی کا ہوا کرتا تھا۔

عالمی کرنسی کی تاریخ

•             1450 سے 1530 تک عالمی تجارت پہ پرتگال کا سکہ چھایا رہا۔

•             1530 سے 1640 تک عالمی تجارت پہ اسپین کا سکہ حاوی رہا۔

  • •             1640 سے 1720 تک عالمی تجارت ولندیزی (ڈچ) سکے کے زیر اثر رہی۔

•             1720 سے 1815 تک فرانس کے سکے کی حکومت رہی۔

•             1815 سے 1920 تک برطانوی پاونڈ حکمرانی کرتا رہا۔

•             1920 سے اب تک امریکی ڈالر نے راج کیا لیکن اب اسکی مقبولیت تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔ ماضی کی کرنسیوں کے برخلاف یہ چاندی کی نہیں بلکہ کاغذی کرنسی ہے اور محض امریکی حکومت پر اعتماد اور اسکی فوجی دھونس پر قائم ہے۔

بنک نوٹ

 مردے کی روح کو رقم پہنچانے کے لیئے چین میں تدفین کے موقع پر ایسے نوٹ جلائے جاتے ہیں۔ اس نوٹ کی مالیت اگرچہ ایک ارب ڈالر ہے مگر یہ بہت سستا ملتا ہے۔

دسمبر 1930۔ اپنے پیسے واپس لینے کے لیئے بنک آف یونائٹڈ اسٹیٹ کے باہر مجمع لگا ہے۔

سکوں کے نظام سے دنیا کا روزمرہ کا کاروبار نہایت کامیابی سے چل رہا تھا مگر اس میں یہ خرابی تھی کہ بہت زیادہ مقدار میں سکوں کی نقل و حمل مشکل ہو جاتی تھی۔ وزنی اور ضخیم ہونے کی وجہ سے بڑی رقوم چور ڈاکوئوں کی نظر میں آ جاتی تھیں اور سرمایہ داروں کی مشکلات کا سبب بنتی تھیں۔ اس كاقابل قبول حل یہ نکالا گیا کہ سکوں کی شکل میں یہ رقم کسی ایسے قابل اعتماد شخص کی تحویل میں دے دی جائے جو قابل بھروسہ بھی ہو اور اس رقم کی حفاظت بھی کر سکے۔ اس شخص سے اس جمع شدہ رقم کی حاصل کردہ رسید کی نقل و حمل آسان بھی ہوتی تھی اور مخفی بھی۔ اگر ایسا شخص بہت ہی معتبر ہوتا تھا تو اسکی جاری کردہ رسید کو علاقے کے بہت سے لوگ سکوں کے عوض قبول کر لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر وہی رسید دکھا کر اس شخص سے اپنے سکے وصول کر لیتے تھے۔ اس طرح رسید کے طور پر کاغذی کرنسی اورمعتبر ادارے کے طور پر بنکوں کا قیام عمل میں آیا۔

شروع شروع میں تو بنک اتنی ہی رسیدیں جاری کرتے رہے جتنی رقوم دھاتی سکوں کی شکل میں ان کے پاس جمع کی جاتی تھیں مگر بعد میں جب لوگوں کا اعتماد ان رسیدوں پر بڑھتا چلا گیا اور بنک سے اپنے سکے طلب کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا گیا تو بنک اپنے پاس جمع شدہ دھات سے زیادہ مالیت کی رسیدیں جاری کرنے لگے جو ان کی اپنی آمدنی بن جاتی تھی۔ اس طرح ماضی میں بنکوں نے خوب خوب لوٹا اور مناسب وقت آنے پر وہ ساری دولت سمیٹ کر منظر عام سے غائب ہو گئے۔ امریکہ کی تاریخ ایسے بنک فراڈوں سے بھری پڑی ہے (11 دسمبر 1930 کو نیویارک کا تیسرا سب سے بڑا بنک، بنک آف یونایٹڈ اسٹیٹ بند ہو گیا۔ اگلے سال ستمبر اکتوبر کے دو مہینوں میں 800 مزید بنک بند ہو گئے۔

اسکی تازہ ترین مثال پہلے تو حکومت امریکہ کا 24 جون 1968 کو سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس کرنے سے انکار کرنا اور پھر اگست 1971 میں 35 ڈالر میں ایک اونس سونا واپس کرنے کے وعدے سے مکرنا تھا۔

“بنک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا”۔ پاکستان کے ہزار روپیہ کے بنک نوٹ پر لکھے اس وعدے کا مطلب یہ تھا کہ اسٹیٹ بنک کاغذ کی اس رسید یا نوٹ کے بدلے چاندی کے 1000 روپے ادا کرے گا۔ چاندی کا روپیہ پاکستان بنتے وقت رائج تھا۔ لیکن اب لوگ بھی چاندی کا روپیہ بھول چکے ہیں اور اسٹیٹ بنک بھی چاندی کے سکے کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا 1948 کا بنا ہوا ایک روپے کا دھاتی سکّہ اگرچہ ماضی کے دھاتی روپے کی طرح چاندی کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر درحقیقت وہ نکل کا بنا ہوا تھا اور وزن میں ایک تولے سے قدرے کم تھا یعنی 11.1 گرام کا تھا۔

لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے لفظ روپا سے ماخوذ ہے جسکے معنی ہیں چاندی۔

افراط زر

زمبابوے میں اتنے زیادہ نوٹ چھاپے گئے کہ سن 2008 میں 100 بیلین ڈالر میں صرف تین انڈے خریدے جا سکتے تھے

کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیئے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسیوں کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیئے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اسکی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔ اگر کوئ کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو IMF کے لیئے اسکی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

پچھلی دھائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیئے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اسقدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔

کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اسکی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔ جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔

1930 تک سونے کی قیمت تقریباً 20 ڈالر فی اونس تھی۔ یہ قیمت پچھلے دیڑھ سو سال سے برقرار تھی۔ اتنے لمبے عرصہ تک قیمت مستقل رہنے کی وجہ یہی تھی کہ ڈالر کاغذی نہیں بلکہ دھاتی تھا۔ قیمتوں کا بڑھنا کاغذی کرنسی کا لازمی جز ہے۔

1717 سے 1945 تک یعنی سوا دو سو سال تک برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت 4.25 پاونڈ فی اونس تھی۔ بریٹن ووڈ کے معاہدے کے بعد برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت ختم کر دی گئی۔ 1927 میں ایک برطانوی پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ ہندوستانی روپے تھی۔

1925 میں ہندوستان میں سونے کی قیمت لگ بھگ 26 روپیہ فی تولہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل یہ 30 روپیہ فی تولہ تھی۔ اس وقت ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ 60 روپے ہوا کرتی تھی۔

مختلف کرنسیوں کے سالانہ افراط زر

سونا ایک غیر اعلانیہ بین الا اقوامی زرِ کثیف ہے۔ اسکی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں ہونے والے افراط زر کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ 18 نومبر 2011 تک سونے کی قیمت میں ہونے والا سالانہ فیصد اضافہ مختلف کرنسیوں میں مندرجہ ذیل ہے۔

سوئس فرانک          جاپانی ین                آسٹریلوی ڈالر         کینیڈین ڈالر             ہندوستانی روپیہ     چینی یوان ¥           یورو€     برطانوی پاونڈ £                امریکی ڈالر $         ‘

5.7%      _             13.3%    22.8%    23.9%    _             6.4%      13.1%    24.7%    2002

7.6%      _             -8.5%     0.6%      14.8%    _             1.7%      9.9%      21.1%    2003

-3.5%     3.7%      1.4%      -2.1%     0.5%      13.6%    -3.1%     -2.4%     5.4%      2004

37.8%    37.6%    28.9%    15.4%    24.2%    21.3%    36.7%    33.0%    20.0%    2005

14.2%    24.4%    12.6%    23.0%    20.8%    18.7%    10.6%    8.3%      23.0%    2006

21.7%    22.9%    18.3%    12.1%    16.5%    23.3%    18.4%    29.2%    30.9%    2007

-0.1%     -14.4%  31.3%    30.1%    28.8%    -2.4%     10.5%    43.2%    5.6%      2008

20.1%    26.8%    -3.0%     5.9%      19.3%    23.6%    20.7%    12.7%    23.4%    2009

15.4%    11.4%    13.3%    21.3%    22.3%    22.8%    37.1%    31.4%    27.1%    2010

19.0%    14.2%    23.2%    25.4%    39.1%    16.8%    19.8%    18.8%    21.3%    2011

13.8%    15.8%    13.1%    15.5%    21.0%    17.2%    15.9%    19.7%    20.3%    اوسط سالانہ اضافہ

                                                                                                                                        تاریخ کے بد ترین افراط زر

اگر کرنسی دھاتی ہو اور سکے اپنی مالیت خود رکھتے ہوں تو افراط زر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دھاتی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس دھات کی اتنی بڑی کان دریافت ہو جائے کہ دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ہو کیونکہ دھاتی کرنسی عالمی قبولیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کے حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھا لیتی ہیں لیکن اپنے عوام کو غریب بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر انفلیشن ٹیکس وصول کرتی ہیں۔

1945-46 میں ہنگری میں اتنی زیادہ کاغذی کرنسی چھاپی گئی کہ ہر چیز کی قیمت اربوں کھربوں پینگو تک جا پہنچی۔ 18 اگست 1946 کو پرانی کرنسی پینگو کی جگہ نئی کرنسی فورنٹ جاری کی گئی۔ ایک فورنٹ 400,000,000,000,000,000,000,000,000,000 پینگو کے برابر تھا (یعنی 400 ارب ارب ارب پینگو کے برابر)۔

15 نومبر 1923 کو جرمنی میں نئی کرنسی رینٹن مارک جاری کی گئی۔ ایک نیا مارک پرانے 1000 ارب مارک کے برابر قرار دیا گیا۔ پرانا مارک پیپیر مارک کہلاتا تھا۔

جرمنی اکتوبر 1923۔ ایک میلین مارک کے نوٹ جس كی سادہ پشت کو عام کاغذ کی طرح لکھنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح ترکی میں نوٹوں پر سے صفر کم کرنے کے لیئے یکم جنوری 2005 کو نیا ٹرکش لیرا جاری کیا گیا۔ ایک نیا ٹرکش لیرا 1,000,000 پرانے ٹرکش لیرا کے برابر مقرر کیا گیا۔

 1946میں ہنگری میں خاکروب جھاڑو لگا کر سڑک کو پرانے نوٹوں سے صاف کر رہا ہے

تاریخ کے بد ترین ماہانہ افراط زر

ملک        کرنسی کا نام           بد ترین مہینہ          ماہوار افراط زر      روزانہ افراط زر     قیمتیں دوگنی ہونے کی مدت

ہنگری

Hungarian pengő

July 1946

4.19 × 1016 %     207.19%               15 گھنٹے

زمبابوے

Zimbabwe dollar

November 2008

7.96 × 1010 %     98.01%  24.7 گھنٹے

یوگوسلاویہ

Yugoslav dinar

January 1994

3.13 × 108 %       64.63%  1.4 دن

جرمنی

German Papiermark

October 1923

29,500%               20.87%  3.7 دن

یونان

Greek drachma

October 1944

13,800%               17.84%  4.3 دن

تائیوان (Republic of China)

Old Taiwan dollar

May 1949

2,178%  10.98%  6.7 دن

سونے چاندی کی قیمت کا اتار چڑھاو

مارکیٹ کی دوسری ساری چیزوں کی طرح سونے چاندی کی قیمت بھی طلب و رسد کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ جب بھی بینکوں اور بچت اسکیموں کی شرح سودمیں کمی آتی ہے تو سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اگر خاطر خواہ منافع کی امید نہ رہے تو لوگ افراط زر کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی جمع پونجی سونے کی شکل میں رکھنا پسند کرتے ہیں جسے صدیوں سے “محفوظ جنت” تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بہت سارے لوگ اپنی کاغذی کرنسی کے بدلے سونا لے لیں گے تو کاغذی کرنسی کی وقعت میں کمی آجائے گی اور سونے کی قیمت چڑھ جائے گی اس لیے بڑے بڑے مرکزی بینک سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انڈریو میگاری نامی ایک سونے کے تاجر نے 29 مارچ 2010 کو ریڈیو پر ایک انٹرویو دیا جو اپریل 2010 کو نشر ہوا۔ اس میں اس نے انکشاف کیا کہ فیڈرل ریزرو کی ہدایت پر کس طرح JP Morgan Chase اور HSBC سونے کی قیمتیں گرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے 3 فروری 2010 کو Andrew Maguire نے Commodity Futures Trading Commission (CFTC) کو بتا دیا تھا کہ چاندی کی قیمت کس طرح تبدیل کی جائے گی اور دو دن بعد بالکل ویسا ہی ہوا۔ جس دن یہ معلوم ہوا کہ یہ راز Andrew Maguire نے افشا کئے ہیں اسکے دوسرے دن یعنی 26 مارچ 2010 کو ایک تیز رفتار کار نے Andrew Maguire اور اسکی بیوی کو ٹکر ماری اور فرار ہو گئی۔ لندن کی پولیس ہیلی کاپٹر سے پیچھا کر کے اس ڈرائیور کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر بعد میں اس کا نام ظاہر کئے بغیر اسے برائے نام سزا دیکر چھوڑ دیا گیا۔ Andrew Maguire کا خیال ہے کہ یہ اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔

بریٹن وڈز کا معاہدہ

اصل مقالہ: بریٹن وڈز کا معاہدہ

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب 1944 میں بریٹن ووڈز، نیو ہیمپشائر، امریکہ کے مقام پر ہونے والی اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی IMF اور ورلڈ بنک وجود میں آئے۔ اس کانفرنس میں 44 ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکہ 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینےکا پابند تھا۔ دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کے حساب سے طے ہوتی تھی۔ اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے چاندی کی بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا یعنی سونے کی بجائے معیار سونا کی آڑ میں “معیار ڈالر” لایا گیا۔

اس کانفرنس کے معاہدے کا مسودہ انگریز ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے بنایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک ہی عالمی کرنسی ہو جو نہ سونے سے منسلک ہو نہ سیاسی دباو کے تحت آئے مگر وہ مندوبین کو اس پر قائل نہ کر سکا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کینیز اپنے آقاوں کے لیئے کام کر رہا تھا۔

دوسرے ممالک اس معاہدے کے بعد اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہو گئے چاہے اس کے لیئے انہیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے۔ اس معاہدے سے امریکہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں آ گیا۔

1971 میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دبائو کا شکار تھی اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اپریل 1971 میں جرمنی نے امریکی دبائو میں آ کر پانچ ارب ڈالر خریدے تا کہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ (اس وقت امریکہ کے پاس صرف دس ارب ڈالر کا سونا تھا)۔ مئی 1971 میں جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناطہ توڑ لیا کیونکہ وہ گرتے ہوے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنےجرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔ اس کے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معیشت میں بہتری آ گئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکہ سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔سویزر لینڈ نے جولائی 1971 میں پانچ کروڑ ڈالر کا سونا امریکہ سے وصول کیا۔ امریکہ نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا مگر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکہ سے سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکہ اور فرانس کے تعلقات خراب ہو گئے جو آج تک بہتر نہ ہو سکے۔ 12 اگست 1971 کو برطانیہ نے بھی 75 کروڑ ڈالر کے سونے کا مطالبہ کر دیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہے ہوں گے۔

15 اگست 1971 کو امریکہ اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا (جسے نکسن دھچکا) کہتے ہیں کیونکہ وہ کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو امریکہ اپنا پورا سونا دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکہ کو ہوا۔

بریٹن ووڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا۔ اس طرح 1971 کے بعد دھاتی کرنسی یا زر کثیف کا دور ختم ہو گیا اور زر فرمان نے مستقل جگہ بنا لی۔

دولت

  امریکی حکومت نے 1933 تک 15 ٹن سونے سے 20 ڈالر کے یہ سکے بنائے مگر جاری نہیں کئے اور انہیں دوبارہ پگھلا کر سونے کی اینٹوں میں تبدیل کر دیا

کیا دولت تخلیق بھی کی جا سکتی ہے؟ اسکا جواب ہے ہاں۔

بلا شبہہ سونا تخلیق نہیں کیا جا سکتا نہ چاندی تانبہ پیتل اور کانسی۔ مگر محنت کر کے اچھی فصل حاصل کی جا سکتی ہے جسے دھاتی کرنسی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کر کے طرزیات میں ترقی کر کے ایسی اشیا بنائی جا سکتی ہیں جو منڈی میں اچھی قیمت دے جائیں۔ محنت کر کے سونے چاندی وغیرہ کی کانوں سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی دولت محنت سے تخلیق ہوتی ہے اور محنت کرنے والے مزدور ہی ہمیشہ سے دولت کے تخلیق کرنے والے رہے تھے کیونکہ ان کی محنت سے ہی خام مال قابل استعمال چیز کی شکل پاتا ہے اور استعمال کی جگہ تک پہنچتا ہے۔ دولت سے جو بھی چیز خریدی جاتی ہے اس پر کوئی محنت کر چکا ہوتا ہے۔ مزدور کےلئے دولت خون پسینے کی کمائی یا خون جگر کی کمائی ہے۔ مگر ڈالر چھاپنے میں کوئی خاص محنت صرف نہیں ہوتی اور چھاپنے والوں کو یہ دولت بغیر محنت کے مل جاتی ہے۔ یعنی ہوا میں سے دولت تخلیق کی جا سکتی ہے۔ محنت کر کے دولت حاصل کرنا دولت کمانا کہلاتا ہے اور یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ مگر بغیر محنت کے دولت تخلیق کرنے کا نا جائز حق مراعت محض چند لوگوں کو حاصل ہے جو بےحد امیر ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ مرکزی بینکوں کے مالکان ہیں۔

 اس مخطط سے ظاہر ہوتا ہے کہ 28 سالوں میں 80 فیصد غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی حقیقی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدنی پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔

اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سالوں میں اٹھارہ سو سالوں تک دنیا کا سب سے امیر ملک ہندوستان رہا ہے اس کے بعد چین کا نمبر آتا تھا۔ ان ممالک میں محنت کرنے کے بھر پور مواقع موجود تھے اور خطیر مقدار میں پیداوار ہوتی تھیں۔ ان ممالک کا تجارتی سامان دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی دھاتی ہوتی تھی۔ کاغذی کرنسی کے نظام نے محنت کرنے والوں کو شرح تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت غریب کر دیا ہے جبکہ کاغذی کرنسی چھاپنے والوں اور اسکے سہارے شرح تبادلہ تظبیط کرنے والے ممالک نہایت ہی امیر ہو گئے ہیں۔

1997 میں ایک سازش کے تحت ملیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گر کر تقریباً آدھی رہ گئی۔ اس پر ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سارے اسلامی ممالک سونے کا دینار خود بنائیں اور آپس کی لین دین کے لئے امریکی ڈالر کی بجائے سونے کا دینار استعمال کریں۔ مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا کہ 2003 کے وسط تک وہ یہ دینار جاری کر دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسی سونے کی کرنسی میں لین دین کا رواج آ گیا تو شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی ثروت کا انحصار ہے۔ اس لئے 2003 میں مہاتیر محمد کو 22 سالہ پرائم منسٹری سے ہٹا کر عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنایا گیا جس نے ملکی سطح پر دینار جاری ہونے رکوا دیئے۔ ملیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کےدینار جاری کئے جن كا وزن 4.25 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔

صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ اس نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ یہ امریکی ڈالر کی مقبولیت پر براہ راست وار تھا۔ اس كایہ ناقابل معافی جرم آخر کار اسے لے ڈوبا۔ لیبیا کے معمر قذافی نے صدام حسین کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور افریقہ میں تجارت کے لئے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا اس لئے اس کا بھی وہی حشر کرنا پڑا۔

2007 سے ایران نے بھی اپنے تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں وصول کرنا بند کر دی ہے اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایران انتقاماً اسرائیل پر حملہ کر دے گا۔

اگر آج بھی کاغذی کرنسی کی جگہ سونے چاندی کو خرید و فروخت کے لئےکرنسی کی طرح استعمال کیا جائے تو ہندوستان اور چین کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہونے لگے گا اور امریکہ جلد ہی غریب ممالک کی فہرست میں شامل ہو گا۔ اور اسی لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس بات کا سب سے بڑا مخالف ہے۔

کاغذی کرنسی اور غربت

امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے1788 میں کاغذی کرنسی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ محض غربت ہے، یہ صرف رقم کا بھوت ہے رقم نہیں ہے۔

Paper is poverty… it is only the ghost of money, and not money itself

—تھامس جیفرسن

امریکہ کے بیسویں صدر جیمز گارفیلڈ نے کہا تھا کہ جو کوئی بھی کسی ملک میں کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ دراصل ساری معیشت اور ساری صنعت کا مالک ہوتا ہے۔ اس صدر کو صدارت کے ساتویں مہینے میں 2 جولائی 1881 کو گولی مار دی گئی تھی۔ کوئی بھی حکومت زرِ کثیف کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتی جبکہ کاغذی کرنسی کو کنٹرول کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔

کاغذی کرنسی نے تقسیم دولت کا توازن انتہائی حد تک بگاڑ کر غربت کو تیزی سے دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے۔ دولت بڑی سرعت سے محض چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے اور مڈل کلاس کا طبقہ سکڑتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے سولہویں صدر ابراھم لنکن نے 21 نومبر 1864 کو اپنے ایک خط میں عین اسی بات کی واضح پیش گوئی کی تھی۔

“میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب ایک بڑا بحران آنے والا ہے جو مجھے پریشان کر دیتا ہے اور میں اپنے ملک کی حفاظت کے خیال سے لرزنے لگتا ہوں۔۔۔۔ کارپوریشنوں کو بادشاہت مل گئی ہے اور اعلیٰ سطح پر کرپشن آنے والی ہے۔ اور دولت کی طاقت (رشوت) لوگوں کی سوچ پرحاوی ہو کر اپنا راج جاری رکھنے کی پوری کوشش کرے گی یہاں تک کہ ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اورجمہوریت تباہ ہو جائے۔ ” چند ہی مہینوں بعد 1865 میں ابراھم لنکن کو گولی مار دی گئی۔

—لنکن

“I see in the near future a crisis approaching that unnerves me, and causes me to tremble for the safety of our country. Corporations have been enthroned, an era of corruption will follow, and the money power of the country will endeavor to prolong its reign by working upon the prejudices of the people, until the wealth is aggregated in a few hands, and the republic is destroyed.

—لنکن

مارکو پولو نے کاغذی کرنسی کے بارے میں لکھا تھا کہ چین کی سلطنت کے بہترین خاندان تباہ و برباد ہو گئے اور عوام کے معاملات کنٹرول کرنے والے نئے لوگ آ گئے اور ملک قتل و غارت گری، جنگ اور انتشار کا شکار ہو گیا۔

 امریکی ڈالر اور فیڈرل ریزرو

دنیا کے تقریباً ہر چھوٹے ملک میں وہاں کی کاغذی کرنسی وہیں کی حکومت جاری کرتی ہے تا کہ حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو مگر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کاغذی کرنسی یعنی امریکی ڈالر امریکی حکومت جاری نہیں کرتی بلکہ یہ ایک نجی ادارے کی طرف سے جاری ہوتا ہے۔ فیڈرل ریزرو (یعنی FED) کو عام طور پر حکومتی ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقتاً یہ ایک نجی ادارہ ہے جو ڈالر چھاپ کر حکومت امریکہ کو نہ صرف قرض دیتا ہے بلکہ اس پر سود بھی وصول کرتا ہے۔ اپنی بے تحاشہ دولت کے باعث یہودیوں کا یہ ادارہ امریکی حکومت پر حکومت کرتا ہے۔ اس ادارے کے پس پردہ روتھشیلڈ خاندان کی دولت کا اندازہ پانچ ہزار بیلین ڈالر ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین سمجھے جانے والے شخص بل گیٹس کی دولت صرف چالیس بیلین ڈالر ہے۔

اپنے نام فیڈرل ریزرو کے برعکس یہ ادارہ نہ تو فیڈرل ہے اور نہ ہی ریزرو۔

مرکزی بینک جمہوری حکومت کی مدد سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ بادشاہ مرکزی بینکوں کو کاغذی کرنسی چھاپنے نہیں دیتا اس لئے مرکزی بینک بادشاہت کے سخت دشمن ہوتے ہیں۔

امریکی صدر تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ “میرے خیال میں بینکاری کے ادارے ہماری آزادی کے لئے زیادہ خطرناک ہیں بہ نسبت سر پہ کھڑی (دشمن کی) فوج کے”

ناتھن روتھشیلڈ کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ انگلستان کے تخت پر کون سا پتلا بیٹھا سلطنت چلا رہا ہے۔۔۔۔۔جو برطانیہ کی کرنسی کنٹرول کرتا ہے وہی برطانوی سلطنت کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ کرنسی میں کنٹرول کرتا ہوں۔

صدر کینیڈی نے فیڈرل ریزرو کی اس اجارہ داری کو محسوس کر کے اس کے خلاف اقدام اٹھانے کی کوشش کی تھی۔اس نے 4 جون 1963 کو ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے مطابق امریکی حکومت اپنے پاس موجود چاندی کے عوض خود امریکی ڈالر چھاپہ کرے گی۔ امریکہ کے ڈالر چھاپنے والے نجی ادارے کے کرتا دھرتائوں نے فوراً خطرہ بھانپ لیا اور22 نومبر 1963 کو صدر کینڈی کو اس جسارت پر قتل کروا دیا گیا۔ قتل سے صرف چھ دن پہلے صدر کینیڈی نے محکمہ خزانہ کو امریکی ڈالر چھاپنے کاحکم دیا تھا۔ اسوقت پاکستانی نوٹوں کی طرح امریکی ڈالر پر بھی ادائیگی کا وعدہ لکھا ہوتا تھا۔ صدر کینیڈی کے قتل کے صرف چار دن بعد فیڈرل ریزرو نے جو نوٹ جاری کئے ان پر ایسا کوئی وعدہ نہ تھا۔ صدر کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کو جیک روبی نے سرعام قتل کر دیا اور بعد میں خود جیل میں بیمار ہو کر مرگیا۔( یا شاید زہر دے دیا گیا)

صدر کینیڈی کا وہ فرمان 9 ستمبر 1987 تک قانون کا حصہ رہا مگر اس پر عمل نہ ہوا۔ اسکے بعد صدر رونالڈ ریگن نے اسے منسوخ کر دیا۔

ماضی میں لوگ کاغذی کرنسی کو کئی بار ڈوبتا دیکھ چکے تھے اور اس پر اتنا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ لوگوں کو کاغذی کرنسی کی طرف راغب کرنے کے لئے با قاعدہ قوانین بنائے گئے جن کے مطابق کاغذی نوٹ وصول کرنے سے انکار کرنا یعنی دھاتی سکے طلب کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔

اس متنازع قانون کو آٹھ سال بعد ہی 1870 میں منصف اعظم سالمن چیز نے امریکی آئین کے خلاف قرار دیا۔ امریکی صدر الیسیز گرانٹ نے اسی دن دو نئے جج بھرتی کئےجنہوں نے مخالفت میں ووٹ دے کر منصف اعظم کے فیصلے کو پلٹ دیا۔

5 اپریل 1933 کو امریکی صدر روزویلٹ نے ایک صدارتی فرمان جاری کیا جس كے تحت امریکی شہریوں کو 100 ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا رکھنے پر پابندی عائد ہو گئی اور وہ اپنا زائد سونا فیڈرل ریزرو کو ایک مہینے کے اندر اندر بحساب 20.67 ڈالر فی ٹرائے اونس بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ خلاف ورزی کی سزا دس ہزار ڈالر جرمانہ یا / اور دس سال قید تھی۔ اس زمانے کے دس ہزار ڈالر مئی ء2011 کے حساب سے سوا سات لاکھ ڈالر کے برابر تھے (بلحاظ سونے کی قیمت)۔ اس زمانے میں امریکہ میں سونے کے سکے چلتے تھے جنہیں لوگوں سے لے کر فیڈرل ریزرو نے کاغذ کے نوٹ تھما دیئے۔ جب لوگوں کا سونا ہتھیا لیا گیا تو اگلے سال سونے کی سرکاری قیمت 20.67 سے بڑھا کر 35 ڈالر فی اونس کر دی گئی۔ ایک اندازہ کے مطابق اسطرح 8000 ٹن سونا لوگوں سے چھن گیا۔ اسکے چند دن بعد 23 مئی 1933 کو کانگرس کے ایک رکن مک فیڈن نے فیڈرل ریزرو اور محکمہ خزانہ کے کئی اعلیٰ عہدیداران کے خلاف اربوں ڈالر کے غبن کے الزامات عائد کئے لیکن معاملہ دبا دیا گیا اور ان الزامات کا آج تک جواب نہیں دیا گیا ہے۔ میک فیڈن پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر وہ بچ نکلا۔ 1936 میں وہ پراسرار موت مارا گیا۔

31 دسمبر 1974 کو امریکیوں کو سونا رکھنے کی اجازت دوبارہ دے دی گئی۔

فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی پچھلے 60 سال سے کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوئی ہے۔ 8نومبر 2002 کو فیڈرل ریزرو کے گورنر بن برنانکے نے یونیورسٹی آف شکاگو میں ایک تقریر کے دوران یہ تسلیم کیا کہ 1930 کے گریٹ ڈپریشنکی اصل وجہ فیڈرل ریزرو تھا۔

فیڈرل ریزرو پہلے تو ہر سال ایسے اعداد و شمار جاری کرتا تھا جس سے پتہ چل سکے کہ اس نے کتنے ڈالر چھاپے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ اعداد و شمار کبھی بھی شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہے لیکن اب اس ادارے نے اعداد و شمار جاری کرنے سے ہی صاف انکار کر دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری مرضی ہم جتنے چاہیں ڈالر چھاپیں۔ تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟ فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی کل مالیت 450 ارب ڈالر سے کم ہے (جنوری 2013 کی قیمت) جبکہ امریکی حکومت پر قرضے 16,000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ صاف طاہر ہے کہ امریکی حکومت کبھی بھی یہ قرض ادا نہیں کر سکتی۔ اور نہ ہی فیڈرل ریزرو کبھی اتنی رقم کا مالک رہا تھا جو اس نے قرض دی ہے۔ فیڈرل ریزرو نے یہ رقم چھاپ کر قرض دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیڈرل ریزرو یہ ساری رقم چھاپ سکتا ہے تو امریکی حکومت خود کیوں نہیں چھاپ لیتی؟ اگر حکومت خود چھاپے تو نہ قرض ادا کرنا پڑے گا نہ سود دینا پڑے گا۔ اسکی وجہ سو سال پرانا ایک قانون ہے جس کے مطابق صرف فیڈرل ریزرو کو کرنسی چھاپنے کا اختیار دیا گیا ہے اور جو کوئی بھی اس قانون کی منسوخی کی بات کرتا ہے اسے ہمیشہ کے لیئے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

سن           جاری شدہ امریکی ڈالر M3

بیلین ڈالر میں          امریکی حکومت پر قرضہ

ارب ڈالر میں

1960       315.2     290.2

1970       677.1     389.2

1980       1995.5   930.2

1990       4154.6   3233.3

2000       7117.7   5674.2

2005       10,191.4               8,170.4

2007       اعداد جاری نہیں کیئے گئے  10,245.2

2010       اعداد جاری نہیں کیئے گئے  14,025

اگست2011             اعداد جاری نہیں کیئے گئے  14,697

16 نومبر2011        اعداد جاری نہیں کیئے گئے  15,000[66]

1694 سے پہلے انگلینڈ میں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنا قانوناً جرم تھا۔ فرانس سے جنگ کی وجہ سے بادشاہ ولیم آف آرینج شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔ چند امیر سناروں نے بادشاہ کو 12 لاکھ پاونڈ کی خطیر رقم 8 فیصد سود پر اس شرط کے ساتھ قرض دی کہ انہیں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ مالیت کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنے کا حق دیا جائے۔ اس طرح 1694 میں ولیم پیٹرسن کوبنک آف انگلینڈ بنانے کی اجازت ملی۔

ایک مضحکہ خیز کارٹون جو 1797 میں جیمز گلرے نے کاغذی کرنسی کے خلاف بنایا تھا۔ نوٹوں کے کپڑے پہنے خزانے پر بیٹھی خاتون سے مرادبینک آف انگلینڈ ہے جبکہ مرد ولیم پٹ ہے جو اسوقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔

فیڈرل ریزرو کا کہنا ہے کہ اب اس کے پاس جمع شدہ سونے کی مالیت کے اعتبار سے ڈالر چھاپنے کی ضرورت نہیں رہی ہے بلکہ وہاقتصادی سرگرمی کے لحاظ سے ڈالر چھاپ رہا ہے۔ ڈالر چھاپ چھاپ کر ہوتی یہ عیاشی دیکھ کر یورپ والوں کو بھی مزے لوٹنے کا خیال آیا۔ چونکہ یورپ کا کوئ ملک اتنا مضبوط نہیں تھا کہ اکیلا امریکی ڈالر کا مقابلہ کر سکے اس لیئے انہوں نے مل کر یورو جاری کیا جسکے بعد ڈالر کی اجارہ داری میں قدرے زوال آیا۔ یورو کو اصل سہارا جرمنی کے مضبوط مارک سے ملا ہے۔

•             م

•             ب

•             ت

’95          ’96          ’97          ’98          ’99          ’00          ’01          ’02          ’03          ’04          ’05          ’06          ’07          ’08          ’09

امریکی ڈالر

59.0%    62.1%    65.2%    69.3%    70.9%    70.5%    70.7%    66.5%    65.8%    65.9%    66.4%    65.7%    64.1%    64.1%    61.5%

یورو

                                                                17.9%    18.8%    19.8%    24.2%    25.3%    24.9%    24.3%    25.2%    26.3%    26.4%    28.1%

برطانوی پاونڈ

2.1%      2.7%      2.6%      2.7%      2.9%      2.8%      2.7%      2.9%      2.6%      3.3%      3.6%      4.2%      4.7%      4.0%      4.2%

جاپانی ین

6.8%      6.7%      5.8%      6.2%      6.4%      6.3%      5.2%      4.5%      4.1%      3.9%      3.7%      3.2%      2.9%      3.1%      3.0%

جرمن مارک

15.8%    14.7%    14.5%    13.8%

فرانسیسی فرانک

2.4%      1.8%      1.4%      1.6%

سویس فرانک

0.3%      0.2%      0.4%      0.3%      0.2%      0.3%      0.3%      0.4%      0.2%      0.2%      0.1%      0.2%      0.2%      0.1%      0.1%

دیگر

13.6%    11.7%    10.2%    6.1%      1.6%      1.4%      1.2%      1.4%      1.9%      1.8%      1.9%      1.5%      1.8%      2.2%      3.1%

                Sources: 1995-1999, 2006-2008 IMF: Currency Composition of Official Foreign Exchange Reserves

Sources: 1999-2005 ECB: The Accumulation of Foreign Reserves

2007 سے شروع ہونے والے زبردست مالی بحران[حوالہ درکار] [67] نےs امریکہ اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان ممالک کی معیشتوں کے بالکل بیٹھ جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔ ڈر اس بات کا بھی ہے کہ لوگوں کا کاغذی کرنسی سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے جیسا کہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ امریکہ میں فیڈرل ریزرو ، انگلستان میں بینک آف انگلینڈ اور یورپ میں یورپین سینٹرل بنک نے کاغذی کرنسی بڑی مقدار میں چھاپ کر دوسرے بنکوں سے مال خریدنا شروع کر دیا ہے تا کہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور معیشت رواں رہے۔ اس حکمت عملی کو “مقداری سہل” [68] [69] کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ میں پہلی مقداری سہل نومبر 2008 سے مئی 2010 تک جاری رہی۔ دوسری مقداری سہل نومبر 2010 سے جون 2011 تک جاری رہی۔ تیسری مقداری سہل 13 ستمبر 2012 سے شروع کی گئی ہے جس میں ہر ماہ 40 ارب ڈالر چھاپے جائینگے۔ ]

یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی ذخائر کی شرح سود میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو ٹیلر کے اصول کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے ۔ اندازہ ہے کہ امریکہ میں 5 ٹریلین ڈالر اس عرصہ میں مقداریہ سہل کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیئے جا سکتے تھے۔ اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔

منطتقی بات یہ ہے کہ اگر زبوں حال معیشت کے لیئے مقداریہ سہل اتنی ہی کارآمد چیز ہے تو اسے مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں اپنا لیا جاتا ؟ صرف برے وقت میں ہی کیوں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ مقداریہ سہل سے ملنے والا سہارا عارضی ہوتا ہے اور بعد میں اسکی قیمت زبردست افراط زر ( مہنگائ ) کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے مرکزی بینکوں کے مالکان حکومتوں کی مدد سے عوام کو نچوڑ رہے ہیں۔ ]

نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر معاشیات ملٹن فریڈمین کا کہنا تھا کہ آج کا ناقابل حل معاشی مسلہ یہ ہے کہ فیڈرل ریزرو سے کیسے جان چھڑائ جائے۔

کاغذی سکوں کا انجام

مشہور فرانسیسی فلاسفر وولٹیر کا کہنا تھا کہ کاغذی دولت انجام کار اپنی اصلی قدر تک پہنچتی ہے جو صفر ہے۔ دنیا کی 775 کاغذی کرنسیوں میں سے 599 ڈوب چکی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *