
لوكل باڈی ٹیكس (ایل بی ٹی)نے ممبئی كی عام زندگی كو مفلوج كردیا هے
بڑے تاجروں كے ساتھ خرده بیوپاریوں كی بے مدت هڑتال نے ممبئی و مضافات كے ساتھ پورے مهاراشٹر پر برے اثرات ڈالے هیں اگر حكومت فوری طور پر كوئی كارروائی نهیں كرتی تو اس كا راست اثر عوام پر پڑے گا اورمهنگائی كی مار جھیل رهی عوام اسے حكومت كی طرف سے ایك دوهرا وار تصور كرے گی۔پیش هے دانش ریاض كی رپورٹ
فیڈریشن آف ریڈیمیڈ گارمنٹس ایسو سی ایشن كے صدر اقبال عبد الحمید میمن كا وقت ان دنوںدھرنا دینے ،مظاهره كرنے اور حكومتی اهلكاروں سے ملاقات كركے حالات كو معمول پر لانے میں گذر رها هے۔دراصل مهاراشٹر میں حكومت نےآکٹرائے (چنگی) کو ختم کرکے اس کی جگہ لوکل باڈی ٹیکس (ایل بی ٹی) نافذ كر دیا هے ۔ممبئی میں اس كا نفاذیكم اكتوبر سے طے قرار پایا هےاوریه بات ممبئی كے بیوپاریوں كو ناگوار گذر رهی هے۔ بیوپاریوں كا الزام هے كه اس نئے قانون سے تاجروں كو مشكلات كا سامنا كرنا پڑے گا جبكه تاجر حضرات جس اطمینان كے ساتھ تجارت كرتے هیں اس میں بھی خلل واقع هوگا لیكن حكومت یه باور كرا رهی هے كه آكٹرائے میں جو دھاندھلیاں تھیں وه اس نئے قانون میں ختم هوجائیں گی اور حكومت كواس كاجائز حق بآسانی مل جائے گا جبكه تاجروں كو بھی كسی پریشانی كا سامنانهیں كرنا پڑے گا۔
دراصل ایل بی ٹی کسی دوسری ریاست یا ملک سے آنے والے مال پر چنگی (آکٹرائے) كی هی دوسری شكل هے جسے كمال هوشیاری سے تاجروں ،سركاری اهلكاروں كی چوریوں سے محفوظ رهنے كے لئے تیار كیا گیا هے۔حكومت كے مطابق ’’چونكه چنگی ایک سخت ٹیکس تھا جسے بہت سی ریاستوں سے ختم کردیاگیاهے لهذا مہاراشٹر میں بھی ممبئی کو چھوڑ کر ہر جگہ سے آکٹرائے وصولی بند کردی گئی ہے اور اس کی جگہ لوکل باڈی ٹیکس (بلدیاتی ٹیکس) کا نظام رائج کردیاگیا ہے۔ ‘‘لیكن المیه یه هے كه ممبئی میں تاجروں اور تجارتی اداروں کو ایل بی ٹی سے کافی پریشانی محسوس ہورہی ہے ،انہوں نے اس کے خلاف بے مدت ہڑتال کردی ہے جس کی آنچ اب عام آدمی پر بھی آرہی ہے۔ اگر یہی حال رہاتو یہاں پیچھے کے دروازے سے ضرورت کی اشیاء کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوجائے گی اور اس سے جڑے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجائیں گے اور ہزاروں کروڑکا نقصان ہوگا۔ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے مطابق تمام متعلقہ افراد سے بڑے پیمانے پر تبادلہ خیال کے بعد سرکار نے ایل بی ٹی کا تصور پیش کیاهے، جس کے بعد هی اگست2009میں اس سے متعلق قانونی دفعات اور قواعد وضوابط وضع کئے گئے۔ گزشتہ تین سال سے ممبئی کو چھوڑ کر پوری ریاست کی میونسپل کارپوریشنوں میں ایل بی ٹی شروع کیاگیاهے، البتہ بی ایم سی ایکٹ میں ترمیم ابھی بھی باقی ہے جس کے لئے بعد میں قانون ساز کونسل اور اسمبلی کی منظور ی حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
كوسه ممبرا بیوپاری سنگھ كے صدر هیرا لعل رام نرائن گپتا كهتے هیں’’ هم لوگ اس قانون كی مخالفت اسلئے كر رهے هیں كه اس میں جو دفعات شامل كی گئی هیں وه عام بیوپاریوں كے خلاف هیں۔اب ایك بیوپاری جوڈھائی سو روپئے روزانه كماتا هے وه كسی ایك آدمی كو مزید ركھ كر كهاں سے اپنا حساب كتاب تیار كرے گا۔یقیناً جو بڑے بیوپاری هیں یه ان كے لئے تو آسان هے لیكن جو چھوٹے تاجر هیں وه اس سے پریشان هو جائیں گے۔‘‘ هیرا لعل بیوپاریوں پر لگائے جانے والے چوری كے الزامات كا جواب دیتے هوئے كهتے هیں ’’اصل چور تو وه هیں جنهوں نے ٹو جی،كوئیله، آدرش اور نه جانے اس طرح كے كتنے هی گھوٹالے كئے هیں لیكن وه الزامات ان لوگوں پر لگا رهے هیں جو پابندی سے اپنا ٹیكس ادا كر رهے هیں۔‘‘
یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے چند برس قبل جب ریاست میں ویلیوایڈیڈ ٹیکس (VAT)لاگو کیا گیاتھا تو سرکار نے وعدہ کیاتھا کہ ویٹ لگنے کے بعد دیگر ٹیکس جیسے آکٹرائے وغیرہ ختم کردئیے جائیں گے پھریوں ہواکہ دوسال قبل سرکار نے ویٹ پر 1 تا2فیصد اضافے کا فیصلہ کیا اس کیلئے سرکار کی طرف سے یہ کہا گیا کہ آکٹرائے ختم کرنے کے بعد جو رقم وصول نہیں کی جاسکی اس کی وصولیابی کیلئے یہ اضافہ کیاجارہا ہے اور اب سرکار آکٹرائے ختم کرنے کے دبائو سے بچنے کیلئے ایک نیا ٹیکس ایل بی ٹی لگانا چاہتی ہے اور اس کیلئے باقاعدہ ایک نئی اتھاریٹی یا محکمہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاجروں کے مطابق ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری محکمے جتنے زیادہ ہوں گے اتنی ہی بدعنوانی بڑھے گی، کرپشن میں اضافہ ہوگا، انسپکٹر راج کو بڑھاوا ملے گا، جو مختلف بہانوں سے تاجروں اورتجارتی اداروں کوہراساں کریں گے۔ تاجروں کی بعض انجمنوں نے کھل کر یہ کہہ بھی دیا کہ ہمیں ٹیکس کی ادائیگی سے زیادہ پریشانی نہیں ہے ہم تو ایک اور سرکاری محکمے یا اتھاریٹی کے مسلط کئے جانے سے پریشانی محسوس کررہے ہیں ہمیں اس بات کی بھی تشویش ہے کہ ہم پر ایسی کاغذی کارروائی کا بوجھ کافی بڑھ جائے گا، جس کا کوئی صلہ نہیں۔ ہم ٹیکس تو اپنی جیب سے نہیں ادا کریں گے جو بھی ٹیکس لگے گا وہ عوام سے ہی وصول کریں گے گویا کہ ٹیکس وصول کرنے اوربھاری بھرکم کاغذی کارروائی کا جھنجھٹ سرکار ہمارے سرڈال رہی ہے آج جبکہ پوری دنیا میں کاغذ کے بغیر (Paper less) کام چلانے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن سرکار ٹریڈرس ، مینوفیکچررس اور دکانداروں کو ایل بی ٹی کے نام پر زیادہ سے زیادہ کاغذی کارروائی کے چکروں میں الجھارہی ہے اس کے علاوہ وقفے وقفے سے مالیاتی گوشوارہ (Financial Statement) بھی میونسپل کارپوریشن میں جمع کروانے کا پابند کررہی ہے ہم اپنا کام کرکے ترقی کریں اور ریاست کی ترقی میں حصہ لیں یا کاغذی کارروائیوں میں الجھے رہیں، ہم یہ کاغذی کارروائی نہیں چاہتے اسلئے ہم نے سرکار سے ایک فیصد ویٹ بڑھالینے کی درخواست کی تاکہ سرکار کی منشاء پوری ہوجائے مگر میونسپل کارپوریشن نے اسے مسترد کردیا۔ پھر ہم نے کہاکہ میونسپل کارپوریشن، سیلس ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں انڈسٹری اور تاجروں کے ذریعہ جمع کئے گئے دستاویزات کا استعمال کرے اور اسی کے مطابق ٹیکس وصول کرے مگرہماری یہ تجویز بھی مسترد کردی گئی۔ ہم ٹیکس ادائیگی یا ایک اور سرکاری محکمے کے سامنے رپورٹ کرنے کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے فائنانشیل اسٹیٹ منٹ دکھانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ہم ویٹ چالان کے ساتھ فائنانشیل اسٹیٹ منٹ اپ لوڈ کرتے رہے ہیں، لہذا سرکار کو چاہئے کہ وہ تاجروں کیلئے آسانی پیدا کرے ان کی پریشانیوں میںمزید اضافہ نہ کرے، سرکار کو اپنے ہاں بزنس اور انڈسٹریز کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے کا موقع دینا چاہئے نہ کہ اسے پیپرورک میں الجھا ناچاہئے۔
هیرا لعل كے مطابق ’’دراصل حكومت تاجروں پر انسپكٹر راج نافذ كرنا چاهتی هے ۔اس ٹیكس كے بعد سب سے زیاده كرپشن هوگا جس كا راست فائده انسپیكشن افسران كو هوگا‘‘۔ یه ایك حقیقت هے كه دیگرریاستیں بہتربنیادی ڈھانچہ تیار کرکے تاجروں کو اپنے ہاں بلارہی ہیں جبکہ مہاراشٹر میں تاجروں کو بہترسہولتیں دینے اور تجارت دوست پالیسیاں بنانے کی بجائے ان پر ٹیکس چوری کی تہمت لگائی جارہی ہے۔ اگر مہاراشٹر سرکار اوربلدیہ کارویہ ایسا ہی رہا تو بہت سے تاجر اور صنعتیں دیگرریاستوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔ پڑوسی ریاست گجرات کی نریندر مودی سرکار تو سرخ قالین بچھا کر مہاراشٹر کے تاجروں کو اپنے ہاں بلارہی ہے۔
دوسری طرف بی ایم سی کا کہنا ہے کہ ایل بی ٹی چونکہ حساب کتاب پر مبنی نظام ہے لہذا امید ہے کہ شہریوں پر مزید بوجھ پڑے بغیر اس سے شفافیت کو فروغ ملے گا، شہری پہلے سے اپنی خریدی ہوئی چیزوں پر چنگی (آکٹرائے) اداکررہے ہیں، بی ایم سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایل بی ٹی صرف ان کو ادا کرنا ہے جو شہر میں اشیاء برآمد کرتے ہیں، ان میں تھوک (ہول سیل) اور بڑے تاجر شامل ہیں اور چھوٹے خوردہ فروش (ریٹیلر) شامل نہیں ہیں جو اپنا مال مقامی طور پر خریدتے ہیں۔
بی ایم سی نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ایل بی ٹی مخالفین ایل بی ٹی نہ لاکر ویٹ پر سرچارج لگالینے کا مشورہ دے رہے ہیں، جو مجوزہ طور پر میونسپل حدود میں جمع کیاجائے گا، محصول جمع کرنے کے اس طریقے سے میونسپل کارپوریشنوں کی مالی خود مختاری ختم ہوجائے گی اور کارپوریشن کے بڑے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی اس کی استعداد متاثر ہوگی۔ جانکاروں کے مطابق اسی طرح میونسپل کارپوریشنوں کو اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنا بھی مشکل ہوجائے گا اور سرکار کے سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہونا پڑے گا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرکار پر مزید دبائو بڑھ جائے گا۔ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے مطابق ممبئی میں آکٹرائے سے اسے4ہزار کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ اسے 6ہزار کروڑ کی آمدنی ہونی چاہئے۔ ایل بی ٹی کے ذریعے اسے امید ہے کہ وہ 6ہزار کروڑ سے زائد محصول (Revenue)حاصل کرسکے گی۔
بہرحال سرکاراوربلدیہ محصول حاصل کرنے کے متبادل طریقے اختیار کرسکتے ہیںیہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے اسی لئے پونے کے تاجروں کی عرضداشت پر سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ دنوں ایل بی ٹی پر اسٹے دینے سے انکار کردیا مگر بات یہاں زیادہ سے زیادہ ریوینیو بٹورنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست میں صنعت وتجارت کے فروغ کا ماحول بنانے کی ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ملک میں بالراست طریقے سے ہی سہی، ایک بھکاری بھی ٹیکس دہندہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ ایک ماچس خریدتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے ایکسائز ڈیوٹی چکائی ، ویٹ ادا کیا، آکٹرائے اور سروس ٹیکس وغیرہ چکایا۔ اسی طرح آئے دن منظر عام پرآنے والے گھپلوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ٹیکس دہندگان سے حاصل ہونے والی رقوم کی سیاستدانوں کے ذریعے کیسے بے دردی سے لوٹ پاٹ ہورہی ہے، لاکھ دولاکھ کروڑ دو کروڑ نہیں، ہزاروں کروڑ روپئے کے گھپلے کئے جارہے ہیں، لہذا سرکاروں کو خصوصاً مہاراشٹر سرکار کو تاجروں پر نئے نئے ٹیکس لگا کر مہاراشٹر سے دیگر ریاستوں میں بھاگ جانے پر مجبور کرنے کے بجائے ان کیلئے تجارت دوست پالیسیاں بنانا چاہئے۔ مہاراشٹر سرکار کو یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ مہاراشٹر صنعت وتجارت کے معاملے میںاب نمبر ون ریاست نہیں رہ گئی ہے اور بیرونی وغیرملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف کھینچنے والی اس کی کشش بھی کم ہوچکی ہے۔ پاور اور انفراسٹرکچر کے معاملے میں کسی زمانے میں اول نمبر رہ چکی یہ ریاست اب دوسری ریاستوں سے پچھڑتی جارہی ہے اس کیلئے یہاں کی سرکاراور اس کی پالیسیاں نہیں تو اور کون ذمہ دار ہے؟ لہذا سرکار کو اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہئے۔ شیوسینا، بی جے پی نے1993میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کرکے پہلے ہی بہت سی انڈسٹریز کو مہاراشٹر سے کسی اور ریاست کا رخ کرنے پر مجبور کردیاتھا گزشہ چندبرسوں سے اس کی ایک شاخ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے ہنگامو ں کی وجہ سے بھی انڈسٹریز اور مزدور دوسری ریاستوں کا رخ کررہے ہیں، کیا ان ہی کی طرح مہاراشٹر کی پرتھوی راج چوہان سرکار بھی پالیسیوں میں بار بار تبدیلی کرکے اور نئے نئے ٹیکس لگاکر رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے تاجروں اور صنعتوں کو مہاراشٹر سے نکال دینا چاہتی ہے؟ کیا ایک بار پھر مہاراشٹر کو ملک کی نمبر ون ریاست نہیں بنانا چاہتی ہے؟