مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ( ایم ای ان اے) میں بغاوت اور اس کا اقتصادی منظرنامہ

آصف انور علیگ
آصف انور علیگ

 

 آصف انور علیگ

دوسرے ایشائی مسلم ممالک کے علاوہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (ایم ای این اے) میں جو غیر یقینی سیاسی و اقتصادی صورت حال ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب بھی امن قائم ہو سکتا ہے۔ کیا وہ ممالک زوال کی راہ پر چل پڑے ہیں اور یہ منظر کتنا نقصاندہ ہے۔ان کا سماجی و سیاسی جو منظر نامہ ہے وہ جزائر عرب کی اقتصادیات پر بہت بُرا اثر ڈال رہا ہے ۔شام میں سرد جنگ کا جو ابال ہے اس کا خوفناک منظر مسلسل حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔اس کے سیاسی انتشار  نے جنگی علاقوں میں خطرناک اقتصادی بحران پیدا کر دیا ہے ۔مصر بھی بدترین سیاسی بے چینی کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ انقلاب نے اس کی معاشی صورت حال کو مزید بگاڑنے میں براہ راست اثر ڈالا ہے ۔

کرنل قذافی کے بعد لیبیا کی بگڑتی ہوئی سیاسی و سماجی صورت حال بھی یکساں ہے، یہ بھی مکمل  دم توڑتی معاشیا ت سے جوجھ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف جنگ سے مغلوب عراق مضبوط لیڈرشپ کی عدم موجوگی میں معاشی اتھل پتھل کا شکار ہے  وہیں دوسری جانب مستحکم ترین ملک ایران کو خود اپنے بے شمار مسائل حل کرنے ہیں۔ کیا یہ ممالک سنبھلنے کی حالت  میں ہیں؟ یمن بھی ماضی قریب میں سیاسی ہٹ دھرمی اور بغاوت کا سامنا کر چکا ہے ۔

اردن اور عمان پڑوسی ممالک شام میں حالیہ سیاسی انتشار شروع ہو نے سے پہلے تک مضبوط حالت میں تھے اور فلسطین تو رفتہ رفتہ دنیا کے نقشہ پر سکڑتا ہی جارہا ہے۔ تونس میں سیاسی انقلاب کا اختتام ہوچکا اور اس کا معاشرتی ومعاشی احیاء نئی لیڈر شپ کے قیام کے پس منظر میں ایک اچھی علامت ہے ۔ بحرین بھی بغاوت اور احتجاج کے طویل سلسلہ سے گھرا ہوا تھا جس نے عوامی احتجاج کی شکل اختیار کرلی تھی لیکن اس نے اس کو کچل دیا۔ ماحصل یہ کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ( ایم ای این اے) مسلسل کسی نہ کسی طرح کی بغاوت اور احتجاج سے جوجھ رہا ہے ۔

اس معاشرتی و سیاسی انتشار کا فوری حل کیا ہے؟

مشرقہ وسطی اور شمالی افریقہ (ایم ای این اے) کے انقلاب کے درمیان تونس میں محمد بوزیزی کی قربانی کے بعد روشنی کی کرن نظر آئی ہے ۔اس نے اس علاقہ خصوصا مصر اور بحرین میں سیاسی آزادی کے حصول کے لیے ایک انقلاب کی شروعات کر دی ہے۔ بحرین نے بھی شاہ حماد بن عیسی الخلیفہ سے شیعہ اکثریت کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا ہے ۔

گلف کو آپریشن کاؤنسل (جی سی سی) کا سب سے بڑے حلیف سعودی عرب نے بحرین میں بغاوت کو کچلنے اور صورت حال کو معمول پر لانے میں مدد کی لیکن بغاوت کم وبیش ہنوز جاری ہے۔ بحرین میں جب سے مارشل لاء کا نفاذ ہوا ہے اور تین مہینوں کی ایمرجنسی کا اعلان ہوا ہے تب سے تشدد کے  معمولی واقعات کو  چھوڑ کر حالات پوری طرح قابو میں ہیں۔ حیرت انگیز طور پر مستحکم معاشی حالت اور نارمل سیاسی صورت حال نے آسانی کے ساتھ حالات پر قابو پانے کی راہ آسان کردی۔

صرف چند ایم ای این اے ممالک ہی بغاوت پر قابو پانے اورامن  برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نسبتاً چھوٹے ممالک جیسے بحرین اور تونس نے کامیابی حاصل کی۔ ماضی قریب میں متحدہ عرب امارات کی زوال پذیر معیشت ایک قابل بحث مسئلہ بن گیا  ہے۔ کسی طرح سے کچھ  تلافی ہوئی ہے لیکن ۸۰ ملین کا بیرونی قرضہ اور ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں ۵۰ فیصد تک کی گراوٹ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ شیخ تمیم بن حماد الثانی معیشت کو دوبارہ قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور معیشت کا استحکام روز بہ روز فزوں تر ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان امیر فعال اور دور اندیش ہیں۔

ایم ای این اے ممالک میں سب سے مضبوط اور مستحکم معیشت سعودی عرب کی ہے جس کی باگ ڈور دور اندیش سیاست داں وحکمراں خادم الحرمین الشریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کے ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے تیزی سے ترقی پذیر معیشت کے ساتھ اس پورے خطے کے تعاون میں ایک بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔

اگر ایم ای این اے کی حالیہ بغاوت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تعجب ہو گا کہ کس طرح سے عرب کے اس انقلاب نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہاں اس قدر سیاسی انارکی، معاشرتی واقتصادی بحران پیدا ہوگیا۔ اس صورت حال نے معیشت کو بد سے بدترین حال تک پہونچا دیا۔ تیل سے بھر پور ہونے کی وجہ سے ان ممالک کو ابھی بھی اقتصادی صورت حال پر قابو پا لینے کی امید ہے اگرچہ کچھ ممالک کو جنگ جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔

یہ مذاق لگے گا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا  جا سکتا کہ ایم ای این اے کے تیل برآمد کرنے والے ممالک نے گذشتہ برسوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے حالانکہ ان کو بے حد سخت سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ تیل در آمد کرنے والے ممالک کی  اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہے۔ سیاسی انتشار کا سامنا کرنے کے باوجود ترقی کی یہ ملی جلی رفتار ناقابل یقین اور اقتصادی ترقی کے معاملہ میں ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔

عوامی احتجاج کے نتیجہ میں ہونے والے زبردست سیاسی انتشار کے بعد جس نے بڑے پیمانے پر اقتصادی عدم استحکام اور معاشی بحران پیدا کر دیا ہے لیبیا، مصر اور شام کو فوری طور پر ازسر نو استحکام کے  چیلینجز پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ غیرمستحکم صورت حال اور معاشرتی انتشار نے معیشت کی رفتار کم کردی ہے ۔ انہیں معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے انہیں موجودہ سست رفتاری سے نکل کر روزگار کے  بہتر مواقع پیدا کرنے ہوں گے ۔

سعودی عرب مستقل اقتصادی ترقی کے ساتھ سیاسی، معاشرتی اور معاشی ترقی کے میدان کا ایک بڑا کھلاڑی ہے ۔ اس نے اپنے شہریوں کو ملک و قوم کی ترقی کا حصہ بننے پر ابھارا ہے۔

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (ایم ای این اے) میں موجودہ حالات پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدام کرنے سے یقینا معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی اور استحکام کی شکل بنے گی۔ موجودہ عرب ممالک تکلیف دہ معیشت کی علامت بن کر رہ گئے ہیں اور انہیں  کئی برسوں سے سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

شام، مصر  اور عراق میں حالات اتنے ابتر ہو گئے ہیں کہ یا تو ان کی معیشت پوری طرح زوال پذیر ہوچکی ہے یا زوال کے کگار پر ہے۔ لیکن اب بھی اس خطے میں اقتصادی ترقی کے آثار موجود ہیں ۔ماہرین معاشیات کی پیشن گوئی ہے کہ اگر عراق اور لیبیا میں سیاسی صورت حال مستحکم ہو جائیں تو ان کی معیشت پٹری پر آسکتی ہے۔

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (ایم ای این اے ) کے سارے علاقے ایک ہی معاشی سانچے کے اندر نہیں آتے ہیں۔ ایک ملک کے حالات دوسرے ملک سے یکسر مختلف ہیں۔ جنگ سے بد حال عرق اور لیبیا میں تیل کے پیداوار کی افراط ان کے روشن معیشت اور بتدریج استحکام کی علامت ہے۔

اپنے استحکام کے لیے جدوجہد کررہے مصر کی ڈولتی معیشت میں بھی ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اگر اس کو مضبوط سیاسی لیڈرشپ ملے تو یہ معاشی استحکام کے ساتھ قابل ذکر ترقی حاصل کرلے گا۔

جنگ سے بدحال اور سیاسی وسماجی طور پر ٹوٹ چکے شام کی گھسٹتی ہوئی معیشت بھی قابل غور ہے۔ وہاں ابھی سول وار اور حقوق انسانی کا زیاں بہ مشکل روکا جا سکا جب اقوام متحدہ نے بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے احتجاج کر رہے بے گناہ لوگوں پر  حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار کے استعمال پر گرفت کی۔ یہ سارے مسائل ہیں جو جلدی حل ہوتے نہیں دکھ رہے ہیں۔

اس صورت حال نے شام کی معیشت کو پوری طرح ناکام کردیا ہے۔ اس کا احیاء کسی معجزہ سے کم نہیں ہوگا۔ اس ناکام ملک میں اقتصادی استحکام کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے۔

ایم ای این اے کے بیشتر ممالک کو  مسلسل سیاسی استحکام اور مضبوطی کی جانب بڑھنے کے لیے آگے کی طرف نگا ہ کرنی ہو گی اور معیشت کو سدھارنے کے لیے معاشی انتظام کے ساتھ بنیادی ڈھانچہ کا نقشہ کار تیار کرنے کے ذریعہ فوری اقدام کرنا ہو گا۔ اگرچہ مصر کو گذشتہ چند سالوں سے مسلسل بغاوت اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن پھر بھی اس کی معیشت میں ۲ سے ۳ فیصد کا اضافہ ہو تا رہا ہے۔ یہ یقیناً قابل ذکر بات ہے۔ اگر چہ بغاوت و احتجاج مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (ایم ای این اے) کے ممالک میں عام بات ہے لیکن اقتصادیات کے مبصرین کو امید ہے کہ مصر اور عراق جیسے ممالک بھی مستقبل میں سعودی عرب کے طاقتور مد مقابل کے طور پر اپنی شناخت قائم کریں گے جو اس خطے کا ایک مستحکم معیشت والا ملک ہے۔

سعودی عرب میں تبدیلی اور  معاشی توقعات

سعودی عرب میں سیاسی و اقتصادی استحکام کی وجہ سے وہاں عام طور پر کوئی معاشرتی وسیاسی تبدیلی کے امکان نہیں ہیں لیکن اس ملک کو وسیع تر سیاسی اصلاحات کی شکل میں تبدیلی کا سامنا ہے۔ کاروبار کے امکانات اور عظیم تر معاشی ترقی کی وجہ سے اس نے پورے خلیجی ممالک کے نصف جی ڈی پی پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ سعودی عرب نے غیر معمولی ترقی کے مواقع کا مشاہدہ کیا ہے جبکہ اس کے پڑوسی ممالک لگاتار سیاسی وسماجی بغاوتوں ومظاہروں میں گھرے ہوئے ہیں۔

مینا ممالک کے لیے امید کی کرن

بہر حال انتشار  کے بعد لیبیا میں  جو باز یابی ہوئی ہے وہ اس کے حالیہ ۱۲۲ فیصد کےجی ڈی پی گروتھ سے زیادہ  بہتر ہے۔ جب کہ اس کو ابھی بھی سیاسی و سماجی  بدحالی کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ بعض مقامات پر سیاسی صورت حال تو بد تر ہیں لیکن مینا خطہ کے بیشتر ممالک ترقی کے مختلف درجات میں ہیں۔

۲۰۱۱ کے عرب بحران نے پورے مشرق وسطیٰ کو سیاسی واقتصادی انقلاب میں دھکیل دیا۔  جبکہ بے اطمینانی بڑھ گئی۔ بنیادی ڈھانچے کی از سر نو تعمیر، انڈسٹریز کو  دو بارہ کھڑا کرنا  اور بے روزگاروں کی بھیڑ کے لیے روزگار کی تلاش یہ سب ایسے مسائل ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مینا ممالک تقریبا روزانہ تبدیلی کی لہر کا مشاہدہ کر رہا ہے اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کے باوجود اصلاحات جاری ہیں۔ تیل کے ذخائر والے تمام ممالک خاص  کرکے ان ممالک کو جنہیں تبدیلی کا تجربہ ہو رہا ا پنی حیات نو کے لیے ترقی کے مواقع کی ضرورت ہے۔ ان کی معیشت پہلے ہی سیاسی و معاشرتی ابتری کی وجہ سے چرمرا گئی ہے.اس خطہ میں تبدیلی اور نئی حکومت کے سیاسی و معاشی دور اندیشی کے ساتھ اقتدار میں آنے کی امید ہے۔ تحفظ اور اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کرنا لازمی ہے۔

معاشرتی و سیاسی منظرنامہ

چھوٹے لیکن  نسبتاً امیر ممالک قطر اور متحدہ عرب امارات نے اپنے تیل کی آمدنی کا استعمال اپنی معاشی ومعاشرتی حالت کو مستحکم و مضبوط بنانے میں کیا ہے۔ بجٹ ریونیو، زوال پذیر مالی  توازن اور اوسط قرض وغیرہ کے مسائل گرچہ پیش آتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب کو، جو دنیا کا سب سے بڑا تیل بر آمد کرنے والا اور مینا کا امیر ترین ملک ہے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور نوجوانوں میں عدم اعتماد کی صورت حال کا سامنا ہے۔ کویت اور بحرین مسسلسل انتشار سے جوجھ رہے ہیں۔ ایران پر امریکی حملہ کا خطرہ بھی اس خطے پر اثر پذیر ہو سکتا ہے۔

شام میں ہونے والا عوامی تصادم پڑوسی ملک اردن اور لبنان کی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لیبیا نے تو قذافی کے بعد ہونے والی اصلاحات، بہتر بنیادی ڈھانچہ اور گوناگوں معاشی ترقیات کے ساتھ تیزی سے اپنی حالت میں سدھار کرلیا ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ لیبیا کے طاقتور اینرجی کے شعبہ سولر پاور  نے اس ترقی کے لیے راہ ہموار کی۔ تونس نے بھی تیزی سے معاشی ترقی کی جانب قدم بڑھایا اور ایک نئی تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔ اس کے مضبوط بنیادی ڈھانچہ اور ماہر کاریگروں نے ان چیزوں کو ممکن بنایا۔ سیاسی انارکی اور جمہوریت کے قیام میں ہو رہی تاخیر کے باوجود مینا ممالک کو غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کا فائدہ میسر ہورہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مصر اور اردن کا مالی بحران پڑوسی ملک شام میں ہونے والے سیاسی انتشار کی وجہ سے ہے لیکن اصلاح کا اچھا موقع ہے ۔

۲۰۱۱  کی بغاوت کے بعد جب سے مصر میں جمہوریت کی طرف منتقلی ہوئی ہے اس نے بہ مشکل ہی امن کی صورت دیکھی ہے۔ اس کی معیشت مسلسل ڈانوا ڈول ہے بلکہ زوال پذیر ہے۔ اسی طرح گذشتہ چند سالوں سے اردن مصر اور شام میں ہو رہی اٹھا پٹک سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جب تک مضبوط فیصلہ اور سیاسی دور اندیشی سے کام نہیں لیا جائے گا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں معاشی زوال بڑھتا رہے گا۔ اپنے کھوئے ہوئے وقار اور شان کو قائم رکھنے کے لیے سیاسی، معاشرتی واقتصای اتحاد قائم کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔

آصف انور علیگ سعودی عرب کی وزارت اعلیٰ تعلیم سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہونے سے قبل ای ٹی وی اردو میں ٹی وی جرنلسٹ، گڑگاوٴں واقع مینجمنٹ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے وزن نامی اقتصادی رسالہ کے ایڈیٹوریل کوآرڈینیٹر اور سعودی عرب کی پرنس محمد بن فہد یونیورسٹی میں میڈیا سپیشلسٹ کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *