عالمی معیشت:نو استعماریت کے سایے میں
ڈاکٹر ریحان انصاری
تمہید:
تمدنی زندگی میں معیشت ایک اہم معاملہ ہے جس پر انسانی زندگیوں کی تسہیل ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں دئیے گئے عنوان میں شامل الفاظ کی تفہیم و توسیع کرنا مناسب خیال پڑتا ہے تاکہ گفتگو کو ایک بہتر اور مستحکم بنیاد میسر آئے۔عنوان میں اہم الفاظ کے بطور ’عالمی معیشت‘ کی ترکیب ہے جسے ہم معیشت کی عالمی صورتحال سے منطبق کرکے سوچنے سے قبل خود ’معیشت‘ کی تشریح کرنا چاہیں گے۔ اُس کے بعد ایک اور ترکیب ’نو استعماریت‘ کی ہے جس میں ہمیں پہلے ’استعماریت‘ کی تفہیم ضروری معلوم ہوتی ہے اس کے بعد اس میں ’جدیدپن‘ کا دخول و غلبہ سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔ ’سایے میں‘ سے مراد دوہری ہو رہی ہے یعنی خود جدید پن کا معیشت پر کیا اثر پڑا ہے اور دوسری بات یہ کہ اس سے عام انسانوں کی زندگیاں کیسے متاثر ہوئی ہیں۔
معیشت Economy کا تعلق کسی بھی ملک و قوم کے ذریعۂ معاش سے ہے جو مزدور، سرمایہ، زمین اور زمینی وسائل، صنعت و حرفت، تجارت و بازار، تقسیمِ مصنوعات، صارفین اور ان سے جڑی خدمات کے باہمی تعامل سے ترتیب پاتا ہے۔ معیشت پر ٹکنالوجیکل ترقیات کا براہِ راست اثر ہوتا ہے اور ان ترقیات میں علاقے کا جغرافیہ، سماجی تانا بانا، قدرتی وسائل اور آب و ہوا نیز ماحولیات کلیدی رول انجام دیتے ہیں۔
استعماریت یا سرمایہ داری کے لیے انگریزی میں Capitalism کی اصطلاح درج ہے۔ اس کے معنی پوری معیشت پر یا اسکے کچھ حصوں پر چند مخصوص افراد یا نجی اداروںکا اپنے سرمایہ کی بنیاد پر خالص منافع کمانے کی نیت سے قبضہ ہے۔ استعماریت کی ابتدا یورپ میں سترہویں صدی کے اوائل میں ہوئی اور پہلا اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ نیدرلینڈس (ایمسٹرڈم) میں جاری کیا گیا۔ سرمایہ داروں میں یہ نظریۂ معاشیات کافی مقبول ہوا اور ملکوں ملکوں اسٹاک ایکسچینج کی توسیع ہوتی گئی۔ اب یہ چار صدیوں کی عمر کو پار کرچکا ہے۔ اس کا نیا روپ نواستعماریت ہے یا Neo-Capitalism۔ اس نظریہ نے محض سرمایہ داری کو نہیں بلکہ انسانی سماج میں مصروف خدمات و متحرک اداروں اور تحریکات کو بھی منافع خوری کا گُڑ چکھاکر اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس میں تمام قسم کی پیشہ وارانہ خدمات بھی شامل ہوچکی ہیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بات آئیے ہم اپنے عنوان پر گفتگو کا آغاز کریں۔ ہمیں جو عنوان دیا گیا ہے اسے مکمل نہیں لکھا گیا ہے۔ ہمیں مثبت پہلووں کو دیکھنا ہے یا منفی؛ یا پھر منطقی طور پر دونوں کا تجزیہ کرنا ہے؟۔۔۔ مگر الفاظ ’’سایے میں‘‘ یقینا معنی خیز اشارہ کرتا ہے کہ انسان نواستعماریت سے پریشان ہیں اور ہمیں اس پریشانی کا تذکرۂ خصوصی کرنا ہے۔
جذبۂ ذخیرہ اندوزی اور استبداد:
عالمِ موجودات میں انسان کی بڑی عجیب و غریب حیثیت ہے۔ یہ اس دنیا کا سب سے بڑا صارف ہے۔ دیگر حیوانات کے برخلاف یہ صرف یومیہ خوراک اور بودوباش کے حصول پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کی نفسانی خواہشات ’’ھل من مزید‘‘ کا تقاضہ کرتی رہتی ہیں۔ بقول غالبؔ ’’بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘ کی تصویر اور تفسیر ہے۔ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ اسے زندہ رہنے کے لیے اپنے ہم نوع افراد کی بھی مدد درکار ہوتی ہے۔پھر آسائشی وسائل کی فراہمی اور آسودہ ماحول کی تعمیر کسی ایک یا محض چند انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسان کے خمیر میں ذخیرہ اندوزی کا مادّہ بھی شامل ہے۔ جذبۂ ذخیرہ اندوزی کے تحت یہ انسان ایسے تمام وسائل اور منابع پر قابض ہونا چاہتا ہے یا انھیں دوسروں سے چھین لینے پر کمربستہ دکھائی دیتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لیے مفید ہیں۔ پھر شرائط مقرر کرکے وہ ان وسائل کے استعمال کی اجازت دوسروں کو دیتا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرنا اس کا خاصہ رہا ہے۔
اقوامِ عالم کی مذہبی اور تہذیبی تاریخ کا مکمل تذکرہ کسی بھی بڑی لائبریری کے تمام شیلف بھردے گا پھر بھی ناتمام ہی رہے گا۔اس میں ایک بات مشترک ہے کہ ہرزمانے کے سماج میں خصوصیت کے ساتھ مالدار اور غریب طبقات موجود رہے ہیں اور جتنا بڑا انسانی گروہ ہوتا تھا وہاں اتنی ہی وسعت کے ساتھ سماجی قوانین و ضوابط بنائے جاتے تھے۔ مالدار طبقات نے ہر دور میں غریب اور پچھڑے طبقات پر حکمرانی اور بالادستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی استبدادی رویہ کے سبب غریب طبقات پوری زندگی حسبِ خواہش آسودگی اور روزگار حاصل نہیں کرپاتے تھے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی کوئی پیش رفت یا ترقی نہیں کرسکتے تھے۔ تاریخ میں ایسے کم ہی علاقے اور بہت کم افراد ملتے ہیں جنہوں نے سماجی نابرابری کا سدِّباب کرنے کی کوششیں کی ہوں اور عدل و انصاف قائم کیا گیا ہو۔ نئی جنریشن کے لیے آبائی و خاندانی پیشے ہی اپنانے کو ایک طویل زمانے تک سماج کا اٹوٹ حصہ بنائے رکھا گیا۔ اس وجہ سے بہترین نفری صلاحیتیں جو دیگر میدانوں میں انقلابی رول انجام دے سکتی تھیں وہ خود کے لیے بھی اور انسانی سماج کے لیے بھی بے سود رہ کر ختم ہوگئیں۔ دوسری جانب اکثر موروثی طور سے بے صلاحیت اور ناکام انسانوں نے حکومت کا نظام سنبھالا۔ یہ فرسودگیاں صدیوں تک انسانوں کی تمدنی ترقی کی راہ کا روڑا بنی رہیں۔
بہت تیز ہیں یورپ (مغرب/ امریکہ) کے رندے:
عام انسان سب سے پہلے تواپنی اور آل و اولادکی بودوباش اور فکرِ معاش سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ انتہائی نجی سطح پر ہوتا ہے۔ تمدنی انداز آنے کے بعد وہ وسیع تر اور فائدہ بخش وسائل تلاش کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے مختلف النوع لین دین کا ایک نظم پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ایک معاشی نظام ترتیب پاتا ہے۔ صدیاں بیت گئیں اور انسانی گروہوں میں بادشاہ، راجے مہاراجے اور دیگر حاکمین پیدا ہوتے رہے۔ ان کے اپنے اپنے علاقے مخصوص تھے۔ ان کے سامنے کوئی بڑا نصب العین نہ تھا۔ اپنی کھال میں مست رہتے اور صرف اڑوس پڑوس کی ریاستوں اور سلطنتوں سے (جنگی) مقابلے کی تیاری رکھا کرتے تھے۔ یورپ والوں نے کرۂ ارض پر نئی سرحدیں بنانی شروع کر دیں۔ دنیا کے جغرافیہ میں سلطنتوں پر قبضوں اور توسیعات کے لیے لڑائیوں کا مقصد بھی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا کہ دوسرے علاقوں کے قدرتی وسائل کو ہتھیا لیا جائے اور اس پر من مانی کی جائے۔ جب تکنیکی ترقیات کا اجرا ہوا تو نوآبادیاتی نظام قائم ہونے لگا اور ان ترقیات کا مرجع چونکہ یورپ ٹھہرا تھا اس لیے معاشی ترقیات بھی وہیں سے ہونی شروع ہوئیں۔اب بازار میں ’’سپلائی اور ڈیمانڈ‘‘ جیسے فلسفوں نے جنم لیا، جو معکوس انداز میں تبدل سے دوچار ہوتا ہے؛ یعنی جب ڈیمانڈ زیادہ ہو اور سپلائی کم تو منافع کی شرح بڑھادی جاتی ہے اس کے برعکس جب سپلائی ڈیمانڈ سے سوا ہو تو منافع کی شرح کم کرکے اشیاء بازار میں لائی جاتی ہیں۔ یہ فلسفہ اصل میں جدید معاشیات کی بنیاد بنا۔سیاستدانوں اور حکومتوں کو اس میں شرکت دی گئی؛ اس طرح سرمایہ داروں نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا لی۔برطانیہ اور فرانس کے ساتھ اسپین اور پرتگال کے علاوہ امریکہ نے بھی اس میدان میں اپنا اپنا اجارہ قائم کرنا شروع کردیا۔ انھوں نے اپنی بندرگاہوں اور طیران گاہوں پر کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے محصولات جاری کرکے اپنے ملکوں کے بین الاقوامی تاجروں اور سرمایہ داروں کی حفاظت کا اہتمام کرنا شروع کردیا۔ اب جو بیرونی ممالک ان ملکوں میں اپنا مال اور مصنوعات بھیجتے تو اس طرح انھیں کافی مہنگا بنادیتے تھے۔اور اپنی مصنوعات نیز پیداوار کو دوسرے ممالک میں بھی کثیر منافع خوری کی نیت سے بھیجتے تھے۔ اس کے لیے وہ متعدد ترکیبات اختیار کرتے جنھیں جدید معاشی اصولوں سے معنون کرتے تھے۔ میڈیا کی سرپرستی کرکے اسے اپنا ہمنوا بنالیا تو ان کا کام مزید آسان ہوگیا۔ گذرتے دنوں کے ساتھ جدید تکنیکی لوازمات اور ترقیات میں سبقت کی وجہ امریکہ مذکورہ مغربی ممالک پر بھی حاوی ہوتا گیا۔ کمپیوٹر ٹکنالوجیز کے پھیلاؤ اور افادیت نے پوری دنیا کے مسافتی یا نقل و حمل کے فاصلوں کو معدوم کرنا شروع کردیا تو ۰۶۹۱ء کے بعد دنیا ایک نئی اصطلاح ’’گلوبل ولیج‘‘ سے آشنا ہوئی جسے بعد میں معاشی معاملات سے منسوب کرکے ’’گلوبلائزیشن‘‘ سے یاد کیا جانے لگا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا کس طرح امریکہ کی مٹھی میں بند ہے۔ ہمیں اس بات کو محسوس کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یہ پوری معاشی مشینری یہودی کل پرزوں پرحرکت کر رہی ہے۔کیونکہ بڑی یا بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے جن قوانین کی پاسداری لازمی ہے اس پر یہودیوں کی یا ان کی لابی کی مہر ثبت ملتی ہے۔اور یہودیوں کی انسان دشمنی اور خدا دشمنی کی شہادت خود الٰہ العالمین دیتا ہے۔
سرمایہ داری، معاشیات اور عالمی معیشت
سرمایہ داری سے مراد کسی بھی چیز کا مالی نفع حاصل کرنے کے لیے تجارتی لین دین کرنا ، اس تنافع کی حفاظت کرنا اور اسے بڑھانے کی ترکیب اختیار کرنا ہے۔ تجارت کے لیے دو قسم کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ایک مالی یا پونجی لگانے والی اشیاء اور دوسری اشیائے صرف یا استعمال کے قابل اشیاء۔خام مال، مشینوں، فیکٹریوں وغیرہ میں پونجی لگائی جاتی ہے اور ان سے ہی اشیائے صرف تیار کی جاتی ہیں جیسے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، کاریں، بلڈنگیں وغیرہ کے علاوہ روزانہ استعمال کی اشیائِ خورونوش اور زیب و پوش تیار کی جاتی ہیں۔ اس تیاری کے مرحلے میں دو اہم عوامل درکار ہوتے ہیں: مزدور اور زمین (اس کے ساتھ ہی اس جگہ کے قدرتی وسائل)۔
ویب پیج http://riseforpakistan.org/urdu/events4.php پر ایک مباحثہ میں درج ایک معلوماتی اقتباس پیش ہے: ’’سرمایہ داری کے تین ادوار ہیں: ابتدائی تجارتی دور میں تاجر ایک جگہ سے سستی چیزیں خریدتے تو دوسری جگہ لے جاکر انھیں مہنگے داموں فروخت کردیتے، مگر یہ مشکل اور بہت وقت لینے والا کام تھا، اور اس دور میں سرمایہ گردش میں نہیں تھا اور اضافی سرمایہ سونے کی شکل میں محفوظ کیا جاتا تھا کیونکہ سونے کی قدر اس وقت بہت زیادہ تھی۔ دوسرا دور صنعتی سرمایہ داری کا تھا جس میں فیکٹریوں کے اندر بڑے پیمانے پر پیداوار تھی، جیسا کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تو نئے ذرائعِ پیداوار نے جنم لیا۔ زراعت کے شعبہ میں زیادہ تر کاموں کی تکمیل کے لیے مشینوں کی ایجاد کی وجہ سے بے شمار زرعی مزدور بے روزگاری کا شکار ہوکر شہر کی طرف چلے آئے۔جس کی وجہ سے فیکٹریوں میں انتہائی سستی مزدوری پر کام کرنے والوں کی فراہمی ہوئی۔اس دور میں بعض دانشوروں، جن میں ایڈم اسمتھؔ نمایاں ہیں، نے کہا کہ ریاست کو منڈی (مارکیٹ) میں قطعی طور پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور مزدوروں کی اُجرتوں کا فیکٹری مالکان کی مرضی پر منحصر ہوگا کہ وہ منڈی کی ضرورتوں کے تحت جتنا چاہیں تعین کردیں۔ (نظریۂ آبادی کے خالق) Thomas Robert Malthus مالتھس کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافہ خوراک کی قلت کے نتیجہ میں قحط کی شکل میں نکلے گا۔ ڈیوڈ ریکارڈو کا کہنا تھا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مزدوروں کو کم سے کم تنخواہ دینی چاہیے تاکہ وہ زیادہ بچے نہ پیدا کریں۔ اس دور میں مزدور بہت ہی کسمپرسی کے حالات میں زندگی گذار رہے تھے اور ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جاتا تھا۔۔۔۔۔ کارل مارکس، ڈاروِن سے متاثر تھے جنھوں نے ارتقا کی تھیوری پیش کی تھی۔مارکس نے ’داس کیپٹل‘ میں ’’تقسیم کار‘ ‘ کے ارتقا کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ یہ ہر دور میں موجود تھے مگر اس کی شکلیں ہر دور میں مختلف تھیں، مارکس کے مطابق سماج سرمایہ داری سے لازمی طور پر سوشلزم اور کمیونزم کی طرف جائے گا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے کہا کہ سرمایہ داری اپنی شکلیں بدلتی رہتی ہے جبکہ اس کی تیسری شکل مالیاتی سرمایہ داری ہے‘‘۔
درج بالا ہر نظریہ میں سرمایہ دارانہ نظام کی بتدریج نمو اور خیالات و نظریات میں ایک سازشانہ اُپج محسوس ہوگی۔ یہاں ہمیں لازمی طور پر ایک بات محسوس ہوتی ہے کہ اس پورے دور میں روس نے کارل مارکس اور دیگر اشتراکی نظریہ سازوں کی رہنمائی میں دنیا کی دوسری بڑی یا قطبی طاقت ہونے کا اعزاز تو حاصل کرلیا تھا مگر سرمایہ داری کی نظریاتی (بلکہ ہٹ دھرم) مخالفت کے سبب دنیا کی معاشی نبضوں پر اس نے کبھی انگلی نہیں دھری۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ وہ اپنے نظریات کے ساتھ ایک صدی بھی مکمل نہیں کرسکا اور بغیر کسی واضح جنگ کے لخت لخت ہوگیا۔ اُس کا مزدور آج بھی قابلِ رحم مزدور ہے۔ روس آج خود سرمایہ دار زمرے میں نہ ہوکر کنزیومر (صارف) زمرے کا رکن بنا ہوا ہے۔ اس کی ان تکنیکی فراستوں کو بھی دنیا میں خریدار نہیں ملے جو اس کی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھیں۔ آج کی پوری معاشیات پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا قبضہ بنا ہوا ہے۔ہم مایوس نہیں ہیں مگر سرِ دست ان ممالک کے زہرناک شکنجوں سے پوری انسانیت کو آزاد کرانا محال نظر آتا ہے اور دنیا میں کسی درجہ میں کوئی اجتماعی کوشش بھی نہیں دکھائی دیتی۔
نواستعماریت یا نوسرمایہ داری!
نواستعماریت یا Neo-Capitalism اصطلاح کا سب سے پہلا استعمال ۰۵۹۱ء اور ۰۶۹۱ء کے درمیان فرانس اور بلجیم کے اشتراکی نظریات کے قلمکار اینڈری گورز اور لیو مشیلسن (André Gorz and Leo Michielsen) نے کیا۔۰۷۹۱ء میں ماہرِ سماجیات مائیکل مِلّر نے اس کی تشریح اس انداز میں کی کہ مزدوروں کی بے چینی، بے کیفی اور ان کی باربار کی ہڑتالوں وتحریکات سے تنگ آکر یورپی حکومتوں نے مختلف عوامی خدمات اور ادارے نیز بڑے کارخانے اور فیکٹریاں پرائیویٹ کمپنیوں سے اشتراک کرکے یا پھر ٹھیکہ پر دینا شروع کردیا۔ اس طرز پر جاری سرمایہ داری میں حکومت کا عمل دخل انتہائی کم یا بالکل نہیں ہوتا اور پرائیویٹ کمپنی اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق اجرت اور کام کے معمولات طے کرتی ہے۔ نواستعماریت کو یکبارگی نہیں بلکہ بتدریج نافذ کیا جاتا ہے۔ پہلے تعلیم اور صحتِ عامہ کے شعبے، اس کے بعد روڈ اور ہائی ویز اور بعد میں سیکوریٹی سے جڑی پولیس کی مختلف خدمات پرائیویٹ ایجنسیوں کو سونپی جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ زندگی کے ان تمام شعبوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جن سے عوام کا کوئی بھی بڑا طبقہ جڑا ہو؛ خواہ وہ زراعت ہو، بینکنگ ہو یا بیمہ، کھانے پینے کی اشیاء کی تجارت ہو، تعمیرات ہوں، ملبوسات ہوں یا پھر سامانِ تعیشات اور زیب و زینت کی اشیاء کا کاروبار ہو، وغیرہ۔ ان تمام شعبوں کا ٹھیکے دار یا مالک کوئی ایک کمپنی بھی ہوسکتی ہے یا متعدد کمپنیاں الگ الگ شعبوں پر اپنا اجارہ رکھتی ہیں۔ ان سب کو ایک اور نام ’کارپوریٹ سیکٹر‘ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ان کمپنیوں کی افادیت یا نقصان یعنی ’’سایہ‘‘ کا بلیک اینڈوہائٹ دیکھنے کے لیے ہمیں دو مختلف عینکیں درکار ہوں گی، اور موازنہ کرنا ہو تو ایک الگ میزان کے دو جدا جداپلڑے۔ سوچ کے دو متوازی خطوط ہیں، دو مقابل زاویے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے سایے میں راحت و پناہ حاصل ہوگی اور دوسرے یہ کہ اس کے سایے میں استبداد و استحصال کا شکار ہونا پڑے گا! تو آئیے دیکھیں کہ ہمیں دونوں دریچوں میں کون سے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں:
٭یہ کمپنیاں اپنے شیئرہولڈروں کا اعزازواکرام بھی کرتی ہیں جو یقینا عوام میں سے بھی ہوتے ہیں۔ اپنی میٹنگوں میں شیئرہولڈرس کی رائے لینے کے لیے جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے انھیں جوڑتی ہیں اور جاری میٹنگ میں وہ مواصلاتی انداز سے اِنٹرایکٹ کرکے شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کی رائے کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کاروبار وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہو تو پرائیویٹ کمپنیاں اپنی علاقائی اکائیاں بھی بناتی ہیں جہاں اپنے حصص داروں کو وہ جملہ سہولیات و معلومات نیز مطلوبہ جدولات و شماریات بلاتاخیر فراہم کرتی ہیں۔ منافع زیادہ دیتی ہیں اور گھاٹا کم دیا کرتی ہیں۔ انھیں تعاملات کے سبب انھیں حکومتی اداروں پر کئی گنا سبقت اور مقبولیت حاصل ہے۔ یہ طریقہ ’’جو مال لگاتا ہے وہ مال کماتا ہے‘‘ کے فلسفے پر ہی یقین رکھتا ہے۔ اس غول میں شامل ہونے والے لوگوں کا نصب العین یہی ہوتا ہے اور وہ اسی سبب سرمایہ داری یا ہمارے درمیان مروّجہ اصطلاح ’’سرمایہ کاری‘‘ سے کسی حد تک مطمئن ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ کسی قدر آسائشی زندگی گذارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بہتر اور کسی قدر تعلیم یافتہ مزدوروں کی تلاش میں یہ کارپوریٹ سیکٹر چھوٹے موٹے اور کم مدتی پروفیشنل کورسیس بھی چلاتا ہے جس کی وجہ سے پرسنلیٹی ڈیولپمنٹ بھی ہوتا ہے اور افراد میں کچھ کرنے کی امنگ اور خوداعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ان کورسیس کے لیے کوئی اعلیٰ تعلیمی قابلیت یا اہلیت لازمی نہیں ہوتی۔
٭لیولیاؤنتیف اپنے ایک مضمون ’سرمایہ داری کا اجارہ دارانہ مرحلہ سامراج‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’’مقابلے کے دوران بڑے کاروبار چھوٹے کاروباروں کو زیادہ سے زیادہ ختم کرتے ہیں اور نہ صرف دستکار بلکہ چھوٹے سرمایہ دار بھی غریب ہوجاتے ہیں۔صنعتی پیداوار کا بڑا حصہ کچھ بڑے اور کچھ بہت بڑے کارخانوں میں جمع ہونے لگتا ہے۔۔۔ بہت سی پیداوار اور سرمایہ ایک ہی جگہ جمع ہوجاتے ہیں۔ جب پیداوار کا اجتماع وسیع ہوجاتا ہے تو اس کی بدولت اجارے داریاں پیدا ہوتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں۔۔۔ پیداوار کے ایک ہی جگہ مجتمع ہونے سے صورتِ حال بدل جاتی ہے اور بڑے بڑے کارخانے چھوٹے کارخانوں کی بدولت آپس میں کہیں آسانی سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں کہ منڈی کا مشترکہ طور پر کس طرح استحصال کیا جاسکتا ہے۔اجارے داریوں کا تسلط ہی سامراج کی بنیادی خصوصیت ہے۔۔۔ یہ سرمایہ داروں کا اتحاد ہے جو کسی چیز کی پیداوار اور فروخت کو زیادہ تر اپنے ہاتھوں میں لے کر مقابلے کو محدود کرتے ہیں اور اجارہ دارانہ قیمتوں پر فروخت کرکے بہت زیادہ منافع کماتے ہیں۔۔۔کئی دہائیوں کے دوران سرمایہ دارانہ ملکوں کی معیشت میں اجارہ داریوں کا کردار، ان کی وسعت اور اہمیت بڑھ گئی ہے۔۔۔۔ چھوٹے پروڈیوسر خام مال اونچی اجارہ دارانہ قیمتوں پر خریدنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور اپنی اشیاء ان غلامانہ شرائط پر بیچتے ہیں جو اجارہ داریاں لگاتی ہیں۔۔۔ اجارے داریوں کو بہت بڑا خراج اداکرکے آبادی کے وسیع حلقوں کی مفلسی بڑھ جاتی ہے اور ان کا معیارِ زندگی گر جاتا ہے۔‘‘
ہم اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے دائرہ میں کسی غریب کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ وہ صرف مزدوری کرسکتا ہے۔ دنیا کی آبادی میں اکثریت غریبوں کی ہے۔ غریب روزمرہ کی چیزیں خریدنے میں پسپا ہوتے جارہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور طبی خدمات کو بھی انتہائی گراں جنسِ بازار بنا دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں غریب کے لیے علاج کروانے سے زیادہ آسان مرجانا ہوا ہے۔ سامنے ٹنوں اناج سڑتا رہتا ہے مگر راشن کی دکانوں سے قحط کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ غریب کسان اور غریب عوام انتہائی کسمپرسی کے عالم میں خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں اور ان کے اعدادوشمار دن بہ دن اونچے ہوتے جارہے ہیں۔ دولت کی غیرمساویانہ اور غیرمنصفانہ تقسیم نے افراطِ زر، گھوٹالوں اور گھپلوں جیسے امراض کو جنم دیا ہے۔سرمایہ دار اپنے مفادات کے لیے جرائم پیشہ افراد کو سیاست اور حکومت میں شامل کرنے کے لیے ہر قسم کی امداد کرتے ہیں۔
کیا ہم نواستعماریت کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں یا اسے محدود ہی کردینے کی پوزیشن میں ہیں؟ سرِدست تو نہیں! کیونکہ اس کے حامی بھی موجود ہیں اور حکومتیں بھی ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ مختلف حیثیتوں سے نواستعماریت ہمارے سماج کا اٹوٹ حصہ بنتی جارہی ہے۔ وہ ہرجگہ اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔اس پر ردِّ عمل کرتے ہوئے ہم بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!‘‘