غیر قانونی اور کمزور عمارتیں تعمیر کرکے اپنا گھر جہنم میں نہ بنائیں

غیر قانونی اور کمزور تعمیرات کے کاروبار نے مسلمان بلڈروں کے اندر سے خدا کا خوف نکال دیا ہے ۔رشوت اور ناجائز طریقے اختیار کر کے جس طرح وہ پیسے کما رہے ہیں کیا سماج کے ساتھ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟ پیش ہے ممبئی سے آرزو شوکت علی اور کولکاتہ سے شہر یار حسین کی رپورٹ

Mumbra ki Imarat and Javed bhai
زندگی اور موت اللہ رب العزت کے ہاتھ ہے ۔جس کی زندگی کا چراغ گُل ہوناطے پا چکا ہو وہ لاکھ جد و جہد کرلے حیات حاصل نہیں کرسکتا اسی طرح جسے دنیا میں سانسیں لینا باقی ہو اسے مارنے کی لاکھ تدبیر کرلی جائے کوئی بال بیکا بھی نہیں کر سکتا۔لیکن موت و حیات کے باب میں اسباب بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔اگر کسی کی موت لکھی ہو لیکن موت کے اسباب میں اگرکسی کا نام شامل ہوجائے تو گناہ لازم آتا ہے اسی طرح اگر کسی کی زندگی لکھی ہو لیکن حیات کو دوام بخشنے میں اگرکسی کی جد و جہد رنگ لائے تو ثواب کا حقدار قرار پاتا ہے۔کیونکہ تقدیر کا فیصلہ کیا ہے یہ صرف اللہ رب العزت کے ہی علم میںہے اور انسان اپنی تدبیر کے ذریعہ تقدیر کے فیصلے پر عمل کرتا ہے۔ضلع تھانے کے شیل پھاٹا میں غیر قانونی کمزور عمارت کی تعمیر کے نتیجہ میں جو حادثہ پیش آیا اس میں جن لوگوں کا بھی نام بطور اسباب کے شمار ہوا ہے وہ اس دنیا میں انسانی قانون کی مار تو برداشت کریں گے ہی لیکن کیا وہ آخرت میں ان تمام لوگوں کے لئے ماخوذ نہیں ہوں گے جن کی جانیں اس حادثے میں تلف ہوئی ہیں؟دراصل سماجی نقطہ نظر سے بھی جہاں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر درست نہیں وہیں شرعی نقطہ نظر سے بھی اسے ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔الجامعۃ الاسلامیہ ،نور باغ ،کوسہ کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبد الحکیم مدنی کہتے ہیں’’غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کو کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔دراصل معاملہ یہ ہے کہ ہر وہ قانون جس کا شریعت سے ٹکرائو نہ ہو اس پر عمل آوری عامۃ الناس کے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ انسانوں کے فائدے کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں ہندوستان میں بھی جو قانون بنائے گئے ہیں وہ عوام الناس کے فائدے کے لئے ہی ہیں بشرطیکہ وہ شریعت سے متصادم نہ ہوں ۔لہذا جس کام سے شرر کا اندیشہ ہو اس کو شریعت نے روکا ہے۔غیر قانونی تعمیرات سے سماجی نظام بگڑ جاتا ہے اور لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بعض اوقات تو حقیقی مستحقین کا حق بھی مارا جاتا ہے ۔اس روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ غیر قانونی تعمیرات پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔‘‘البتہ مولانا اس بات کا حوالہ دینا بھی نہیں بھولتے کہ ’’آخر انتظامیہ کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ لوگ غیر قانونی تعمیرات کی طرف متوجہ کیوں ہوتے ہیں؟ دراصل معاملہ یہ ہے کہ جب قانون کے راستوں کو مسدود کر دیا جائے گا تو لوگ قانون کے خلاف کام کریں گے۔اس وقت المیہ یہ ہے کہ حکومت و انتظامیہ نے قانونی عمارتوں کی تعمیرات کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ غیر قانونی تعمیرات کی طرف متوجہ ہوئے ہیں جبکہ رشوت خوری اور کالا بازاری کی وجہ سے متعلقہ افسران بھی اس بات کو پسند کرنے لگے ہیں کہ لوگ غیر قانونی تعمیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ان کی جھولیاں ناجائز پیسوں سے بھرتی رہیں‘‘۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں غیر قانوی تعمیرات کا سب سے زیادہ کام مسلم علاقوں میں ہی انجام دیا جارہا ہے۔اگر آپ مغربی بنگال سے جائزہ لینا شروع کریں اور کولکاتہ کی مثال لیں تو مسلمانوں کی کثیر آبادی والا صنعتی علاقہ توپسیا اس کی بہترین مثال ثابت ہوگا۔یہاں بھی مختصر مدت میں ہی بڑی تیزی کے ساتھ بلڈنگیںبنائی جاتی ہیں تاکہ انتظامیہ کی طرف سے ہونے والی انہدامی کارروائی سے محفوظ رہا جاسکے اور رشوت خوری کے بعد کارپوریشن کے اہلکاروں نے جتنی مدت دی ہو اسی متعینہ مدت میں کام مکمل کر لیا جائے۔کولکاتہ کے میئر سوون چٹرجی بین الاقوامی معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ’’جہاں تک توپسیا میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کا سوال ہے تو یہ سابقہ کمیونسٹ حکومت کے دورکی دین ہے اسی دور میںسب سے زیادہ غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں ‘‘۔حالانکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ’’جب سے کولکاتہ میونسپل کارپوریشن نے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف الرٹ جاری کیا ہے اس کے بعد سے ہی محض چھ ماہ کے اندر 70سے زائد معاملات کا اندراج ہوا ہے جبکہ 40ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔‘‘کولکاتہ کے آرکیٹکٹ عظیم دانش کے الفاظ میں ’’ خوشیوں سے بھرے شہر کولکاتہ کو غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر نے پراگندہ کر دیا ہے۔اپنے علاقے کے سماجی کارکنان اور پولس اہلکاروں کو رشوت دے کر لوگ غیر قانونی عمارتیں تعمیر کر رہے جبکہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات پرپابندی لگائے اور سخت تادیبی کارروائی کرے۔‘‘
بنگال کے بعد جب بہار کی طرف رخ کریںتوضلع پٹنہ کے اطرف میں آباد پھلواری شریف،کھگول،نیورا ،راجا بازار،دانا پور،سلطان گنج،عالم گنج وغیرہ کے علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کی بھر مار پائیں گے۔چونکہ نتیش کمار کی حکومت فی الحال مسلمانوں پر مہربان ہے لہذا یہاں لوگوں کو آسانیاں بھی خوب فراہم کی جا رہی ہیں۔روزنامہ پندار کے ایڈیٹر ڈاکٹر ریحان غنی کہتے ہیں’’یہ حقیقت ہے کہ مسلم علاقوں میں غیر پلان شدہ تعمیرات ہورہی ہیں لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ پٹنہ اور اس کے اطراف میں جو زمینیں مسلمانوں کی تھیں اس پر غیر مسلم حضرات قبضہ کر رہے ہیں اور اپنا اپنا اپارٹمنٹ بنا رہے ہیں ۔اگر آپ آنند سنگھ اور ان کے آدمیوں کی کارستانی کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ پٹنہ کا مصروف ترین علاقہ فریزر روڈ،ایکزبیشن روڈ وغیرہ جہاںمسلمانوں کی بڑی بڑی جائدادیں تھیں اب ان تمام پرغیر مسلموں نے قبضہ کر لیا ہے اور غیر قانونی طور پر عمارتیں بنوا رہے ہیں۔‘‘
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی بھی اس بیماری سے اچھوتی نہیں رہی ہے ۔نئی دہلی کا مشہور مسلم علاقہ’’ اوکھلا‘‘جہاں کا ہر گھر کسی نہ کسی مذہبی آل انڈیا تنظیم کا دفتر کہلاتا ہے غیر قانونی تعمیرات میں اپنی مثال آپ رکھتا ہے۔مقامی طور پرتعمیراتی میدان میں مصروف کمپنی ’’اربن بلڈکان سالوشنس پرائیویٹ لمیٹیڈ‘‘ کے ڈائرکٹر عفان احمد کامل کہتے ہیں ’’دہلی کے پاش علاقوں کو چھوڑ دیں تو پوری دہلی میں ہی غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ووٹ بینک کی سیاست اور بلیک منی دہلی میں غیر قانونی تعمیرات کا اہم سبب ہیں۔جب انتخابات قریب آتے ہیں تو لوگوں کواس یقین دہانی کے ساتھ کہ ان کی عمارتوں کو قانونی شکل دی جائے گی غیر قانونی طور پر بسایا جاتا ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس کالا دھن ہے، غیر قانونی عمارتوں میں سرمایہ کاری کرکے اپنے سرمائے کو محفوظ کر لیتے ہیں کیونکہ 5لاکھ سے پچاس لاکھ تک کے معاملات نقد ہوا کرتے ہیں جس کا کہیں کوئی اندراج نہیں ہوتا ۔البتہ جامعہ نگر،شاہین باغ،ابولفضل انکلیو،غفار منزل ،سرائے جلینا جیسے علاقوں کو تو اب قانونی شکل دے دی گئی ہے لیکن اب بھی اوکھلا کا بڑا علاقہ غیر قانونی ہی ہے۔‘‘عفان کہتے ہیں ’’دراصل حکومت و انتظامیہ ہی اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ غیر قانونی عمارتوں کا جال بچھے تاکہ کالا دھن سفید کیا جاسکے۔‘‘
معاملے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ وہ بچے جو گلی محلوں میں آوارہ گردی کرتے پھرا کرتے تھے اب زمینوں پر قبضہ کر کے غیر قانونی عمارتوں کے کاروبار میں شامل ہوگئے ہیں ۔ممبئی سے محض چالیس کلومیٹر دور ضلع تھانے کے شہر ممبرا میں تو معاملہ یہ ہے کہ وہ بچے جو اسکول کے ابتدائی درجات میں ناکام ہو چکے ہیںاب بلڈر بن کر تعمیراتی کام کر رہے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ گلی محلے میں یار دوستوں کے ساتھ وقت گذاری کرنے والے ایک لا ابالی نوجوان نے دھونس دھاندلی کے ذریعہ ایک چھوٹی سی زمین حاصل کی اور پندرہ دنوں کے اندر ہی ایک منزلہ عمارت تعمیر کردیا ۔کل تک جو اپنے دوستوں سے چائے اور سگریٹ بھی ادھار مانگ کر پیتا تھا اب اس کے پاس ایک نئی ایکٹیوا اسکوٹر تھی تین منزلے کی کارروائی ابھی پوری ہی ہوئی تھی کہ وہ اسکوڈا کار خرید لاتا ہے اور یار دوستوں کو اس کی سواری کراتا ہے تین ماہ مکمل ہوتے ہوتے محض ہزار اسکوائر فٹ پر نو منزلہ عمارت کھڑی ہوجاتی ہے ۔غریب و کم آمدنی رکھنے والے لوگ اس میں آکر بس جاتے ہیں اور بغیر لائٹ ،پانی اور لفٹ کے 9ویں منزل تک کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ وقت گذرتے ساتھ ہی پانی اور بجلی کا غیر قانونی کنیکشن بھی حاصل کر لیا جاتا ہے لیکن وہاں کے مکین ہزار ذلتوں کے باوجود بھی اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ اب وہ صاحب فلیٹ ہوچکے ہیں۔تاریک پہلو تو یہ ہے کہ مذکورہ عمارت میں ہی ایک اسکول قائم ہے جس میں دو ڈھائی سو بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کسی کو یہ فکر نہیں کہ جو عمارت محض چار ماہ سے بھی کم مدت میں مکمل ہوئی ہو اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو کسے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا ؟ مقامی مکین اسلئے بھی خاموش ہیں کہ مذکورہ عمارت تعمیر کرنے والا مقامی ایم ایل اے کا خاص آدمی ہے جبکہ اسے تھانے کے سابق میئر کی پشت پناہی بھی حاصل ہے ۔یہ صرف تھانے کی کسی ایک بلڈنگ کی داستان نہیں ہے بلکہ ہر دس قدم پر آپ کو اس کی نظیر مل جائے گی۔دراصل سیاسی آقائوں کی سرپرستی میں علاقائی غنڈوں ،گلی محلوں میں بھائی گیری کرنے والے سماج دشمنوں کے لئے ضلع تھانے غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے محبوب مقام بن گیا ہے۔مقامی کانگریسی کارپوریٹر راجن کینے کہتے ہیں ’’غیر قانونی تعمیرات کا آغاز کارپوریشن اور انتظامیہ نے کیا ہے کیونکہ جب تک کارپوریشن اجازت نہ دے اس وقت تک بنیاد کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکتی ۔صحیح معنوں میں دیکھیں تو ممبرا و کوسہ کی پوری سر زمین ہی یا تو فاریسٹ زون میں آتی ہے یا پھر کھاڑی ہونے کی وجہ سے آر زون میں اس کا شمار نہیں ہوتا لہذا تعمیراتی قوانین و ضوابط کے طور پر یہ پورا خطہ ہی تعمیرات کے لئے نامناسب ہے۔‘‘البتہ وہ سماجی ضرورتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ممبرا و کوسہ میں غیر قانونی تعمیرات سماجی ضرورت ہے ،غریب و کم آمدنی رکھنے والے افراد یہاں اپنی سہولت کے مطابق مکانات خریدتے ہیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیںالبتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب سے راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے جیتندر اوہاڑ آئے ہیں یہاں تین اور چار ماہ کی مدت میں ہی آٹھ اور نومنزلہ کمزور عمارتوںکی تعمیر کا چلن عام ہوگیا ہے۔دراصل کمزور غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کرنے والے بیشتر افراد کا تعلق راشٹر وادی کانگریس پارٹی سے ہی ہے جو اپنی حکومت کے اقتدار میں ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بلا خوف و خطر کمزور سے کمزور تر عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔‘‘
البتہ ادارہ ادراک کے بانی اورمیڈیا ایکٹیوسٹ غلام محمد صدیقی کہتے ہیں ’’ہمارے بچوں کو بدنام کرنا کہ وہ غیر قانونی بلڈربن گئے ہیں یہ بالکل درست نہیں ہے کیونکہ قانون کے رکھوالوں نے ان تمام جائز راستوں کو مسدود کر دیا ہے جس کے ذریعہ ہمارے بچے بہترین تاجر بن سکیں لہذا انہوں نے غنڈہ گردی کے راستوں کو اختیار کرنے کے بجائے غیر قانونی تعمیرات کے راستے کو اختیار کیا ہے۔اگر حکومت چاہتی تو ممبرا کو بھی خوبصورت شہر بنا سکتی تھی جس طرح این سی پی سپریمو شرد پوار نے بینکوں کی رقوم کا استعمال کر کے ’’لواسا‘‘بسایا ہے کیا ممبرا کی تعمیر میں بینک قرضہ نہیں دے سکتا تھا؟دراصل مسلمانوں کا نہ تو کوئی سیاسی رہنما ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مسائل پر کوئی توجہ دینا چاہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے از خود اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اور انہیں جو سمجھ میں آتا ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں’’دراصل معاملہ یہ ہے کہ جس طرح مہاتما گاندھی نے برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تھی ممکن ہے کہ مسلمانوں پر جب ظلم کا بازار گرم ہو اور انہیں مواقع نہ دئے جائیں تو وہ بھی حکومت کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیں گے اور جس طرح ابھی غیر قانونی عمارتیں بنا رہے ہیں اسی طرح وہ تمام غیر قانونی کام انجام دیں گے جو حکومت کو خواب خرگوش سے بیدار کر دے گا۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *