مہاراشٹر: مسلمانوں میں طرز ملازمت اور غربت وافلاس
عبدالشعبان
پروفیسر,ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز,دیونار، ممبئی
مسلمان مہاراشٹر سمیت متعدد ریاستوں میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق اس وقت ریاست میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی 10.27 ملین تھی جو ریاست کی کل آبادی کا 10.6 فیصد ہے۔ ریاست/ مرکز کے زیر انتظام ریاست کی کل آبادی میں مسلمانوں کی حصہ داری کے معاملہ میں مہاراشٹر بارہویں مقام پر ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد کے معاملہ میں مہاراشٹر اتر پردیش، مغربی بنگال اور بہار کے بعد چوتھے مقام ہے۔ یہاں 70 فیصد سے زیادہ مسلمان شہری علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ شہری آبادی کا ایک بڑا حصہ ممبئی، ممبئی(سوبربن) اور تھانے اضلاع میں رہتا ہے۔ ریاست کے دوسرے شہر مثلاً ناگپور، پونے، ناسک اور اورنگ آباد میں بھی مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ مہاراشٹر میں مسلم آبادی کی مقامی تقسیم کے معاملہ میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ جہاں کچھ اضلاع مثلاً ممبئی (22 فیصد)، اورنگ آباد (19.7 فیصد)، اکولا (18.2 فیصد)، ممبئی سوبربن (17.2 فیصد) اوربربھنی (16 فیصد) میں جہاں مسلمانوں کی موجودگی قابل لحاظ ہے وہیں ودھاربا علاقے کے کچھ قبائلی ضلعوں مثلاً گونڈیا، گادچرولی اور باندرہ کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی شراکت بہت کم ہے۔ اس مضمون میں، میں 2001 کی مردم شماری اور خود میرے ذریعہ 2009 میں کئے گئے سیمپل سروے کے اعدادوشمار کی بنیاد پر مہاراشٹر میں مسلمانوں کے درمیان غربت وافلاس اور ملازمت کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔
پیشہ اور کام میں حصہ داری کی شرح
ریاست میں پیشہ وری کے معاملے میں مذہبی بنیاد پر معنیٰ خیز تنوع ہے۔ یہاں مسلم مزدوروں کی کل تعداد میں کاشت کاروں کا تناسب ہندوٴں کے مقابلہ بہت کم ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ زرعی زمین کی ملکیت ہندوٴں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بہت کم ہے۔ پہلی بات یہ کہ مسلم مزدوروں کی صرف 8.1% تعداد کاشت کار ہے جبکہ ہندو مزدوروں میں یہی تعداد 32.2 فیصد ہے۔ دیہی علاقوں میں مسلم کاشتکاروں کے تناسب میں 21.8 فیصد تک اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اب بھی ہندؤں (45 فیصد) کے مقابلہ میں کافی کم ہے۔ دوسری بات یہ کہ دیہی علاقوں میں مسلم زرعی مزدوروں کی تعداد ہندو مزدوروں سے کافی زیادہ ہے۔ ریاست کے دیہی علاقوں میں 36.1% ہندومزدوروں کے مقابلہ میں مسلم مزدوروں کی 44.4 فیصد تعداد ززعی مزدوری میں مصروف ہے۔ خاتون زرعی مزدوروں کی تعداد بھی مسلمانوں میں قابل لحاظ حد تک زیادہ ہے: مسلم خاتون مزدوروں کا تناسب 61.6% ہے جبکہ یہی تناسب ہندووٴں میں 45.5 فیصد ہے۔ تیسری بات یہ کہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں گھریلو صنعتوں میں مصروف مسلم کارکنوں کا تناسب بھی ہندوؤں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ متعلقہ مذہبی گروپوں میں کل مزدوروں میں سے مسلمان 3.6 فیصد جبکہ ہندو 2.6 فیصد گھریلو صنعتوں میں مصروف ہیں۔ مزید یہ کہ گھریلو صنعتوں میں مصروف مسلم عورتوں کی تعداد ہندووٴں میں اپنے ہم منص سے اور مسلمانوں میں مردوں سے تمایاں طور پر زیادہ ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم خواتین میں بے پناہ تخلیقیت موجود ہے جسے اقتصادی فائدہ کے لئے صرف منظم کر دینے کی ضرورت ہے۔
چوتھی بات یہ کہ دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع کی غیر یقینیت اور حالیہ برسوں میں مذہبی جذباتیت کو دیہی علاقوں میں بھی حاصل ہوئے فروغ نے مسلمانوں کو اپنے روزگار کے لئے شہروں کا رخ کرنے اور پہلے سے ہی موجود مسلم اکثریتی علاقوں میں بسنے پرمجبور کردیا ہے۔ ان علاقوں میں روزگار کا مسئلہ فرد اور سماج دونوں کے لئے سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ چونکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بڑے رسمی یا غیر رسمی کاروباری اداروں کی کمی ہے اس لئے انہیں ان اقلیتی بستیوں میں ہی کم مزدوری پانے والے غیر رسمی مزدوروں کے طور پر کام کرنا پڑتا ہے یا پھر کسی خودروزگار موقع کی جستجو ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ چونکہ شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں میں سے بڑی تعداد کاریگر طبقہ مثلاً درزی، بڑھئی، امبراڈری کاریگر وغیرہ سے آتی ہے اور ان میں سے بڑی تعداد گیراجوں میں بھی کام کرتی ہے یا وہ متعلقہ صلاحیت حاصل کرنے کے بعد گیراج کھول سکتے ہیں۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد ہاکنگ میں بھی مصروف ہو جاتی ہے یا پھر ممبئی میں یومیہ بنیاد پر ڈرائیور کی خدمات انجام دیتی ہے۔ مسلم سماج کے مزدوروں کی ان غیر رسمی سرگرمیوں کی پیچیدگی بہت زیادہ ہے۔ اس کے سبب ان کی آمدنی (کم آمدنی)، صحت (اکثر غیر صحت مند ماحول میں کام کے زیادہ گھنٹوں کے سبب)، عزت نفس اور وسیع تر معاشرہ میں شرکت متاٴثر ہوتی ہے۔ حالانکہ مردم شماری سے مفصل زمروں پر مبنی اعداد و شمار حاصل نہیں ہوتے، اس کے باوجود حاصل اعداد وشمار کے مطابق مہاراشٹر میں مسلم مزدوروں کی کل تعداد کا 70.7% حصہ غیر رسمی خدمات اور صنعتی شعبوں میں مصروف ہے جبکہ ہندووٴں میں یہی تناسب38.7 فیصد ہے۔ کاریگری کی صنعت میں ہندستان میں مردوں کا غلبہ رہا ہے۔ نیز یہ کہ شہری زندگی کی اجنبیت اور یہاں کے انجان چہرے خواتین میں اس اعتماد کو نقصان پہنچاتے ہیں جو انہیں کام کے لئے گھر سے باہر نکلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اسے شہری علاقوں میں منظم نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ہم غیر رسمی شعبوں میں مسلم خواتین کو اپنے ہم منصب مردوں کے مقابلہ میں کم پاتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ان کا حصہ ہندو خواتین کے مقابلہ میں کافی زیادہ ہے۔
مہاراشٹر میں ﴿اور دیگر ریاستوں میں بھی﴾ مسلمانوں کے تئیں فکرمندی کا ایک اور موضوع کام میں خصوصاً خواتین کی شرکت کا کم تناسب رہا ہے۔ اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلمانوں میں خواتین کی کام میں شرکت کا کم تناسب دراصل کام کی نوعیتوں کی وجہ سے ہے جن میں مسلمان مصروف ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ زیادہ تر کاریگری کے شعبے مردوں کے قبضے میں ہیں اور وہاں مسلم خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، ایسے شعبوں میں امبروڈری، ٹیلرنگ وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم ان کے لئے سرمایہ، جگہ اور بازار کی ضرورت ہوتی ہے اور اقلیتی بستیوں میں رہنے والی خواتین مشکل سے ہی یہ سب انتظام کر پائیں گی۔ اس پریشانی میں پردہ کا نظام ایک اور اضافہ کر دیتا ہے جو شاید ہی خواتین کو باہر جانے اور کچھ وسائل تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ریاستی سطح پر اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم مردوں کی کام میں شرکت کا تناسب 50.0 فیصد کے مقابلہ میں مسلم خواتین کا تناسب محض 12.7 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اوسطاً 100 میں سے محض 13 مسلم خواتین کام کر رہی ہیں۔ مسلم خواتین کے مقابلہ میں ہندو خواتین کی کام میں شرکت کا تناسب 32.2 فیصد ہے۔
مہاراشٹر میں مسلمانوں کی معاشی سرگرمیوں کی حالت
2009 میں مئی سے اکتوبر کے دوران TISS کے ذریعہ مہاراشٹر میں مسلم خاندانوں کا ایک مفصل سروے یہ جاننے کے لئے کرایا گیا تھا کہ وہ کن سماجی- اقتصادی حالتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سروے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ کل آبادی کے 31% افراد ﴿31.7% مرد اور30.3% خواتین﴾ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ آبادی کے 18.8% گھریلوڈیوٹیاں انجام دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مالی منفعت والی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ 18.8 فیصد کی یہ آبادی بنیادی طور پر خواتین پر مشتمل ہے۔ آبادی کا اگلا 11.3% حصہ بھی کام نہ کرنے والوں کے زمرے میں آتا ہے جو بنیادی طور بچوں پر مشتمل ہے۔ سروے ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں میں مزدوروں کا زیادہ تر حصہ ﴿آبادی کا 11.4% ﴾ خودروزگار کرتا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ مسلمانوں میں یومیہ مزدوری کا رواج زیادہ ہے۔ آبادی کا 12.2 فیصد حصہ سرکاری یا دیگر کاموں میں یومیہ مزدوری کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری کاموں میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرنے والوں کا تناسب مسلمانوں میں دیگر قسم کے کاموں کے مقابلہ میں کم ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرکاری کام مسلمانوں تک نہیں پہنچ رہے ہیں یا وہ حکومت کے ذریعہ شروع کی گئی یومیہ مزدوری پروگرام یا دیگر پروگراموں میں موثر طریقہ سے شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ آبادی کے صرف 10 فیصد حصہ کے پاس مستقل ملازمت ہے جبکہ 5.5 فیصد حصہ بے روزگار ہے۔
ٹیبل 1: موجودہ سرگرمی سٹیٹس کے اعتبار سے ﴿تمام عمر گروپوں کی﴾ مجموعی آبادی کی تقسیم
سرگرمی سٹیٹس |
افراد |
اوسط |
||||
|
مرد |
خاتون |
میزان |
مرد |
خاتون |
میزان |
أ. خود روزگار |
||||||
i۔ اپنے طور پر کام کرنے والے ورکرس |
1376 |
215 |
1591 |
11.9 |
1.9 |
7.0 |
Ii۔ ملازمت دہندگان |
94 |
14 |
108 |
0.8 |
0.1 |
0.5 |
Iii۔ گھریلو انٹرپرائز میں بطور ہیلپر کام کرنے والے |
83 |
17 |
100 |
0.7 |
0.2 |
0.4 |
ب. باضابطہ تنخواہ یافتہ / بھتہ ملازمین |
||||||
باضابطہ تنخواہ یافتہ / بھتہ ملازمین کے طور پر کام کرنے والے |
2011 |
332 |
2343 |
17.4 |
3.0 |
10.4 |
ج. معمولی بھتہ مزدور |
||||||
|
324 |
92 |
416 |
2.8 |
0.8 |
1.8 |
|
1470 |
436 |
1906 |
12.7 |
3.9 |
8.4 |
د. مزدور طبقے سے ہونے کے باوجود بعض اسباب کی بنا پر کام نہیں کیا |
||||||
|
246 |
139 |
385 |
2.1 |
1.3 |
1.7 |
|
125 |
287 |
412 |
1.1 |
2.6 |
1.8 |
|
5 |
0 |
5 |
0.0 |
0.0 |
0.0 |
|
3 |
1 |
4 |
0.0 |
0.0 |
0.0 |
ه. بے روزگار ﴿کام میں نہیں لیکن کام مطلوب یا اس کے لئے دستیاب﴾ |
||||||
|
430 |
378 |
808 |
3.7 |
3.4 |
3.6 |
|
290 |
76 |
366 |
2.5 |
0.7 |
1.6 |
و. مزدوروں کے طبقے میں نہیں ﴿کام میں نہیں اور کام کے لئے دستیاب بھی نہیں﴾ |
||||||
|
3657 |
3348 |
7005 |
31.7 |
30.3 |
31.0 |
|
75 |
4165 |
4240 |
0.6 |
37.7 |
18.8 |
|
10 |
214 |
224 |
0.1 |
1.9 |
1.0 |
|
26 |
6 |
32 |
0.2 |
0.1 |
0.1 |
|
48 |
26 |
74 |
0.4 |
0.2 |
0.3 |
|
5 |
12 |
17 |
0.0 |
0.1 |
0.1 |
|
1266 |
1281 |
2547 |
11.0 |
11.6 |
11.3 |
میزان |
11544 |
11039 |
22583 |
100.0 |
100.0 |
100.0 |
ذریعہ: ٹی آئی ایس ایس سروے، مئی – اکتوبر 2009۔
مسلمانوں میں شرح بے روزگاری
ٹی آئی ایس ایس سروے کے مطابق مرکزی وشمالی مہاراشٹر اور جنوب مشرقی وداربھا کے اضلاع میں مسلمانوں کے درمیان شرح بے روزگاری کافی زیادہ ہے ﴿دیکھیں خاکہ 1﴾۔ احمد نگر، بیڈ، پربھنی، ہنگولی، ناندیڑ، عثمان آباد، دھول، وردھا، چندرپور، گدچرولی، رائگر اور ممبئی وغیرہ اضلاع میں مسلمانوں کی شرح بے روزگاری 20-15 فیصد تک درج کی گئی ہے۔ صرف جنوب مغربی مہاراشٹر اور کونکن کے اضلاع میں، جہاں کاشتکاروں کا تناسب کافی زیادہ ہے، وہاں بے روزگاری کچھ کم ہے۔ شہری شرح بے روزگاری رائگر، بیڑ اور چندرپور اضلاع میں خصوصی طور پر زیادہ ﴿20 فیصد سے بھی زیادہ﴾ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں وردھا اور بھنڈارا میں یہ شرح 20 فیصد سے زیادہ ہے۔
مسلمانوں کے درمیان خواتین کی شرح بے روزگاری مردوں کی بہ نسبت بہت زیادہ پائی گائی ہے۔ یہ اعداد ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم خواتین کام کرنا تو چاہتی ہیں لیکن نامناسب قسم کی ملازمت ﴿جن میں مرد زیادہ تر شامل ہوتے ہیں﴾، عدم تحفظ کے سبب پیدا شدہ نامووزوں صورتحال، متعلقہ معلومات ومہارت اور سرمایے کا فقدان وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے مسلم خواتین میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ شہری مراکز میں مسلم آبادی کی کثرت کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
ٹیبل 1: مسلمانوں میں مجموعی شرح بے روزگاری ﴿فیصد میں﴾
ذریعہ: سیمپل سروے، مئی – نومبر 2009
ٹیبل 2: مسلمانوں میں شرح بے روزگاری ﴿فیصد میں﴾ اضلاع، سیکٹر اور جنس کے اعتبار سے
اضلاع |
کل |
شہری |
دیہی |
مرد |
خاتون |
ناندربار |
12.0 |
10.7 |
13.3 |
9.1 |
21.6 |
دھولے |
16.5 |
19.4 |
7.5 |
12.1 |
25.3 |
جلگاوٴں |
15.2 |
16.3 |
13.4 |
11.9 |
28.8 |
بلدھانا |
13.1 |
6.5 |
16.4 |
14.8 |
8.3 |
اکولا |
8.9 |
12.5 |
2.8 |
4.7 |
24.4 |
واشم |
4.5 |
2.3 |
7.5 |
1.7 |
14.3 |
امراوتی |
14.8 |
11.8 |
18.4 |
7.9 |
35.7 |
وردھا |
19.7 |
18.5 |
21.4 |
12.0 |
40.5 |
ناگپور |
10.5 |
9.3 |
13.0 |
8.7 |
14.1 |
بھنڈارا |
22.8 |
16.1 |
29.5 |
18.7 |
34.4 |
گونڈیا |
13.0 |
12.7 |
13.3 |
13.3 |
12.5 |
گڈچرولی |
18.1 |
21.4 |
14.0 |
12.6 |
34.4 |
چندرپور |
15.7 |
18.3 |
13.0 |
7.4 |
33.3 |
یاوتمل |
4.5 |
6.4 |
2.6 |
5.6 |
2.2 |
ناندیڑ |
15.7 |
18.8 |
12.4 |
14.0 |
23.1 |
ہنگولی |
16.7 |
13.6 |
20.0 |
16.2 |
20.0 |
پربھنی |
16.0 |
17.2 |
14.3 |
10.8 |
31.0 |
جلنا |
10.4 |
12.7 |
8.3 |
7.0 |
18.4 |
اورنگ آباد |
8.8 |
11.4 |
4.8 |
6.2 |
19.2 |
ناسک |
11.1 |
11.7 |
9.1 |
8.5 |
19.8 |
تھانے |
12.6 |
12.7 |
12.0 |
10.8 |
24.7 |
ممبئی ﴿سوبربن﴾ |
15.2 |
15.2 |
— |
11.8 |
30.5 |
ممبئی |
13.7 |
13.7 |
— |
12.4 |
20.2 |
رائے گڑھ |
15.6 |
23.4 |
6.9 |
12.9 |
28.6 |
پونے |
11.2 |
10.0 |
15.4 |
7.6 |
18.7 |
احمد نگر |
15.5 |
11.3 |
18.6 |
12.4 |
25.7 |
بیڈ |
18.4 |
24.1 |
14.6 |
15.0 |
27.5 |
لاتور |
11.3 |
5.7 |
14.3 |
6.1 |
27.0 |
عثمان آباد |
15.1 |
14.6 |
15.4 |
12.2 |
25.0 |
سولاپور |
7.1 |
8.9 |
3.8 |
6.9 |
8.0 |
ستارا |
4.5 |
6.0 |
3.0 |
3.0 |
9.1 |
رتناگیری |
4.8 |
4.4 |
5.3 |
2.2 |
12.1 |
سندھودرگ |
8.6 |
8.7 |
8.5 |
4.8 |
26.1 |
کولھاپور |
6.6 |
5.7 |
7.8 |
3.2 |
14.0 |
سنگلی |
10.1 |
8.5 |
11.4 |
5.8 |
26.9 |
مہاراشٹر |
12.7 |
13.1 |
11.8 |
9.9 |
22.2 |
نوٹ: شرح خود روزگاری = ﴿کل افراد خود روزگار / لیبر فورس میں کل افراد﴾ 100
بحوالہ: ٹی آئی ایس ایس سروے منعقدہ مئی – نومبر 2009
عمر اور سرگرمی کی صورتحال
زیاہ تر مسلم ورکر غیر روایتی اقتصادی سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہیں، ابتداء میں وہ بعض ملازمت دہندگان کے لئے کام کرتے ہیں اور پھر ذاتی سرگرمیاں شروع کرکے خود کفیل ورکر بن جاتے ہیں۔ غیر روایتی شعبوں میں کام کرنے کی وجہ سے انہیں درکار معلومات اور تجربہ حاصل ہوجاتا ہے جو اپنے چھوٹے کاروبار چلانے میں پیش آمدہ روزمرہ کی پیچیدگیوں سے نمٹنے میں ان کا معاون ثابت ہوتا ہے۔ 20 سے 30 برس کی عمر والے جوانوں کا تقریباً پانچواں حصہ تنخواہ یا بھتے پر ملازمت کرتا ہے۔ اس عمر والے لوگوں میں اپنا ذاتی کاروبار کرنے والوں کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے بعد اپنا کاروبار چلانے والے لوگوں کا تناسب اس سے اوپر عمر میں 60 سالوں تک کے لوگوں میں 15 فیصد کی شرح سے بڑھتا ہے۔ ان اعداد سے ابھر کر سامنے آنے والی ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواتین عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ گھریلو کام سے دوسرے قسم کے کاموں کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ گھریلو ورکرس کا تناسب 40 سال کی عمر سے خصوصی طور پر کم ہونے لگتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب خواتین مائیں بن جاتی ہیں یا گھریلو ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہیں تو وہ کام کرنا بھی شروع کردتی ہیں۔
سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب
سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ مہاراشٹر کی مجموعی آبادی کا 10.6 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن لیکن ریاست کی سرکاری خدمات میں ان کا تناسب محض 4.4 فیصد ہی ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں اتنے کم تناسب کے پیچھے کئی اسباب ہیں۔ مسلم آبادی والے علاقوں میں غربت وافلاس کی زیادتی اور تعلیم وسماجی انفرا اسٹرکچر کے فقدان، ذات برادری اور مذہبی خطوط پر سماج کی تقسیم جو ملازمتوں میں مسلمانوں کی رسائی محدود کردیتی ہے، نیز مسلم سماج کو مین سٹریم میں لانے کے لئے حکومت کے ذریعہ موٴثر پروگراموں کی قلت کچھ نمایاں اسباب ہیں۔ اس کے علاوہ بکثرت رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اقتصادی ونفسیاتی طور پر سماج کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان سماج کے مین سٹریم حصے سے اجتناب کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر درون سماج موجود قدامت پسند عناصر کی سُر میں سُر ملانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ صورتحال مسلم سماج کو مزید تعلیمی وملازمتی ترقی سے پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ مرکزی حکومت میں بھی ملازمتوں کا معاملہ ریاستی حکومت سے مختلف نہیں ہے۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسیز ﴿آئی اے ایس﴾ میں گذرتے وقت کے ساتھ مسلمانوں کی شرح قبولیت انتہائی محدود ﴿تقریباً 3 فیصد﴾ کردی گئی ہے اور صورتحال کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ وقت میں مہاراشٹر سٹیٹ کیڈر میں ایک بھی مسلم آئی اے ایس افسر نہیں ہے۔
اہلیت روزگار
اہلیت روزگار سے مراد کسی فرد کے اندر اس کی تعلیمی سطح وپیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر مناسب ملازمت حاصل کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ 92-1991 میں لبرلائزیشن کے بعد ابھرنے والی جدید معیشت میں مجموعی طور پر مختلف قسم کی مہارتیں اور رویے مطلوب ہوتے ہیں۔ سابقہ دنوں میں جب سرکاری ملازمتیں روزگار کا بنیادی ذریعہ ہوا کرتی تھیں، تب تعلیمی لیاقت ہی ملازمتوں کے لئے اصل معیار ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب ترقی پذیر پرائیوٹ سیکٹر اور سرکاری محکموں کی تبدیلیٴ ہیئت اور افسر شاہی سے آزاد کرانے کا عمل ملازمتوں کے لئے بھی نئی مہارتیں اور رویے طلب کرتا ہے اور تعلیمی لیاقت اب متعدد معیاروں میں سے محض ایک معیار کے طور پر باقی بچی ہے۔ عام طور پر اہلیت روزگار کا تعین کرنے والے عناصر حسب ذیل ہیں:
﴿1﴾ تعلیمی لیاقت، ﴿2﴾ اضافی مہارتیں مثلاً تبادلہٴ خیال کی صلاحیت، ملٹی ٹاسکنگ رویے وصلاحیت، ﴿3﴾ سوشل نیٹ ورکنگ اور ﴿4﴾ فیصلہ سازوں وملازمت دہندگان کے رویے وعملی تطبیق۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ مذکورہ چاروں معیاروں میں مسلمان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مسلم سماج کی تعلیمی سطح بہت کم ہے ﴿دیکھیں باب 3﴾۔ ایک اور بڑی رکاوٹ جو مسلمانوں کے سامنے ملازمتوں کے حصول میں پیدا ہوتی ہے وہ انگریزی زبان میں کمزوری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر افراد کی تعلیم اچھے تعلیمی اداروں میں نہیں ہوتی اور ان کا ذریعہ تعلیم بہت حد تک اردو، ہندی یا مراٹھی ہی رہتا ہے۔ اس وجہ سے جب وہ بعد میں بھی انگریزی زبان پڑھتے ہیں تو اس میں مہارت پیدا کرنا ان کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یہ تمام امور ورکرس اور جوانوں کی اہلیت روزگار محدود کردیتے ہیں۔
مسلم آبادی ملک کے زیر اقتدار طبقوں سے خصوصی طور پر علیحدہ رہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پرائیوٹ وپبلک دونوں سیکٹر میں زیادہ تر بحالیاں وروزگار کسی بھی دیگر معیار کی بہ نسبت سب سے زیادہ سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ عمل میں آتی ہیں۔ مسلم سماج کی جو تصویر میڈیا اور سیاست دانوں نے بنائی ہے وہ بھی دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ موٴثر نیٹ ورکنگ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ شک زیر اقتدار طبقے کے ساتھ ان کے تعلقات اور پھر ملازمت کے مواقع وامکانات کو کم کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم سماج کے اندر روایتی قیادت جس کی بنیاد زیادہ تر جذباتیت اور پسماندہ طرز فکر پر ہے، وہ بھی معاملات کی اس سنگینی کے لئے بہت حد تک ذمہ دار رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لیڈران عام مسلمانوں کو زیر اقتدار طبقے سے جوڑنے میں ناکام رہے ہیں لیکن انہوں نے ایک ایسی صوتحال پیدا کردی ہے جس میں مسلم سماج کو بڑی حد تک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیڈران کے رویے میں تبدیلی مسلم سماج کی ترقی کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے۔
ملازمتوں کے انتخابی مراحل میں مذہبی تعصب ملک کا ایک کھلا راز ہے جسے قبول کرنے میں کئی متعلقہ افراد اور بزعم خود دانشوران شرم محسوس کرتے ہیں۔ ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی حقیقت کو محض ایک طبقے کے مفاد کی خاطر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ صورتحال کا مطالبہ ہے کہ خود فریب ذہنیت کو اصحاب رائے اور فیصلہ سازوں کے درمیان سے نکالا جائے۔ روایتی جاب مارکیٹ بشمول سرکاری خدمات میں مسلم امیدواروں کے داخلے کو بڑھاوا دینے کی بھی ضرورت ہے اور یہ بڑھاوا اسی قسم کا ہونا چاہئے جیسا درج فہرست اقوام وقبائل کے معاملے میں برتا گیا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کی بدحالی کا اولین ذریعہ مذہبی تعصب کو مان لینا چاہئے۔ ملک کی ہمہ گیر وموٴثر ترقی 14 فیصدی آبادی کو خستہ حالی میں چھوڑ کر قطعاً ممکن نہیں ہوگی۔
زمینی ملکیت اور غربت
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج ہندوستانی مسلمان سب سے زیادہ غربت وافلاس کے شکار ہیں۔ اس ملک کے مسلمانوں کو آزادی کے بعد سے سماجی واقتصادی ترقیات کے مرحلے میں بالکل پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں درج فہرست اقوام وقبائل کو صدیوں تک حاشیے پر رکھنے کا نتیجہ ان کی عمیق محرومی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ آزادی کے بعد وہ مستحکم اقدامات جو پالیسی، پروگرام اور سب سے اہم گورنمنٹ سروسز میں ریزرویشن نیز فیصلہ سازی کے عمل اور بحالی میں تمام طبقوں کی لازمی نمائندگی وغیرہ کے ذریعہ کئے گئے، انہوں نے درج فہرست اقوام وقبائل کو سماجی واقتصادی ترقی کے دھارے میں تیز حرکت کا اہل بنا دیا ہے۔ تاہم ٹھیک اسی وقت ملک مسلمانوں کی صورت میں نئے دلتوں کے نمو اور ظہور کا شاہد بنا ہے۔
زمینوں کی ملکیت: ریاست میں مسلمانوں کے درمیان اراضی سے محرومی کی سطح بہت اونچی ہے کیونکہ مسلم سماج کا محض 10 فیصدی حصہ کسی زمین کی ملکیت رکھتا ہے۔ مزید برآں دیہی علاقوں میں مارجنل ہولڈنگس کی عدم حیویت اور سودمند ملازمت کے فقدان کی وجہ سے سال در سال مسلمان کافی تعداد میں شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیں اور اپنے پیچھے گاوٴں کی زمین چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ ان منجملہ اسباب میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے شہری مراکز میں قیام پذیر مسلم خاندان اراضی رکھنے کا دعوہ کرتے ہیں۔ شہری علاقوں کے تقریباً 7 فیصد مسلم خاندان دعوہ کرتے ہیں کہ ان کے پاس زراعتی زمینیں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر زمینیں 2.5 ایکڑ یا ایک ہیکٹر سے کم ہیں۔ توقع کے مطابق دیہی علاقوں کے خاندان شہری مراکز میں قیام پذیر لوگوں سے زیادہ زمین رکھتے ہیں۔ تاہم پھر سے زیادہ تر زمین مالکان مارجنل فارمر کیٹگری کے تحت آتے ہیں۔ تقریباً 17 فیصد فیملیاں دیہی علاقوں میں زمین رکھتی ہیں لیکن ان میں سے تقریباً 10.8 فیصد مارجنل فارمر کیٹگری میں، 4.6 فیصد سمال فارمر کیٹگری میں، 1.2 فیصد سیمی میڈیم فارمر کیٹگری میں اور بقیہ 0.2 فیصد میڈیم فارمر کیٹگری میں آتی ہیں۔
ٹیبل 3: فیملیوں کے اعتبار سے زمین کی ملکیت ﴿فیصد میں﴾
سیکٹر |
فارمر کی قسم |
کل |
||||
زمین سے محروم |
مارجنل فارمر (< 2.5 ایکڑ﴾ |
سمال فارمر ﴿2.5 – 5.0 ایکڑ﴾ |
سیمی میڈیم فارمر ﴿5.0 – 10.0 ایکڑ﴾ |
میڈیم فارمر 10.0 – 25.0 ایکڑ﴾ |
||
شہری دیہی |
93.2 |
6.3 |
0.2 |
0.3 |
|
100.0 |
83.2 |
10.8 |
4.6 |
1.2 |
0.2 |
100.0 |
|
کل |
89.9 |
7.8 |
1.7 |
0.6 |
0.1 |
100.0 |
ذریعہ: ٹی آئی ایس ایس سیمپل سروے، مئی نومبر 2009۔
آمدنی کی تقسیم
ریاست کے مسلمانوں کی فی کس ماہانہ آمدنی سال 2009 میں 746 روپئے تھی۔ شہری علاقوں میں فی کس ماہانہ آمدنی ﴿816 روپئے﴾ دیہی علاقوں کی فی کس ماہانہ آمدنی ﴿599 روپئے﴾ سے تقریباً 36 فیصد زیادہ تھی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ ریاست کے مسلم او بی سی افراد کی فی کس ماہانہ آمدنی ﴿742 روپئے﴾ غیر او بی سی مسلمانوں کی فی کس ماہانہ آمدنی ﴿743 روپئے﴾ سے کچھ حد تک زیادہ ہے۔ وہ اضلاع جہاں او بی سی فی کس آمدنی غیر او بی سی مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ ہے وہ ڈھولے، بھنڈارا، ناندیڑ، پربھنی، جلنا، اورنگ آباد، ناشک، ممبئی، بیڑ، لاتور، عثمان آباد اور کولہا پور ہیں۔
مسلمان اقتصادی طور پر ملک کے محروم ترین طبقات میں سے رہے ہیں۔ این ایس ایس او کے اعداد وشمار ﴿جیسا کہ سچر کمیٹی رپورٹ، 2006 میں درج کئے گئے ہیں﴾ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کل ہند سطح پر مسلمانوں میں شہری افلاس 38.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ 05-2004 میں افلاس کی یہ سطح درج فہرست اقوام وقبائل میں بھی 36.4 تک ہی تھی۔ مہاراشٹر میں درج فہرست اقوام وقبائل اور مسلمانوں کے مابین شہری شرح افلاس بھی بہت زیادہ تھی جو بالترتیب 33 فیصد اور 49 فیصد رہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ این ایس ایس او اعداد وشمار کے مطابق مہاراشٹر کے شہری علاقوں کی مسلم آبادی کا تقریباً نصف حصہ سال 2005-2004 کے دوران خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہا تھا۔ تاہم ٹی آئی ایس ایس کے ذریعہ منعقدہ سیمپل سروے دکھاتا ہے کہ ریاست کے مسلمانوں کی شہری افلاس 59.4 فیصد پر قائم ہے اور یہ نتیجہ 05-2004 کے این ایس ایس او اعداد میں دکھائے گئے نتائج سے تقریباً 10 فیصد زیادہ ہے۔
ٹیبل 4: مہاراشٹر کے مسلمانوں میں ہیڈ کاوٴنٹ تناسب اور گھریلو افلاس
سیکٹر |
ہیڈ کاوٴنٹ تناسب ﴿فیصد میں﴾ |
فیملی ﴿فیصد میں﴾ |
||||
|
او بی سی |
جنرل |
میزان |
او بی سی |
جنرل |
میزان |
میزان |
60.20 |
59.20 |
59.50 |
55.2 |
55.4 |
55.4 |
شہری |
59.00 |
59.60 |
59.40 |
59.2 |
56.2 |
57.3 |
دیہی |
62.60 |
58.20 |
59.80 |
56.6 |
55.7 |
56.0 |
نوٹ: شہری ودیہی علاقوں کے لئے خط افلاس آمدنی بالترتیب 700 اور 500 روپئے مانی گئی ہے۔ یہ آمدنی ایکسپرٹ گروپ کے ذریعہ سریش ڈی تیندولکر ﴿پلاننگ کمیشن 2009﴾ کی زیر نگرانی تیارشدہ جدید ریاست وار خط افلاس کی حتمی شکل پر مبنی ہے۔
ذریعہ: ٹی آئی ایس ایس سروے، مئی نومبر 2009 پر مبنی۔
راشن کارڈ کی ملکیت
راشن کارڈ ایک اہم ترین گھریلو سرمایہ ہے اور یہ خط افلاس سے نیچے زندگی گذارنے والے لوگوں کے لئے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ راشن کارڈ متعدد سرکاری منصوبوں تک رسائی کو یقینی بناتا ہے اور ساتھ ہی مقامی شہریت کے ثبوت کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ ٹی آئی ایس ایس سیمپل سروے کا یہ انکشاف ہے کہ مہاراشٹر میں کل مسلم گھروں میں سے محض 78.8 فیصد کے پاس راشن کارڈ ہے۔ دیہی علاقوں میں راشن کارڈ رکھنے کا تناسب ﴿81 فیصد﴾ شہری علاقوں کے تناسب ﴿78 فیصد﴾ سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ باوجودیکہ ریاست کی مسلم آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہا ہے لیکن ریاست کی مسلم فیملیوں میں سے محض 14 فیصد ﴿ شہری علاقوں میں 11.6 فیصد اور دیہی علاقوں میں 19.5 فیصد﴾ کے پاس بی پی ایل کارڈ ہیں۔ یہ حالت سرکاری منصوبوں سے مسلمانوں کے اخراج اور ان کے یہاں غربت وافلاس کی مستقل سکونت کے منجملہ اسباب میں سے ایک بنیادی سبب ہے۔