کانگریس! آخر تیری چوکھٹ پر حاضری کب تک؟
ڈاکٹرمحمد خلیل میمن،ممبئی
کانگریس میں جواہر لعل نہرو کو ہمیشہ سیکولرزم کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔لیکن جواہر لعل نہرو کے بعد کانگریس کو ایک ایسے شکار کی ضرورت تھی جس کا مسلسل استحصال کیا جاتا رہے جبکہ وہ اس بات سے بےپروا ہوکرکہ اس کو چارہ بناکر نوالہ تر بنایا جا رہا ہے، محض شکار بنا رہے۔خوش قسمتی سے کانگریس کو مسلمانوں کی شکل میں وہ چارہ مل گیا جسے نوالہ تر بنایا جاسکے اور جس کا استحصال کیا جا سکے۔
صلح کل کے نام پر ماضی میں استحصال کی جو کوششیں شروع ہوئی تھیں اس کی چادر دبیز سے دبیز تر ہوتی چلی گئی اور نام نہاد علما و مشائخ کے جبہ و دستار نے غیر محسوس انداز میں ہمیں کانگریس کی چوکھٹ پر سر رگڑنے پر مجبور کر دیا۔مسلمان اجتماعی طور پر ہمیشہ یہ کہتارہا ہے کہ وہ کسی کی اجارہ داری میں جانے والا نہیں ہے لیکن مسلسل چھ دہائیوں تک کانگریس ہمیں یہ سمجھاتی رہی ہےکہ وہ صرف کانگریس کے مرہون منت ہیں جس کا سودا علما سو یا حکومتی گلیاروں میں گھومنے والے جبہ و دستار کے سوداگروں نے کیا ہے۔
حالانکہ جب ہم ماضی پر نظر ڈالتے ہیںاور تقسیم ہند کے فوری بعد کا تجزیہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ہمیں نہ صرف مساوی حقوق ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا بلکہ قومی دھارے میں شامل کئے جانے کی وکالت بھی کی تھی۔لیکن افسوس کہ وہ بھی ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے تھے اور ان کا رویہ بھی ہمیں جنس جامد کی طرح سمجھنے جیسا ہی تھا۔
اب جبکہ ۲۰۱۴کے پارلیمانی انتخابات قریب آ لگے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچانیںاور من حیث القوم معاملات طے کریںکیونکہ بد قسمتی سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ پاکستان کی تشکیل اور تقسیم ملک کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی رہی ہے اور کانگریس ان تمام واقعات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتی رہی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ہر محاذ پر فرقہ پرستوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔
یہاں یہ تذکرہ خالی از دلچسپی نہیں کہ مسلمانوں کو یہاں ’’ہندوستانی مسلمان‘‘کہہ کر نہ صرف سرحدوں میں مقید کردیا گیا ہے بلکہ ان کے فکر و خیال کو بھی انہیں سرحدوں میں محبوس کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔اس کے برخلاف جو لوگ سرحدوں میںبٹے ہیں جن کے یہاں مخصوص سرزمین کی عبادت کی جاتی ہے،جو بھانت بھانت کےعقائد رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو ان تمام حدود و قیود سے پاک رکھا ہے ۔لہذا جب ہم لفظ ہندو بولتے ہیں تواسے ’’ہندوستانی ہندو‘‘سے موسوم نہیں کرتے،نہ ہی ہندوستانی سکھ،ہندوستانی کرسچین جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے آفاقی مذہب ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ’’ہندوستانی ‘‘کے حصار میں گرفتار کرواکر آفاقی ہونے کا تصور ہی مسمارکردیا ہےجس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ محب وطن ہوتے ہوئے بھی شک کے دائرے میں رہتا ہے حالانکہ وہ اسی طرح اس ملک سے محبت کرتا ہے جس طرح سکھ اورعیسائی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجوداس سے بار بار اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں جب راہل گاندھی نے یہ کہا کہ مسلم نوجوان جنہیں ترقی و تعمیری کاموں سے روک دیا گیا ہے آئی ایس آئی کے رابطے میں آرہے ہیں تو انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔کیونکہ راہل گاندھی بہتر طور پر جانتے ہیں کہ یہ ان کی پارٹی ہی ہے جس نے مسلم نوجوانوں کو سب سے زیادہ پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی ہےاور پڑھے لکھے نوجوانوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہوا ہے کہ کانگریس نے تقسیم ملک کے فوری بعد ہی ووٹ بینک کی پالیسی کے تحت ایک طرف جہاں مسلمانوں کو بھگوا آتنکواد سے ڈرائے رکھا اور انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے نہیں دیا وہیں دوسری طرف اسلامی شدت پسندی کا جھوٹا پروپگنڈہ کرکے ہندوستانی ہندوئوں کے ذہن کو مسموم کرنے کی کوشش کی۔لہذا کانگریس کی دوغلی پالیسی نے نہ صرف ملکی فضا خراب کی بلکہ اس کے دوہرے معیار نے ہمارے علما و مشائخ کی شبیہ خراب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔لہذا بکائو علما کرائم اورکانگریس کی ملی بھگت نےیہاں کے مسلمانوں کو ایک گڈھے میں پھینک دیا جہاں ہر عام مسلمان صرف الامان والحفیظ کی صدا بلند کر رہا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہمارے علما و مشائخ کو حالات کی سنگینی کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئےاور کسی سیاسی پارٹی کا آلہ کار بنے بغیر کچھ تعمیری کام کرنا چاہئے۔اگر ہمارے علما صرف مدارس کا جال بچھا دیں۔اسکول و کالج کی باڑھ لے آئیںاور تکنیکی تعلیم میں امت کو خود کفیل بنا دیںتو یقینا ً ہمیں قومی دھارے میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
میں یہاں آخری کلمات ان علما کرام کے نام کر رہا ہوں جو بھگوا پارٹی کے خوف سے سیکولر پارٹیوں کو اقتدار میں لانے کی وکالت کرتے ہیں۔دراصل وہ ایک ایسے خوف سے ڈراتے ہیں جس کا شکار ہم گذشتہ ساٹھ برسوں سے ہوتے چلے آئے ہیں ۔حالانکہ یہ جان لینا چاہئے کہ مرکز میں اس وقت تک کوئی پارٹی بر سر اقتدار نہیں آسکتی جب تک کہ وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے جذبات و احساسات کا لحاظ نہ رکھے۔