کوآپریٹیوبینکگ میں ترقی کی مثال قائم کر رہا ہے بہار عومی بینک

ضیااللہ انور، رسرچ اسکالر، جے این یو، دہلی

بہار عوامی کو آپریٹیو بینک نے اپنی کارکردگی اورحصولیابیوں کی بنا پر پورے ملک کے شعبۂ بینک کاری اور ماہرین معاشیات کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ ریاست میں ایک طرف جہاں کوآپریٹیوبینکوں کے لئے حالات مسلسل ناسازگار ہوتے جارہے ہیں، کئی بینک اپنی خستہ حالی کا رونا رو رہے ہیں، وہیں دوسری طرف بہار عوامی کوآپریٹیو بینک نہ صرف اپنی تمام ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہا ہے بلکہ ہر مالی سال میں منافع اور حصولیابی کی نئی مثالیں قائم کرکے لوگوں کو حیران کر رہا ہے۔ اس بینک کییہ بے مثال ترقی اسباب کے تئیں دلچسپی و تجسس پیدا کرتی ہے ، لیکن اس پہلو کا جائزہ لینے سے قبل اس کے موجودہ کاروبار اور اب تک کی حصولیابیوں پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے ۔
اندراجات
1987-88 (سال قیام)
2011-12
2012-13
2011-12کے بمقابلہ%اضافہ
اثاثہ(کیپیٹل)
8.66 *
136.79
148.86
8.85
ریزرو اور سرپلس ڈپازٹ
0
1206.92
1343.90
11.35
جمع(ڈپازٹ)
21.97
1919.19
2054.60
7.06
سرمایہ کاری اور بینکوں میں جمع
29.43
2248.95
2371.03
5.43
قرض اور پیشگی
0
913.42
1084.47
18.73
کل منافع
00.02
83.97
140.45
67.26
* سبھی روپے لاکھوں میں
بینک کے جنرل منیجر تنویر احمد سے جب ہم نے ان کے بینک کی اس ترقی کا راز جاننا چاہا تو انہوں نے کہا :’’ ہم ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ کام کرنے اور صارفین کی تشفی بخش خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی اصول پر کاربند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عوامی بینک بہاروجھارکھنڈ کا پہلا اربن کوآپریٹیو بینک ہے جس نے صارفین کو اے ٹی ایم اور کور بینکنگ جیسی جدید سہولتیں فراہم کرائیں ، اب یہاں کے صارفین پورے ملک میں پھیلے تقریباً ایک لاکھ اے ٹی ایم سے بینکنگ کا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ مسٹرتنویر نے مزید کہا : ’’نامساعد حالات کے باوجود بینک کی کامیابی اور ترقی کا اصل راز اس کے مقاصد قیام کے تئیں بورڈ آف ڈائریکٹرس کی پابندگی عہد ہے۔‘‘ انہوں نے بتا یا کہ بینک کے قیام کے مقاصد میں غریب اور کمزور طبقہ تک بینکنگ خدمات کی رسائی شامل تھی اور اس ضمن میں بینک مسلسل پیش قدمی کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم اقدام 2006-07 میں کیا گیا جب بہار میں پہلی بار ایسے غریب افراد کا بھی کھاتہ (نوفرل اکاؤنٹ)کھولنے کا نظم کیا گیا جن کے پاس کوئی شناختی کارڈ یا رہائشی ثبوت نہیں تھا، نیز 2010-11میں غریب خواتین کو جوائنٹ لیئبلٹی گروپ (جے ایل جی) کے تحت قرض تقسیم کیا گیا ۔
بینک کی کامیابی کے دوسرے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے بینک کے چیئر مین انور احمد (سابق ایم ایل سی) نے کہا کہ ’’بینک کے مفادمیں ہم نے خودپر پابندیاں عائد کیں۔ 2006-07 میںبورڈ آف ڈائریکٹرس کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کیا گیا جس کے تحت بینک سے قرض کی سہولت ان کے لئے منجمد کر دی گئی ‘‘۔ مسٹر انور نے بتایا کہ بینک کو اچھی طرح چلانے کے لئے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کابُرے قرض (بیڈ لون) کا تناسب کم ہواور چھوٹے بینکوں کے لئے یہ چیز زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں عوامی بینک قرض کی تقسیم میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے وہیں اس کی وصولی میں سختی بھی کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قرض داروں سے وصولی کے لئے نجی طور پر ان کے گھر جا کر ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بینک کا بیڈ لون محض 6.24%ہے، جبکہ اس ضمن میں آربی آئی کے ذریعہ نافذحد 10%ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی بینک کی بقاء اورترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے غیر فعال اثاثے (این پی اے یا بیڈلون)کا فیصد کم سے کم ہو۔ انہوںنے قرض دینے میں بینک کی فراخ دلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بینک کا قرض برائے ترجیحی طبقہ(پرائریٹی سیکٹر لون) اور قرض برائے کمزور طبقہ(ویکر سیکٹرلون)حسب ترتیب 70.64% اور 25.57%ہے، جبکہ اس ضمن میں آربی آئی کے ذریعہ نافذ حد حسب ترتیب 40% اور10%ہے۔انہوں نے کہا کہ بینک غریبوں اور ضرورت مندوں کو آسان طریقہ سے اور کمخرچ پر بینکنگ خدمات فراہم کرنے کے لئے پابند عہد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بینک جہاں دیگر قومیائے ہوئے بینکوں کے مقابلہ میں 2-3فیصد کم شرح سود پر فائنانس کرتا ہے وہیں جمع پر1فیصد زیادہ سود دیتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میںبینک کے جنرل منیجر جناب تنویر احمد نے کہا کہ بینک نے احتیاطاً ابھی تک اپنی شاخوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی ہیڈ برانچ کے علاوہ پٹنہ میں دوشاخیں پٹنہ سٹی اور راجا بازار میں کام کررہی ہیں۔ مستقبل قریب میں مزید شاخیں کھولنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوالیٹی اسٹافز کی کمی کے سبب ہم اپنا قدم دھیرے دھیرے بڑھا رہے ہیں۔
جب میں نے اسلامی بینک کے تعلق سے بینک کی سوچ جاننے کی کوشش کی تو جناب تنویراحمد نے کہا کہ بلاسودی بینکنگ نظام کی شروعات کے لئے موجودہ بینکنگ ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت اور آر بی آئی اس معاملہ پر غور کر رہی ہیں۔ اس معاملہ پر ہم بھی اپنی نظریں جمائے ہوے ہیں، جیسے ہی ایکٹ میں ترمیم ہوگاہم بینک میں بلاسودی بینکنگ نظام کی شروعات کر دیں گے۔ ابتداکم از کم ایک بلاسودی ونڈو سے ہو سکتی ہے۔ مسٹر تنویر نے بتایا کہ دنیا میں بلاسودی بینکنگ نظام کو بڑی تیزی سے مقبولیت مل رہی ہے۔ ابھی اس کی مانگ 20فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف اور یو این نے بھی بلاسودی بینکنگ نظام کو منظوری دے دی ہے۔
بینک کی حصولیابیاں اور اس کے عزائم دیکھ کر کسی دانشور کا یہ قول یاد آجاتا ہے کہ جنہیں آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ مشکلوں سے حوصلہ پاتے ہیں اور جنہیں تھک ہار کے بیٹھ جانا ہوتا ہے مشکلیں ان کا راستہ روک دیتی ہیں۔آسمان جب ابر آلود ہوتا ہے تو سارے پرندے گھونسلوں میں پناہ لیتے ہیں لیکن شاہین اپنی پرواز جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے اور بادلوں کا سینہ چیڑتے ان سے اوپر چلا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *