معاشی عدم مساوات انسانی ترقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ

دونسلوں کےاندردنیا بھر میں کھرب پتیوں کی تعداد 11 ہوجائے گی۔
دنیا بھرمیں 85 مالدارلوگوں کے پاس 3.5 بلین غریبوں کے برابردولت ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ 85 امراءکے پاس دنیا بھرکی نصف آبادی کے برابردولت ہے۔ یہ رپورٹ آکس فیم نے ورلڈ اکونامک فورم کی دیواس میں ہونے والی میٹنگ سے پہلے شائع کی ہے۔ کیادیواس میں ہونے والی ورلڈ اکو نامک فورم کی میٹنگ میں اس معاملہ پرتوجہ دی جائے گی۔؟ ہاں، بلا شبہ۔

اگرکوئی شخص یہ سوچ رہا ہوکہ اوپرسے نیچے جانے والی ٹریکل ڈائون فلاسفی مسلسل کام کرتی رہے تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ تجربات اس خیال کو مسترد کر رہے ہیں اوراب ٹریکل ڈائون فلسفہ تشویش کا سبب بن گیا ہے۔ یہ سپلائی سائیڈ اکونامک تھیوری کی بنیاد ہے۔ حکومت نے ایک بارپھراسی گھسے پٹے معاشی طریقہ کارکو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جو مسلسل ناکام ہوتا رہا ہے، بلا شبہ حکومت کی یہ کوشش خواب غفلت میں پڑے رہنے والوں کے لئے بیدارہوجانے کی گھنٹی ہے۔
ہرچند کہ کوئی شخص یہ سمجھتا ہوکہ امراء یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ سمندر میں اٹھنے والی موجیں بہت کم کشتیوں کو اپر اٹھا رہی ہیں اور بہت سی کشتیوں کو ڈوبا رہی ہیں، اور یہ کام انفرادی اور قومی دونوں سطح پر ہو رہا ہے۔ بلاشبہ یہ بات کسی کے لئے بھی حیرانی کا سبب ہے۔ ہر شخص یہ سوچنے پرمجبور ہے کہ کیا وہ ایک صحیح کشتی پر سوار ہے اور کیا اس کی کشتی بڑی ہے؟ کریڈٹ سوئس کے اندازے کے مطابق محض دو نسلوں کے اندر دنیا بھر میں 11 لوگ کھرب پتی کہلائیں گے۔
اب سپلائی سائڈ کا اصول صحیح نہیں ہے۔ اب اوپر کے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ آگیا ہے کہ وہ کوئی چیز بنانے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ان پیسوں سے ملک کی معاشی پالیسی کو خریدا جا رہا ہے۔ ایک ایسی حالت میں کہ جب ایک شخص حکومت کو قابو میں کر کے اسے امراء کی حمایت پر مجبور کرے اور قسمت آزمائی کرنے والے نئے لوگوں کو معاشی میدان میں کودنے سے روکے اور اس طرح اپنے شیئر کو بڑھا تا رہے تو پھر روپئے کے بڑھنے کا کوئی راستہ کہاں بچتا ہے؟۔
یہ بات کمپنی اورافراد دونوں پرصادق آتی ہے۔ چھوٹی تجارتیں ٹیکس کی زیادتی کی وجہ سے برباد ہورہی ہیں۔ اوربڑی تجارتیں حکومتوں سے کہہ رہی ہیں کہ ” دیکھو اس سال ہم اتنا ہی ٹیکس دیں گے لینا ہے تو لو یا جائو” اب مالدارطبقہ ملازمت کے مواقع پیدا نہیں کرتا بلکہ ٹیک اوور، اوراشتراک کے ذریعہ وہ ملازمت کے مواقع اور چھوٹی تجارتوں کو تباہ کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، جہاں سیاست میں ان کی آواز نہ سنی جاتی ہو، ایسی کسی بھی سوسائٹی میں کسی ملازم کے ساتھ کوئی کیوں سمجھوتہ کرے گا اور کیوں ملازم کو اختیار فراہم کرائے گا۔
یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ماڈل قائم رہےگا کیونکہ بے قابو کواس کے ذریعہ قابومیں کیاجاتاہے۔ جس سوسائٹی میں جتنازیادہ عدم مساوات ہوگا اتنا ہی اوپری سطح پر پیسہ جائے گا اور ان کے ہاتھ میں بے پناہ قوت خرید آجائے گی۔ بل کلنٹن کے سابق لیبر سکریٹری رابرٹ ریچ عدم مساوات نامی فلم میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔” دنیا کی دوسری معیشت میں اتنی قوت خرید نہیں ہے۔” 1928 میں امریکہ میں دولت سے متعلق عدم مساوات اپنے عروج پر تھی اور یہی صورت حال 2007 میں بھی دیکھی گئی یعنی دو بڑے مالی بحران سے ایک سال قبل تک یہ صورت حال قائم تھی جبکہ اس مالی بحران کی زد میں آکر بڑے بڑے مالی اداروں کی بنیادیں ہل گئیں۔
تو پھر آخر ایسا کیوں ہے کہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے حکومت اسی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے جس پالیسی پر عمل پیرا ہوکرماضی میں ہماری معیشت تباہ ہو چکی ہے؟ اس کا سادہ جواب دوحصوں میں ہے۔ پہلا جواب تو عادت ہے۔ دوسرا جواب وہ ہے جو وائرکے خالق ڈیویڈ سیمون نے دی ہے۔” یہ ہمارے وقت میں کیپیٹلزم کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہوگی کیونکہ کیپیٹلزم نے سماج کو فائدہ پہنچائے بغیر ہی سماج پر غلبہ حاصل کرلیا ہے اور یہ سماج کو بہتر بنانے میں کوئی کردارادا نہیں کرسکا ہے۔”
جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں آکس فیم نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی کے پاس جتنی دولت ہے اتنی دولت محض پچاسی لوگوں کے پاس ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے واقت میں شائع ہوئی ہے جبکہ سویٹزر لینڈ کے دیواس میں ورلڈ اکونامک فورم کی میٹنگ چل رہی ہے۔ اس رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ دنیا کے امراء نہ صرف مالی بحران سے ابھرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ ان کی معیشت مالی بحران کے بعد بڑی تیزی سے بہتربھی ہوئی ہے.
آکس فیم کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف 85 لوگ دنیا بھر میں 1.7 امریکی ڈالر پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں یعنی پوری آدھی آبادی کے پاس جتنی دولت ہے تقریباً اتنی ہی دولت محض پچاسی لوگوں کے پاس ہے۔ ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 110 ٹرلین ڈالر کی مالیت ہے یعنی پوری دنیا کی نصف آبادی کے پاس جو دولت ہے اس سے 65 گنا زیادہ۔
“چند لوگوں کےلئےکام کرنا” کے نام سے شائع آکس فیم رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ اس قسم کی پیش رفت سے انسانی ترقی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ آکس فیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ” معاشی کھیل کھیلنے کے لئے الیٹ کلاس نے سیاسی طبقات کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرلیا ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بلا شبہ اس پیش رفت سے جس کے تحت چند لوگوں کے ہاتھوں میں ساری دولت جمع ہو جاتی ہے،شمولی اور تکثیری معیشت وسیاست کو شدید خطرہ لاحق ہے۔”
امریکہ کے ملٹی بلین ڈالربانڈ خرید پروگرام کو دولت کی تیزترعدم مساوات کے لئے ذمہ دارٹھہرایاگیا ہے۔ آکس فیم ورلڈ اکونامک فورم سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اقدام کرے۔ آرگنائیزیشن نے کہا ہے کہ مالدارلوگوں کو صحیح انداز میں ٹیکس ادا کرنا چاہئے اور دولت پر ان کے سیاسی اثرو رسوخ کو محدود کر دینا چاہئے۔ فورم میں شامل نمائندگان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ترقیاتی ٹیکس اورلیونگ مزدوری کو سپورٹ کریں اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریوں کے لئے یونیورسل ہیلتھ کیئر، ایجو کیشن اور سماجی تحفظ کو یقینی بنائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *