
محنت و ایمانداری سے ہی بلندیوں کوحاصل کیا جاتا ہے
اقبال عبد الحمید میمن(آفیسر) ممبئی کے ان مشہور تاجروں میں ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے انتہائی مختصر مدت میںاعلیٰ مقام حاصل کیا ہے ،آل انڈیا میمن جماعت کے نائب صدر اور ورلڈ میمن آرگنائزیشن (انڈیا چیپٹر)کے سابق بانی سکریٹری اور آفیسر فیشن کرافٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ملکی و عالمی پیمانے پرسیکڑوں ایوارڈ حا صل کرچکے ہیں۔ایکتا ویلفیئر ایسو سی ایشن کے بانی صدرہیں۔اس ایسو سی ایشن کے تمام تر ممبران جین اور ہندو ہیں لیکن انہوں نے اتفاق رائے سےاقبال میمن کواپنا صدر بنایا ہے۔انہوں نے سرکار کے ایکسائز،ایل بی ٹی ،ویٹ کے خلاف کامیاب تحریک چلا ئی اورکامیابی حاصل کی ہے۔ پیش ہے دانش ریاض کی تحریر
چار آنے سے شروع ہونے والا تجارتی سفربھی ان کروڑوں ہندوستانیوں کو عمل کی دعوت دےسکتا ہے جو زندگی میں کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔جی ہاں !آفیسر شرٹ اور Officer Fashion Craft Pvt Ltd کےمالک اقبال عبد الحمید میمن کی داستان ایسی ہی ہے، انہوں نے اپنی تجارت کاآغاز چار آنے سے کیا تھا۔اپنی پرلطف لیکن جد و جہد سے بھری ہوئی زندگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’میری زندگی انتہائی سخت جد و جہد سے عبارت ہے،یہ 1972کی بات ہے جب میں اپنے آبائی وطن راجکوٹ سے تلاش معاش میں ممبئی آیا تھا،اس وقت بھنڈی بازار کے قریب مینارہ مسجد میں عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور میں تھکا ماندہ بھوک سے نڈھال اذان کے کلمات کو دہرا تا ہوا ہندوستان ہوٹل کے سامنے فٹ پاتھ پر ٹہل رہا تھا میری جیب میں صرف پچیس پیسے تھے آخر میں نے فٹ پاتھ سے کھیری کلیجی خریدی،پیٹ کی آگ بجھائی اورپھر مسجد کی طرف چلا گیا ،اللہ کے حضور رو رو کر معافی مانگی یا اللہ دنیا میں سب سے بڑا مفلس اگر آج کوئی ہے تو میں ہوں کیونکہ غریب سے غریب کے پاس بھی چار آنہ تو ہوگا لیکن میرے پاس تو وہ بھی نہیں ہے۔سجدے میں جاکر یہ دعا کی کہ یا اللہ میری عزت اور بھرم رکھ لینا اور یہ دینے والا ہاتھ کبھی لینے والا نہ بنے اور یہ ہاتھ کسی کے آگے پھیلانے کی نوبت نہ آئے،اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرنا،رزق حلال سے مالا مال کرنا ۔نماز سے فارغ ہو کر اپنے رشتہ داروں سے ملنے چلا گیا ،میرے رشتہ داروں نے مجھے قلم اور فائونٹین پین بیچنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس تجارت کو محض 40پچاس روپئے سے شروع کیا جاسکتا تھا۔دوسری صبح مجھے جگہ دیکھنے کے لئے گرانٹ روڈ جانا تھا لیکن فجر کی نماز اور تلاوت کے بعدمیں کھڑا ہو رہا تھا کہ پیر پھسل گیا اور میری ہڈی ٹوٹ گئی ۔شاید میری آزمائش کی گھڑی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔آخر گرانٹ روڈ کی جگہ ہاتھ سے نکل گئی ۔جیب خالی تھی،مصیبتیں ٹوٹی پڑ رہی تھیں لیکن رب پر بھروسہ برقرار تھا،طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد پھر میں نے جگہ کی تلاش شروع کردی ،اسی دوران میں نے اتنے دنوں کے اخراجات ماں کی آخری نشانی جسے انہوں نے میری اہلیہ کو دیا تھا ، بیچ دیا اور تجارت شروع کی ۔اتفاق ایسا ہوا کہ ایروز سنیما (چرچ گیٹ) کے پاس پین فروخت کرنے والا کہیں اور چلاگیا تھاجس کی جگہ خالی ہوگئی تھی،میں نے وہیں اپنا خوانچہ لگایا اور تجارت کا آغاز کر دیا،یہ جگہ گرانٹ روڈ سے اچھی تھی ،آفس کا علاقہ تھا اس لئے پین زیادہ فروخت ہونے کے امکانات تھے،آخر پہلے ہی دن میں نے اس جوش و خروش سے پین بیچا کہ رات کو ریزگاری گنتا جاتا اور رب کا شکر ادا کرتا جاتا،پہلے ہی روز مجھے 20پچیس روپئے کا فائدہ ہوا تھا۔ چونکہ مجھےپہلی آمدنی ہاتھ لگی تھی اس لئے میرے اندر جوش بھرتا گیا،ا ب رات بھاری گذرنے لگی ،کروٹ بدل بدل کر صبح کا انتظار کرتااور پھر دوڑ کر اپنا خوانچہ لگاتا۔‘‘11اپریل 1950کو سوراشٹر کے واساوڑ ضلع راجکوٹ میں ایک خوشحال گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے اقبال کے خاندان کے تقریباً تمام لوگ منیم تھے،لیکن ایک اندوہناک حادثے نے پوری کایا ہی پلٹ دی ،اقبال میمن کہتے ہیں ’’ہمارے آباء و اجداد منیم تھے میرے والدعبد الحمید میمن چائی باسا میں سیٹھ ہاشم ایوب کی پیڑھی میں منیجر تھے کہ ایک دن اچانک چھوٹی بہن کی طبیعت خراب ہوگئی ،والد صاحب نے سیٹھ صاحب سے گھر جانے کی اجازت طلب کی لیکن ہاشم سیٹھ نے یہ کہہ کر کہ جب تک تمہاری جگہ کوئی دوسرا نہیں آجاتا اس وقت تک تم نہیں جا سکتےگھر جانے سے منع کر دیا۔کچھ دنوں بعد دوبارہ ٹیلی گرام آیا کہ جلدی آئو بچی کی طبیعت زیادہ خراب ہے،والد صاحب نے دوبارہ اجازت طلب کی لیکن سیٹھ صاحب نے دوبارہ یہی جملہ دہرایا۔تیسرا ٹیلی گرام براہ راست سیٹھ ہاشم صاحب کے یہاں پہنچا وہ اس وقت بلاس پور میں رہا کرتے تھے،وہ ٹیلی گرام لے کر چائی باسا آئے اور والد صاحب سے کہا کہ تم فوراً گھر چلے جائو،اباجان نے کہا کہ اب تک میری جگہ پر کسی کا انتظام نہیں ہو سکا ہے میں کیسے جائوں؟سیٹھ ہاشم نے کہا کہ تمہاری جگہ پر میں خود آیا ہوںیہ کہہ کر انہوں نے ٹیلی گرام والد صاحب کے ہاتھ میں دیا جس میں میری بہن کے انتقال کی خبر تھی۔والد صاحب نے اپنے آپ پر قابو پاکر رخت سفر باندھااورسیٹھ صاحب سے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اب میں جارہاہوں واپس نہیں آئوں گا لہذا میری جگہ کسی اور کو مستقل منیجر رکھ لیجئے۔ لیکن ہاشم سیٹھ نے بااصرار کہا کہ مجھے تمہارے جیسا ایماندار آدمی نہیں مل سکتا،لہذاتم واپس آجانا اس جملے پر والد صاحب نے کہا کہ زندگی میں اب کبھی نوکری نہیں کروں گا اگر مجھے نوکری کرنی پڑی تو آپ کے سوا کسی اورکے یہاں نہیںجائوں گا۔والد صاحب اس حادثے کے بعد اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تم سب کچھ کرنا لیکن کسی کے پاس نوکری مت کرنا ،نوکری کا مطلب اپنی خوشیاں اور غم گروی رکھنا ہے کیونکہ نوکری میں مالک کی اجازت سے ہنسنا اور رونا پڑتا ہے،کاروبار چھوٹا کیوں نہ ہو لیکن سکھ دیتا ہے۔والد صاحب کی اس بات کو میں نے گرہ میں باندھ لیا اور انتہائی خراب حالات میں بھی کبھی نوکری کا خیال نہیں آیا‘‘۔یکم فروری1969کوسحر بانو سے نکاح کر کے ازدواجی زندگی میں بندھنے والے اقبال میمن بچپن کو یاد کر کے کہتے ہیںـ’’رائول کیلاکے قریب سندر گڈھ(اڑیسہ) میں ہماری دکان تھی جہاں ہم نے پہلی مرتبہBig Bazarکافارمولا استعمال کیا تھا،والد صاحب نے میرا داخلہ مقامی اسکول میں کروا دیا تھا جب میں ہائی اسکول میں داخل ہوا تو وہاں پر بھی ہندی اور سنسکرت کی جگہ اردو اور عربی کی سہولت دی گئی اور یہ صرف والد صاحب کی کوششوں سے ہو سکا تھا۔ان دنوں میں اسکول سے گھر ،گھر سے دکان اور پھر فٹ بال کے میدان کا چکر کاٹتا،فٹ بال اچھا کھیلتا تھا لہذا اسکول کی ٹیم میں گول کیپرکے ساتھ کپتان بھی بنایا گیاتھا۔دن کی مصروفیات سے جب نجات ملتی تو پھر عشاء کے بعد لالٹین کی روشنی میںوالد صاحب دینیات اور اردو کی کتابیں پڑھاتے۔ہر کام منصوبہ بندی،سچائی ،محنت،ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ وقت پر کرنے کی عادت والد صاحب نے ہی ڈالی تھی، 1962میں بھاگلپور میں ہوئے مسلم کش فسادات کی آگ جب سندر گڈھ پہنچی تو ہم بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے ،ہمارا تمام اثاثہ منٹوں میں خاکستر ہو گیا،ہم مسجدوں اور کھیتوں میں پناہ لینے پرمجبور ہوگئے ،13دنوں تک بغیر بستر اور کپڑوں کے کھلے آسمان زندگی گذاری،قریبی کھیت سے غلہ کاٹ کر اپنی بھوک مٹاتے اور گڑ گڑاکر اللہ سے دعا کرتے ۔نامساعد حالات میں رب کے حضور ہاتھ پھیلا کر مانگنے اور راضی بہ رضا رہنے کی عادت اسی فساد کی دین ہے۔فسادات ختم ہونے کے بعد میں راجکوٹ واپس آگیا ،اور پھر 1967میں والد صاحب بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے ،وہ دن ہمارے لئے انتہائی صبر آزما تھے ‘‘آفیسر برانڈ شروع کرنے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’1980میںمیںنے باقاعدہ شرٹ کے بزنس کا آغاز کیا،چرچ گیٹ میں پین فروخت کرنے کے دورا ن جب میں کوٹ پینٹ میں ملبوس افراد اور افسران کو دیکھتا تو میں سوچتا تھا کہ میں اپنے برانڈ کا نام بھی ’’آفیسر‘‘ رکھوں گا، لہذا جب میں نے مستقل تجارت کی بنیاد رکھی تو اس نام کو پسند کیا۔‘‘ اپنے دوبیٹوں آصف اقبال اور جاوید اقبال نیز تین بیٹیوںشبانہ،شمیم اور شمع کو زندگی گزارنے کے گر سکھانے والے رحیمہ بائی کے فرزند اقبال میمن کہتے ہیں’’میں نے جس تجارت کو دیسی اسٹائل میں شروع کیا تھاہمارے بچے اسے جدید تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھا رہے ہیں ،پہلے ہم ہاتھ سے ڈیزائن تیار کرتے تھے لیکن اب کمپیوٹرائزڈ ڈیزائننگ ہو رہی ہے،ہمارے بچوں نے میلان فیشن شو میں اپنا برانڈ بیچا ہے ،نامی گرامی ماڈلس ہماری تیار کردہ ملبوسات پہنتی ہیںاور پوری دنیا میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے یہ سب اللہ رب العزت کی مدداورہمارے بچوں کی کوششوں سے ممکن ہوسکا ہے۔‘‘250کاریگروں کے تعاون سے روزانہ 500پروڈکٹ تیار کرنے والے officerشرٹ کے ڈسٹری بیوٹر ہندوستان سمیت دبئی ،سعودی عرب،بحرین وغیرہ کے ساتھ یورپی ممالک میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔اقبال میمن کہتے ہیں کہ ’’محنت اور ایمانداری کا کوئی متبادل نہیں ہے جو لوگ تقدیریاحکومت کا شکوہ کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیںوہ خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ہم دوسروں کی خامیاں کیوں تلاش کرتے ہیں اپنی کمیوں کا جائزہ کیوں نہیں لیتے؟ اگر اپنے بازو پر بھروسہ کر کے ایمانداری کے ساتھ محنت کریں گے تو یقینا اللہ رب العزت ہم کو نوازے گا،لہذا ہم تعصب کا رونا روکر،یا صرف نوکری کے سہارے سہانے خواب نہیں سجا سکتے،ہمیں تجارت کے ذریعہ بہترین کوالیٹی فراہم کر کے آگے آنے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا ہوا تو تاریک گلیوں میں بھی گاہک چل کر آئے گا اور خریداری کر کے جائے گا۔‘‘لہذا تنقید کے بجائے تعمیر پر توجہ دیں اور اپنے گھر کو پہلے سنواریں ،پاس پڑوس کا ماحول بھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال میمن نے جہاں بھر پور جد و جہد کی ہے وہیں سماج میں کچھ ایسی روایتوںکو فروغ دیا ہے جس کی تعمیل اب لوگ باعث افتخار سمجھتے ہیں۔موجودہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کا استعمال جہاں برائی کو فروغ دینے کے لئے کیا جارہا ہے وہیں کچھ لوگ اس کے ذریعہ بھلائی کا پیغام بھی عام کر رہے ہیں۔اقبال میمن نے ایس ایم ایس کے ذریعہ بھلائی کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھا یا ہے ۔ہر جمعرات کی رات وہ ایسی احادیث،اقوال زریں،یا قرآنی آیات کا ترجمہ اپنے ہزار دوستوں کو بھیجتے ہیں جو اسے دیگر لوگوں تک فارورڈ کرتے ہیں جس کی تعداد جمعہ تک دس ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے۔یہ سلسلہ گذشتہ کئی برس سے چل رہا ہے ۔اقبال میمن کہتے ہیں’’چونکہ بھلائی کا فروغ ہر ذی ہوش چاہتا ہے لہذا جب کبھی کچھ تاخیر ہوتی ہے تو لوگوں کا فون آنے لگتا ہے کہ ابھی تک آپ کا ’’جمعہ مبارک‘‘کا پیغام کیوں نہیں آیا؟الحمد للہ لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے ۔اگر کبھی کسی کے دل میں کوئی پیغام اثر کرجائے تو یقینا ً اس کا اجر اللہ رب العزت عطا کرے گا۔ایسا نہیں ہے کہ صرف جمعہ کے ایس ایم ایس کی روایت ہی ان کی دین ہے بلکہ ہندوئوں کا تہوار ہولی کے دن ٹوپی والا بلڈنگ میں آیت کریمہ کا ورد اور نعتیہ مشاعرہ بھی انہیں کی کوششوں کانتیجہ ہے۔گوکہ اقبال میمن اس روایت کی تشہیر پسند نہیں کرتے لیکن اطلاعات کے مطابق تقریباً پچیس برس قبل یہ اس وقت شروع ہوا تھا جب اقبال میمن کے کارندے ہولی کی وجہ سے سڑکوں پر سر چھپانے کی جگہ تلاش کرتے پھرا کرتے تھے۔چرچ گیٹ اور آس پاس کے علاقوں میں جو لوگ’’ پتھرا‘‘(فٹ پاتھ پر پھیری کی دکان)لگاتے تھے وہ ہولی کے دن پریشان رہتے تھے کہ کہاں جائیں اور کہاں پناہ ڈھونڈیں۔لہذا اسی وقت اقبال میمن کو یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ان لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور دوپہر تک کی کوئی مصروفیت تلاش کی جائے۔لہذا آیت کریمہ کا ورد شروع ہوااور دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہونے لگے۔آیت کریمہ کے بعد نعتیہ پروگرام کا سلسلہ بھی شروع ہوا جس کے ساتھ ہی لوگ پر تکلف کھانا تناول کرتے اور پھر اپنے کام پر واپس لوٹ جاتے۔اقبال میمن کہتے ہیں’’یہ سلسلہ جس نیت سے شروع ہوا تھا الحمد للہ اس میں کامیابی تو ملی ہی ساتھ ہی اب شہر کے معززین بھی شامل ہوتے ہیں اور اس روایت کو دوام بخشنے کا کام کر رہے ہیں۔
دین سے الفت و محبت ، تجارت کا فروغ ساتھ ہی سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی بھی اقبال میمن کی گھٹیوں میں شامل ہے۔ دسیوں ادارے ایسے ہیں جس کی سربراہی ان کے ذمہ ہے یا اس کے اہم عہدوں پر یہ فائز ہیںمثلاً ورلڈ صوفی کونسل(ممبئی)فیڈریشن آف ریڈیمیڈ گارمنٹ ایسو سی ایشن،ایکتا ویلفیئر ایسو سی ایشن،کراس میدان پارسی باوڑی ہاکرس سو سائٹی،عید میلاد النبی کمیٹی وغیرہ کے پریسیڈنٹ ہیں تو ’’سیوا‘‘’’فیم‘‘اور ایکمیوز کے چیرمین ہیں۔جبکہ آلانڈیا بزنس کائونسل کے وائس چیرمین ہیں۔آل انڈیا میمن جماعت فیڈریشن ،ریڈ کریسینٹ سو سائٹی آف انڈیا،فیڈریشن آف ریٹیل ٹریڈرس ایسو سی ایشن کے وائس پریسیڈنٹ ہیں۔
ان کی سماجی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں گراں قدر ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا ہے ۔مثلاً Indian International Society for Unityنے انہیں رتن شیرومنی ایوارڈ سے نوازہ ہے۔جبکہ اعلیٰ تجارتی خدمات کے عوض انہیں ’’گجرات گورو‘‘ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے ۔معیشت نے 2010میں انہیں’’ بزنس پرموشن ایوارڈ‘‘ سے نوازہ تھا۔
اقبال میمن اپنی زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے محض ایک شعر پیش کرتے ہیں کہ…………
حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
وہ نئی نسل کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں……
قدم قدم پر اجالے اتر کر آئیں گے
تیرے نصیب میں تارے اتر کر آئیں گے
سہارا بن کے نکل گھر سے بے سہاروں کے لئے
تیری مدد کو فرشتے اتر کر آئیں گے