طب و جراحت : تجارت یا خدمت؟

شعبہ طب و جراحت ہمیشہ ہی خدمت خلق کا پیشہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب بد قسمتی سے نام نہاد سفید پوشوں نے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میںجب اس صورتحال پر گفتگو ہوتی ہے تو اکثر و بیشتر لوگ ششدر و حیران رہ جاتے ہیں کہ آخر اس اہم پیشے میں بھی کیسی کیسی کالی بھیڑیں شامل ہوگئی ہیں جو عوام الناس کو بے وقوف بناکر لوگوں کی پریشانیوں سے تلذذ حاصل کرنے کا کام انتہائی ہوشیاری سے کر رہی ہیں۔لیکن اس پر آشوب ماحول میں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو پوری انسانی اخلاق و اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میںاپنی خدمات بہم پہنچا رہے ہیں ممبئی کے کثیر مسلم اکثریتی علاقے ناگپاڑہ میں اپنی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر امام الدین اندرے ان امور پر تفصیلی گفتگو کی جن کا شکار موجودہ لوگ ہورہے ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات
سوال: آپ طویل عرصے سے شعبہ طب سے وابستہ ہیں ،آخر اس پیشے میں آنے کی کیا وجہ بنی؟ براہ کرم اپنے ذاتی احوال سے واقف کرائیں؟
جواب:میں کوکن کے ایک چھوٹے سے گائوں سائیگائوں سے تعلق رکھتا ہوں جو شری وردھن تعلقہ میں آتا ہے ۔بچپن سے ہی اردو میڈیم اسکولوں میں داخلہ لیا اور اردو کے سہارے ہی شعبہ طب و جراحت میں اہم ڈگریاں حاصل کیں۔آج میں جس مقام پر ہوں وہاں تک پہنچنے میں یقینا بہت ساری قربانیوں سے گذرنا پڑا ہے۔دراصل میرے پھوپھے زاد بھائی ڈاکٹر عبدالرحیم اندرے کا شمار کامیاب ڈاکٹروں میں ہوا کرتا تھا جبکہ میرے پھوپھی زاد بھائی نظیر موذرکیپٹائون سائوتھ افریقہ میں مشہور ڈاکٹر تھے لہذا میرے اندر بھی یہ خواہش پروان چڑھتی رہی کہ میں ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کا فریضہ انجام دوں۔البتہ یہ میرے والد کا بھی دیرینہ خواب تھا کہ میرا بھی بیٹا ڈاکٹر بنے ساتھ ہی میری ذاتی دلچسپی کا بھی بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے۔
سوال : ماضی میں شعبہ طب و جراحت سے وابستہ افراد کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور وہ بھی سماجی خدمات انجام دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے لیکن اب ماحول بدل گیا ہے آخر کیوں؟
جواب: یقینا ماضی کے مقابلے میں آج میڈیکل فیلڈ میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے موجودہ دور میں نہ صرف علاج بہتر ہوا ہے بلکہ لوگوں کو آسانیاں بھی میسر آئی ہیں ۔Advance Technologyکی وجہ سے سرجری میں کافی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔Laproscopic Surgeryسرجری اب بآسانی ہوتی ہے،میں نے خاص طور سے Appendix کے لئے نئی ترکیب Button Holeسرجری کا آغاز کیا ہے جس سے لوگوں کو ایک ہی Holeمیں اور ایک ہی ٹاکے میں آپریشن ہو جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی آسانی میسرآئی ہے البتہ یقینا اس پیشے میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں آگئی ہیں جو اسے بدنام کر رہی ہیں۔
سوال: فی زمانہ یقینا ترقی ہوئی ہے لیکن کل تک ایک غریب جس خوبی کے ساتھ اپنا علاج کرا سکتا تھا کیا آج ویسا ماحول نظر آتا ہے؟
جواب: میں نے غربت دیکھی ہے تو محسوس کر سکتا ہوں کہ لوگ کس طرح علاج کراتے ہیں ۔دراصل یہ ڈاکٹر کے اوپر منحصر ہے کہ وہ مریض کو بہتر صلاح و مشورہ دے کہ آخر وہ کس طرح کم خرچ میں اپنا علاج کرا سکتا ہے ،مریض کو بھی یہ چاہئے کہ وہ اتنا ہی پائوں پھیلائے جتنی کہ چادر ہے میں اپنے مریضوں کو اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ آخر وہ کس طرح کم خرچ میں اپنا علاج کرا سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی فیس بھی کم رکھی ہے۔جبکہ MRI,CT Scan,Xray,USG, Blood Testوغیرہ کے ٹیسٹ کے لئے ایسی جگہوں پر بھیجتا ہوں جہاں انہیں 50%کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
سوال: اس وقت میڈیسین کی بھی کالا بازاری چل رہی ہے آخر اس پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟
جواب: میڈیسین بنانے والی کمپنیاں بھی اپنا پروڈکٹ ڈاکٹروں کے معرفت ہی بیچا کرتی ہیں ،جس میں ڈاکٹروں کو بہتر کمیشن دیا جاتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام کمپنیاں بہتر دوائیں بنا رہی ہیں ؟ یقینا نہیں۔ لہذا میں اس بات کا لحاظ رکھتا ہوں کہ جو کمپنیاں بہتر ہیں اور جنہوں نے اپنا ایک مقام بنایا ہے خواہ ان کی دوائیں مہنگی ہی کیوں نہ ہوں وہ Prescribeکروں اور ان کمپنیوں کا پروڈکٹ استعمال نہ کروں جو کمیشن کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہے ہوں ، لہذا میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ڈاکٹر چاہے تو بہتر دوائیں لکھ کر مریض کو جلد از جلد شفا یاب کرسکتاہے۔
سوال: آپ ایک دیندار ،صوم و صلوۃ کے پابند ڈاکٹر ہیںآخرسرجری کے دوران یا ہاسپیٹل میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے کس طرح ان امور کو انجام دیتے ہیں جو اللہ رب العزت نے آپ کے اوپر فرض قرار دیا ہے۔
جواب: بچپن سے ہی ہمارا ماحول دینی رہا ہے ۔اسلام ہی میری ترقی کی راہ میں معین و مدد گار رہا ہے۔زندگی میں انسان کے اوپر حالات آتے جاتے رہتے ہیں لیکن جب وہ اللہ رب العزت پر بھروسہ کر کے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔غریبی ،تنگ دستی یا حالات کا رونا وقتی ہوتا ہے میں نے بھی کسمپرسی میں اپنی زندگی گذاری لیکن قرآن کی روشنی میں اپنے معمولات کو بہتر سے بہتر کرتا رہا۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کام کے دوران بھی میری نمازیں قضا ء نہیں ہوتیں۔جبکہ اگر کسی خاتون کا آپریشن کرنا ہوتا ہے تو جب تک خواتین نرسیں پردے کا پورا اہتمام نہیں کر دیتیں اس وقت تک میں آپریشن تھیٹر میں نہیں جاتا ۔پردے کا اہتمام ہی ہے کہ غیر مسلم خواتین بھی اپنا علاج میرے یہاں کراتی ہیں اور دعائیں دیتی ہیں۔
سوال:آخر اس شعبے کو بہتر بنانے کے لئے مزید کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟
جواب: دیکھئے ہندوستان ایک ایسا ملک رہا ہے جہاں ہر مذہب و مشرب کے لوگ آباد ہیں ۔ان کے یہاں خدا کا خوف پایا جاتا ہے لہذا بہتر تو یہ ہے کہ ہم خدا کے خوف کو ہی پر وان چڑھائیں تاکہ لوگوں کے اندر سماج و معاشرے کے تئیں بیداری پیدا ہو۔اسی کے ساتھ ہم عوام الناس میں بھی بیداری لائیں تاکہ کوئی بھی ان کے ساتھ ٹھگی کا معاملہ نہ کر سکے ،چونکہ جب آدمی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی ذہنی کیفیت بہتر نہیں رہتی وہ جلد از جلد ٹھیک ہونا چاہتا ہے اور اسی جلدی کی وجہ سے وہ بسا اوقات ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو استحصال کرتے ہیں اور اسے سمجھ میں بھی نہیں آتا۔لہذا جب ہم سماج میں بیداری لائیں گے اور لوگوں کے اندر خوف خدا کو پروان چڑھائیں گے تو جہاں غلط کاروں کو غلط کام کرنے میں ڈر محسوس ہوگا وہیں لوگوں کے اندر بھی بہتر سے بہتر علاج کرانے اور کامیاب معا لجین کی خدمات حاصل کرنے کا داعیہ پیدا ہوگا۔چونکہ شفا کا تعلق اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے لہذا نوجوان نسل اپنی شفا کو بر قرار رکھنے کے لئے اپنے اندر تقویٰ پیدا کریں اور خوف خدا کے ساتھ اپنی پریکٹس کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *