
بنگلہ دیش کی غذائی پیداوار عالمی طور پر نمونہ ہے
مغلوب کن آبادی کے دباؤ کی وجہ سے قابلِ کاشت زمین میں کمی کے باوجود، ملک نے غذائی پیداوار میں قابلِ ملاحظہ پیش رفت حاصل کی ہے۔
بلند تر ہوتی آبادی کی نشوونما کی وجہ سے آفت منڈلانے کی پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے بنگلہ دیش نے زرعی پیداوار میں مستحکم انداز میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آزادی کے بعد سے چار عشروں کے دوران بنگلہ دیش کی چاول کی پیداوار تین گنا ہو گئی ہے 1971 کے 3.5 ملین ٹن کے مقابلے میں 11 ملین ٹن۔
مزید برآں، بنگلہ دیش ادارہ برائے ترقیاتی مطالعات (بی آئی ڈی ایس) کے مطابق، اگرچہ 1971 کے بعد سے قابلِ کاشت زمین میں 20 سے 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، تاہم گندم، مکئی، آلو، پیاز اور دیگر تمام زرعی مصنوعات کی پیداوار قریباً دوگنی ہو گئی ہے۔قومی اور بین الاقوامی ہر دو سطح پر ماہرین اس حیرت انگیز بڑھوتری کی وجہ نئی ایجادات، غریب دوست پالیسیوں اور کسانوں کے خالص عزم اور سخت محنت کو قرار دیتے ہیں۔میر شہاب الحق سابو، جو جنوبی ضلع باگیر ہاٹ کے گاؤں ساتوئیشا سے ہیں، نے کہا بڑھتی ہوئی بار آوری نے زمین کی سکڑتی ہوئی دستیابی پر سے دباؤ کو غیر معمولی طور پر کم کر دیا ہے۔
48 سالہ سابو نے بتایا کہ’’ ‘میں نے اپنے والد سے 5 بیگھہ (1.4 ایکڑ) زمین وراثت میں لی اور میں نے اپنے بھائی سے پانچ بیگھے مزید لیے”۔ “مجموعی طور پر دس بیگھے زمین سے جو کچھ میں اب حاصل کرتا ہوں وہ اس پیداوار کے دوگنا سے بھی زائد ہے جو میں چند برس قبل 20 بیگھوں سے حاصل کرتا تھا۔”
ناموافق حالات میں غذائی تحفظ کے حصول میں اس غیر معمولی کامیابی نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کو مجبور کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو دوسرے ممالک کے لیے بطور مثالی نمونہ پیش کریں۔اختر احمد، جو بین الاقوامی غذائی پالیسی ادارے (آئی ایف پی آر آئی) بنگلہ دیش کے سربراہ ہیں، نے اس ملک کو جنوبی ایشیا میں تمام ممالک سے آگے قرار دیا۔احمد نے بتایا، “بنگلہ دیش نے آزادی کے بعد دیگر شعبوں میں جو بھی ترقی کی ہے، ان میں سب سے قابلِ ملاحظہ زرعی پیداوار ہے”۔ “یہ ملک ایک مثال ہے کہ ایسی ہی صورتحال سے دوچار دیگر کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔”
اکتوبر میں اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں غذائی و زرعی تنظیم (ایف اے او) نے بھی بنگلہ دیش کی کامیابی کو نمایاں کیا، اور اسے دیگر اقوام کے لیے بطور مثال پیش کیا۔ اس رپورٹ نے بنگلہ دیش کا ذکر ایسے اکلوتے ملک کے طور پر بھی کیا جہاں آب و ہوا کی تبدیلی غذائی پیداوار پر مثبت اثر کی حامل ہو سکتی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے ممکنہ نتیجہ کی بنا پرمون سون سے پہلے اور بعد میں ہونے والی اضافی برسات، چاول کی دو اقسام آیوش اور امن کی بڑھتی ہوئی پیداوار میں براہ راست معاونت کرتی ہے۔
علاوہ ازیں، کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے، موسمی تبدیلی نے سرمائی افزائشی موسم کو دسمبر سے فروری تک طوالت میں مدد دی جس کے نتیجہ میں زرعی پیداور میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے زرعی پیداوار میں کامیابی نے گزشتہ تین سال سے چاول اور دیگر زرعی پیداور کی درآمد میں کٹوتی کرکے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر مرتب کیا ہے۔
“2010 تک ہم ہر سال چاول کی درآمد پر ایک بلین ڈالر خرچ کرتے تھے،” 21 نومبر کو سبکدوش ہونے والے وزیر خوراک عبدالرزاق نےبتایا۔ ” لیکن شکر ہے کہ ہم نے گزشتہ تین سال سے چاول کی درآمد مکمل طور پر ختم کرکے، ہمارا قیمتی زرمبادلہ بچایا، اور اپنی معیشت کی مدد کی۔ “غربت میں نمایاں کمی کے لئے زرعی پیداوار میں اضافہ نے بنگلہ دیش میں براہ راست مدد کی جس سے غربت کی شرح 2000 کی بہ نسبت نصف ہوگئی۔ اس کامیابی کو ورلڈ بنک کی جانب سے کی گئی تحقیق اور دیگر اہم بین الاقوامی تنظیموں بشمول آئی ایف پی آر آئی نے اجاگر کیا ہے۔
محبوب حسین، ایگزیکٹو ڈائرکٹر آف نان گورنمنٹ آرگنائزیشن (این جی او) بی آر اے سی، نے بتایا، ورلڈ بنک، آئی ایف پی آر آئی اور ہماری اپنی تحقیق کے نتائج کا تجزیہ کرنے سے بغیر کسی شبہ کے یہ ثابت ہوا کہ بنگلہ دیش صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ باہر بھی خوراک کی پیداوار میں بہت سے ممالک کے لئے قابل ذکر ترقی کی واضح مثال ہے۔