(یہ بینک نہیں، ٹرسٹ ہے)
سود سے پاک اسلامی بینکنگ نظام کوئی تجربہ نہیں، دیوبند میں گزشتہ نصف صدی سے یہ کاروباری بینکوں کو زبردست ٹکر دیتا آرہا ہے
تریتھیش نندن
سینئر صحافی ،گورننس نائو،نئی دہلی
اسلام میں، سود کمانا (یا دینا) حرام ہے اور سودی کاروبار کرنے والے مہاجنوں کے ذریعے تباہ شدہ بے شمار زندگیوں کے پیشِ نظر یہ درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسا تو صرف ایک آئیڈیل دنیا میں ہی ممکن ہے کہ کسی شخص کو سود ادا کئے بغیر قرض مل جائے ۔ کیونکہ ایسے نظام کے چلنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جو لوگ بینکوں میں اپنے پیسے جمع کرتے ہیں، ان پر سود نہ طلب کریں۔ آئیڈیل دنیا؟ لیکن اترپردیش کے قصبہ دیو بند میں، جو دیو بندی اسلامی تحریک کا مرکز ہے، گزشتہ نصف صدی سے زیادہ مدت سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ اب اس سے زیادہ اور کیا چاہئے کہ ایک کامیاب کاروباری ماڈل کے طور پر یہ درست دکھائی دیتا ہے۔ اپنے سفر کے دوران اس اخلاقی کاروبار نے کئی لوگوں کی زندگیاں تبدیل کی ہیں۔
اب مثال کے طور پر ہلال میاں ہی کو لے لیجئے۔ انہیں فوٹو کاپی کرنے اور بجلی کے سامان درست کرنے والی اپنی چھوٹی دکان کو بڑھانے کے لئے روپیوں کی ضرورت تھی۔ انہوں نے دیو بند میں واقع پبلک سیکٹر کے 14 بینکوں کی شاخوں کے چکر لگائے اور تب جاکر ان کی سمجھ میں آیا کہ ان بینکوں سے قرض حاصل کرنا کتنا مشکل ہے ۔ یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اپنے اس چھوٹے سے کاروبار سے ہونے والی کمائی سے انہیں ان بینکوں کا قرض بھی ادا کرنا پڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرض حاصل کرنے کے لئے فطری طور پر مسلم ٹرسٹ فنڈ کا سہارا لیا۔ 2013 کے اوائل میں انہیں بغیر کسی پریشانی کے، سونے اور چاندی کے کچھ زیورات کی بنیاد پر، 60,000 روپئے کاقرض مل گیا۔ اس کے بعد سے وہ روزانہ قرض لوٹا رہے ہیں، جو اس بینک کی بنیادی شرط ہے۔
ٹرسٹ کے جنرل منیجر حسیب صدیقی کہتے ہیں، ’’ضمانت کے طور پر زیورات لینے کا اصل مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ قرض لینے والے پر وقت پر قرض واپس کرنے کا دباؤ قائم رہے۔‘‘ باوجود اس کے کہ حسیب صدیقی کی عمر 76 برس ہے اور وہ اس ادارے سے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے وابستہ ہیں، وہ اب بھی سبکدوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔
صدیقی بتاتے ہیں کہ سود لئے یا دئے بغیر ایک بینک جیسا ادارہ چلانا کس طرح ممکن ہوا۔ صدیقی کہتے ہیں، ’’ہمارا فارمولہ بہت آسان ہے۔ اگر کسی شخص کو رکشا کے لئے قرض چاہئے، تو ٹرسٹ انہیں ایک رکشا دیتا ہے۔ ہم قرض لینے والے سے یہ کہتے ہیں کہ وہ (رکشا مالک کو) روزانہ 30 روپئے کرایہ دینے کے بجائے اس بینک کو روزانہ ایک چھوٹی رقم ادا کرے۔ 200 دنوں میں، وہ رکشے کا مالک بن جاتا ہے۔‘‘
اس طرح، جہاں دوسرے شہروں کے مقابلے جہاں رکشے والے کسی اور کی رکشا چلانے کے لئے مجبور ہیں، وہیں دیو بند میں، رکشا چلانے والے تمام لوگ اپنی رکشوں کے مالک ہیں۔
رکشا چلانے والے ایک شخص اکرام اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم سود نہیں دے سکتے۔ اور اس جگہ کے علاوہ مجھے سود سے پاک قرض کہاں ملے گا؟‘‘
اخلاقی کاروباری ماڈل
1961 سے اس کے قیام کے بعد سے، اس ٹرسٹ نے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو 86 کروڑ روپئے تک کے قرض دئے ہیں اور قرض حاصل کرنے والوں میں سے بیشتر کا تعلق سماج کے ایسے پسماندہ طبقات سے ہے جوبینکوں سے قرض حاصل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان میں چھوٹے دکاندار، کاروباری، رکشاچلانے والے اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ یہاں اسپتال داخل ہونے والے شادی بیاہ کے لئے نجی قرض بھی دستیاب ہے۔ عام طور پر زیادہ سے زیادہ,,000 50, روپئے کا قرض دیا جاتا ہے لیکن چند خاص معاملات میں 2 لاکھ روپئے تک کا بھی قرض دیا گیا ہے۔
قرض کی قسطیں روزانہ وصول کی جاتی ہیں تاکہ قرض لینے والے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ یقیناً قرض حاصل کرنے کے لئے اس ٹرسٹ میں کھاتہ کھولنا لازمی ہے۔
صدیقی کہتے ہیں، ’’ہم جو کچھ فراہم کر سکتے ہیں، یہ اس کا آخری پڑاؤ ہے۔‘‘ ایک ایسے وقت میں جبکہ بڑے کاروباری بینکوں پر غیر فعال املاک (نان۔ پرفارمنگ ایسیٹس۔ این پی اے) کا زبردست بوجھ ہے، اس ٹرسٹ کا سرے سے کوئی این پی اے ہی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر قرض لینے والا قرض دینے میں ناکام رہتا ہے، تو ہم ضمانت کے طور پر لی گئی ان کی چیزیں واپس کر دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ وہ انہیں فروخت کرکے قرض کی رقم واپس کردے۔‘‘
حالانکہ ٹرسٹ قرض پر سود نہیں کماتا، لیکن وہ قرض لینے والے سے ایک معمولی ٹرانزیکشن فیس وصول کرتا ہے۔ صدیقی کہتے ہیں، ’’مثال کے طورپر، 1000 روپئے کے قرض پر 25 روپئے کا ٹرانزیکشن فیس لیتے ہیں۔‘‘
کمرشیل بینک ڈیپازٹس پر سود ادا کرتے ہیں، اور اس سے جمع ہونے والے فنڈس پر کچھ زیادہ شرحِ سود پر قرض کی صورت دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ ڈیپازٹوں اور قرضہ جات کے درمیان شرح سود کے درمیان جو فرق ہوتا ہے وہی بینک کا منافع ہے۔ ٹرسٹ منافع کی وہ رقم نہیں لیتا، بلکہ وہ جو ٹرانزیکشن فیس وصول کرتا ہے اس سے ادارے کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ اسلئے یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ ادارہ اپنے 76,000کھاتہ داروں اور ڈیپازٹ ہولڈروں کو کسی قسم کا کوئی سود ادا نہیں کرتا۔
نسیمہ کا اس ٹرسٹ میں گزشتہ 30 برسوں سے کھاتہ ہے اور انہیں بینک سے اپنے رشتے پر فخر ہے۔ کسی زمانے میں دیوبند میونسپل کارپوریشن میں کام کرنے والی برقعہ پوش نسیمہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں یہاں کی بینکنگ کی بنیادی فطرت کوسمجھتی ہوں، اسلئے میں یہاں اپنے پیسے جمع کرتی آرہی ہوں۔‘‘ نسیمہ کے پیسے جمع کرتے ہی کیشیئر نے نوٹوں کو گنتی کرنے والی مشین میں ڈالا: جی ہاں، اب یہ ٹرسٹ بھی جدید سہولیات سے مزین ہے اور اس کا مکمل کمپیوٹرائزیشن ہو چکا ہے۔
اسلامی فائنانس کے رہبر و راہ نما
ہندوستان میں، اسلامی بینکنگ اب بھی کم و بیش ایک ایسا تصور بھر ہی ہے جس کے بارے میں صرف باتیں کی جاتی ہیں (حالانکہ کیرلا حکومت نے اگست میں آر بی آئی کے ذریعے اجازت ملنے کے بعد اسلامی بینکنگ لانچ کرنے کا آغاز کر دیا ہے)۔ دوسری طرف، مسلم فنڈ ٹرسٹ گزشتہ 52 برسوں سے بڑی جانفشانی سے یہ فرائض انجام دے رہا ہے۔ اردو کے مشہور شاعر نواز دیوبندی، جنہوں نے ایک زمانے کے لئے اس ٹرسٹ کے لئے کام بھی کیا ہے، کہتے ہیں، ’’ہم اسلامی بینکنگ کے میدان کے راہبر و راہ نما ہیں۔‘‘
1960 کے دوران، کسی باقاعدہ بینکنگ نظام کے فقدان کے سبب، مغربی اتر پردیش میں دیوبند اور اس کے اطراف کے علاقے مہاجنوں کے نرغے میں تھے۔ اسی پرآشوب دور میں اُس وقت جمعیۃ علمائے ہند (ہندوستان میں مسلمانوں کی بااثر جماعتوں میں سے ایک) کے صدر مولانا سید اسعد مدنی کے دل میں عوام کو ان مہاجنوں سے نجات دلانے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے جو شریعت کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے سماج کے غریب و نادار افراد کی ضروریات کو پورا کرے۔
یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب حسیب صدیقی کی عمر بیس بائیس برس ہوگی اور وہ حال ہی میں دیوبند کے دارالعلوم سے فارغ ہوئے تھے۔ حسیب صدیقی کا شمار ان رضاکاروں میں ہوتا ہے جو اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے عمل میں پیش پیش تھے۔ کامرس اور اکاؤنٹنگ سے متعلق کسی علم کے بغیر، صدیقی صاحب نے مدنی صاحب کے مشن کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے ایک کرائے کے ایک کمرے سے شروعات کی۔ ہمیں چار ماہ تک کوئی تنخواہ نہیں ملی لیکن ہمارا مقصد لوگوں کو ان مہاجنوں کی قبیح حرکتوں سے بچانا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ چونکہ لوگ اس وقت پیسے اپنے گھروں میں رکھتے تھے اسلئے بینکنگ سے متعلق سرگرمیوں کے تعلق سے بیداری پیدا کرنا لازمی تھا۔ صدیقی صاحب مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم نے انہیں اپنے ہاں پیسے جمع کرنے پر آمادہ کیا۔ ان پیسوں کی مدد سے ہم نے کئی لوگوں کو قرض فراہم کیا۔‘‘
آج ٹرسٹ کا سالانہ ٹرن اوور 10 کروڑ روپئے ہے جبکہ اپنے 45 ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے بعد اسے 3 کروڑ روپئے کا منافع ہوا ہے۔ اور اس دوران ادارے نے لوگوں کا بھروسہ بھی حاصل کیا ہے۔
نواز دیوبندی کہتے ہیں، ’’ایسے وقت میں جبکہ کئی غیر بینکنگ فائنانس کمپنیاں لوگوں کے پیسے لے کر فرار ہوگئے، اس ٹرسٹ نے لوگوں کی ضروریات پوری کیں۔‘‘
ٹرسٹ نے اپنا دائرۂ اختیار دیوبند کے اطراف تک بڑھا دیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے علاقے میں بسنے والے ہندوؤں کو بھی، جو کل آبادی کا 35 فیصد ہیں، خدمات بہم پہنچائی ہے۔ بینک ایک نئے صارف نریندر کمار کہتے ہیں، ’’میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں اور دوسرے بینکوں کی کاغذی کاروائیاں میرے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔ مجھے اس بینک کے ساتھ کام کرنا آسان لگتا ہے۔‘‘
آخر میں صدیقی صاحب ایک اہم تصحیح فرماتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اسے بینک نہ کہیں، یہ ایک ٹرسٹ ہے۔‘‘