
فیس بک لوگوں کی زندگی کا آن لائن ناول بن چکا ہے
اس کےبانی مارک زكربرگ نے حصص کی فروخت میں 3.3 ارب ڈالر منافع حاصل کیاہے
سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کے بانی مارک زكربرگ نے گذشتہ سال حصص کی فروخت کے نتیجے میں 3.3 ارب ڈالر کی کمائی کی ہے۔فیس بک کے حصص کی عام لوگوں کے لیے دستیابی کی وجہ سے مارک زکربرگ کے پاس اسٹاک کی فراہمی کے اختیارات ختم ہو گئے تھے۔زكربرگ کو انکم ٹیکس کے بل کی ادائیگی میں مدد کے لیے چھ کروڑ حصص دیے گئے تھے۔سال 2013 میں ان کی بنیادی تنخواہ ایک ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں جیسا کہ گوگل کے لیری پیج اور ایپل کے سٹیو جابز کے برابر تھی۔انہیں مجموعی طور پر گذشتہ سال 653165 ڈالر ادا کیے گئے جبکہ سال 2012 میں یہ رقم تقریباً دو کروڑ ڈالر تھی۔فیس بک کا کہنا ہے کہ اس رقم کا بیشتر حصہ زكربرگ کے سفر کے لیے کرائے پر لیے گئے ذاتی طیاروں کے لیے ادا کیا گیا جو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے۔فی الحال زكربرگ کے پاس فیس بک کے 4263 کروڑ حصص ہیں جن کی بازار میں قیمت 7.25 ارب ڈالر ہے۔گذشتہ سال فیس بک کے حصص کی قیمت میں دگنے سے زیادہ اضافہ ہوا اور موبائل اشتہارات کی فروخت سے کمپنی کی اندازے سے بہتر کمائی ہوئی۔دوسری جانب امریکی ریگولیٹرز کے پاس جمع شدہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ فیس بک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیرل سینڈبرگ نے اپنے حصص کا بڑا حصہ فروخت کر دیا ہے۔
اخبار فنانشل ٹائمز کے تجزیے کے مطابق ان کے پاس چار کروڑ دس لاکھ حصص تھے جب کمپنی کو اسٹاک مارکیٹ میں 2012 میں درج کروایا گیا تھا مگر اب تک وہ دو کروڑ 60 لاکھ حصص فروخت کر چکی ہیں۔ اس سے قبل وہ کہہ چکی ہیں کہ انہوں نے یہ حصص اپنے ٹیکس کا بل ادا کرنے کے لیے بیچے تھے۔ان کے موجودہ حصص 17 ملین ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر کے قریب ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چند برس قبل تک کے جائزوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی تھی کہ اب فیس بک کے دن گنتی کے رہ گئے ہیں۔مختلف رپورٹوں کے حوالے سے کہاجاتا تھا کہ فیس بک استعمال کرنے والے پریشان ہیں، نوجوان نسل اس سے بور چکی ہے جبکہ ایک سروے میں تو اسے متعدی بیماری تک قرار دے دیا گیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان رپورٹوں میں اکثر پر فیس بک کے بانی مارک زوکربرگ کی اداس تصویر لگی ہوتی تھی۔پرسٹن یونیورسٹی کے محققین نے گوگل سرچ کی مدد سے جب اپنی رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اگلے تین سال میں فیس بک کی مقبولیت 80 فیصد کم ہو جائے گی، تو سوشل نیٹ ورک نے بھی جوابی حملہ کیا تھا۔اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے فیس بک کے اپنے سائنسدانوں نے اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے پیش گوئی کر دی تھی کہ اس یونیورسٹی میں 2021 تک کوئی طالب علم ہی نہیں رہے گا اور دنیا 2060 میں ہوا ہو جائے گی۔فوریسٹر ریسرچ سے منسلک تجزیہ کار نیٹ ایلیٹ نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ’باقاعدگی سے فیس بک میں نئی نئی سہولیات شامل اور سائٹ کی فعال ہونے میں اضافہ ہونا اس کی بڑی طاقت رہی ہے۔ اس سے نوجوان طبقہ اس کی طرف تیزی سے اپنی طرف متوجہ ہواہے۔ اس خصوصیت نے موجودہ صارفین کو بھی اس توجہ سے باندھے رکھا ہے۔‘نیٹ ایٹلیٹ نے نیٹ سے منسلک کمپنی کے اعداد و شمار کی طرف بھی اشارہ کیاتھا۔جس میں بتایا گیا تھاکہ نومبر 2013 میں 18 سے 24 سال کے درمیان کے 86 فیصد امریکی نوجوانوں نے فیس بک کا استعمال کیا ہے۔انہوں نے لکھا تھا، ’کسی بھی دوسرے سوشل نیٹ ورک کے مقابلے میں فیس بک پر زیادہ نوجوان موجود ہیں۔‘مگر ہر سروے کو اس طرح رد کرنا فیس بک کے لئے ممکن نہیں رہا ہے۔ڈیجیٹل ایجنسی آئی سٹریٹجی لیبز نے فیس بک کے ہی سوشل اشتہاراتی نظام سے منسلک اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیاتھا کہ گزشتہ تین سال میں 30 لاکھ امریکی نوجوانوں نے فیس بک پر آنا چھوڑ دیا ہے۔ایجنسی کی یہ رپورٹ اس تحقیق کو آگے بڑھاتی تھی جو پيو انٹرنیٹ سینٹر ریسرچ پہلے کر چکا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ماں باپ کی پابندیوں کی وجہ سے نوجوان فیس بک پر کم آ رہے ہیں۔ریسرچ میں کہا گیا تھاکہ سچ تو یہ ہے کہ نوجوان اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک ہی ڈیجیٹل جگہ پر سماجی رابطے بنانے کی وجہ سے دور رہنے لگے ہیں۔ماں باپ اپنے بچوں کی کئی ایسی تصاویر فیس بک پر شیئر کرتے ہیں جو انہیں تو بہت اچھی لگتی ہیں مگر وہی تصاویر ان کے بچوں کے لیے فیس بک دوستوں کے درمیان مذاق کا سبب بن جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ماں باپ کی بچوں کو دی گئی عجیب و غریب ہدایتیں بھی فیس بک پر ان کے لیے نامناسب صورتحال پیدا کر دیتی ہیں۔پيو کے مطابق ان وجوہات کی وجہ سے نوجوان فیس بک پرکم رہنے لگے ہیں اور وہ واٹس ایپ اور سنیپ چیٹ پر زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں۔مگر جہاں اس رپورٹ میں نوجوانوں کی تعداد میں 25 فیصد کی کمی درج کی گئی وہیں یہ بھی پایا گیا کہ 55 سال اور اس سے زیادہ عمر کے جتنے لوگ فیس بک کا استعمال کرتے تھے ان کی تعداد میں 80 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ فیس بک کے عمر بڑھنے کے ساتھ زیادہ عمر کے لوگ اس کا زیادہ استعمال کرنے لگے ہیں؟تجزیہ کرنے والی کمپنی اووم کی ایک تجزیہ کار ایڈن زولر نے بتایا کہ زیادہ عمر کے لوگوں کا اسے استعمال کرنا ایک مثبت رجحان ہے کیونکہ ان لوگوں کے پاس نوجوانوں کے مقابلے میں خرچ کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔‘مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک ان نوجوانوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ یہی نوجوان کل اس کا سرمایہ ہوں گے۔اس لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ ’فیس بک کو موبائل ویڈیو ایپ جیسی نئی ٹیکنالوجی کو اپناتے رہنا چاہئیے۔‘البتہ ایک مسئلہ یہ تھا کہ فیس بک اپنے صارفین کو اپنے ساتھ رکھ پائے گا یا نہیں ایسی قیاس آرائی مارک زوكربرگ کی نیند اڑا سکتی تھی۔
مارک زوكربرگ نے فیس بک کا آغاز ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک چھوٹے سے کمرے سے کیا تھا۔ اس کے ابتدائی صارفین صرف نوجوان تھے۔ اب اس کے صارفین کی تعداد ایک ارب 23 کروڑ ہو گئی ہے۔
فیس بک کی آمدنی 2013 میں 55 فیصد بڑھ کر سات ارب 87 کروڑ ڈالر ہو گئی جبکہ منافع سات گنا بڑھ گیا۔سنیپ چیٹ خریدنے کے لیے لگائی بولی ناکام ہونے کے فورا بعد فیس بک نے موبائل ایڈورٹائزنگ جیسی مثبت کوششیں کرنی شروع کر دیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ فیس بک نے دو ارب 34 کروڑ ڈالر کے اعداد و شمار پر نظر رکھنے اور اس کے اشتہارات کی افادیت کو بہتر بنانے کا وعدہ کرنے والی فرم میں سرمایہ کاری کر دی۔اووم کی تجزیہ زولر کا کہنا ہے کہ ’موبائل اشتہارات میں ناقابل یقین طور پر لوگوں کو اپنی جانب کھینچنے کی طاقت ہے۔‘فیس بک کے بارے میں قیاس آرائی کرنے والے جتنے بھی سروے ہیں، حیرت کی بات ہے کہ ان میں سے کسی ایک میں اس بات کا کوئی تجزیہ موجود نہیں ہے کہ لوگ اب بھی کیوں فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایئن میکنزی نےاس بات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہ کیوں فیس بک آج بھی کارآمد ہےلکھا ہے ’لوگ اپنی ہر بات، مثلا بچے کی پیدائش، شادی، علیحدگی، خوشی، غم، کام، وغیرہ کئی باتیں شیئر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب فیس بک پر ممکن ہو گیا ہے۔ یہاں انہیں اپنے پسندیدہ گیت بھی مل جاتے ہیں اور وہ کسی بلی کی تصویر کو لائک بھی کر سکتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کی ایک فطرت ہے تجسس یا ہوس اور فیس بک نے لوگوں کے اسی مزاج کو قائم کیا ہے۔ہم چاہیں پسند کریں، یا نہ کریں، فیس بک لوگوں کی زندگی کا آن لائن ناول بن چکا ہے۔ اور زیادہ تر لوگوں میں یہ پڑھنے کی طلب بھی کم نہیں ہوئی ہے۔