
سوال آپ کے جواب اسلامی اسکالرز کے
فکسڈڈپوزٹ میں پیسہ رکھوانا
سوال ـ:برائے مہربانی ہاں یا نہیں میں جواب دے دیں۔ آپ کو پتا ہے آج کلہندوستانی روپیہ کی قیمت گر رہی ہے۔ میرے پیسے کرنٹ اکاؤنٹ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ مشورہ دے رہے تھے کہ اپنی تنخواہ کرنٹ اکاؤنٹ سے نکلوا کر فکسڈ اکاؤنٹ میں رکھوا لو۔اس طرح جو قیمت گرے گی وہ کچھ نہ کچھ بینک منافع کی صورت میں ریکور ہو جائے گی۔ کیا کسی بینک یا ادارے سے فکسڈڈپوزٹ میں پیسہ رکھوا کر منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:بینک جو اضافی رقم آپ کے ڈپازٹس پر دیتا ہے وہ سود ہوتا ہے۔تاہم جو مسئلہ آپ نے بیان فرمایا ہے وہ اہم ہے کہ رقم کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ آپ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوالیں اور اپنی بچت فارن کرنسی میں رکھیں جس کی قیمت نسبتاً اس طرح نہیں گرتی جس طرح ہندوستانی روپے کی گرتی ہے۔ دوسری شکل قیمتی دھاتوں کی شکل میں بچت رکھنا ہے اور اسے بینک لاکر میں رکھوایا جاسکتا ہے۔
بینک سے قرض لے کر گھر خریدنا
سوال:میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ۔میری آمدنی 50,000 ہے اور میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔اس وقت ممبئی میں مکانات بہت مہنگے ہیں جس کی وجہ سے اپنا مکان خریدنا بہت مشکل ہے تو کیا میں اس صورت میں بینک سے قرضہ لے کر اپنے لیے کوئی فلیٹ وغیرہ خرید سکتا ہوں ۔اس کے لیے مجھے بینک کو سود بھی دینا ہو گاجبکہ قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔لیکن قرآن میں تو سود لینے والے کو لعنت دی گئی ہے نہ کہ دینے والے کو۔ بتائیے مجھے کیا کرنا چاہیے؟ (سید عدنان علی)
جواب: سود کے معاملے میں دو فریق ہوتے ہیں ۔ ایک فریق سود پر قرض لینے والے لوگ ہیں جنھیں اصل رقم کے علاوہ سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے ۔دوسرا فریق سود دینے والاشخص ، ادارہ اور اس کے معاونین ہیں ۔اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں سود کی مذمت پر جو کچھ کہا گیا ہے اس میں اصل وعید دوسرے گروہ کے لیے ہے جو سود پر قرض دیتا اور لوگوں سے سود لیتا ہے اور آپ نے بھی اس بات کو ایسے ہی سمجھا ہے۔ رہے پہلی قسم کے لوگ توظاہر ہے کہ وہ مجبوری ہی میں سود ادا کرتے ہیں ۔ اپنی خوشی سے کوئی شخص قرض پر اضافی رقم ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
ہمارے ہاں ایک روایت کے بعض الفاظ کی بنا پر یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ سود ادا کرنے والا بھی قابل مذمت ہے ۔ وہ روایت اس طرح ہے :’’لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربٰوا ، ومؤکلہ ، وکاتبہ ، وشاھدیہ ، وقال: ھم سواء (مسلم، رقم1598)‘‘’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودکھانے اورکھلانے والے اوراس دستاویزکے دونوں گوا ہوں پرلعنت کی اورفرمایا:یہ سب برابر ہیں۔‘‘
اس روایت میں ’مؤ کلہ‘ کے الفاظ (جس کا ترجمہ سود کھلانے والے کیا گیا ہے )کو لوگ سود دینے والوں کے معنوں میں لیتے ہیں ، مگر اس کا اصل مفہوم و مدعا جاوید احمد صاحب غامدی نے اس طرح بیان کیا ہے :
’’اس (مؤ کلہ)سے مراد وہ لوگ ہیں جوسودکاکاروبارکرنے والوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے ان کے ساتھ یا ان کے قائم کردہ اداروں میں خدمات انجام دیتے ہیں ۔‘‘
( میزان ، با ب :قانون معیشت ، ص 510 ، فٹ نوٹ نمبر 33)
رہے سود دینے والے تو ظاہر ہے کہ وہ خود ایک ظلم کا شکار ہیں ، ان پر لعنت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ انھیں اگر بلا سودقرضہ میسر آ سکے تو یقیناً وہ کبھی اس قرضے کو لینا پسند نہیں کرے گا جس پر انہیں اضافی رقم دینی پڑ ے ۔اگر آپ یہ محسوس کرتے ہے ہیں کہ ذاتی مکان لینے کا یہی ایک طریقہ ممکن ہے تو آپ اس روشنی میں فیصلہ کر لیجیے۔ ان شاء اللہ آپ ان وعیدوں کے مصداق نہیں ہوں گے جو سود کھانے والے کے لیے آئی ہیں ۔تاہم یہاں ایک اور بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دین اسلام نے جس چیز کو سود قرار دیا اور جس سے ظلم وجود میں آتا ہے اس کا اطلاق صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جو استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھو دیتی ہیں ۔ مثلاً سود پر اگر نقد روپیہ یا اجناس وغیرہ لیے گئے ہیں تو یہ استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھودیں گیں ۔ اس کے بعد مقروض کو انھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر کے اس پر اضافی رقم بطور سود دینی ہو گی۔ یہی وہ ظلم ہے جسے اسلام روکنا چاہتا ہے ۔
فائنانسنگ کے ذریعے سے مکان یا گاڑ ی وغیرہ کے حصول کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ اس میں قرض لینے والا قرض کی رقم سے ایک چیز کا نہ صرف مالک بنتا ہے ، بلکہ اس کا مستقل استعمال کرتا ہے ۔قرض کا روپیہ صرف تو ہو گیا مگر اسے ایک ایسی چیز کا مالک بنا گیا جو اس کے استعمال میں رہتی ہے اور وہ مستقبل میں اس کا مالک بھی بن جاتا ہے ۔اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ قرض کی مکمل ادائیگی کے بعد مقروض اس شے کا مالک بن کر اسے اپنے استعمال میں رکھتا ہے ۔ اس طرح غور کیا جائے تو اس پر ظلم نہیں ہوتا ، بلکہ وہ وسائل کے بغیر اپنی ضرورت کی چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ البتہ سوال یہ ہے کہ قرض خواہ کو کس بنیاد پر آمادہ کیا جائے کہ وہ فائنانسنگ کی رقم فراہم کرے۔ اسلامی اسکالر کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ کرایہ داری کے اصول پر اگر یہ معاہدہ کر لیا جائے تو سو دکے بجائے کرایہ کی شکل میں سرمایہ فراہم کرنے والے کو (چاہے وہ کوئی قرض خواہ ہو یا کوئی بینک)اپنا منافع مل جائے گا اور معاہدے کے اختتام پر جائیداد کی ملکیت مقروض کو منتقل کر دی جائے گی۔ اس طرح فریقین کا مفاد محفوظ رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جو تجویز پیش کی جا رہی ہے اس میں بعض عملی مسائل آ سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین معیشت اگر اسلام میں سود کی حرمت کے بنیادی اصول پر واضح ہوجائیں تو ان عملی پیچیدگیوں کو حل کرنا زیادہ بڑ ا مسئلہ نہیں ہے ۔ گویا قرض لے کر گھر لینے کے بعد انٹریسٹ کے نام پر جو ادائیگی کی جاتی ہے وہ اپنی اصل میں سود نہیں ، بلکہ اس گھر کو استعمال کرنے کا کرایہ ہے جس کے آپ ابھی مکمل طور پر مالک نہیں بنے ہیں۔
کرائے اور بینک کے منافع میں فرق
سوال:اگر ایک شخص 20 لاکھ روپے کا مکان خرید کر کرائے پر چڑ ھادیتا ہے اور دوسرا شخص 20 لاکھ روپے بینک میں ڈیپوزٹ کرا کر پروفٹ لیتا ہےتو کیا دونوں صورتوں میں ان کو ملنے والی رقم سود ہو گی؟ (سلمان شیخ)
جواب :آپ کے سوال سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کرایہ کی آمدنی اور بینک سے ملنے والے سود کا فرق سمجھنا چاہتے ہیں۔ بینک سے تو بلاشبہ سود ہی ملتا ہے ۔البتہ کرایہ سود نہیں ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سود وہ اضافی رقم ہے جو کسی شخص نے آپ کی رقم کی واپسی کے بعد ادا کرنی ہوتی ہے ۔ اس میں غور فرمائیے کہ پیسہ خرچ (Consume) ہوجاتا ہے۔ واپس ادا کرنے والے کو وہ پیسہ پھر سے پیدا کرنا ہوتا ہے اور اس پر ایک اضافی رقم بطور سود بھی دینی ہوتی ہے۔ جبکہ کرایہ میں اصل شے محض استعمال ہوتی ہے ، خرچ (Consume) نہیں ہوتی کہ اسے دوبارہ پیدا کرنا ہو ، بلکہ استعمال کے بعد لوٹادی جاتی ہے ۔ اوراستعمال کی سہولت لینے کے عوض کچھ رقم بطور کرایہ ادا کی جاتی ہے ۔
سود میں پیسہ یا کسی اور قابل صرف(Consumable) چیزکو دوبارہ پیدا کر کے اس کے ساتھ اضافی طور پر رقم دینی ہوتی ہے ۔ یہی چیز اس کوظلم بناتی ہے اور اسی لیے سود ممنوع ہے ۔ کرایہ میں ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، ایسا نہیں ہوتا۔
بینک میں ملازمت
سوال : کیا بینک کی ملازمت حرام ہے اگر چہ کوئی براہِ راست سودی معاملات کو ہینڈل نہ کر رہا ہو؟ (انیس )
سوال :میں آئی ٹی انچارج کے طور پر بینک میں جاب کرتا ہوں ، میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ جاب حرام ہے یا حلال؟جو بھی صورت ہو، ا س کی کم از کم اتنی وضاحت کر دیں جو مجھے بھی مطمئن کر دے اور میں دوسروں بالخصوص اپنے والدین کو مطمئن کرسکوں ؟ (سجاد عارف)
جواب: سود لینا ناجائز اور حرام ہےاور بینک سودی لین دین کا ادارہ ہے۔ تاہم دور جدید میں بینک کایہ ادارہ معیشت کے ہر شعبہ میں اس طرح متعلق ہو چکا ہے کہ ایک دن میں اس کا خاتمہ آسان نہیں ۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بینک کی ہر ملازمت قطعاً حرام ہے اور لوگ اسے فوراً چھوڑ دیں ، دین کی اپنی روشنی میں درست نہ ہو گا۔
بینک کی ملازمت بھی دو طرح کی ہے۔ ایک جس میں براہِ راست سودی معاملات میں تعاون کی وہ شکل ہوتی ہے کہ جسے حدیث میں ‘موکل یعنی سودی ایجنٹ کہا گیا ہے۔ جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، انھیں چاہیے کہ وہ جلد از جلد معاش کا کوئی متبادل تلاش کریں ۔ وہ اگر اپنے حالات کی بنا پر عزیمت کی یہ راہ اختیار نہ کر سکیں تو پروردگار کے حضور رجوع کر کے اپنا عذر اس کی کریم بارگاہ میں پیش کرتے رہیں ۔ ساتھ ہی اپنے مال میں سے کثرت کے ساتھ انفاق کریں ۔ امید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی بنا پر در گزر کا معاملہ فرمائے گا۔
دوسری ملازمت پبلک سروسز کی نوعیت کی ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان کو کرنے میں اصلاً کوئی حرج نہیں ہے ۔جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، وہ اگر معاش کا کوئی دوسرا بہتر سلسلہ تلاش کر سکیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے حالات کی بنا پر ایسا نہیں کرتے تو ان شاء اللہ پروردگار کے حضور ان پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔
البتہ جب کسی ریاست میں حکومت سودی لین دین کو ناجائز قرار دے دے تو ایسے میں سود کے کاروبار سے متعلق ہر ملازمت حرام اور ناجائز ہوجائے گی۔
اسلامی بینکوں سے ملنے والا منافع
سوال : عام بینک اپنے کھاتے داروں کو جو منافع دیتے ہیں ، وہ تو سود ہی ہوتا ہے جو کہ حرام ہے لیکن یہ اسلامی بینک نامی ادارے اپنے کھاتے داروں کو جو منافع دیتے ہیں کیا وہ حلال ہے ؟اگر یہ بھی حرام ہے تو کیا جائز منافع کمانے کی کوئی متبادل شکل بھی ہے ؟ (اقبال ملک)
جواب :عام بینک اپنے کھاتے داروں کو سود ہی دیتے ہیں اورسود کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم اسلامی بینکوں کے متعلق جو معلومات ہمیں حاصل ہیں ، ان کے مطابق وہ بھی بعض حیلوں کے ساتھ سود ہی کے نظام کو اسلام کے نام پر پیش کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان میں سرمایہ کاری کرنا بھی عام بینکوں میں سرمایہ کاری کرنے سے زیادہ مختلف نہیں ۔
آج کل جائز منافع حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اسلامک فنڈز (نہ کہ اسلامک بینک )کی شکل میں موجود ہے ۔اسلامک فنڈز کی ا سکیمیں مختلف مالی ادارے جاری کرتے ہیں اوراسٹاک ایکسچینج کے ان شیئرز میں کام کر کے منافع حاصل کرتے ہیں جو جائز ہوتے ہیں ۔ان میں آپ سرمایہ کاری کر کے منافع حاصل کرسکتے ہیں ۔
نفع نقصان پر مبنی اکاؤنٹ
سوال : میں UK میں رہتا ہوں اور میں نے ہندوستان میں نفع نقصان کی بنیاد پر ایک بینک اکاؤنٹ کھول رکھا ہے ۔بینک نفع کے نام پر مجھےجو رقم دیتا رہتا ہے وہ میرے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ رقم سود ہے اور حرام ہے؟ (انعم خالد)
جواب :ہندوستان میںSaving اکاؤنٹ پر دی جانے والی نفع کی رقم سود ہی ہوتی ہے۔ اس میں اور سود کے نام سے دی جانے والی رقم میں کوئی فرق نہیں۔ کمرشل بینک ایک سودی ادارہ ہوتا ہے ۔یہ لوگوں کے کھاتوں میں موجود رقم سود کی بنیاد پر آگے دیتا ہے اور پھر ملنے والے سود کا ایک حصہ اپنے کھاتے داروں میں تقسیم کر دیتا ہے ۔ اسے منافع کہہ دینے سے یہ سود سے الگ کوئی چیز نہیں بن جاتا ، بلکہ سود ہی رہتا ہے ۔
بینک کی ملازمت اور سود
سوال : بنک کی ملازمت، کیا سود کی دستاویز لکھنے اور اس کی گواہی دینے کے زمرے میں آتی ہے؟
جواب : بنک کی ملازمت سود کی دستاویز لکھنے اور اس کی گواہی دینے کے زمرے میں تو یقینا آتی ہے، لیکن موجودہ دور میں اس معاملے کو اسی طرح دیکھا جائے گا جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں غلامی کے معاملے کو دیکھا گیا تھا۔ اس وقت سود کا کاروبار ایسے ہی پھیل چکا ہے جیسے قدیم زمانے میں غلامی پھیل چکی تھی۔ اس وقت اسلام نے غلامی پر یک لخت پابندی عائد کرکے لوگوں کو کسی بڑی مشقت میں مبتلا نہیں کیا، بلکہ ایک تدریج کے ساتھ اس کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔ پہلے اس کے راستے بند کیے اور پھر وہ قوانین بنائے جن کے ذریعے سے سوسائٹی سے اس کا خاتمہ ہو سکے۔سود پر اسلام کو اصل اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک اخلاقی برائی ہے۔ آپ کو قرض پر متعین منفعت لینے کا حق نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق یہ درحقیقت دوسرے کا مال غلط طریقے سے کھانا ہے۔ تاہم ، موجودہ دور میں اس کاروبار کی نوعیت یہ بن چکی ہے کہ پوری معیشت اس پر منحصر ہے، بینکوں کا سارا نظام اس پر چل رہا ہے۔ اس لیے اس میں جن لوگوں کو کوئی ملازمت کرنا پڑتی ہے، ان کے لیے وہی قواعد ہوں گے جو غلامی کے نظام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے بارے میں تھے۔ آدمی اگر بہتر ماحول میں جا سکے تو اس کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ سے عفو و درگزر کی توقع رکھنی چاہیے۔