پلاسٹک سے توانائی کا حصول

فضلات کو تیل میں تبدیل کرکے پرینکا بکایا اور پی کے کلین کوڑے کرکٹ یکجا کرنے والے مراکز کو فرسودہ بنانے میں سرگرم ۔
بے شمار بوتلوں ،تھیلوں اور پلاسٹک والی ردّی نے دنیا بھر میں کباڑاور کوڑا کرکَٹ پھینکنے کی جگہوں کو پاٹ رکھا ہے لیکن کیاہو، اگر ان بے کا ر چیزوں کو کیمیائی تبدل کے ذریعہ کار آمد بنا دیا جائے؟ پی کے کلین نامی کمپنی نے اپنے لئے یہی ہدف مقرر کیا ہے کہ پریشان کن ردی سے پلاسٹک نکال کر اسے صاف ستھرے توانائی سے بھر پور تیل میں تبدیل کردیا جائے۔
صنعت کار اور سائنسداں پرینکا بکایا نے ایوارڈ حاصل کرنے والی اس کمپنی کی بنیاد شراکت ۲۰۰۹ میں ڈالی۔ وہ کہتی ہیں ’’ پلاسٹک خراب ترین فضلہ میں سے ہے کیوں کہ اسے گلنے یا تحلیل ہونے میں صدیاں لگ جا سکتی ہیں ۔ اور یہ ایک قابلِ افسوس چیز ہے کہ کوڑا یکجا کرنے کی جگہوں پرہم اسے بلین ٹن کی مقدار میںجمع کررہے ہیں ۔ ‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پرینکا کہتی ہیں ’’پلاسٹک تیل سے تیار کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے اس میں بہت زیادہ توانائی موجود ہوتی ہے ۔پی کے کلین سے ہماری امید یہ ہے کہ وہ پلاسٹک کی ردی کو دوبارہ تیل میں بدل ڈالے گا تاکہ اس کا استعمال توانائی کے طور پر کیا جا سکے اور یہ کم آلودگی پھیلانے والا ہو۔‘‘
پلاسٹک کو تیل میں تبدیل کرنے کا خیال بکایا کے ذہن میں سب سے پہلے بطور طفل تب آیا جب وہ آسٹریلیا کے میلبورن میں مقیم تھیںاور اس کا سبب پرسی کِین نامی ایک فیملی فرینڈ بنے۔پرسی کو یاد کرکے بکایاگویا ہوئیں’’پرسی ایک موجدتھے جنھوں نے شادی نہیں کی اورلا ولد ہی رہے ۔ پرسی کی حیثیت میرے لئے بالکل ایک اور دادا کے جیسی تھی۔ان کا گھر ایک بہت بڑی تجربہ گاہ تھا۔ مجھے یا د ہے کہ میں انھیںماچس سے تیل جلاتے دیکھتی تھی۔ اور یہ تیل وہ تھا جس کے بارے میںپرسی کہتے کہ انھوں نے اسے کباڑ سے بنایا ہے ۔ بطور طفل میں ان سے بہت متاثر تھی۔ بکایا بتاتی ہیں کہ پرسی کا وصال ۹۵ برس کی عمر میں ۲۰۰۷ میں ہو گیا ۔ انھوں نے کبھی اپنی ایجاد شدہ ٹکنالوجی کا تجارتی استعمال نہیں کیا ۔ نہ ہی کبھی بڑے پیمانے پر اس کا تجربہ کیا ۔مگر پرسی کے ذریعہ وافر مقدار میں چھوڑے گئے نوٹ کی بدولت بکایا نے اپنے کام کی شروعات وہاں سے کی جہاں پرسی اسے چھوڑ گئے تھے۔ بکایا ہنستے ہوئے بتاتی ہیں ’’پرسی کے گزر جانے کے بعد نیویارک میںجب مَیں توانائی تجزیہ کار کی حیثیت سے کام کر رہی تھی ،میں تیل کی قیمت میں مسلسل اضافے کا مشاہدہ کر رہی تھی ۔ متبادل توانائی کی صورت حال بھی تقریباََ یہی تھی ۔تب مجھے پرسی کا خیال آیا ۔ انھوں نے شفاف توانائی سے متعلق کئی ٹکنالوجی پر کام کیا تھا جو تجارتی نقطۂ نظر سے یہ مؤثر ترین معلوم ہوتا تھا۔ ٹکنالوجی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے بکایا نے اس خیال کو مسا چیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں توانائی کے گریجویٹ طالبِ علم کی حیثیت سے پڑھائی کرتے ہوئے وسعت دی جسے بعد ازاں پی کے کلین ( کِین کے اعزاز میں دیا گیا نام)بننا تھا۔فی الحال یہ کمپنی یوٹاہ کے سالٹ لیک سٹی سے اپنا کام کررہی ہے اور اس کا ہدف اس سال کے آخر تک پورے امریکہ میں موجودبرباد چیزوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے والوں کو خود مکتفی،خود کار پلاسٹک تیار کرنے والی مشینیںفروخت کرنا ہے۔ پی کے کلین نے ۲۰۱۰ میں ہندوستان میں ایک آزما ئشی پروگرام چلایا تھا ۔بکایا کو امید ہے اس دہائی کے خاتمے تک کمپنی پوری دنیا میں اپنے کام کی توسیع کر دے گی۔ صاف و شفاف نا قابلِ تجدید زمرے میں کمپنی کو شفاف توانائی اعزاز ۲۰۱۱ کے بشمول کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔ مگر بغیر مشترکہ کوششوں کے بکایا کے لئے پی کے کلین کی تعمیر کرنا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی تقلید کرنے والوں کو بکایا اسٹریٹجک تعاون کی سفارش کرتی ہیں ۔ بکایا کہتی ہیں ’’ نئی ٹکنالوجی کی تیاری اور اسے تجارتی شکل دینا ایک بہت ہی مشکل اور دشوار گزار عمل ہے ۔ اس لئے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کے ساتھ ایسے لوگ ہوں جو ہر قدم پر آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ پی کے کلین میں بکایا ہر روز اپنے ہم کار ایسے افراد سے تعاون کرتی ہیں جو کیمیا، انجینئرنگ ، تجارت اور دیگردوسرے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں ’’اگر آپ اس جیسی کوئی چیز بنانا چاہتے ہیں اور اسے تجارتی بنیاد پر کھڑا کرنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو ایسے افراد کی تلاش کرنی ہوگی جو آپ کے اہداف اور خوابوں میں ساجھے دار بن سکیں۔ایسی ٹیم کی تشکیل پر وقت صرف کریں جو ایک ساتھ آ سکے اور ان خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرسکے۔ ‘‘ –

کیمیا کی سرگرمی
پلاسٹک سے تیل میں تبدیلی جدید کیمیا گری معلوم ہوسکتی ہے مگر پی کے کلین کی پیٹنٹ کی ہوئی تکنیک میں کارفرما سائنسی عمل کچھ اور نہیں بلکہ جادو ہے۔ بکایا بتاتی ہیں ’’ پلاسٹک لاکھوں کاربن سالموں سے بنتا ہے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔ ہم ان لمبی زنجیروں کو چھوٹی چھوٹی زنجیروں میں توڑتے ہیں ۔ یہ چھوٹی زنجیریں تیل کی مانند ہوتی ہیں جن سے حقیقت میں پلاسٹک بنتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈیزل بارہ سے بیس کاربن سالموں کے باہم یکجا ہونے کے نتیجے میں بنتا ہے ۔‘‘
پی کے کلین کی صحیح تفصیلات گرچہ صیغۂ راز میں رکھی جاتی ہیں لیکن بکایا کے مطابق ’’حدت اور حملاتی عامل (اضافی کیمیا یا مختلف کیمیائی عناصر پر مشتمل کایا پلٹ کے لئے ذمہ دار شئے )کا امتزاج اس کے اہم اجزاہیں۔ اس عمل کے خاتمے پرجو چیز دستیاب ہوتی ہے وہ ۷۵ فی صد نہایت صاف اور آلودگی سے پاک تیل ہے ۔ تقریباََ ۲۰ فی صد حصہ قدرتی گیس کاہوتا ہے جسے ہم دوبارہ اس نظام میں داخل کرتے ہیں تاکہ اس سے حرارت حاصل ہو سکے ۔ اس کے علاوہ پانچ فی صد حصہ تلچھٹ ہوتا ہے جو خاص طور سے ان بوتلوں پر لگے لیبل سے حاصل ہوتا ہے جنھیں ہم استعمال کرتے ہیں ۔ جب معاملہ اعلیٰ توانائی والے تیل کے حصول کا ہو تو مذکورہ شرح بہت زیادہ بازیابی شرح تسلیم کی جاتی ہے۔ ‘‘ –

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *