بنگلہ دیش میں مکان منہدم ہونے کے سانحہ کے بعد کپڑے کی صنعت میں اصلاحات

حکام کا کہنا ہے کہ اب کام کرنے کے حالات اور کارکنوں کے تحفظ کی نگرانی اور اس کا نفاذ کیا جاتا ہے۔

گزشتہ سال سیوار میں رانا پلازہ کی عمارت کے گرنے کے واقعہ کے بعد جس میں ایک ہزار ایک سو پینتیس افراد ہلاک اور دو ہزار سے زیادہ گارمنٹ کارکن زخمی ہو گئے تھے، عوام کی طرف سے کیے جانے والے احتجاج کے نتیجہ میں بنگلہ دیش کے کپڑے بنانے والے بے دست و پا کارکنوں کے لیے اہم اصلاحات کی گئی ہیں۔حکام اور غیر ملکی دکان داروں پر ڈالے جانے والے غیر معمولی دباو کے باعث اس شعبے میں کام کرنے کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور عمل درآمد کی نگرانی کے گروپوں کا معاہدہ (جو یورپی خریداروں پر مشتمل ہے) اور اتحاد (جو جنوبی امریکہ کے درآمد کنندگان پر مشتمل ہے) قائم ہوا ہے۔حکومت نے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات کے بارے میں گروپ کی رپورٹ کا تجزیہ کرنے کے لیے جائزہ کمیٹی بنائی ہے۔ معاہدہ سولہ سو سے زیادہ فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات کی نگرانی کرتا ہے۔ اتحاد اس سے اضافی سات سو کی نگرانی کرتا ہے۔یہ فیکٹریاں 86 فیصد سے زیادہ ریڈی میڈ گارمنٹس تیار کرتی ہیں جنہیں یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے اور یہ بنگلہ دیش کی 21.5 بلین ڈالر کی برآمدی صنعت کا حصہ ہے۔
“اہم پیش رفت”
عمارت کے گرنے کی ایک سالہ برسی کی مناسبت سے جاری ہونے والی تحقیق میں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بنگلہ دیش (ٹی آئی بی) نے خبر دی ہے کہ اس معاملے کے حصہ داران جیسے کہ حکومت، بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپوٹرز ایسوسی ایشن (بی جی ایم ای اے) اور فیکٹریوں کے مالکان نے اس قسم کے سانحے کے ذمہ دار طریقہ حکومت اور بدعنوانی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں “قابل قدر پیش رفت” کی ہے۔حکومت نے 2006 کے لیبر ایکٹ کو جدید بنایا ہے تاکہ وہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے معاہدے کے مطابق ہو جائے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ حفاظتی قوائد میں کمی کے باعث فیکٹری مالکان کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے۔ یہ بات ٹی آئی بی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر افتخار الزمان نے اس رپورٹ “گورنس چیلنجز ان ریڈی میڈ گارمنٹس سیکٹر: پلیجز اینڈ پراگریس” کے اجرا کے موقع پر اخباری نمائندوں کو بتائی۔افتخار الزمان نے کہا کہ اب کارکنوں کو گروپ کوریج کے تحت انشورنس بھی حاصل ہے۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کارکن فیکٹری کے مالکان کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے تو وہ کارکنوں کے حامی وکلا کو تعینات کرے گی۔علاوہ ازیں، کارکنوں کے تحفظ کے لیے 144 ٹریڈ یونین ادارے قائم کیے گئے ہیں جو کہ ایک سال پہلے نہ سوچے جانے والا تصور تھا۔لیبر اور ملازمت کے وفاقی وزیر مجیب الحق کےمطابق “تمام فریقین کی مدد کے ساتھ، ہم آر ایم جی (ریڈی میڈ گارمنٹس) کے شعبے کی اصلاح کریں گے تاکہ رانا پلازہ کے گرنے جیسا سانحہ دوبارہ نہ پیش آئے”۔
مہر بندفیکٹریوں اور اسٹیبلشمنٹس کے معائنے کے ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر جنرل سید احمد کے مطابق ان کے شعبے نے پچیس اپریل تک سولہ فیکٹریوں اور چھہ عمارات کو کام کرنے کے غیر محفوظ حالات کے باعث سیل کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ “جون تک، ہم دو سو فیکٹری انسپکٹروں کو تعینات کریں گے جو تمام صنعتی یونٹوں میں کام کرنے کے حالات کی نگرانی کریں گے جس میں آر ایم جی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔ ہماری فیکٹریاں کارکنوں اور مالکان دونوں کے لیے محفوظ ترین ہوں گی”۔گارمنٹس ورکرز یونٹی فورم کی صدر مشرفہ مسہو نے کہا کہ رانا پلازہ کے گرنے کے واقعہ نے حکام اور فیکٹریوں کے مالکان کو کام کرنے کے غیر محفوظ حالات کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے۔مسہو کےمطابق “رانا پلازہ کے واقعہ نے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے اور غریب کارکنوں کی لاچارگیوں کے دکھایا ہے۔ اس لیے، حکومت اور فیکٹریوں کے مالکان، یقینی طور پر خریداروں کی طرف سے دباو میں ہیں اور انہوں نے کچھ اصلاحات کی ہیں اور کام کرنے کے بہتر حالات کو فراہم کیا ہے”۔انہوں نے مزید کہا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ جاری اصلاحات گارمنٹس کے شعبے میں سانحوں کو روکنا جاری رکھیں”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *