نئی حکومت کے لئے اقتصادی پالیسی کی ترجیحات

محمدایوب خان

آزادی کے بعد ہندوستان نے قابل لحاظ ترقی کرکے خود کو دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل کرلیا ہے۔ 1991 کی معاشی اصلاحات نے، جن کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹریڈ پالیسی کا احیاء عمل میں آیا، ملک کی معاشی ترقی کو رفتار بخشا۔ ملک کی بڑی آبادی نے معاشی ترقی کے ثمرات کا فائدہ اٹھایا۔ فی الحال جی ڈی پی کے لحاظ سے ہندوستانی معیشت دنیا کی دسویں سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ قوت خرید کے حساب سے امریکہ اور چین کے بعد یہ تیسرے مقام پر ہے۔

حالانکہ ہندوستان نے معاشی محاذ پر خوب ترقی کی ہے، لیکن یہ ترقی شمولی نہیں تھی۔ آبادی کا ایک بڑا طبقہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکا تھا۔ سماج کا غریب اور کمزور طبقہ معاشی ترقی سے اچھوتا رہ گیا تھا اور وہ اب بھی معاشی طور پر وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔ گزشتہ دوسالوں کے دوران ہندوستان اپنی ترقی کی پٹری سے اتر گیا ہے اور اس کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابل روپے کی قیمت بھی کم ہوگئی ہے، حتیٰ کہ اگست 2013 میں اس کی قیمت اب تک سب سے کم 68.85 ہوگئی تھی۔ ذیل میں ہندوستان کی نئی حکومت کے لئے معاشی ترجیحات پر گفتگو کی گئی ہے۔

ترقی کی پٹری پر واپسی: ہندوستانی معیشت قابل قدر شرح کے ساتھ ترقی کر رہی تھی اور مختلف ریٹنگ ایجنسیوں نے اس پر مثبت تبصرے  بھی کئے تھے۔ ہندوستان نے 9.3% کی شرح ترقی حاصل کی اور اس کی معیشت کی شہرت بھی مثبت اور اعلیٰ تھی۔ لیکن ملک کی ترقی بتدریج پٹری سے اتر گئی اور 2012-13 میں 5.0% کی حد تک کم ہوگئی۔ موجودہ صورت حال میں حکومت ہند کے لئے ملک کی معاشی ترقی کو واپس پٹری پہ لانا بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔ مالی سال 2014 کے لئے سنٹرل اسٹیٹیکل آرگنائزیشن کی جانب سے جاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی جی ڈی پی 4.9% رہے گی۔

سال

2007-08

2008-09

2009-10

201-11

2011-12

2012-13

جی ڈی پی شرح ترقی ٪

9.3

6.7

8.6

9.3

6.2

5.0

بحوالہ: اکانمی سروے 13-2012

مالی خسارہ کو روکنا بھی نئی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ اکانمی سروے 13-2012 کے مطابق جنوری 2013 کے اختتام پر مالی خسارہ جی ڈی پی کا  5.1%تھا۔ 14-2013 کے بجٹ کے لئے حکومت نے مالی خسارہ کو کم کرکے جی ڈی پی کا  4.8%یا 5.42 لاکھ کروڑ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ تاہم وزیر مالیات کے ذریعہ پیش کردہ وفاقی بجٹ (13 اپریل تا 14 جنوری) میں یہ خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا  4.6%یعنی 5.24 لاکھ کروڑ روپے تک آگیا تھا۔

حکومت کو زرمبادلہ کی محفوظات میں اضافہ کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے اور ساتھ ہی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے تعمیری اقدام کرنا چاہئے۔ ہندوستانی بازار کا موڈ بڑے پیمانے پر ملک میں فارین انسٹی ٹیوشنل انویسٹمنٹس کے بہاؤ پر منحصر کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں سینسیکس پر فارین انسٹی ٹیوشنل انویسٹمنٹس (ایف آئی آئی) کے بہاؤ کے اثرات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔

سال

خالص ایف آئی آئی بہاؤ (کروڑ روپے)

انڈیکس

(سینسیکس)

2007

+70,000

21206

2008

-52,000

7697

2009

+82,000

18000

2010

+1,30,000

20000

2011

-2,700

15560

2012

+1,10,000

18000

روزگار کے مواقع: ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ہندوستانی آبادی کا 70 فیصد حصہ 35 کی عمر سے کم ہے، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ملک کے پاس نوجوان توانائی کا ایک بڑا سرمایہ موجود ہے۔ اتنے بڑے انسانی وسائل کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی نئی حکومت ہند کے ایجنڈوں میں شامل ہونا چاہئے۔ 2011 میں شائع شدہ CRISIL رپورٹ کے مطابق ملک کے باروزگار افراد (کل آبادی کا 39 فیصد) کی موجودہ تعداد برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان کو 2015 تک 55 ملین اضافی نوکریوں کی ضرورت پڑے گی۔ یہ تعداد 2005 سے 2010 کے دوران نوکریوں میں ہوئے اضافہ کا دوگنا ہے۔ حکومت کو یقینی بانا چاہئے کہ ملک کی کام کرنے لائق آبادی کو جاب کے مواقع فراہم کرانے کے لئے مناسب پالیسیاں وضع کی جائیں۔ روزگار کے یہ نئے مواقع ہندوستانی معیشت کی شمولی ترقی میں مدد کریں گے۔

مزید یہ کہ آج تعلیم کے تئیں نوجوانوں کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ آج کل دیہی علاقوں میں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رجحان کے سبب توقع کی جارہی ہے کہ مستقبل میں ملک میں تربیت یافتہ اور ہنرمند ورک فورس دستیاب ہو گا۔ اس اضافی ورک فورس کو روزگار فراہم کرنا حکومت ہند کے لئے ایک اور چیلنج ہے۔

مالی شمولیت (فائنانشیل انکلوزن): “مالی شمولیت کی تعریف حاشیہ رسیدہ گروپوں مثلاً کمزور طبقات اور کم آمدنی والے گروپوں تک مناسب قیمت پر مالی خدمات کی رسائی یقینی بنانے کا عمل کے طور پی کی جا سکتی ہے” (کمیٹی برائے مالی شمولیت، چیئر مین: ڈاکٹر سی رنگ راجن)۔ ہمارے سماج میں ایک طبقہ ایسا ہے جو آج بھی بینکنگ اور مالی خدمات سے محروم ہے، یا اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ مالی شمولیت کا مقصد اس طبقہ کے لئے ان خدمات تک رسائی ممکن اور آسان بنانا ہے۔ ہندوستان میں صرف 50 فیصد افراد کے پاس بچت بینک کھاتہ موجود ہے، جوکہ اس جیسی ترقی پذیر معیشت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ 1.2 بلین کی آبادی والے ملک میں بچت بینک کھاتوں کی تعداد صرف 684 ملین ہے۔ CRISIL کے ذریعہ کئے گئے ایک مطالعہ کے مطابق ہر 7 میں صرف 1 ہندوستانی کو کریڈٹ تک رسائی حاصل ہے۔ مندرجہ ذیل خاکے میں CRISIL کے ذریعہ کئے گئے مطالعہ کے نتائج پیش کئے گئے ہیں۔

علاقہ

برانچ تک رسائی

کریڈٹ تک رسائی

جمع تک رسائی

2009

2011

2009

2011

2009

2011

جنوبی علاقہ

49.6

54.5

68.8

77.1

55.1

66

مغربی علاقہ

39.4

43.7

26.9

28.2

40.4

47.7

شمالی علاقہ

36.9

40.9

26.2

27.4

40.7

49.1

مشرقی علاقہ

27.4

29.9

20.1

23.7

26.5

34

شمال مشرقی علاقہ

27.7

29.9

17.9

21.6

27.7

36.5

انڈیا

37.3

41

33.5

36.8

39.7

48.3

اس مالی استثنائیت کے نتائج بڑے خطرناک ہیں۔ سماج کے کم آمدنی والے طبقات بینکنگ خدمات کی عدم موجودگی میں بھی کریڈٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ پرائیویٹ سود خوروں کے پاس جاتے ہیں جو ان پر بہت زیادہ شرح سود عائد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ درمیانے اور چھوٹے تاجروں کو بھی اپنی تجارت آگے بڑھانے کے لئے قرض نہیں مل پاتا ہے، جس کی وجہ سے خود روزگاری کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ ایسے کئی مطالعے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غربت کے بڑے اسباب میں سے ایک قرض کی عدم دستیابی ہے۔ اگر دیہی ہندوستان مالی شمولیت کے دائرہ میں آجائے تو بچتوں کو ملک کی معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر ہندوستان کو ایسی حقیقی اقتصادی (شمولی) ترقی حاصل کرنا ہے جہاں سبھی شہریوں کو یکساں فائدہ حاصل ہو تو حکومت ہند کی اقتصادی پالیسی ترجیحات میں اقتصادی ترقی کو پٹری پرواپس لانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور سماج کے کمزور طبقہ کو بینکنگ خدمات کے دائرہ میں لانے کے لئے مستحکم اقدام شامل ہونے چاہئیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *