
ممبئی میں فلیٹ کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے حکومت بھی ذمہ دار ہے
سہیل کھنڈوانی ’’کھنڈوانی گروپ‘‘ کے سر براہ ہیں جس کا شمار ممبئی کے ممتاز تجارتی گھرانوں میں ہوتا ہے۔2ملین سے زائد اسکوائر فٹ پر مشتمل تعمیراتی کمپنی مختلف پروجیکٹوں میں مشغول نظر آتی ہے ،ممبئی کے اندر بہترین انفراسٹرکچرقائم کرنے میں بھی انہوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔سہیل کنسٹرکشن پرائیویٹ لمیٹیڈاور کھنڈوانی ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈکے ڈائرکٹر نے دانش ریاض سے ریئل اسٹیٹ کے مسائل پر گفتگو کی اور حکومت کی طرف سے در پیش مسائل کا تذکرہ کیا۔
کھنڈوانی گروپ کے سربراہ سہیل یعقوب کھنڈوانی گوکہ ہزارہا لوگوں کو صاحب مکان بناکر انہیں سر چھپانے کے لئے چھت فراہم کر چکے ہوں لیکن اب بھی ان کی خواہش ہے کہ اگر حکومت مزید زمین فراہم کرے تو ایسے لوگ بھی ان سے استفادہ کر سکتے ہیں جو ممبئی میں گھر کی تعمیر کوکسی پاگل کا بڑ بولا پن سمجھتے ہیں۔سہیل گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’1962میں میرے والد امین کھنڈوانی اور چچا یعقوب کھنڈوانی نے تھوڑی سی زمین لے کر Real State Businessمیں قدم رکھا تھا لیکن 1987آتے آتے 2ملین اسکوائر فٹ پر ہمارا کاروبار پھیل گیا۔مغربی ممبئی،جو گیشوری،کرلا،کالینہ جیسے علاقوں میں ہم نے تعمیراتی کام شروع کیا اور پھر پورے علاقے کو بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ ڈیولپ کرنے کی کوشش کی ۔الحمد للہ جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری کمپنی Real Stateمیں علحدہ مقام رکھتی ہے۔15نومبر 1965کو میمن گھرانہ میں آنکھیں کھولنے والے سہیل نہ صرف Khandwani Export Pvt Ltd.اور Suhail construction Pvt Ltdکے ڈائرکٹر ہیں بلکہ سماجی تنظیموں کی سر براہی کے ساتھ ہی پیر مخدوم مہائمی ٹرسٹ اور حاجی علی درگاہ ٹرسٹ کیذمہ دار بھی ہیں۔سماجی طور پراپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے انہوں نے ایک درجن سے زائد فلاحی اداروں میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے ۔سہیل بھلے ہی مہاراشٹر چیمبر آف ہائوسنگ انڈسٹری کے ممبر ہوں لیکن وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا نہیں بھولتے۔بین الاقوامی معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’حکومتیں Real stateکی تجارت میں آرہے اتار چڑھائو کی راست ذمہ دار ہیں۔ہر علاقے کی قیمت علحدہ ہے Rateکے لئے 9ہزار سے 14ہزار تک Area of operation ہے لیکن ہر جگہ کے لئے حکومت نے کوئی خاص پیمانہ نہیں متعین کر رکھا ہے ۔اس وقت ممبئی میں جگہ کی کمی بڑھتی جا رہی ہے (BMC,TMC ,MHADA)اور ریلوے کے پاس جگہ کی افراط ہے اسی طرح بعض علاقے حکومت کی تحویل میں ہیں لیکن حکومت انہیں بلڈروں کو ریلیز نہیں کر رہی ہے حالانکہ ان زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات ہیں ،لوگوں نے قبضہ کئے رکھا ہے جس کی وجہ سے شہری انفرااسٹرکچر کافی متاثر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔قیمتوں میں تفاوت کے لئے بھی حکومت اسلئے ذمہ دار ہے کہ Rate Indexمیںتمام کی تمام چیزیں بلڈروں پر نافذ ہوتی ہیں۔اسٹامپ ڈیوٹی،سروس ٹیکس،انکم ٹیکس سے لے کر FSIکی تمام کارروائی حکومت کرتی ہے ایسے میں بلڈر گھر سے تو کوئی چیز نہیں دینے والا ، لہذا اس کا راست اثر خریدنے والوں پر پڑتا ہے اور قیمتیں آسمان چھونے لگتی ہیں۔اگر Rate Indexمیں حکومت اپنی پالیسی تبدیل کرے تو یقینا اس کا فائدہ عوام کو ہوگا اور قیمتیں گھٹ جائیں گی۔اسی طرح Standard Rateمتعین کرنا بھی ضروری ہے۔اگر پالیسی Frandly userہو تو خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو فائدہ ہوگا ورنہ دونوں نقصان برداشت کریں گے۔ law of landاورCRZ Lawکو بلڈروں کے لئے ضرررساں قرار دیتے ہوئے سہیل کہتے ہیں’’اس قانون سے زمین کی قلت پیدا ہو گئی ہے ،اگر اسے ہٹا دیا جائے تو قیمت میں 40-45فیصد کمی آئے گی‘‘،عالمی کساد بازاری اور مستقبل کی قیمت پر گفتگو کرتے ہوئے سہیل کہتے ہیں’’عالمی کساد بازاری کے وقت اس تجارت میں بھی 5سے 6 ماہ تک مندی چھائی ہوئی تھی لیکن اب سب کچھ معمول پر آچکا ہے ۔ 2010ریئل اسٹیٹ کی تجارت میں بلندی پر جانے کا سا ل تھا قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا چونکہ اس پر کنٹرول نہیں کیا گیا لہذاقیمت 25سے 30 فیصد بڑھیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ3 201میں قیمتوںمیں 25سے 30فیصد کی کمی بھی واقع ہوئی ہے۔میں یہاں یہ بھی بتادوں کہ 1987میںجب ہمارا کاروبار بلندیوں پر تھا اس وقت قیمتیں کچھ اور تھیں ہم نے 700روپئے اسکوائر فٹ بھی بیچا ہے ،یہ سب صرف Indexکی وجہ سے ہے۔لہذا اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔Maharashtra Chamber of Housing Industryحکومت کے ساتھ میٹنگیں منعقد کرتی رہتی ہے ،حکومت کو مشورے بھی دیتی ہے لیکن حکومت کا رویہ کیا ہوتا ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا،اس وقت حکومت کو سب سے زیادہ فائدہ بلڈروں سے ہو رہا ہے بلکہ 80فیصد ریونیو یہیں سے آرہا ہے لیکن اس کے باوجود اس تجارت کو انڈسٹری کا درجہ حاصل نہیں ہے۔بیرونی ممالک مقیم اگر کسی شخص کو فلیٹ خریدنا ہے تو اس کے لئے بھی کوئی قانون نہیں ہے اگر حکومت رئیل اسٹیٹ میں ایکسپورٹ قانون بنائے تو اس کا بھی فائدہ اسے ہی ہوگا۔کیونکہ بیرونی سرمایہ کاروں سے وہ ٹیکس وصول کرے گی اور اس طرح ہندوستان کو بھی فائدہ پہنچے گا”۔
تین بیٹی اور ایک بیٹا کی تربیت کرنے والے سہیل ذاتی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارا گھرانہ پڑھا لکھا گھرانہ ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی سرکاری نوکری کرنا پسند نہیں کیا،تجارت میں ہی ہماری اورگھر والوں کی دلچسپی رہی اور اسے ہی ہم پرموٹ کرنا چاہتے ہیں۔اپنے بچوں کو مکمل آزادی دینے والے سہیل ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جن کے پاس Clearityنہیں ہے ۔صاف و شفاف معاملہ و صاف و شفاف نظریہ کے حاملین کو پسند کرنے والے سہیل کے لئے ہر دن ایک نیا دن اور سیکھنے کا دن ہوتا ہے ۔روزانہ کے واقعات انہیں مہمیز دیتے ہیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتے ہیں ۔کسی خاص دن کو یاد کرنے کے بجائے وہ کہتے ہیں ’’روزانہ کچھ نہ کچھ ایسی چیزیں پیش آتی ہیں جو ذہن کو جھنجھوڑتی ہیں ،اور پھر دل و دماغ پہ چھا جاتی ہیں لہذا کوئی خاص دن مجھے یاد نہیں رہتا۔‘‘Networking اور مطالعہ پر توجہ دینے والے سہیل کے مطابق’’انسان کا قابل اعتبار اور بھروسہ مند ہونا بہت ضروری ہے جب لوگوں کا آپ پر اعتماد و اعتبار ہو تو آپ اسے کس حد تک اور کس طرح نبھاتے ہیں یہ انتہائی ضروری ہے‘‘۔