انشورنس میں دھوکہ دہی سے زبردست سماجی اور معاشی نقصان ہوتا ہے
انشورنس میں دھوکہ دہی کے واقعات نئے واقعات نہیں ہیں،تاہم جو بات نئی ہے، وہ ایک ایسی خطرناک شرح ہے جس میں پچھلے چند برسوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دھوکہ دہی کے یہ واقعات ری انشورنس کے ذریعہ کلائنٹس کے رجسڑیشن سے لے کر مختلف کلیمس کے زمروں کے تحت آتے ہیںجسے بسا اوقات انشورڈ سرمایہ کو عالمی نقصان پہنچا کر تیار کئے گئے ہیں۔ لب لباب یہ کہ دھوکہ دہی کے ان واقعات سے انشورنس کمپنیوں کو کسی دوسری چیز کے مقابلہ میں زیادہ خسارہ ہوتا ہے۔
انڈیا فورنسک نامی پنے کی ایک کمپنی نے ایک ریسرچ کیا ہے جس کے مطابق، تمام پلئیروں کے ذریعہ کئے گئے کل خسارہ کو اکھٹا کردیا جائے تو 2011 کے دوران یہ خسارہ 30,401 کروڑ کا ہوا ہے جو کہ انڈسٹری سائز کا تقریباً 9 فیصد ہے۔ آئی آر ڈی اے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ 2011 میں انڈسٹری کے ذریعہ حاصل شدہ پریمیم کا کل مقدار 3.5 لاکھ کروڑ روپئے رہا ہے اور اس کا زبردست خمیازہ لائف انشورنس سیکٹر کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ پچھلے 5 برسوں میں اس تناسب میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ لائف انشورنس میں دوگنا اور عام انشورنس میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 5 سال پہلے لائف انشورنس کمپنیوں کا کل خسارہ 13,148 کروڑ روپئے تھا جبکہ عام انشورنس میں خسارہ 2,140 کروڑ روپئے کا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انشورنس میں دھوکہ دہی کا معاملہ بڑھتا جارہا ہے ۔ سروے تحقیقات نے دھوکہ دہی کے 5 اہم واقعات پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ عام انشورنس میں دھوکہ دہی کے اکثر واقعات صحت کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ 25 فیصد سے زائد صحت انشورنس کی لاگت کا تعلق کلیمس سے ہے۔ مجموعی اعتبار سے انشورنس صنعت عام بدعنوانیوں کی چپیٹ میں ہے جس میں کمیشن میں تخفیف، فرضی دستاویزات اور پارٹیوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ وغیرہ شامل ہیں۔ ایک انشورنس کمپنی کو ہونے والے ہر ایک دھوکہ سے 25,000 سے لے کر 75,000 کا نقصان ہوتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دھوکہ سے انشورنس کمپنیوں پر جو اضافی خرچ ڈال دیا جاتا ہے، اسے عام طور پر پالیسی ہولڈروں کو دے دیا جاتا ہے۔حقیقی اعدادوشمار خواہ کچھ بھی ہوں ، لیکن اس سیکٹر میں سخت کمپٹیشن کی وجہ سے پریمیم کے لئے ہمیشہ دباؤ بنا رہتا ہے۔ تاہم ان انکشاف کرنے والی ڈیٹا کے باوجود بھی آئی آر ڈی اے کم ازکم ابھی بھی اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔
ایک طرف تو جب کہ ملک کی 40 فیصد آبادی خط افلاس کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور جہاں سڑک حادثات سے ملک کو 3 فیصد کے گھریلو مجموعی پیداوار کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری طرف اس طرح کے دھوکہ دہی کے واقعات سے نہ صرف یہ کہ معاشی اور سماجی خسارہ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ حقیقی کلیمس سے بھی محروم کر دئیے جاتے ہیں۔آئی آر ڈی اے کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ہدایات تیار کرے جس کی رو سے ڈاکومنٹیشن میں مزید شفافیت اور سادگی آئے۔ علاوہ ازیں، انشورنس کمپنیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے سرگرم طور پر بدعنوانی مخالف اسٹریٹیجزاور تکنیک اختیار کریں۔اسی کے ساتھ حکومت کو چاہئے کہ وہ نظام کو مزید الیکٹرانک اور خودکار بنائے جس میں انسانی مداخلت کم ہو اور جو طویل مدت میں اس پراسیس کو تیزرفتار بنادے۔

ہندوستانی معیشت کا موجودہ منظر نامہ: ایک تفصیلی جائزہ
ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک) ہندوستان کی معیشت، جو کہ ایک ترقی پذیر مخلوط معیشت ہے، عالمی سطح پر اپنی تیزی سے ترقی کی صلاحیت اور متنوع معاشی ڈھانچے کی وجہ سے نمایاں ہے۔دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے اگر ہم برائے نام جی ڈی پی (Nominal GDP) کی...