Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

بڑے کرنسی نوٹ کرپشن کو بڑھا رہے ہیں

by | May 24, 2014

بدعنوانی اور جعلی نوٹوں کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نوٹوں کو چھوٹا کیا جائے
ہمارےملک کا تقریبا ہرسماجی ومعاشی نقشہ ایک کلاسیکل تضاد پیش کرتاہے ۔ایک طرف توجہاں ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی روزانہ دوامریکی ڈالر کمانے کی جدوجہد کر تی ہے۔ وہیں آج ہمارے پاس 500 روپے کے3500 ملین نوٹ ہیں اور100 روپے کی کرنسی کے 1000ملین نوٹ معاشی مارکیٹ میں موجود ہیں .آربی آئی کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ مارچ 2010 میںجوٹوٹل کرنسی مارکیٹ میں تھی اس میں 500 اور 1000 کے نوٹ76.5 فیصدتھے یعنی ایک سال کے اندر اس میں5 69. فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک انوکھی بات ہے۔بات صرف بڑے نوٹوںکی نہیںجومارکیٹ میں چل رہے ہیںبلکہ اس سے زیاد ہ ان سے معاملات کی ہے۔بلاشبہ یہ نوٹ بڑی قیمت کے کیش کے تبادلہ میںزیادہ تراستعمال کیے جاتے ہیں۔ لاکھوں غریب ہندوستانی جو مشکل سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتے ہیںان کو کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ہائی کرنسی کے نوٹ مثلا500 کے یا1000 کے نوٹ کرپشن بڑھانے کا ایک اہم سبب ہیں. کالے دھن کے بڑے حصہ کے معاملات اورلانڈرنگ ان ہائی کرنسی نوٹوںکے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔ یهی نوٹ متوازی اکانومی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ کیونکہ وہ نسبتاً کم قیمت کے حا مل ہوتے ہیں۔سادہ لفظوںمیں اگر کہا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ 10کروڑروپوںکو100 روپے اور50 روپے کے نوٹوں میں لیاجائے تواس کا خرچ بڑھ جائے گا بمقابل اس کے کہ اگران کو 1000 یا500 کے نوٹوں میں لیاجائے ۔مزیدبرآںچونکہ زیادہ اونچے درجہ کے معاملات پلاسٹک منی یعنی کریڈٹ کارڈ اورڈیبٹ کارڈ اوروائرٹرانسفر سے چلتے ہیں اس لیے ہائی کرنسی کا استعمال زیادہ تر نقدمعاملات تک ہی محدودہے جوعموما ٹیکسوں سے بچنے اورقانونی طریقوںکو بائی پاس کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہرچیز یعنی خدمات پر پریمیم کی ادائیگی سے لےکربے نامی پراپرٹی خریدنے اورناجائز طریقوں سے کیش ٹرانسفرکرنے کے لیے اس میں وہ رقم استعمال کی جاتی ہے جو بڑے نوٹوں پر مشتمل ہو۔ یہ توسوچنابھی بے وقوفی ہوگی کہ کالے دھن کو چھوٹے نوٹوں میں رکھاجائے ۔ مثال کے طورپر چھوٹے نوٹوں کی صورت میں منی لانڈرریاحوالہ سے بھیجنے والا 50 کلوگرام کے بیگ میں ایک ملین پاؤنڈ اٹھا کر جائے گا جبکہ اگرپانچ سوکے یوروکے نوٹ استعمال کرے گاتو اس رقم کا وزن دوکلوگرام سے زیادہ نہ ہو گا۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ہائی کرنسی نوٹ نکالنے سے کالے دھن پر روک لگ سکتی ہے۔ترقی یافتہ قومیں جیسے امریکہ اورانگلینڈ جوکبھی 10000 تک کے پرنٹ کرنسی نوٹوں کو استعمال کرتے تھے اب سب سے بڑانوٹ صرف 100 کارکھتے ہیں۔آخری بارامریکہ میں 1945میں یہ بڑے نوٹ چھاپے گئے تھے ۔جبکہ برطانیہ میں موجودہ وقت میں مارکیٹ میں سب سے بڑاجونوٹ چل رہاہے وہ 50 پونڈکا ہے۔برطانیہ نے یہ قدم اس لیے اٹھایاکہ نقلی کرنسی اوردوسرے ناجائز کاموںجیسے منشیات اورمنی لانڈرنگ پرپابندی لگائی جاسکے! تاہم لگتاہے کہ تمام ظاہریا خفیہ اسباب کے باعث ہمارے پالیسی ساز اس سے قائل نہیں ہوسکے۔حقیقت یہ ہے کہ انڈیاالٹی سمت میں رکارڈ بنارہاہے۔ گزشتہ دہائی میں500روپے کے نوٹ چھاپنے کو سترہ گناکردیاگیاہے ۔دیہی علاقوںمیں 500 کانوٹ بہت کم ملتاہے اور1000 کانوٹ توملتاہی نہیں۔ یہاں تک کہ آج بھی یہ علاقے چھوٹے نوٹوںمیں ہی کاروبارکرتے ہیں بلکہ سکوں میں کرتے ہیں جوحادثاتی طورپر کم ملتے ہیں۔بڑے نوٹ بڑی رقموں کوکھینچتے ہیںاوران کے ذریعہ ہی معیشت میں نقلی کرنسی چلائی جاتی ہے۔ مرکزی وزارت مال کے تحت 2010-11میں مرتب کی گئی فائنانس انٹیلی جنس یونٹ ( FIU ) کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیاکے فائنانشیل چینلوںنے رکارڈ کیاہے کہ جعلی کرنسی کے معاملوںمیں 400 فیصداضافہ ہواہے۔ ایف آئی یونے مزیدبتایاکہ ان جعلی کرنسیوںمیں زیادہ تر500 کے نوٹ تھے جوکل رقم کا 60.74 فیصد تھے۔ 1000 روپے کے جعلی نوٹ بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جون 2011 میںڈائرکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے جعلی نوٹوں کو پکڑاجو1.54 کروڑکی مالیت کے تھے اور500 کے نوٹوں پرمشتمل تھے۔ رااورسی بی آئی کے قرطاس ابیض کے مطابق 1000 روپے کے چارنوٹوںمیں سے ایک نوٹ جعلی ہے۔ بڑی کرنسی منی لانڈرنگ کو آسان بنادیتی ہے کیونکہ پیدا کردہ کیش ملک سے باہر نکل جاتاہے اورFIIکے ذریعہ مختلف ٹیکس کے ٹھکانوںسے واپس لایاجاتاہے ۔ایک ایسا ملک جہاں غریبوںکی کثرت ہے اورچندہی مالدارہیں ، کے لیے یہ مناسب نہیںکہ وہ بڑے نوٹ رکھے ۔ نہ صرف یہ ہمیں سارے بڑے نوٹ واپس لے لینے چاہئیں بلکہ اعلی سطی تجارتی معاملات کے لیے الیکٹرانک ذرائع کو ترقی دینی چاہئے ۔ جب تک ہم ایسا نہیں کرتے تب تک بدعنوانی اور جعل سازی پر قابو نہیں پا یا جا سکتا ۔ جعل سازی اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ہماری حکومت ہوش کے ناخن لے اور جتنی جلد ممکن ہو بڑے نوٹوں پر پابندی عائد کرے ،جیسا کہ یوروپی ممالک پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے کہ کس طرح انهوں نے نوٹوں کو چھوٹا کر کے اپنے نقصان کو بڑی حد تک گھٹا لیا ہے۔جعلی نوٹوں کا مسئلہ ایک بہت بڑا اور بہت سنگین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا بھی حل صرف ایک ہے وہ یہ کہ نوٹوں کو چھوٹا کر دیا جائے تاکہ جو لوگ جعلی نوٹوں کا کاروبار کرتے ہیں ،انهیں اس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔

Recent Posts

ہندوستانی معیشت کا موجودہ منظر نامہ: ایک تفصیلی جائزہ

ہندوستانی معیشت کا موجودہ منظر نامہ: ایک تفصیلی جائزہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک) ہندوستان کی معیشت، جو کہ ایک ترقی پذیر مخلوط معیشت ہے، عالمی سطح پر اپنی تیزی سے ترقی کی صلاحیت اور متنوع معاشی ڈھانچے کی وجہ سے نمایاں ہے۔دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے اگر ہم برائے نام جی ڈی پی (Nominal GDP) کی...

​معیشت فاؤنڈیشن کی جانب سے علماء و ائمہ کرام کے لئے آنٹرپرینیورشپ ورکشاپ کا انعقاد

​معیشت فاؤنڈیشن کی جانب سے علماء و ائمہ کرام کے لئے آنٹرپرینیورشپ ورکشاپ کا انعقاد

مغربی بنگال کے شہر مالدہ میں منعقدہ ٹریننگ پروگرام میں کئی ضلعوں کے نمائندوں کی شرکت​ مالدہ: معاشی و تجارتی رہنمائی کے لئے قائم ادارہ "معیشت " نے اپنے فاؤنڈیشن کی جانب سے تربیہ کیمبرج انٹرنیشنل اسکول کے اشتراک سے یک روزہ آنٹرپرینیورشپ اورینٹیشن ورکشاپ کا شہرمالدہ...

شیئرمیں جعلی تیزی پیدا کرنے والوں کے خلاف سیبی کا کریک ڈاؤن

شیئرمیں جعلی تیزی پیدا کرنے والوں کے خلاف سیبی کا کریک ڈاؤن

ممبئی : شیئر بازار میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے ’پمپ اینڈ ڈمپ‘ کہتےہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی شیئر میں پمپ کے ذریعے ہوا بھرکر اسے خوب بڑھا کیا جائے اور جب یہ بڑا ہوجائے تو ساری ہوا نکال کر اسے ڈمپ یعنی پھینک دیا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے...

فروری میں ۱؍لاکھ ۴۹؍ہزار کروڑ کا جی ایس ٹی کلیکشن ، سالانہ بنیاد پر ۱۲؍فیصد اضافہ ہوا لیکن جنوری کے مقابلے میں کم

فروری میں ۱؍لاکھ ۴۹؍ہزار کروڑ کا جی ایس ٹی کلیکشن ، سالانہ بنیاد پر ۱۲؍فیصد اضافہ ہوا لیکن جنوری کے مقابلے میں کم

حکومت نے فروری ۲۰۲۳ء میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے ایک لاکھ ۴۹؍ہزار کروڑ روپے اکٹھے کیے ہیں۔یہ رقم سالانہ بنیاد پر تقریباً ۱۲؍فیصدزیادہ ہے ۔ فروری ۲۰۲۲ء میں جی ایس ٹی کی وصولی ایک لاکھ ۳۳؍ہزار کروڑ روپے تھی  جبکہ جنوری ۲۰۲۳ء میں یہ ایک لاکھ ۵۵؍ہزار کروڑ روپے...