ہندوستان جیسے متنوع ملک میں جہاں 18 زبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور جہاں کل ملاکر 1662 بولیاں رائج ہیں، قومی یا علاقائی ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعہ ہر کمیونیٹی کو وسیع پیمانہ پر نمائندگی نہیں مل سکتی ، نہ ہی قومی سطح کے کسی پروگرام کے ذریعہ ایسا کیا جاسکتا ہے۔ ہر کمییونیٹی یہ چاہتی ہے کہ اس کی اپنی خاص آواز ہوجو اسی کے ذریعہ اٹھائی جائے ۔ اسی لےے کمییونیٹی لیڈران خاص کرحاشیہ پر چلی گئی کمیونیٹوں کے لیڈران اس پر زور ڈال رہے ہیں کہ ان کے فرقہ کا اپنا ریڈیو ہو جو اس کو نظرانداز کیے جانے کوچیلنج کرسکتا ہو۔ بطور خاص قبائلیوں، اقلیتوں اور محروم طبقوں کے لےے اس کی ضرورت اشد ہے۔
ریڈیو خدمات میں سرکار کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لےے سپریم کورٹ آف انڈیا نے فروری 1995 یہ فیصلہ کیا تھاکہ ’فضائی لہریں پبلک پراپرٹی ہیں‘ لہذا عوامی ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا جواز ہے ، تاہم اس کے لےے کچھ شرائط کوپورا کرنا ہوگا۔ مگر اس وقت این جی او اور دوسری سول تنظیموں کو کمیونیٹی ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے بالآخر 16 نومبر 2006 کو اس پابندی کو اٹھالیا اور کمیونیٹی ریڈیو قائم کرنے کی اجازت مل گئی ۔ لیکن ابھی بھی کمیونیٹی ریڈیو اسٹیشن (CRS) کے قیام میں کئی پہلووںسے پابندیاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر خبروںکی، تازہ ترین صورت حال اور سیاسی تبصرے وغیرہ کی اجازت نہیں ہے۔ مزید برآں کچھ قاعدے ایسے ہیں جن پر سی آر ایس کو عمل کرنا ضروری ہے ۔ جس میں یہ ہے کہ مذہبی نزاکتوں کا خیال رکھنا، ذات پات اور دوسری لسانی یا فرقہ وارانہ باریکیوں کا لحاظ کرنا ضروری ہے جس سے کہ بڑی حد تک ان چیزوں کا غلط استعمال نہیں ہو سکے گا۔ نیز اشتہارات کاٹائم گھٹاکر زیادہ سے زیادہ 5 منٹ کردیا گیا اور یوں نجی طور پر فضائی وقت کے کسی بھی غلط استعمال کو روک دیا گیا ہے ۔ البتہ ابھی بھی کئی شدیدقسم کی پابندیاں موجود ہیں۔ جن کے اندر رہ کر کسی ادارہ کو کئی وزارتوں سے کلیرنس لینے کی رکاوٹیں دور کرنی ہوں گی ۔ان تحدیدات کے باوجود متعدد سی آر ایس ایسی ہیں جو کمیونیٹیوں کی ضرورت اور امنگوں کو کسی حد تک پورا کررہی ہیں۔ خاص کر دیہی علاقوں اور قبائلی بیلٹ میں ، جس نے ان کے لےے ہم آہنگ کرنے والے پروگرام اور ڈراونگ لائن ترتیب دی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سی آر ایس ایک محرک کا رول ادا کرسکتا ہے اور سماجی ، لسانی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نقیب بن سکتا ہے ۔ منگلورکا سارنگ 107.8 کمیونیٹی ریڈیواسٹیشن اس کی ایک مثال ہے۔ مقامی لوگ مثال کے طورپر کسان، مچھوارے ، طلبہ ،ورکرز اور ہر کوئی لوکل پروگراموں میں حصہ لے سکتے ہیں جو ان کو نہ صرف میل جول کے ساتھ رہنا سکھاتے ہیں بلکہ صحت ، سڑک پر حفاظت ، پانی کی حفاظت وغیرہ کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا مسئلہ بھی ایک اہم میدان ہے جس میں سی آر ایس نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے ۔ گجرات کے کچھ میں ایک سی آر ایس نے ایسے پروگرام دکھائے جن میں بتایا گیا کہ زنانہ جنین کو مار ڈالنا، جہیز کا مطالبہ اور خواتین کونہ پڑھانا سماج کے لےے نہایت خطرناک ہیں۔ اس ریڈیو کو کچھ ویمن ڈیولپمنٹ کارپوریشن چلاتا ہے اور یہ کچھ کی عورتوں میںبہت مقبول ہے کیونکہ اس کے جرات مندانہ پروگرام دیہاتی عورتوں کے خیالات کے اظہار کا موقع دیتے اور ان میں ایک تبدیلی لا رہے ہیں۔ جھارکھنڈ کے چلو ہو گاؤمی پروگرام میں جو دیہاتی لوگوں کے ذریعہ چلایا جاتا ہے ، عورتوں کے خلاف تشدد، جہیز کا مسئلہ اور دوسری سماجی برائیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری: مستقبل کے امکانات
ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک ) ہندوستان کی آٹو موبائل انڈسٹری دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے مستقبل کے امکانات بہت روشن ہیں۔ 2025 سے آگے، یہ صنعت تکنیکی ترقی، پالیسی اصلاحات، ماحولیاتی تقاضوں اور صارفین کے بدلتے...