پراپرٹی پر لون لینا اور اکاؤنٹ کا غلط بیورا دینا یہ ہمارے ملک میں ایک قسم کا بڑا گھوٹالہ ثابت ہو رہا ہے۔ بینک کے افسران اور کارپوریٹ کے لوگوں کے درمیان تال میل کے ذریعہ یہ سب کام انجام دیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی پبلک سنٹر بینکوں میں لون ایک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ چند برس قبل بینک آف انڈیا، پنجاب نیشنل بینک اور ایل آئی سی ہاؤسنگ فائنانس پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ممبئی کی ایک نجی آرگنائزیشن نے جس کا نام منی میٹرس تھا، بینک کے اہلکاروں کو اپنا کام نکالنے کے لئے رشوت دی تھی۔ بعد میں سی بی آئی نے اس معاملے کی تحقیق کی تھی اور پانچ لوگوں کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سی بی آئی نے ملزمین کی پکڑ دھکڑ کے لئے پانچ مختلف شہروں میں چھاپہ ماری کی تھی۔ سی بی آئی کو کچھ دستاویزات ہاتھ لگے تھے اور کچھ ٹیپ برآمد ہوئے تھے جس سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ منی میٹرس کے سی ایم ڈی راجیش شرما نے بینک آف انڈیا کے آر این تایل کو پچیس لاکھ روپیہ بطور رشوت دئیے تھے۔ یہ رشوت بینک کے اہلکاروں کو اس لئے دیا گیا تھا تاکہ کارپوریٹ کمپنی کے لئے 500 کروڑ کارپوریٹ لون لیا جا سکے۔ بعد میں آر بی آئی نے جنوری 2011 میں گڑگاؤں کے اندر سٹی بینک کے معاملے کا انکشاف کیا۔ سٹی بینک کے شیو راج پوری نے اپنے کسٹمر کو دھوکہ دیا اور فرضی اکاؤنٹ پر 300 کروڑ روپیہ جمع کروایا اور اس فرضی اسکیم میں ہیرو گروپ، ریلی گیئر اور بونازا نے اپنے پیسے لگائے تھے۔ اکتوبر 2011 میں احمد آباد کے مدھو پورا پولس اسٹیشن میں ایک لون ایجنٹ کی گرفتاری عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی آندھرا پردیش کو آپریٹو بینک کے چار عہدیداران پکڑے گئے۔ ان سبھوں کو کار لون گھوٹالے میں پکڑا گیا تھا۔ لون ایجنٹ نے کئی کروڑ روپیہ سرکاری بینکوں سے فرضی اکاؤنٹ پر حاضر کئے تھے اور بعد میں پیسے کو آدرش کو آپریٹو بینک کی طرف منتقل کر دیا تھا اور یہ سب کام بینک کے کچھ عہدیداران کے ساتھ مل کر کیا گیا۔ اسی طرح کے ایک دوسرے واقعہ میں تھانے میں اکتوبر 2010 میں 1.07 کروڑ کا گھوٹالہ سامنے آیا۔ فرضی دستاویزات کو آپریٹو بینک کو جمع کئے گئے۔ اسی طرح 2010 میں کولکاتا میں فرضی دستاویزات کے ذریعہ کینرا بینک سے 9.14 کروڑ کا لون لیا گیا۔ فرضی دستاویزات جمع کر کے لون لینے کی روش عام ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے کئی فرضی کمپنیاں بھی وجود میں آ گئی ہیں۔ اسی طرح لون کے پس پردہ لوگ بلیک منی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح کے گھوٹالے اور دھوکہ دھڑی کے ہزاروں واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ خاص طور سے رئیل اسٹیٹ میں۔ بینک سے فرضی لون جاری کر دئیے جاتے ہیں حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ بینکوں کے پاس پیسہ ان کا اپنا نہیں ہوتا بلکہ یہ مڈل کلاس کی سیونگ ہوتی ہے جسے بینک والے فرضی لون کی شکل میں دوسروں کو بانٹ دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کی تحقیقات پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے ہر شہر میں ایک چھوٹا سوئس بینک موجود ہے۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...