ممبئی کے مشہوربھنڈی بازار علاقے کی نئی تعمیر

سیفی برہانی ترقیاتی ٹرسٹ کے زیر اہتمام بھنڈی بازار کی تعمیر و ترقی اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ،مخالفین بھی اب اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ مذکورہ پروجیکٹ کی تکمیل سے نہ صرف علاقے کا نام روشن ہوگا بلکہ ممبئی کے مسلمانوں کی شبیہ بھی درست ہوگی ۔پیش ہے دانش ریاض کی رپورٹ

Bhendi Bazar Model image

بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین طعش کے والد محترم طاہر سیف الدین جہاں سپرد خاک ہیں اسے روضہ طاہرہ سے موسوم کیا جاتا ہے جو بھنڈی بازار کے بالکل قلب میں واقع ہے۔اس کے اطراف میں اب پرانی بلڈنگوں کی انہدامی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔دراصل یہ اگست 2010کی بات ہے جب پہلی مرتبہ بھنڈی بازار پروجیکٹ کی بازگشت صحافتی حلقوں میں سنائی دی تھی ۔ایک مقامی اخبار میں یہ خبر آنے کے بعد کہ اب بھنڈی بازار کا نقشہ بدلنے والا ہے اور جو لوگ یہاں رہائش پذیر ہیں یا تجارت کر رہے ہیں انہیں کہیں اور منتقل کردیا جائے گا لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔بھنڈی بازار کے اطراف گلی محلوں میں چھوٹی چھوٹی میٹنگیں منعقد ہونے لگیں اور جتنے منھ اتنی ہی باتیں سنائی دینے لگیں۔میں نے بھی اپنی صحافتی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے پورے پروجیکٹ سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کی اور فرداً فرداً ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جن کی دکانیں اس علاقے میں موجود تھیں۔لوگوں کا ملا جلا ردعمل معلوم ہوا ،کچھ لوگ اسے بڑا کارنامہ سمجھ رہے تھے تو کچھ لوگوں کی نظر میں یہ ناممکنات میں شامل تھا کہ ایسی گھنی آبادی جہاں سیکڑوں مکین آباد ہیں آخر وہ پروجیکٹ کی کامیابی میں کس طرح معین و مدد گار ثابت ہوں گے۔پھر یکم اپریل 2011کو جب بوہرہ جماعت کے روحانی پیشوا سیدنا محمدبرہان الدین طعش کے ہاتھوں پروجیکٹ کا علامتی سنگ بنیاد رکھا گیا تو لوگوں کا شک یقین میں بدلنے لگا کہ اب یہ کارنامہ پایہ تکمیل کو پہنچے گاکیونکہ اب خود سیدنا اس کی رہنمائی کر رہے ہیں۔دائودی بوہرہ جماعت کے میڈیا ایسوسی ایٹ قریش راغب کہتے ہیں’’دراصل سیفی برہانی اپلفٹمنٹ ٹرسٹ کے ذریعہ ایک ایسی مثال کا مظاہرہ مقصود ہے جہاں تمام مسلک و مشرب کے لوگ روحانی ماحول میں رہتے ہوئے نہ صرف سماجی ،معاشی و معاشرتی یک جہتی کی تصویر پیش کریں بلکہ ہندوستان کے ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیں کہ آج بھی باہمی الفت و محبت کے ساتھ ایک ساتھ زندگی گذاری جاسکتی ہے۔‘‘راغب کہتے ہیں’’چونکہ یہ پورا پروجیکٹ سیدنا کی فکر اور ان کی محبتوں کے مرہون منت ہے جبکہسیدنا علی قادر مفضل سیف الدین صاحب نے بذات خود یہاں کا دورہ کیا ہے اور ابتدا سے ہی ہماری رہنمائی کر رہے ہیں لہذا پوری یکسوئی کے ساتھ ہم اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔‘‘
بھنڈی بازار کے تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ یہ علاقہ 17ویں صدی میں اس وقت منصہ شہود پر آیا تھا جب ایسٹ اندیا کمپنی نے ممبئی پورٹ کی توسیع کا فیصلہ کیا تھا اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو یہاں آباد کرنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجتاً بیشتر تاجر گھرانے یہاں آکر آباد ہوگئے، اسی دوران نوکر پیشہ افراد کی بھی بڑی تعداد سکونت پذیر ہوگئی جو کپڑوں کے کاروبار سے منسلک تھے۔چونکہ مغربی ہندوستان سے آنے والوں میں بڑی تعداد پارسی ،جین اور کچھی لوگوں کی تھی جنہوں نے فورٹ کے علاقے میں اپنی اپنی علحدہ کالونیاں آباد کر رکھی تھیں تو جب 18ویں صدی میں بوہرہ اور میمن حضرات یہاں آئے جو ہارڈویئر کے کاروبار میں مشہور تھے تو انہوں نے محمد علی روڈ کے اطراف کو اپنے لئے منتخب کیا۔لیکن1803میں جب بڑی ہی خوفناک آگ لگی اور فورٹ علاقہ میں لوگوں کے دکان و مکان کے ساتھ کئی جانیں ضائع ہوگئیں تو برطانوی اہلکاروں نے اس علاقے پر اپنی نظر مرکوز کی اور اس کی تعمیر و ترقی پر زور دیا،انہوں نے یہاں عالیشان مکانات تعمیر کئے،اسکول و ہسپتال بنائے جو آج بھی اس دور کی یاد دلاتی ہیں۔
لیکن جوں جوں آبادی بڑھتی گئی لوگوں کے مکانات تنگ سے تنگ تر ہونے لگے۔بڑے بڑے دالان،چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں تبدیل ہوگئے۔شاہراہوں اور راہگزاریوں پر غیر قانونی قبضہ جات نے آمد و رفت میں پریشانیاں پیدا کرنا شروع کردیں ۔ایک ہی عمارت میں سیکڑوں لوگوں کے قیام نے زمین کی اس استعداد کو بھی نقصان پہنچایا جو ماحول کو خوشگوار رکھنے کا خاصہ لئے رہتی ہیں۔پانی کی کمیابی،ڈرینیج سسٹم کی خرابی اور ایک ہی جگہ پر گندگی پھینکنے کے مزاج نے نہ صرف پورے علاقے کو زہر آلود کردیا بلکہ مکانیں خستہ حال ہوکر زمیں بوس ہونے لگیں اور لوگوں کی جانیں ضائع ہونے لگیں۔دراصل سو برس کے عرصہ میں آبادی اور تغیرات کے ساتھ علاقے کو جس طرح پھیلنا چاہئے تھا اس میں پھیلائو کے بجائے لوگ ایک ہی گھر کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے سکڑتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ جو آبادی کبھی ہزاروں پر مشتمل تھی وہ لاکھوں میں تبدیل ہوگئی۔مختلف بیماریاں علاقے کا مقدر بن گئیں اور حالت یہاں تک خراب ہوئی کہ لوگ سال یا برس میں شوقیہ آنا تو پسند کرنے لگے لیکن معیشت و تجارت کی وجہ سے جوپہچان پہلے بنی تھی وہ دھیرے دھیرے معدوم ہونے لگی ایسے میں اگر بھنڈی بازار کی تعمیر و ترقی کا کام سیدنا کی رہنمائی میں پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے تو نہ صرف اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے بلکہ اس کے لئے ماحول کو بھی سازگار بنانا چاہئے۔
مقامی ایم ایل اے امین پٹیل کہتے ہیں’’اس پروجیکٹ کی وجہ سے نہ صرف مذکورہ علاقے کی ترقی ہوگی بلکہ ملک و بیرون ملک بھی مسلمانوں کا نام روشن ہوگا۔بھنڈی بازار کا نام آتے ہی بعض غیر مسلموں میںجو منفی خیال پیدا ہوتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد حالات یکسر بدل جائیں گے۔دراصل حکومت بھی پروجیکٹ کی تکمیل میں دلچسپی رکھتی ہے اور ہم لوگ پروجیکٹ کے ذمہ داران،حکومت اور عوام کے مابین پُل کا کام کرنا چاہتے ہیں‘‘۔امین پٹیل مزید کہتے ہیں ’’البتہ ہم اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہتے ہیں کہ جو مکین وہاں آباد ہیں ان کی کوئی حق تلفی نہ ہو بلکہ جس سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کیا جائے جبکہ یہپروجیکٹ اپنے متعینہ وقت پر پایہ تکمیل کو پہنچے تاکہ یہ علاقہ ایک مثالی علاقہ بن جائے۔ ‘‘
یقینا حکومت بھی اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ آخر وہ ان علاقوں کو جہاں آبادیاں وسعت واستطاعت سے زیادہ ہیں کس طرح قابو میں کیا جائے اور زمین کے مادہ جذب کو سنبھالے رکھا جاسکے۔پروجیکٹ کے سی ای او عباس ماسٹر کہتے ہیں’’ہمارے پروجیکٹ کو Gold Rating Certificate ملا ہے ،جبکہ Indian Green Building Council نے اس پروجیکٹ کی پذیرائی کی ہے حکومت کی طرف سے متعین مختلف ذمہ داران بھی اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں اور الحمد للہ ہمارا بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔‘‘اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان میں گرین بلڈنگ بہت ہی کم ہیں جبکہ گولڈ سرٹیفکیٹ حاصل شدہ تعمیرات تو دنیا میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ،ممبئی میں بھی گرین بلڈنگ کا چلن ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے جہاں موسمیات کے تمام اصولوں کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے ورنہ تیزی کے ساتھ ہورہے تعمیراتی جنگلات میں تو اصول و قوانین کہاں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔FSIسے متعلق دلچسپ پہلو پر توجہ مبذول کراتے ہوئے عباس ماسٹر کہتے ہیں’’عموماً حکومت کی طرف سے جو ایف ایس آئی ملتی ہے ہمیں یہاں اس کا فائدہ نہیں مل رہا ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم تیس فیصد زیادہ لوگوں کو واپس کر رہے ہیں لہذا اگر ایف ایس آئی کی روشنی میں بھی دیکھیں تو ہم Advance Manner میں کام کر رہے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہم نے جہاں بھی تعمیراتی کام کیا ہے اس کا شمار دنیا کے بہترین تعمیرات میں ہوا ہے۔‘‘وہ کہتے ہیں’’اسٹیٹ لیول ایکسپرٹ ایپریزل کمیٹی -2-((SEAC-2نے 3جنوری 2013کو منظوری دے دی ہے اور اب State Level Environmental Impact Assessment Authority کی ہری جھنڈی کا انتظار ہے جو انشاء اللہ چند روز میںہی مکمل ہوجائے گا۔‘‘ بوہرہ جماعت کی طرف سے حکومتی مراسلات کے لئے متعین عبد علی بھانپورہ والا کہتے ہیں’’یہ پروجیکٹ محض تعمیراتی پروجیکٹ نہیں ہے بلکہ فکری ،روحانی اور معاشی بہتری کا بھی پروجیکٹ ہے ۔ہماری نظر اس آئندہ صدی پر ہے جہاں لوگ جدید سہولیات سے لیس ہوکر خوش و خرم زندگی گذار رہے ہوں گے۔ہم ایک صدی تک بڑی ہی ابتر حالت میں رہے لیکن اب آئندہ آنے والی صدی میں یہاں کے مکین کی حالت میں یکسر تبدیلی نظر آئے گی۔‘‘
واضح رہے کہ فی الحال 280مکانات میں 3200گھر ہیں جبکہ بیشتر مکانات تین منزلہ ہیں1,250تجارتی دکانیں ہیںجبکہ مجموعی مکین 20,000ہیں75%مکین تین سو اسکوائر فٹ سے بھی کم میں زندگی گذار رہے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب پروجیکٹ کی ابتدا ہوئی تو SBUTکے پاس بہت زیادہ لوگوں کی رضامندی نہیں تھی لیکن اب 80%مکانات SBUTکے اختیارات میں ہیںفی الحال المیہ تو یہ ہے کہ نہ صرف سڑکیں تنگ و تاریک ہیں بلکہ ایک بھی درخت موجود نہیں ہے جو فضا کو خوشگوار بنائے رکھے۔لیکن پروجیکٹ کے ذمہ دارن 700درخت لگانے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔
پروجیکٹ کے قریب ہی بی آئی ٹی چال میں رہائش پذیر پروفیسر کاظم ملک کہتے ہیں’’ہماری تین پشتیں یہاں آباد رہی ہیں جب ہمارا بچپن تھا تو ہمارے پاس ایسا کوئی گرائونڈ نہیں تھا جہاں ہم جاکر کھیل سکیں ،پاس میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی کہ ہم وقتی طور پر ہی تفریح کر سکیں جبکہ تنگ و گندی گلیوں کے اندر ہی ہمارے دن گذر جاتے ۔اب جبکہ اس پروجیکٹ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس زندگی کا خواب ہم دیکھا کرتے تھے انشاء اللہ اب وہ ہمارے بچوں کے نصیب میں آئے گا۔‘‘لوگوں کے مابین غلط فہمیوں پر گفتگو کرتے ہوئے کاظم کہتے ہیں’’جب لوگوں کو حقیقت کا علم ہوگا کہ اس پروجیکٹ کے ذریعہ بھنڈی بازار کی تعمیر و ترقی مقصود ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مخالفین معاونین میں بدل جائیں گے اور حتی المقدور اس کی حمایت کریں گے۔‘‘
پروجیکٹ پر کام شروع ہوتے ہی جو پہلا کام کیا گیا ہے وہ یہاں کے مکین کو عارضی مکانات میں منتقل کرنے کا ہے جس کے لئے ڈاکیارڈ روڈ اسٹیشن سے قریب انجیر واڑی (مجگائوں )میں ٹرانزٹ بلڈنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔گیارہ منزلہ عمارت کے ہر فلور پر 42کمرے ہیں جن میں 350فیملی بھنڈی بازار سے منتقل ہو چکی ہے۔ تیسرے منزلے پر آکر بسنے والی شمیم یوسف ٹاکلی والا کہتی ہیں’’یہاں آنے کے بعد ہمیں بہت ہی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ جب ٹرانزٹ بلڈنگ اتنی شاندار ہے تو حقیقی پروجیکٹ کس قدر شاندار ہوگا۔اپنے شوہر یوسف سیف الدین ٹاکلی والا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شمیم کہتی ہیں’’جیسے ہی ہمیں اس پروجیکٹ سے متعلق معلوم ہوا ہم نے فوری طور پر حامی بھردی اور یہاں منتقل ہوگئے چونکہ ہمارے شوہر کا کاروبار داروخانہ کے علاقے میں ہے لہذا یہاں سے آنے جانے میں مزید سہولت ہو رہی ہے۔‘‘سنی جماعت سے تعلق رکھنے والی امرین شبیر منصوری کہتی ہیں ’’یہاں صفائی ستھرائی کا اس قدر بہتر انتظام ہے کہ کچھ کہا نہیں جاسکتامجھے تو بھنڈی بازار سے زیادہ یہاں اچھا لگ رہا ہے البتہ وہاں جانے کی تمنا شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے کہ کب پروجیکٹ مکمل ہو اور ہم اپنے گھروں میں منتقل ہوجائیں۔‘‘واضح رہے کہ ٹرانزٹ کیمپ میں تمام مکینوں کو نہ صرف الماریاں ،بچھانے کے لئے قالین اور الیکٹرک و الیکٹرونکس کے روزمرہ سے متعلق سامان دئے گئے ہیں بلکہ جنریٹر اور پانی ریسائیکل کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے ۔اسی کے ساتھ مذہبی و سماجی تقریبات کے لئے ہال بھی بنائے گئے ہیں جہاں لوگ اپنی خوشیاں بانٹ سکتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تجارتی نقطہ نظر سے بھنڈی بازار آنے والے دنوں میں اپنی جداگانہ شناخت قائم کرے گا۔آج بھی رمضان المبارک کے ایام میں جس قدر بھیڑ جمع ہوتی ہے اور شاپنگ کرتی ہے اس کی سیکڑوں داستانیں صفحہ قرطاس پر منتقل ہو چکی ہیں۔بالی ووڈ کے اداکاروں کا بھنڈی بازار دورہ اب عام سی بات ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب شبیہ میں مزید بہتری آئے گی توممکن ہو کہ وہ لوگ بھی یہاں آنا پسند کریں جو تنگ و تاریک گلیوں اور پارکنگ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے احتراض کرتے ہیں۔لہذا لوگوں کی آمد نہ صرف تجارت کو فروغ دے گی بلکہ ہمارا کلچر بھی دور دور تک پھیلے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *