جد ید لعنت سے پاک فلا حی معیشت

معیشت میڈیا گروپ ابتداء سے ہی اس بات کی کوشش کرتا رہا ہے کہ ملک و ملت کے مابین ایسے خیالات کی ترویج کی جائے جو عام انسانوں کو حقیقی فلاح سے ہمکنار کرسکے ۔پیش نظر مضمون میں ایک ایسا تصور پیش کیا گیا ہے جس پر عمل کرکے یقیناً عامۃ الناس کو بھلائی حاصل ہوگی البتہ فیصلہ قارئین پر ہے۔(ادارہ)

روحانی بصیرت انسانوں کاایک حیرت انگیز وصف ہے مگراس کا عملی اظہار نہ ہونے کی صورت میں شیطانی مقتدر قوتیں ہمیں ایک مہلک اقتصادی نظام میں گرفتار کرکے اور ہمارے روحانی انقلاب اور شعوری بالیدگی میں رکاوٹیں پیدا کرکے اسے برباد کررہی ہیں۔ ہمیں محبت اور تبدیلی کے تعلق سے نہ صرف سوچنا ہے بلکہ اسے بروئے کاربھی لانا ہے۔
عالمی سطح پر سازباز کرنے والی مقتدرقوتیں جو ہر ملک کی سیاست ،سماج اور مذہب میں سرایت کرگئی ہیں، اس محبت اورشعور کو پروان نہیں چڑھاسکتیںجس کی ہمیں اشد اور فوری ضرور ت ہے۔ حقیقی اوراصلی انسان کی بازیافت کی گفتگو کا آغاز ہمیں اس اقتصادی نظام سے کرناچاہئے جو عالمی سطح پر مسلط “برادری (Brotherhood)ــ”کـی گرفت میں ہے اورجس کے کارندے انسانی ، نیم انسانی اور غیرانسانی سب ہیں۔
آج اس سیارہ ارض پرموجودوسائل سے اس پربسنے والی تمام آبادی کی ضروریات بخوبی پوری کی جاسکتی ہیں البتہ جس چیز کی تکمیل نہیں ہوسکتی وہ گاندھی جی کے بقول ہرشخص کی حرص ہے (It’s possible to provide for everyone’s need but not for everyone’s greed)- یہ اقتصادی نظام جو اقلیت کی آسائش کاانتظام توکرتا ہو مگراکثریت کو ضروریات کی تکمیل سے بھی محروم رکھتاہو نیز انسانوں کی روحانی محرومی کاباعث ،ہو اپنے زوال کے مرحلے میں ہے۔ فطرت کے لیے یہ اب ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ کمپیوٹر کی معلومات اوراس نظام کے پابند وپرداختہ (Programmed) ماہرین کی باتوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔جنہیں شیطانی گروہ لقمہ تر بنالیتاہے تاکہ عظیم ترارتکاز اختیارات (Centralisation)کی حمایت کے لیے ان کو استعمال کرسکے۔ مزید مرکزی تسلط کو فروغ دینے سے مزید جابرانہ نظام کے علاوہ اورکوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔
سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی انسانی اورمعاشی کامیابی کاتخمینہ معاشی نمو (EconomicGrowth)سے الگ کرکے لگائیں۔ مجموعی ملکی پیداوار (GDP)جسے معاشی ترقی کااشاریہ ماناجاتاہے ،آج پوری دنیا میں حکومتوں کی پالیسیوں پر حاوی اوران کو مسحور کئے ہوئے ہے۔حالانکہ یہ جس چیز کو ناپتی ہے وہ روپئے کی وہ مقدار ہے جوایک سال میں سامانوں اور خدمات کے عوض ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبادلے کے مراحل سے گذرتی ہے۔ معاشی نمو معاشی کامیابی کامعیار نہیں ہے ۔ یہ توصرف معاشی سرگرمی کاایک پیمانہ ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک فٹ بال ٹیم کی کامیابی کاتعین اس کی طرف سے کئے گئے گول سے کرنے کے بجائے میدان میں کھلاڑیوں کی دوڑ لگانے کی مقدار سے کیاجائے۔ اگرمعاشی نمو کے حصول کی کوشش یا نئی تکنیک کے استعمال کے سبب کوئی ماحولیاتی آفت آجائے تواس آفت کو دورکرنے کے لیے صرف کی گئی رقم بھی معاشی نمو میں اضافہ قرار دی جاتی ہے۔یہی نقطہ نظر جنگ پیش آنے کی صورت میں بھی اختیار کیاجاتاہے۔ چنانچہ جتنی زیادہ جنگیں ہوں گی یا جتنے زیادہ لوگ بیمارہوں اتنی ہی زیادہ معاشی ترقی سمجھی جائے گی۔کیونکہ علاج معالجہ معاشی سرگرمی میں اضافے کا سبب ہے۔ یہ نظام ان دونوں یعنی نمو سے حاصل شدہ رقم میں سے نمو کے برے نتائج کے تدارک سے حاصل رقم کوگھٹانے کے بجائے جوڑدیتاہے اوراسے معاشی ترقی میں اضافہ مانتا ہے۔ کیا یہی وہ نظام ہے جس پر آج دنیا کو فخر ہے؟
ہمارا سماج متوازن اس وقت ہوگا جب وہ انسانی ترقی کاایسا پیمانہ مقرر کرے جس سے ہماری کثیر الابعاد (Multifaced)ذات کی ترجمانی ہوسکے جیسے دیکھنا یہ چاہئے کہ :
کتنے کم لوگ غریب ہیں؟
کتنے کم لوگ بھوکے ہیں؟
کتنے کم لوگ خود کو اکیلا اور بے یار ومددگار پاتے ہیں؟
کتنے کم لوگ ناخوش، غیر مطمئن ہیں؟
کتنے کم لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے مواقع سے محروم ہیں؟
کتنے کم لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگیاں دوسرے لوگوںکے اختیار میں ہیں؟
یہ ہیں انسانی ترقی کی چندحقیقی علامات لیکن موجودہ نظام انسانوں کی مادی اورروحانی دونوں قسم کی ترقیات کومتاثرکرتے ہوئے ان علامتوں کو نظرانداز کررہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے علمبردار انسانوں کوقید رکھناچاہتے ہیں۔ ان کو آزاد کرنا نہیں چاہتے۔ جوچیز لوگوں کے مفاد میں ہے وہ اس نظام کے لیے آفت ہے۔آپ دیکھیں گے کہ میں نے’’ کتنا کم ‘‘کے جس معیار کاحوالہ دیا ہے اس سے کامیابی کا تعین بہت ہی کم کیا جاتاہے۔ آج کانظام کامیابی کاتعین صرف ’’کتنا زیادہ‘‘سے کرتا ہے۔ اگر حکومت کے وزراء سے صحت عامہ کی صورتحال سے متعلق سوال کیا جائے تووہ اپنی پالیسیوں کو جائز ثابت کرتے ہوئے جواب دیں گے:’’ ہم ہمیشہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کاعلاج کررہے ہیں۔‘‘ انتظام صحت میں کامیابی کا فیصلہ تواس بات سے کیا جائے گا کہ کتنے کم لوگوں کوعلاج کی ضرورت پیش آتی ہے ،نہ یہ کہ کتنے لوگ بیمار ہیں ۔ یہ مضحکہ خیز نظام مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کار فروخت میں اضافہ کو معاشی ترقی کی علامت قراردیتاہے جب کہ کامیابی کاتعین اس بات سے ہونا چاہئے کہ کتنے کم لوگ بے گھر ہیں۔ اگر صنعتی پیداوار کی رفتار میں اضافہ ہی تمام انسانی مسائل کا حل ہے تو امریکہ اتنے تباہ کن پیمانے پر زمین کے وسائل کااستعمال کرنے کے باوجود کیوں اس میں ناکام رہا؟ اگردنیا کاہرملک اسی طرح وسائل کابے تحاشہ استعمال کرنے لگے توزمین پر کیا بیتے گی؟ لیکن شیطانی برادری (Brotherhood) کے فریب میں مبتلا سیاست داں اور ماہرین معاشیات تمام ممالک کو اس کاقائل کرنے میں لگے ہیں۔ وہ قابل برداشت ترقی (Sustainable growth)کی بات کرتے ہیں جب کہ ایسی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی معاشی نمو ماحولیاتی اور وسائلی تحفظ پسندانہ ہوہی نہیں سکتا، کیونکہ ہم ایک محدود حجم کے سیارے پر رہ رہے ہیں جو ان ترقیوں کی سزا کو برداشت کرنے کی صلاحیتں بھی محدود رکھتاہے۔ اس کے باوجود صحافی اور مصنف اس واضح تضاد سے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے۔
تحفظ ماحول کی حامی پالیسی کا مذا ق اڑایاجاتا ہے لیکن وہی پالیسی معقول ہے جو ہدایت دیتی ہے کہ قدرتی وسائل کے استعمال کی شرح میںقابل لحاظ سالانہ گراوٹ ہونی چاہئے۔ یہ پالیسی کم سے زیادہ کے حصول کے ذریعہ اشیاء کو اس وقت تک باقی رکھ کرجب تک تکنیکی علم اجازت دے ،فاضل مواد کو پیداواری عمل کے ذریعہ دوبارہ کا ر آمد بناکر ، زمین سے مزید حصول کی ضرورت کو ختم کرکے اور عمارتوں کوگرم رکھنے کے لیے مطلوب ایندھنوں کو گھٹاکر اورشاہراہوں اورحمل ونقل کی ضروریات میں مقامی پیداوار اور مقامی صرف کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ تخفیف کرکے وسائل کی تباہ کن بربادی کو کم کردیتی ہے۔ عقل عام کے ذریعہ کم سے زیادہ کے حصول کے طریقوں کی فہرست لامحدود ہے۔یہ ایک ایسے قابل برداشت اوریکساں رفتار سے چلنے والے اقتصادی نظام کی راہ ہموار کرے گی جس میں زمین سے نہ اس سے زیادہ لیاجاسکے گا جتنا وہ ازسر نو دے سکتی ہے اورنہ زمین پراس سے زیادہ واپس پھینکا جاسکے گا جتنا کہ وہ بحفاظت جذب کرسکتی ہے۔
نظریہ جو مسئلے کے حل کے طور پر نمو کو جائز بتاتا ہے وہ قطرہ قطرہ رسنے(Trickle down) کانظریہ ہے ۔اگر آپ امیر کو مزید مالدار ہونے کاموقع دیں گے تواس کے نتیجہ میں سب سے اوپر جو زرودولت وجود میں آئے گی اس کا ایک حصہ معاشی طور پر نچلی سطح پر رہنے والوں کے لیے اجرتوں کی صورت میں رِس رِس کر نیچے آئے گا ۔ یہی جوازغریب ملکوں پر بھی منطبق کیاجاتاہے۔ مگرمسئلہ یہ ہے کہ رقم کا بڑاحصہ اقتصادی اہرام (Pyramid)کے اوپر جاکر جمع ہوجاتاہے۔ جولوگ نیچے ہوتے ہیں ان کی بقاء کاانحصار توصرف مالداروں کی میز سے گرنے والے جھوٹن پرہوتاہے جو فی الواقع قطر ے ہی کی شکل میں ٹپکتے ہیں۔ پوری دنیا ایک صدی سے زائد مدت تک تیزرفتار نموسے مستفید ہوتی رہی ہے مگر پھر بھی زمین کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنی بقاء کے لیے بنیادی ضروریات تک کی فراہمی سے محروم اور اضافی یامطلق غربت کے شکنجے میں ہے۔ اس کے باوجود ’’رسائو پر مبنی نمو‘‘ (Growth- Trickle down) کاطلسم تمام سماجی اور سیاسی تحریکات کومسحور کئے ہوئے ہے۔ آپ کسی ایسے شخص سے جو سرمایہ داری، اشتراکیت ،اشتمالیت یاآزادانہ جمہوریت کاحامی ہو یہ سوال کریں کہ معاشی ترقی کی راہ کیا ہے تووہ آپ سے کہے گا: ’’حاصل کرو، بنائو، ایک باراستعمال کرو اورپھینک دو‘‘۔ جوں ہی روحانی قوت بڑھے گی اورقلبی وشعوری بیداری میں اضافہ ہوگا لاکھوں افراد اس فریب کاپردہ فاش کریں گے اور ان کی تعداد زیادہ تیزرفتار شرح کے ساتھ بڑھے گی۔ وہ اعلانیہ اس معاشی جنون سے متعلق سوال کریں گے جس کی بندگی کا عقیدہ ہمارے دلوں میں بٹھادیاگیا ہے۔اس معاشی نظام کاجانا تو طے ہے البتہ ہمیں لازماً عالمی اقتصادیات کے ایک ایسے مصنوعی زوال سے ہوشیار ہناہوگا جو شیطانی قوتوں کا پیداکردہ ہوگا اور جس کا مقصدایک مرکزی عالمی بینک قائم کراناہوگا۔گرچہ ہم سے زیادہ اس نظام کاانہدام کوئی نہیں چاہتا لیکن اسکے بہانے اختیارات کے مزید ارتکاز کی مزاحمت کرنی چاہئے ۔ہمیںاس زوال کو اس نظام سے خود کوالگ کرنے کے لیے استعمال کرناچاہئے۔ ہمیں عالمی بازار حصص میں ایک گراوٹ کااندیشہ ہے جس کو ہوادینے میں اس شیطانی برادری کو کوئی مشکل نہیں پیش آئے گی۔اس صورت میں انشورنس کمپنیوں کو پیش آمدہ تباہی اورجرائم میں اضافہ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ زراتلاف کے مطالبے کاسامنا ہوگا۔ انشورنس کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ زندگی کے بدلتے رجحانات کے ان مالی مضمرات کے ساتھ موسم کی شدت اور ارضیاتی حوادث کا اضافہ کرلیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ دھماچوکڑی کامنظر پیش کرتی معیشت کے دن اب گنے ہوئے ہیں۔ صرف ایک خطرہ جس پر میں زور دے رہا ہو ں، یہ ہے کہ کہیں ہم نے مزید کسی ارتکاز کو جواز بخشنے کی اجازت دے دی تویہ نظام نئے جبر کے ساتھ از سر نووجودمیں آجائیگا۔ توہمیں کیاکرنا چاہئے؟
میں متعین طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیاہوگا؟ کیونکہ کوئی شخص یہ نہیں جانتاہے کہ مستقبل کیالائے گا یاانسانیت اس صورتحال کے خلاف اپنے رد عمل میں کس طرح اپنی آزادانہ مرضی کا استعمال کرے گی؟ البتہ اگر ہم مقتدرمعاشی طبقہ کے تسلط کاخاتمہ چاہتے ہیں توہمیں بڑ ے سے چھوٹے کی طرف، مرکزی انتظام سے مقامی اور انفرادی انتظام کی طرف اورمشینوں کی خدمت کرنے والے انسانوں کے بجائے انسانوں کی خدمت کرنے والی مشینوں کی طرف آناہوگا۔ بڑے پیمانے پر موجودہ صورتحال پر رد عمل کااظہار ہونے جارہا ہے۔ ہمیں بہت تیزی کے ساتھ حرکت میں آناہوگا۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم ایک دسرے پر کتنا منحصر ہیں اور ہمارے اندر بڑے پیمانے پر اجتماعی روح بیدار ہونے جارہی ہے۔
پورے صنعتی دور میں رجحانات کارخ کچھ اورتھا۔ زیادہ سے زیادہ پیداوار دینے والی مشینوں کی تنصیب کی بھاری قیمت اوردوسرے ممالک سے مسابقت کی ضرورت کی وجہ کر مالی اختیارات کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز تھے۔ یہ بینکوں کی کارستانی تھی۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ غیر منصفانہ بازار کی بندشوں میں جکڑی ہوئی معیشت اور بڑے بینکوں اورمالی اداروں کی مسابقت کے باعث مقامی سطح کا کاروبار ناکام ہوچکا ہے۔ ملکی سطح کی کمپنیاں اس اقتصادی دھاندلی کے ذریعہ کثیر قومی کمپنیاں بن گئیں ہیں جو پوری دنیا میں وسیع سیاسی اور معاشی قوت کامظہر ہیں جوانہیں غیر ممالک اور انکے عوام پرجبروظلم کی بے پناہ قوت عطا کرتے ہیں۔ It deosn’t have to be lik thisنامی کتاب کا ایک باب ہے: ’’خالی پیٹ اور چاکلیٹ کی ڈنٹی‘‘ ( And chocolate Bars Empty Bellies)ایسا اس لیے کہاگیا کہ اوکسفام (Oxfam) کے مطابق گھانا میں نصف سے زائد بنیادی غذا کی قلت کی وجہ کر سوء تغذیہ کاشکار(malnourished)ہیں جب کہ گھانا کی اناج اگانے والی نصف سے زائد زمین مغربی چاکلیٹ صنعت کے لیے کوکوا (Cocoa) اگارہی ہے ۔ آنے والے مستقبل میں خیرات کالفظ استعمال نہیں کیاجائے گا۔کیونکہ لین دین ہوگامگر دوسرے پر انحصار نہ ہوگا ،اس لیے کوئی خیرات بھی نہ ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ آج کے مذاہب بھی خیرات کی حوصلہ افزائی تو کرتے ہیں لیکن لوگوں کی خود انحصاری اور خود کفالت کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ نظام لوگوں کو یکساں بنیادوں پر لین دین اور فکر وانتخاب کی آزادی دیتا بلکہ زندگی کی تمام ضروریات غذا، لباس اور پناہ گاہ کے لیے اپنے اوپر انحصار کرنے والابناکر ہمیں اپنا ماتحت بناتاہے۔ یہ ابلیس کے ذریعہ ابھاری گئی ہوس ہے۔ یہ ہمیں اس خوف میں مبتلا کرتاہے کہ ہمیں اس نظام کے ذریعہ کھیلے جارہے کھیل کاحصہ بنے رہنا ہوگا ورنہ ہم زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ مختلف اقوام کواپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے اشتراک کرناچاہئے اورایسے نظام پرانحصار نہیں کرناچاہئے کہ جس پران کااختیار نہ ہو۔ سادہ لوحی اتنی عام ہوچکی ہے اگرکوئی شخص ٹوکیو (Tokyo)کے بازار حصص کے بارے میں کوئی افواہ پھیلادیتاہے تاکہ مالی قتل عام کیا جائے تواس کے اثرات زمین کے دوسرے کنارے پر رہ رہے لوگوں کی زندگیوں کو اپنی زد میں لے لیتے ہیں۔ اقتصادیات کے حقیقی نظریہ کی روسے تو گھانا کی زمین سے گھانا کے لوگوں کی اپنی غذائی ضرورت پوری کی جائے گی نہ کہ کوکا (Cocoa) کی طالب چاکلیٹ کی کثیرقومی فیکٹریوں کی ضرورت ۔غریب ممالک کو دھوکہ دے کریہ باور کرایاگیاہے کہ ان کے لیے کامیابی کاسب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنی زمینیں مغرب کی کثیرقومی کمپنیوں کو برآمد کیے جانے والے نقدی فصل (Cash Crops) اگانے کے لیے استعمال کریں اوراس سے حاصل ہونے والی رقم کو اناج درآمد کے لیے استعمال کریں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مغرب کے لیے کھونے کو تو کچھ نہ ہو۔ اسے در آمد کی جانے والی نقدی پیداوار اوراس سے برآمد کئے جانے والے غلوں اورمصنوعات دونوں کی قیمتوں کے تعین کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ مالیاتی نظام پر کامل اختیار مغرب ہی کو حاصل ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک یہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اس ناانصافی کوقبول نہیں کرینگے تو کثیر قومی کمپنیاں دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گی اور غریب ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف ابھاریں گی۔انحصار کے ذریعہ اقتدار کے اس شکنجے سے چھٹکارا حاصل کرنے کا راستہ یہ ہے کہ ممکن حد تک مقامی سطح پر زندگی کے بنیادی لوازم پیدا کئے جائیں۔کسی نہ کسی وجہ سے وہ خواہ موسمی، ارضیاتی، سیاسی یااقتصادی آفات ہوں مقامی ضرورت کے لیے مقامی پیداوار پرانحصار تو ہمیںکرنا ہی ہے۔ آپ برف کے طوفان اور آندھی یاموسلادھار بارش سے ہونے والی افراتفری پرایک نظر ڈالیے اور اس وقت کاتصور کیجئے جب یہ تمام حالات ایک ساتھ پیدا ہوجائیں۔
گیٹ (GATT)کے معاہدے کامقصددراصل درآمدات پرعائد بندشوں کواٹھاکر سرمایہ دارانہ اور شیطانی براداری کوپوری چھوٹ دینا ہے۔ اگر آپ دنیا کے تمام ممالک کواس نظام پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کرناچاہتے ہیں تو ’’آزاد تجارت‘‘ کے افسانے کو خوب فروغ دیجئے اور عوام کواس کا پابند کیجئے ، کیونکہ ’’آزاد تجارت‘‘ کے بغیر مضبوط کمزور کا مزید استحصال نہیں کرسکتا۔ اگرکوئی زیادہ مال فروخت کرتاہے تولازماًکوئی کم فروخت کرے گا۔ مسابقت (Competition) صرف بڑے سرمایہ داروں کے لیے مفید ہے۔ مسابقت کو”Choice”کے نام پر جائز بتایا جاتاہے مگر یہ اختیار انتخاب (Choice) کیاہے؟ مثلا ً دس ،بیس مختلف اقسام کے شیمپو میں پسند کااختیار کیا ہے جبکہ ان تمام اقسام کابنیادی وظیفہ اوران کے بنیادی اجزاء ایک ہی ہیں۔ اس طرح کے اختیار کاحصول مضحکہ خیز ہے۔ غریبوں کوسخت دھوپ میں باہر نہ نکلنے کے اختیار (جبکہ اپنی معاش کے لیے وہ مجبور کئے جارہے ہوں)سے محروم کرنا کیسا ہے جبکہ فضا میں اوزون پرتوں (Ozone layer) میں فساد کی وجہ کر جلدکاسرطان وبا کی صورت اختیار کرگیاہو۔ فضول اور تعیش کی چاہت کی بناپر بڑھی ہوئی تجارتی اور سفر کی سرگرمیوں نے ہمارے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، ریلوے اسٹیشنوں اور سڑکوں پر جام کی ایک نہ ایک ختم ہونے والی بیماری کو جنم دیا ہے۔ ایندھن اوروسائل کے بے تحاشہ استعمال سے ناقابل بیان آلودگی پیدا ہوتی ہے جب کہ ان میں سے بیشتر غیر ضروری ہیں۔ اس سے فائدہ صرف کثیر قومی اداروں اور بینکوں کے مالکان کو ہوتا ہے۔ضروریات زندگی اور پسند کے انتخاب کی سہولت کی فراہمی تودور کی بات ہے ،یہ فی الواقع اکثریت کو ان دونوں سے محروم کرنے کاایک طریقہ ہے۔
آئندہ سالوں میں ممالک اوراقوام پوری دنیا میں اپنی مصنوعات برآمد کرنے کے بجائے خوداپنی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے متفکر ہوں گی ۔ اس کے نتیجے میں بڑے بڑے کارخانوں کے یکساں مال اور بنانے کے بندھے بندھائے طریقوں کے بجائے بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں ظاہرہوں گی۔ سوچئے کہ اگر یہ نظام زوال پذیر ہوجائے یاہم اپنے کواس سے غیر مربوط کرلیں اورہم پر ہرطرح کادبائوختم ہوجائے توکیسے مواقع ہمارے انتظار میں ہیں۔ ’’بحران‘‘ کے لیے چینی زبان میں ایک لفظ ہے: Wei- Chiاس کے مفہوم میں خطرہ اورموقع دونوں چیزیں شامل ہیں۔ جہاں ایک طرف نظام کے زوال کو خطرے کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے وہیں دوسری طرف یہ حقیقتاً انسانی اختراع کی تمام غیرمحدود صلاحیتوں کے آزاد ہوجانے کا ایک موقع بھی ہے۔ انسان کی ذہانت اور اختراعی صلاحیت ایک ایسے نظام کی گرفت میں ہے جہاں سوچنا وہ آخری چیز ہے جس کامطالبہ کیا جاتا ہو۔ مختلف اسباب کے نتیجہ میں رونماہونے والے معاشی بکھرائو کے ذریعہ ہم از سرنو اپناسفر شروع کرنے کے قابل ہوں گے۔عبوری حالات میں سامان اور خدمات کے عوض سامان اور خدمات کے تبادلے (Barter of goods and Services) پرزور دیاجائے گا جس میں زر (Money) کاتبادلہ کرنے والے ہاتھ یاتو کم ہوں گے یاسرے سے موجود ہی نہ ہوں گے۔ جنس کے آپس میں تبادلہ کی توسیع کاعمل آج جاری ہے۔ جولوگ بیدار ہورہے ہیں وہ اپنے امکان کی حدتک زیادہ سے زیادہ اس طریق کارکو نظام سے باہر نکلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں اور جوں ہی بے روزگاری کی شرح بڑھے گی لاکھوں افراد یہ سمجھ لیں گے کہ اب موجودہ نظام انہیں اوران کے افراد خاندان کومزید کچھ دینے کی حالت میں نہیں ہے اورنہ بہتری کے کوئی آثار ہیں۔ ایک ایسے وقت میں سماجی تحفظ کے بطور رقوم دینے (Social Security Payment) کانظم کرکے عوام کوریاست کاغلام بناکر یااس سے بھی نچلی سطح پررکھنے کی کوشش ہے۔It Doesn’t Have To Be Like This نامی کتاب میں جو ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی تھی، جنس سے جنس کے تبادلے کے ایک نظام کوبطور خاص بیان کیاگیاتھا۔ اس وقت مجھے اس کی صرف تین مثالیں مل سکی تھیں جو انگلستان میں زیر عمل تھیں، آج صرف چند سالوں بعد اس نظام کی بے شمار صورتوں پر عمل ہورہاہے۔ اس نظام کو LETS (Local Employment and Trade System)یعنی مقامی نظام روزگار وتجارت سے موسوم کیاگیا۔ موجودہ معاشی نظام میں زر (Money)ہی سب کچھ ہے۔ کساد بازاری کی صورت میں جب کہ زر کی رسد محدود ہوتی ہے ،لوگوں کے اندرموجود مہارتیں منجمد ہوجاتی ہیں۔ یہاں ان کی صلاحیتوں کے عوض ادا کئے جانے کے لئے زر موجود نہیں ہوتا۔ مقامی آبادی کی بیشتر ضروریات پوری ہونے سے رہ جاتی ہیں جبکہ ان ضروریات کی فراہمی کرنے والی مہارتیں موجودہوتی ہیں۔ (LETS)’’لیٹس‘‘ کایہ نظام صلاحیتوں کو آزاد کردیتاہے۔ آپ اسے مزید آگے بڑھاسکتے ہیںاورسماج کے ہرفرد سے یہ عہد لے سکتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے لیے کچھ کریں جو بیماری یاجسمانی کمزوری کی وجہ سے کچھ نہیں کرسکتے مگر ایسے بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو کچھ نہ کرسکیں یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو بیمارہیں کچھ نہ کچھ کرسکتے ہیں۔ آئندہ دنوں میں جبکہ کاغذی زر (Paper money)برقیاتی زر(Electronic money) سے کلیتاً بدل جائیگا ،سماج پر تسلط پسند طاقتوں کی پر گرفت شدید ہوجائیگی۔ مقامی خود کفالت کے نئے نظام کو فروغ دینے کے لیے اخبار میں اس کااشتہار دیجئے، ایک عوامی جلسہ بلایئے یاصرف اپنے گردان دوستوں کوجمع کیجئے جن کے بارے میں آپ کاخیال ہو کہ وہ اس میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ اگرہم یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اقتصادیات کا وظیفہ عوام کی خدمت ہے ،تبدیلیاں لانے اٹھے ہیں تو پھر پیسے سے پیسہ بنانے کا نظام ختم ہوناچاہئے۔
اب وقت آچکا ہے کہ ہرطرح کے سماجی پس منظر رکھنے والے، مختلف عقائد کے ماننے والے اور ہررنگ اور ہرخیال کے افراد متحد ہوں اورسب کی بھلائی کے لیے آپس میں تعاون کریں نہ کہ چند کے فائدے کے لیے آپس میں مسابقت کریں۔ ایک کتاب ہے ’’انہدام کے بعد ‘‘اس کامصنف گائے دونسے (Guy Dauncey) ہے۔ یہ کتاب ایسی تجاویز اورمثالوں سے پُر ہے جو ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح مقامی اقتصادیات کی تشکیل ہم کرسکتے ہیں۔ کسی کو یہ نہ کہنے دیجئے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے اوراب تواس پرعمل ہو رہا ہے۔ مقامی ضرورت کے لیے مقامی پیداوار ہی وہ سمت ہے جس کی طرف ہماری شعوری بیداری(conscious Awakening) اور معاشی ضروریات ہماری رہنمائی کررہی ہیں۔ان تجربات سے ہم یہ بھی محسوس کریں گے کہ ہمیں اعلیٰ کارکردگی (Efficiency)کے موجودہ مسخ شدہ تصور سے بدمست کردیاگیاہے۔ ہمیں ایک سطر پڑھادی گئی ہے کہ اگرتم اپنی پیداواری سرگرمیوں کو مرتکز کرو گے توبہت ہی سستی چیزیں پیدا کرسکو گے۔حالانکہ اس کے برخلاف اگر کوئی سامان مقامی وسائل سے مقامی سطح پر بنایا جائے تو اس کی پیداواری اور اس کی تقسیم کی لاگت سب سے کم ہوگی۔ جب آپ ارتکاز کاطریقہ اختیار کرتے ہیں تو آپ کو خام مال اور ان مصنوعات کی منتقلی کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل رسد کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمیں ان ٹرکوں سے بہتر کام لینے کے لیے شاہراہیں اوران کے متبادل راستے تعمیر کرنے ہوتے ہیں۔ ان شاہراہوں اور سڑکوں کی مرمت پررقم صرف کرنی پڑتی ہے جو ٹرکوں کے بڑھتے وزن سے خراب ہوتی ہیں۔اس پر اورایندھن پر بے تحاشہ مالی وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ وسائل رسد کی فضائی آلودگی سے پیش آنے والی بیماریوں اور بڑھتے سڑک حادثات کے نتیجے میں طبی اخراجات بھی بڑھتے ہیں۔ گاڑیاں ہمارے گھروں کوہلاکر کمزور کردیتی ہیں اور ہمیں امن وسکون سے محروم کردیتی ہیں۔ ہمیں رفاہی نظام پر زیادہ خرچ کرنا پڑتاہے ،کیونکہ کاروبار پرانحصار کرنے والے وہ لوگ جو اپنے سماج کی خدمت کیاکرتے تھے، مشینوں پرانحصار کرنے والی بڑی بڑی دیو پیکر کمپنیوں کے کاروبار کے نتیجے میں اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ دیو پیکر کمپنیاں بڑے پیمانے پر صرف اپنے منافع کو پیش نظر رکھتی ہیں۔ آج لو گ احمقانہ طورپر ان فضول، بڑھی ہوئی سرگرمیوں اور ان پر صرف ہونے والی رقم کو معاشی ترقی (Economic growth) میں شمار کرینگے حالانکہ یہ تنزلی ہے۔ اس طریقے سے تیار ہونے والی مصنوعات کی قیمتوں میں مذکورہ اخراجات کا جو سماج کو ادا کرنے پڑتے ہیں، کوئی عکس نہیں پایاجاتاہے ۔آپ کوان کی ادائیگی ایک باردکان پر دوسری بارمحصولات کی شکل میں کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ ماحولیاتی تباہی کے ان اثرات کو تو تسلیم تک نہیں کیاجاتا ہے جو اگلی نسلوں کو بھی منتقل ہوتے ہیں۔ اگر ان اخراجات کو صنعتی پیداوار کی قیمت میں جوڑدیاجائے تو کارخانوں میں تیار اور پیک (Pack)کی گئی غذائی اشیاء مقامی سطح پرخود تیار کی گئی غذائی اشیاء سے بہت زیادہ مہنگی ہونگی۔ مزید تمام مصنوعات کی زندگی بڑھانے کے لیے ان میں کیمیائی مادہ شامل کیاتاہے جن کے مضراثرات صحت کی خرابی اورطبی اخراجات میں اضافہ کاباعث بنتے ہیں۔
پیداوار کے ارتکاز اور سیاسی اورسماجی گرفت نے سماج کوتباہی سے دوچارکردیا ہے۔ بچے اوران کے والدین کو تعلیم اور کاروبار کے لیے لمبی دوری کاسفر کرناپڑتاہے، کیونکہ ارتکاز کے نتیجے میں مقامی مراکز بند ہوگئے ہیںاوربڑے پیمانے پر نقل وحمل کے ذرائع کے استعمال کی وجہ کروقت کی بربادی کے ساتھ خرچ اور آلودگی کابوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ لوگوں کواس کے لیے مجبور کیاجاتاہے کہ وہ ہردن اپنی مصروفیات کے ایام کاآغاز واختتام ٹریفک جام یاازدحام سے پرٹرینوں میں کریں۔ وہ اپنے خاندانوں، دوستوں اور اجتماعی زندگی کو بہت ہی کم وقت دے پاتے ہیں۔ حکومت ایک طرف ’’خاندانی اقدار ‘‘(Family Values) کی ضرورت کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف ایک ایسے نظام کو فروغ دیتی ہے جو ہردن خاندانوں کو توڑتا اور اتنا دبائو پیدا کرتاہے کہ انسانی اور سماجی اکثر رشتے باقی ہی نہیں رہ پاتے ہیں۔بہت سے لوگ اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اگر آپ اپنی طلب کو کم کرلیں تو آپ کوجینے کے لیے بہت ہی کم رقم کی ضرورت پڑے گی۔ اپنی زندگی کو سادہ بناکر ان بہت ہی نایاب تحفوں کو آپ حاصل کرسکتے ہیںیعنی وقت اور آزادئی پسند و انتخاب۔ آج کمپنیوں کے منتظمین کمپنی کے مالی Balance sheetکے ہدف کو پورا کرنے کے جنونی دبائو کے اسی طرح شکارہیں جس طرح کہ وہ لوگ جنہیں وہ منتظمین ملازم رکھتے ہیں۔ ہرگزرتے ہوئے دنوں میں اس جنونی دوڑ میں کامیاب ہونے والوں کی بڑی تعداد اپنے کام کو غیر اطمینان بخش اور بے معنی پارہی ہے۔ خود ان کی اپنی حقیقی ذات شعور کی سطح پر ابھررہی ہے اورنئے خیالات واقدار ان کے شعور میں اپنی جگہ بناتے جارہے ہیں ۔اس میں امیر وغریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بہت سارے ایسے سوالات کریں گے جو انہو ںنے اس سے پہلے کبھی نہ کئے ہوں گے۔فی الواقع اس دنیا میں ہمارا فرض منصبی کیا ہے؟ ہم حقیقتاً یہاں کس غرض سے آئے ہیں؟ کیا ہمارا مقصد وجود صرف امکانی تیز رفتار ی کے ساتھ مال کا حصول اور اس کی ذخیر ہ اندوزی ہے؟ کیازندگی محض اسی کے گرد گھومتی رہنی چاہئے؟ کیا ہم اس لیے ہیں کہ ہمیں ہرسال زیادہ سامان نہ فروخت کرنے سے ڈرایاجائے؟میں سمجھتاہوں کہ بیشتر کاروباری منتظمین پہلے ہی سے اس قسم کے سوالات کر رہے ہیں اور یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ قدیم کاروبار کی راکھ سے اٹھنے والا نیا کاروبار استحصال کے بجائے خدمت کرے گااور اپنی کامیابی کاتعین مندرجہ ذیل معیارات سے کرے گا۔
۱۔کیا موجودہ تجارت انسانی ضروریات کی تکمیل اور دنیا کو تمام لوگوں اوردیگر جانداروں کی زندگیوں کے لیے ایک بہتر مقام بنانے کے بجائے دنیا کے استحصال اور ہلاکت کا باعث ہے۔
۲۔ کیا مصنوعات کی پیداوار اورتجارتی زندگی کافروغ انسان کو ذہنی، جذباتی یاطبعی طورپر نقصان پہنچارہی ہے۔
۳۔ کیا منافع خوری کادائرہ وسیع کرنے کے لیے بڑی کمپنیاں غریب ممالک اوران کے عوام کااستحصال کررہی ہیں؟
۴۔ کیا پیداواری عمل میں شریک افراد یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیںیہ اختیار ہے کہ وہ پورے طور پر اپنی تخلیقی قوت کااستعمال کریں یاوہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی تخلیقی قوتوں کو بعض جکڑ بند ادارہ جاتی سانچوں میں ڈھلنا ہوتاہے۔
اگر ان سوالوں میں سے کسی ایک کابھی جواب ’’ہاں‘‘ہے توپھر ہم ایک ایسے نظام کو دیکھ رہے ہیں جو بیدار ہونے والی نسل انسانی کے اجتماعی شعور کے منجدھار میں غر ق ہونے جارہاہے۔ مقامی سطح کی اقتصادیات میں ہمیں مرکزیت کی یک رنگی کی جگہ تنوع اوررنگ برنگا پن نظر آئے گا۔آج آپ قریب قریب دنیا کے ہرشہر میں جاکر دیکھیں تو ایک ہی قسم کے نام کی ایک ہی طرح کی دکانیں اور وہی مصنوعات اور اشیا ء نظر آئیں گی۔ کثیر قومی (multinational) اداروں کی طرف سے پیداکیاگیا ایک ہی کلچر پوری انسانیت پرمسلط کیا جارہاہے۔ ہوسکتاہے کہ یہاں تضاد معلوم ہو مگر آفاقی سطح پر وحدت شعور ایک ایسی عوامی خواہش پیدا کرے گی جس کے تحت لوگ خود ایسی تدابیر کا اظہار کریں گے جوان کی اجتماعیت میں مضمر محدود انفردی تنوع کا مظہر ہوگی۔ہرچیز حقیقتًاتوانایٔ (energy) ہے۔ ایک پیداواری عمل کے پیچھے کارفرما روحانی قوت پیداوار کی طرف منتقل ہوتی ہے اوریہی قوت اورشعورپیداوار کے پس پردہ ارادہ کی عکاسی کرتی ہے۔اگرا رادہ انسانی فلاح کے بجائے خودغرضانہ اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہوتو مصنوعات اسی منفی قوت کی حامل ہونگی۔
چنانچہ ان مصنوعات کواستعمال کرنے والے کاوجدان اس شئے کے اندر پائی جانے والی روحانی قوت کو محسوس کرتاہے اورردعمل کااظہار کرتاہے۔ اب چونکہ حواس اوروجدان کی اعلیٰ سطحوں تک ترقی کرنے والے افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس لیے دکانوں میں موجود منفی وروحانی قوت کی حامل اشیاء اوراشخاص کو لوگ رد کرینگے۔ اگر ہمیں موجودہ جدید تہذیب یامذاہب کے بنائے ہوئے سانچے میں ڈھالے گئے آج کے مکانیکی انسانی (Robots)میں پیدا ہونے والی روحانی بیداری کی تازہ لہر کو فروغ دینا ہے تو ہمیں زیر زمین تنظیموں اور برادریوں (Brotherhood)کے عزائم کا علم رکھنا ہوگا اور ان سے مقابلہ کی راہ نکالنی ہوگی جبکہ انسانی جسم میں پیغامات کی ترسیل کرنے والا چپ ڈال کر یادوسرے ذرائع سے انسانی شعور اورلاشعور پرتسلط حاصل کرنے کی مسلسل کوشش ہو ہی ہے۔اس عبوری دور میں جب ایک عہد تیزی سے ختم ہورہاہواور دوسرا اس کی جگہ لینے جارہاہو ،میں غذا کی قلت اورغالباً بڑے پیمانے پر ہونے والی شورش کو دیکھ سکتاہوں البتہ تبدیلی ہمیں غاروں، مشکلات اور سخت جدو جہد کے کسی مستقل دور کی طرف واپس نہیں لے جارہی ہے۔ یہ تبدیلی آئندہ فراوانی کے ایک عہد کی طرف ہماری رہنمائی کررہی ہے۔ زمین اپنے غذائی تحائف اورحسن کے اعتبار سے مالا مال ہوگی۔ نفرت کی جگہ محبت اور مسابقت کی جگہ اشتراک عمل لے لے گا۔ موجودہ نظام فراوانی نہیں چاہتا۔ اس کی قوت قلت میں ہے۔
ہم دیکھیں گے کہ زندگی کامقصد مسرت وشادمانی ہے۔ ہم یہاں رنج اٹھانے کے لیے نہیں پیدا کئے گئے ہیں (Robot) انسان کا دل جوش اور عزم کا حامل ہے اور بصیرت رکھتاہے۔ اگرچہ ہرشخص فلاح کے اس راستے کاانتخاب نہیں کرے گا بلکہ شاید اکثریت اس سے دور ہی رہے گی مگربہت سے لوگ اس راستے کا انتخاب کریں گے اوروہ دنیا کوتبدیل کریں گے۔اقتصادیات اورتجارت کی مکمل تبدیلی ہیئت کے دو مراحل ہوں گے۔ پہلا مرحلہ یہ ہوگا کہ موجودہ نظام تیز رفتاری سے ٹھپ ہوجائے گا اور ’’زیرزمین برادری ‘‘یہ کوشش کرے گی کہ اس صورتحال کواپنے عالمی مرکزی بینک اور وحدانی کرنسی کو منظرعام پرلانے کے لیے استعمال کرے۔ رونما ہونے والی اس افراتفری (Chaos)سے ایک پرفریب نیانظام ظہورمیں لانے کی کوشش کی جائے گی یہی وقت ہوگا جب اشیا ء اور خدمت کے عوض اشیاء اور خدمت کے تبادلے کاطریقہ لازمی ہوجائے گا اورہمیں ضرورت کی بنیاد پرایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی اورنئی ٹکنالوجی ارض طبیعی کوضرور پہنچائے یامتاثر کئے بغیر ہمیں ہروہ طاقت اور حرارت عطا کرے گی جس کے ہم ضرورت مند ہوں گے۔انسانیت حیران وششدہ کردینے والی صلاحیتوں کی ایک نئی دنیا تعمیر کرے گی۔

مزید معلومات کے لئے لاگ آن کریںwww.maeeshat.in

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *