’’ مختار پیکیجنگ‘‘ کو بہترین ایکسپورٹر کا اعزاز حاصل ہے

ہندوستان کے مشہور عالم دین مولانا مختار احمد ندوی کی انگلیاں پکڑ کر آگے بڑھنے اور اسماء خاتون کی گود پل کر جوان ہونے والے ’’ مختار پیکیجنگ‘‘ کے مالک اسلم مختارکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وزارت مالیات(حکومت ہند) کے زیر تحت کام کرنے والی باڈی CAPEXIL نے انہیں بہترین ایکسپورٹر کا ایوارڈ تفویض کیا ہے۔دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں انہوں نے تجارتی سفر کی رودادبیان کی۔

اسلم مختار
اسلم مختار

سوال:امامت و خطابت اور تبلیغ دین کافریضہ انجام دینے والے خانوادے نے کاروبار میں کس طرح مہارت حاصل کر لی؟

جواب:والد صاحب مولانا مختار احمد ندوی امامت و خطابت کے ساتھ مسجد میں ہی چھوٹی چھوٹی دینی کتابیں فروخت کیا کرتے تھے ،ان کا چھوٹا سا مکتبہ تھا،لیکن مستقل کتب خانے کی حیثیت نہیں تھی،چونکہ بھائی بہنوں میں میں سب سے بڑا تھا لہذا میںوالد صاحب کی معاونت کرنے لگاچونکہ مجھے اس میں مستقبل روشن نظر آرہا تھالہذا میں بھی کتابوں کے کاروبار میں شامل ہوگیا، گو کہ میری پیدائش ا تر پردیش کے مردم خیز علاقہ مئو ناتھ بھنجن کے محلہ مرزا ہادی پورہ میں یکم جولائی 1952کو ہوئی ہے اور میں نے وہیں مدرسہ عالیہ سے ابتدائی تعلیم جبکہ جامعہ رحمانیہ سلفیہ بنارس سیعربی تعلیم حاصل کی ہے لیکن ایس ایس سی کا امتحان انجمن خیر الاسلام ممبئی سے ہی 1971میں پاس کیا ہے۔میٹرک کرنے کے بعد علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اجمل خاں طبیہ کالج میں داخل ہو گیا لیکن قسمت نے یاری نہ کی اورچند وجوہات کی بنا پر تعلیم ادھوری چھوڑ کر دوبارہ ممبئی آگیااورپھر کاروبار میںشریک ہوگیا۔
سوال :آپ نے تجارت کی شروعات کب کی؟
جواب:یہ 1972 کا دور تھا جب میں نے تجارت کا آغاز کیا،1972سے 1976تک میرے پاس کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا،جبکہ 1978 سے 1988تک میں Contract پر کام کرتا رہا1988میںہی میں نے ذاتی انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کی کوشش کی اور بھاوے (Bhave Pvt Ltd )پریس خریدا اور باقاعدہ پرنٹنگ کے کاروبار میںقسمت آزمائی کرنے لگا،لیکن چونکہ ہمارا خاندان بڑا تھا لہذا پرنٹنگ کے شعبہ میں ہی میں نے 1999میں ’’مختارپیکیجنگ ‘‘ کا آغاز کیا۔Packaging کا پہلا کام Madly Pharmaکی طرف سے ملا جسکے بعد ہیہماری خدمات حاصل کرنے والوں کی قطار لگ گئی۔
سوال:پرنٹنگ کے شعبہ میں بہت سارے افراد ہیں لیکن’’ مختار پیکیجنگ‘‘ کو کن باتوں کی وجہ سے امتیاز حاصل ہے؟
جواب:الحمدللہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک ہمارے کاروبار ہوتے ہیں،Exportمیں ہمارا نام سر فہرست ہے ،ہندوستان میں ہمارا ہی ادارہ ہے جسے حکومت ہند ،وزارت مالیات کے تحت کام کرنے والے ادارے Chemicals and Allied Products Export Promotion Council(CAPEXIL)نے Highest Export کا ایوارڈ اس وقت کے ریزرو بینک کے گورنر (موجودہ وزیر اعظم)ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ہاتھوں دیا تھا اور اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مختار گروپ احسن انداز میں اپنی تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔دراصل ہمارے Clientاس بات پر مطمئن رہتے ہیں کہ اگر اسلم مختار نے کوئی وعدہ کیا ہے تو وہ وقت پر بہتر انداز میں پورا ہوگا،چونکہ سعودی عرب کا بھی بیشتر کام ہمارے یہاں ہی ہوتا ہے لہذا وہاں سے بھی ایک تعلق بنا ہوا ہے۔1984میں تو عالم یہ تھا کہ ہم مشرق وسطی میںچارٹرڈ ایئر لائنس سے کتابیں بھیجا کرتے تھے ،جب کہ یہ اعزاز کسی اورکو حاصل نہیں ہے۔
سوال:جس وقت آپ نے تجارت کا آغاز کیا اس وقت کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب:ہر کاروبار میں پریشانیاں آتی ہیں جس وقت میں نے بزنس کا آغاز کیا تھا اس وقت نہ تو وسائل تھے اور نہ ہی افرادی قوت تھی،تن تنہا ہر کام کرنا پڑتا تھا ،لیکن جیسے جیسے مر حلہ آگے بڑھتا گیا الحمد للہ پریشانیاں بھی دور ہوتی گئیں۔
سوال:ہندوستان کے جمہوری نظام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں،کیا یہاںمسلم تاجروں کو ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہیں ؟
جواب:ہندوستان کا نظام کھلا ہوا ہے ،یہاں کے دستور میں تمام چیزیں تحریر ہیں،ہر شہری کو تمام چیزیں مہیّا کی گئی ہیںلیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے حصول میں پریشانیاں آتی ہیں۔
سوال:زندگی کاکوئی ایسا واقعہ جو یاد آتا ہو؟
جواب:یوں تو یاد آنے والے بہت سارے واقعات ہیں لیکن ایک واقعہ کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ تجارت میں لوگ اس کے ذریعہ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سعودی عرب کتابیں روانہ کیں ،وہاں کے Contract میں یہ بات شامل ہے کہ اگر متعینہ مدت میں چیزیںموصول نہیں ہوئیں تو پھر Penalty دینا ہوتی ہے ،میں نے متعینہ مدت سے بہت پہلے ہی مال روانہ کر دیا تھا لیکن جہاز نے اسے سعودی عرب کی بجائے کہیں اور پہنچا دیا،میں بڑا پریشان ہوا کیونکہ مال کئی دنوں کی تاخیر سے وہاں پہنچا ،چونکہ وزارت مالیات کو Penalty لینے کا اختیارہوتا ہے لہذا میں اکائونٹنٹ کے پاس گیا اور پوری روداد بیان کی کہ اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے لہذا مجھ پر Penalty نہ لگائی جائے۔اکائونٹنٹ نے کہا کہ بہتر ہوگا اگریہ التماس آپ وزیر صاحب سے کریں کیونکہ فائنل اختیار انہیں کو حاصل ہے میںبغیر کسی روک ٹوک کے وزیر موصوف کے کیبن میں چلا گیا، انہوں نے بڑی محبت سے معاملہ دریافت کیا اور پھر مشورہ دیا کہ پہلے تم اپنی دوسری بڑی رقم تو لے لو ،چھوٹی رقم کے لئے اب تک بڑی رقم کیوں چھوڑے ہوئے ہو؟میںاس کا فیصلہ بعد میں کر دوں گا۔مجھے یہ بات دل کو لگی اور میں نے فوری طور پر اپنی بقایا رقم نکال لی ،اس کے بعد ہی تمام دستاویزات کے ساتھ وزیر محمد ابوالخیر کے پاس گیااور اپنا مدعا بیان کیا، انہوں فوری طور پر Penalty کی رقم معاف کردی اور مجھے بغیر نقصان ہوئے پوری رقم مل گئی۔یہ چھوٹا سا واقعہ اس لئے یاد آتا ہے کہ عموماً تاجر حضرات چھوٹے سے فائدے کے لئے اپنا بڑا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
سوال:آپ کے خانوادے نے تعلیمی میدان میںزبردست کام کیا ہے اس کی وجہ؟
جواب:والد محترم مولانا مختار احمد ندوی خاص طو ر پر مسلمانوں میں اور عمومی طورپرتمام انسانوں کے درمیان اسلام کی حقیقی تعلیم عام کرنا چاہتے تھے لہذا اسی مقصد کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے تمام بیٹے اسلم مختار،اکرم مختاراور ارشد مختار تعلیمی میدان میںلگے ہوئے ہیں ،میں نے ’’مختار فائونڈیشن ‘‘قائم کیا ہے جس کے ذریعہ مفت میں دینی کتابیں عام لوگوں میں تقسیم کرتا ہوں اور اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔خود میرے چاروں بچوں نے ،جن میں دو بیٹی اور دو بیٹا ہے ،اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے،میری بڑی بچی نے ممبئی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور فی الحال کناڈا میں مقیم ہے،جبکہ بڑا بیٹا محمد سالم پرنٹنگ ٹکنالوجی اور مینجمنٹ کا کورس کرنے کے بعد میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہے جبکہ چھوٹا سلمان سمیہّ کالج سے Mechanical Engineering کرنے کے بعد John Haw kings یونیورسٹی سے Robot ting Engineering میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ہے اور فی الحال امریکہ میں ہی ایم بی اے کر رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *