دوسروں کے کام آنا ہی میرا مقصد زندگی ہے

صفدر کرم علی کا شمار مہاراشٹر کے بااثر تاجروں میں ہوتا ہے Event Managementمیں ان کی کمپنی اپنا ثانی نہیں رکھتی،مہاراشٹر حکومت کے بیشتر پروگراموں کی ذمہ داری انہیں کے سر ہوتی ہے خواہ وہ وزیر اعلی و کابینہ کی حلف برداری کاپروگرام ہویا گورنر ہائوس کی کوئی خاص تقریب۔ہر جگہ ایچ کرم علی اینڈ کمپنی پیش پیش رہا کرتی ہے۔ 1900؁میں 12کرسی 12ٹیبل اور ایک پیٹرومیکس سے شروع ہوئی کمپنی کو اب پانچویں پشت سنبھال رہی ہے۔دانش ریاض نے کمپنی کے سربراہ سے تفصیلی گفتگوکی ،پیش ہیں اہم اقتباسات……….

صفدر کرم علی
صفدر کرم علی

ایچ کرم علی اینڈ کمپنی کے مالک صفدر کرم علی ممبئی کے ان گنے چنے لوگوں میں ہیں جنہیں سماجی خدمت کے ذریعہ بے پناہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔فسادات میں ہر مرتبہ تباہ ہونے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ لوگوں کو انہیں سے سیکھنا چاہئے۔یکم جنوری 1946کو ممبئی کے ڈونگری علاقہ میںآنکھیں کھولنے والے صفدر ابھی 15سال ہی کے تھے کہ1961 میں والدکا انتقال ہو گیااور پھر گھر کی پوری ذمہ داری ان کے سر آن پڑی۔پشتینی تجارت کوبچائے رکھنا اور اسے ترقی دے کر نئی بلندیوں تک پہنچانا، اولین ضرورتوں میں شامل تھا۔صفدر کرم علی کہتے ہیں’’والد کے انتقال کے بعد میں نے 1962میں باقاعدہ کاروبار کو سنبھال لیا ۔پروگرام Managementاور Decoration کا بہت زیادہ تجربہ نہیں تھا لیکن نئی ذمہ داری کو سنبھالنا بھی ضروری تھا۔1966میں ٹائون ہال کا پہلا پروگرام میرے ذمہ دیا گیا ۔اس کے فوری بعد ہی سرکس کے انتظام کی ذمہ داری آئی اور پھرمیونسپل کارپوریشن کے ضمنی انتخابات میں حکومت نے تمام کام ہمارے ذمہ کر دئے ،اس روز کے بعد پھر ہم نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ لیکن قسمت کا لکھا کوئی مٹا نہیں سکتا ،تما م چیزیں بہتر طور پر چل رہی تھیں کہ ستمبر 1971میں آگ لگ گئی اور پھر تمام چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں،چونکہ انشورنس نہیں تھا لہذاابتدائی مر حلے سے دوبارہ شروعات کرنی پڑی۔لیکن یہاں پر پھر قسمت نے دوبارہ ساتھ دیا 1971میں جب ٹیم انڈیا جیت کر آئی تو ایس کے وانکھیڑے نے کافی مدد کی ۔اس کے بعد ہی ٹولی لوئس کپتان بن کر آئے توسی سی آئی نے مدد کی۔ نتیجتاً ہمارا کاروبار دوبارہ جم گیا۔لیکن 1984 میں فسادات پھوٹ پڑا ،داروخانہ میں ہم نے گوڈان لے رکھا تھافسادیوں نے گودام میں آگ لگا دی جہاں تمام چیزیں خاکستر ہوگئیں۔مزیدایک مرتبہ ہم سڑک پر آگئے لیکن چونکہ ہم نے انشورنس کرا رکھا تھا لہذا اس کا فائدہ ملا اور ہمیں دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع ملا۔‘‘صفدر کرم علی کے مطابق’’1971میں جب تمام چیزیں جل کر راکھ ہوگئیں تو میں پریشان ہوگیا تھامیرے بھائی نے مجھے حوصلہ دینے کے لئے اپنے ساتھ ملا لیااور پھرمیں نے تعمیراتی کام میںبھی ہاتھ ڈالا،باندرہ،اندھیری،ملاڈ وغیرہ میں کئی بلڈنگیں تعمیر کیں لیکن چونکہ میرا ذوق Event Managemen میں تھا لہذا زیادہ دنوں تک میں اس تجارت میں شامل نہیں رہ سکا۔1984کے فسادات کے بعد میں دوبارہ کھڑا ہوا اور اپنی زندگی معمول پر لانے کے لئے جد و جہد شروع کر دی ۔بچپن سے ہی پریشانیاں دیکھتے دیکھتے مجھے غریبوں کے دکھ درد کا شدت سے احساس ہونے لگا،شاید یہ میرا درد تھا جو میں دوسروں کے کام آکر ہلکا کرنا چاہتا تھا لہذا میں سماجی کاموں میں دل و جان سے لگ گیا۔کسی کا بھی کوئی مسئلہ ہوتا جب تک میں اسے حل نہ کر لیتا اس وقت تک سکون نہ آتا۔ابھی زندگی کی گاڑی معمول پر ہی آئی تھی کہ بابری مسجد شہید کر دی گئی اور پھر1992کے فسادات میرے لئے سوہان روح ثابت ہوئے اس مرتبہ بھی فسادیوں نے چن چن کر میرے گوداموں کو جلانے اور میرے کاروبار کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ۔لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،ڈونگری کے قیصر باغ ہال میں ایک شادی تھی جہاں میری 600کرسیاں100ٹیبل اور دو دولہے کی کرسیاں رکھی تھیں، جو بچ گئیں۔اسی فساد میں میں نے جان پر کھیل کر اپنے مسلمان بھائیوں کو بچایا ۔فساد کے دوران جب مجھے پتہ چلا کہ ماہم شیوسینا کی آفس کے اوپر اور ورلی میں ہمارے بھائی فسادیوں کے نرغے میں پھنسے ہیں تو میں فوری طور پر انہیں بچانے کے لئے نکل پڑا اور تمام لوگوں کو بحفاظت اپنے علاقے میں لے کر آیا۔‘‘حکومت کی نااہلیوں کو تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جس وقت میں تباہ و برباد ہوا اس وقت حکومت نے کوئی مدد نہیں کی ،دراصل حکومت کبھی بھی ضرورت مندوں کے کام نہیں آتی یہ تو ان لوگوں کا ہی گھر بھرنا چاہتی ہے جن کے گھر پہلے سے بھرے ہوئے ہیں۔لہذا ہمیں نہ حکومت سے کوئی شکوہ کرنا چاہئے نہ گلہ،بلکہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے رہنا چاہئے۔‘‘سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صفدر کرم علی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافیوں کو دیکھ کر کہتے ہیں’’ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کوئی کوٹہ نہیں ہے ،یہاں انہیں یکساں مواقع حاصل نہیں ہیں،دلتوں اور چماروں کے حقوق کے لئے تو لوگ لڑائیاں لڑ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے جائز حق کے لئے بھی کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں ہے۔مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جارہا ہے ،تمام چیزیں دن کی روشنی میں ہو رہی ہیں لیکن کون ہے جو ان کے خلاف آواز بلند کرے۔‘‘اپنے بچوں کے کام سے غیر مطمئن نظر آنے والے صفدر کرم علی کہتے ہیں’’ہمارے بچے اس تجارت کو بہتر طریقے سے نہیں کر رہے ہیں جس طرح میں گرمی اور پانی کی پرواہ کئے بغیر گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہوکر اور بارش میں بھیگ کر اپنا کام کرتا تھا اب یہ بیٹوں کو پسند نہیں آتیں ،انہیں ایئر کنڈیشن آفس میں بیٹھ کر حکم جتانے میں ہی مزہ آتا ہے۔’’تین کروڑ سے زائد کا ٹرن اوور کرنے والے صفدر پولس و انتظامیہ سے اپنے گہرے رشتے کا اظہار کرنا نہیں بھولتے ،وہ کہتے ہیں’’پولس اہلکاروں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے۔اس وقت بھی جب کہ حساس مقامات میں تزئین کی ذمہ داری ہماری کمپنی انجام دیتی ہے پولس اہلکار ہی ہمارا تعاون کرتے ہیں۔انتظامیہ پوری مستعدی کے ساتھ اپنا فریضہ ادا کرتی ہے۔الحمدللہ جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پروگرام میں کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *