اردو میڈیا ہمارے لئے بہترین ہتھیار ہے جس کا موثر استعمال مسائل حل کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے

٭دانش ریاض
نئے زمانے کے بدلتے رجحانات نے جہاں علاقائی زبانوں پر کمندیں ڈالنا شروع کی ہیں وہیں علاقائی زبانیں جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ہوکر اپنے متعلقین کے لئے بہتر سے بہتر مواقع پیدا کر رہی ہیں ۔آج گوگل اور ویکی پیڈیاپر کام کرنے والے کروڑوں افراد علاقائی زبانوں پر ہی انحصار کر کے اپنی سبقت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔لہذا علاقائی زبانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بر صغیر پاک و ہند کی روشنی میں ہی اگر ہم اردو کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ محض اس زبان نے اس خطے کو نئی جہت عطا کی ہے۔
اسی طرح اگر اردو زبان کے حوالے سے اردو صحافت کا جائزہ لیں تو بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ غیر محسوس طریقے پر اللہ رب العزت نے ہمیں ایک ایسا ابلاغی ہتھیار عطا کیا ہے جس سے ہم بہتر اور موثر طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔یقینا یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان قومی یکجہتی کی نشانی اور ہندوستان کے مختلف خطوں میں بسے لوگوں کے درمیان رابطے کی زبان تھی جسے کمال ہوشیاری اور مذہبی عصبیت کا لبادہ اوڑھا کر صرف مسلمانوں تک محدود کر دیاگیا ہے۔لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ غیروں کی عیاری و مکّاری نے ہمیں ایک ایسا نظام عطا کیا ہے جس کے دور رس اثرات سے اب وہ خود خائف نظر آرہے ہیں۔2005 میں جب امریکہ کے بد نام زمانہ صدر جارج بش (جونیئر)نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو ممبئی کی اردو صحافت نے سابق صدر کے دورے کے خلاف ممبئی کے آزاد میدان میں مظاہرہ کر نے اور ملّی حمیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنی دکانیں بند رکھنے کی اپیل کی تھی،اس موقع پر نہ تو کسی جماعت کی طرف سے کوئی پوسٹر شائع ہوا تھا اور نہ ہی کسی تنظیم و تحریک نے کوئی ہینڈ بل شائع کر نے کی اپیل کی تھی لیکن اس کے باوجود ممبئی کی عوام نے جس بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے کامیاب بند کا انعقاد کیا تھا اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے آگئے تھے جبکہ مہاراشٹر کی یرقانی پارٹی نے اسے دوسروں کے لئے الارم قرار دیا تھا۔
اسی طرح مختلف بم دھماکوں کے الزام میں جب مسلم نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری عمل میں آنے لگی تو اردو صحافت نے ہی سب سے پہلے آواز بلند کرنے کی جرآت کی اور ریاستی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا،ملّی و سماجی تنظیموں نے بھی اردو صحافت کی آواز میں آواز ملا کر حکومت و انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ وہ ان حرکتوں سے باز آجائے جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر بے چینی پھیل رہی ہے ،لہذا اے ٹی ایس کے سابق سر براہ کے پی ایس رگھو ونشی کے تبادلے کو اس زاوئے سے بھی دیکھنا چاہئے ۔
26/11حملوں کے دوران اے ٹی ایس چیف آنجہانی ہیمنت کر کرے کے قتل کو سازش کا حصہ گر داننے اور پورے واقعہ کی اعلی سطحی انکوائری کروانے کی مانگ سب سے پہلے اردو میڈیا نے ہی کی تھی اور اسی میڈیا کا اثر تھا کہ سابق وزیر عبد الرحمن انتولے جیسے سیاست داں نے پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر زبان کھولی اور پوری دنیا کو بین السطور ایک پیغام ارسال کردیا۔جس کے بعد ہی ہنگامہ برپا ہوا لیکن عوام و خواص یہ جان گئے کہ دال میں کچھ کا لا ہے ۔اردو میڈیا کے حوالے سے یہ وہ چند اہم باتیں ہیں جو حالیہ دنوں محسوس کی گئی ہیں ورنہ ماضی میں اس میڈیا ہائوس نے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ تاریخ کے سنہرے اوراق پر ثبت ہے۔شاید اردو میڈیا کا اثر ہی ہے کہ راشٹر یہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی نے بھی اس کی طاقت کو محسوس کیا ہے اور اس حوالے سے کچھ سوچنے کی کوشش کی ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک بڑے لیڈر نے گفتگو کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر صرف 5فیصد مسلم ووٹ ہمارے حق میں منتقل ہوجائیں تو طویل مدت تک کے لئے ہم مرکز میں اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔لہذا بی جے پی کے ساتھ اب سنگھ کے لوگ بھی اردو میڈیا کو رجھانے اور اسے قریب کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔سنگھی مزاج کے حامل ملاپ اور پرتاپ کا شائع کیا جاناجبکہ مہاراشٹر کے ایک موقرمسلم ملکیت والے میڈیا ہائوس کاراشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ذیلی ادارے کے ذریعہ خریدا جانا اسی بات کی دلیل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام قومی پارٹیاں اپنا ترجمان اردو میں شائع کروانا اپنی ضرورت سمجھتی ہیں،گانگریس نے سب ساز اور قومی آواز جاری کیا تھا جبکہ آر کے کرنجیا کا بلیٹز ایک وقت کا مقبول عام ہفت روزہ تھا۔کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکوت اگر اسپین شائع کرتی ہے تو برطانوی حکومت اپنے پیغام کو اردو داں حلقہ تک پہنچانے کے لئے برٹش جائزہ کا سہارا لے رہی ہے۔
اردو میڈیا میں کام کرتے ہوئے پندرہ سال کے عرصے میں میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ اگر ہم اپنی طاقت پہچان کر اسے موثر انداز میں لوگوں کے ساتھ حکومت و انتظایہ تک پہنچائیں تو یقینا ہماری باتیں بہتر طور پر سنی جائیں گی۔بذات خود کارپوریٹ سیکٹر اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اس بات کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں کہ اردو عوام تک رسائی حاصل کرنے کے لئے کونسا ذریعہ اختیار کیا جائے جو پائیدار اور موثر ہو۔گذشتہ ماہ ہی جب مسلم صنعت کاروں پر دی سنڈے انڈین کا خصوصی شمارہ شائع کرنے اور یک روزہ سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو بیشتر لوگوں نے یہ کہہ کر کہ آخر مسلم صنعت کاروں کی تعداد ہی کیا ہے ؟کتنے صنعت کار ایسے ہیں جو اردو زبان میں انٹر ویو شائع کروانا پسند کریں گے؟پورے پروگرام پر ہی پانی پھیرنے کی کوشش کی لیکن تمام تر کو ششوں کے بعدجب پروگرام منعقد ہوا تو لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ عظیم پریم جی ہوں یاکوئی چھوٹا صنعت کار و تاجر ہرآدمی اپنے پروڈکٹ کو عام لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور اسے اس کام کے لئے ان علاقائی میڈیا کی ضرورت ہے جوان کے پیغام کو باسانی پہنچا سکے۔اسی طرح جب کولکاتہ میں اسلامک فائنانشیل سر وسیز پر سیمینار منعقد کیا گیا تھا تو ریلائنس ،ٹا ٹا ،بجاج ،ٹورس جیسی کمپنیوں کے اہم ذمہ داروں نے شرکت کر کے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اردو میڈیا آج بھی ان کے لئے باعث کشش ہے۔
در اصل اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ اس وقت ہماری زبان اور میڈیا سے جس قدر فائدہ دوسرے لوگ اٹھا رہے ہیں ہم رتّی برابر بھی مستفید نہیں ہو پارہے ہیں ،اگر مالی منفعت کے حوالے سے ہی گفتگو ہو تو ای ٹی وی اردو،بی بی سی (اردو سروس )اور سہارا پریوارکی مثال پیش کی جاسکتی ہے جو بلا شرکت غیرے اس ہائوس سے اپنی جھولی بھرتے جا رہے ہیں۔جبکہ بالی ووڈ کا پورا کاروبار اردو پر ہی منحصر ہے ۔رمضان المبارک میں بڑے بجٹ کی فلموں کا ریلیز نہ ہونا اور مسلم عوام کی پسند کا بھی خیال رکھنااسی زمرے میں آتا ہے۔
در اصل جس میڈیا کی طاقت کا ادراک دوسروں کو ہے ہمیں اس کی ضرورت کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے ،جب ہمارے خلاف کوئی اہم واقعہ پیش آچکا ہوتا ہے تو ہم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ کاش ہمارا بھی کوئی ادارہ ہوتا جو ہمارے پیغام کو عام کرتا لیکن جو ادارے ہمارے پاس موجود ہیں انہیں موثر بنانے اور اسے قوت و طاقت عطا کرنے کی نہ تو ہم ضرورت سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس طرف لوگوں کی خاطر خواہ توجہ مبذول کراتے ہیں ۔اگر صرف یہ رجحان عام ہوجائے کہ ہم اپنی تجارت کا فروغ اور اپنے کاروباری اشتہارات اردو میڈیا کو بھی عطا کریں گے تو یقین جانئے ہم ایک صاف و شفاف مضبوط ادارہ کے ذریعہ ان کاموں کو بھی بہتر طور پر انجام دے سکیں گے جس کے لئے ہم ابھی دوسروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ ٭