
آندھی منزل تک نہیں لے جاتی
ہم کلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افصح فصیح
دہلی میںان دنوں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ مئی کے آخری ہفتہ اور جون کی ابتدا میں موسم سے کچھ اور توقع کرنا حماقت سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اس سال ملک کی راجدھانی میں آندھیوں کا دور دورہ ہے۔ شدید گرمی سے عاجز و پریشان حال عوام کو آندھی کے ساتھ ہلکی بارش سے وقتی راحت بھی میسرہو جاتی ہے۔ حالانکہ اس حقیقت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کہ یہ جزوقتی راحت اپنے ساتھ عموماًغریب کے سر سے اس کا چھپر بھی اڑا کر لے جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر چند روز پہلے رونما ہوا۔ شام پانچ بجے کا وقت تھاکہ تیز ہوائوںنے دہلی اور اس کے مضافات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔میں اس وقت دہلی کے ایک میٹرو اسٹیشن پر تھی۔چند ہی لمحوں میں 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار ساتھ لئے گرد کے غبار نے اندھیرا کر دیا۔ تناور درخت تیلیوں کی مانند اکھڑ گئے۔ اتنے میں ٹرین آگئی اور میں نے اس میں سوار ہونا عافیت سمجھا۔ ٹرین ابھی مشکل سے چند میٹر ہی آگے بڑھی ہوگی کہ زور کی آواز سنائی دی۔ مسافروں میں عجیب ہیجان کی کیفیت طاری ہوگئی۔ کسی نے کہا لگتا ہے میٹرو اسٹیشن کا شیڈ یا عمارت کا کوئی حصہ اڑ گیاہے۔ کسی دوسرے نے کہا نہیں یہ آواز تو بجلی کا کھمبا گرنے کی ہے۔ اتنا سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ فوراً خیال آیا کہ خدانخواستہ بجلی کے تار ٹوٹ کر ٹرین پر گر گئے تو کیا ہوگا۔۔۔پوری گاڑی میں کرنٹ دوڑ جائے گا اور نہ جانے کتنا بڑا حادثہ رونما ہو جائے گا۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ کیا تیز آندھی میں میرا ٹرین میں سوار ہونا درست تھا۔ بحرحال اللہ کو یاد کیا ، اس سے دعا کی اور سوچا اللہ بہتر ہی کریگا۔اتنی دیر میں ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور پیچھے کیا ہوا اس سے قطع نظر دوسرے اسٹیشن کی جانب گامزن تھی۔لیکن دو اسٹیشن عبور کرنے کے بعد میٹرو تیسرے اسٹیشن پر رک گئی۔ پانچ، دس،پندرہ منٹ گزر جانے کے بعد بھی ٹرین میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تو مسافرپلیٹ فارم پر اتر گئے۔مسافروں کی ایک بڑی تعداد ٹرین ڈرائیور کے کیبن کے پاس جمع ہوگئی۔ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس نے بھی کیبن کا دروازہ کھول دیا اور مسافروں کو بتایا کہ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے کے باعث یہ ٹرین ہی نہیں بلکہ پورا میٹرو نظام تھم گیا ہے۔ اس نے مسافروں کو تسلی دی کہ بجلی کی بحالی کی ساتھ ہی میٹرو سروس پھر اپنی رفتار پکڑ لے گی۔ لیکن بجلی کی بحالی کب ممکن ہوگی اس بابت اس کا قیاس اتنا ہی اچھا یا برا تھا جتنا کہ کسی دوسرے مسافر کا۔اس درمیان میرے خاندان اور دوست و احباب مسلسل فون سے رابطہ میں رہے۔ ان کو اطمینان تھا کہ میں خیریت سے ہوں اور وہ دعا کر رہے تھے کہ میں خیر و عافیت سے اپنے گھر پہنچ جائوں۔میرے چند خیر خواہوں نے رائے بھی دی کہ میں میٹرو چھوڑ کسی دوسری سواری سے گھر کا راستہ لوں ۔میٹرو اسٹیشن پر اس اعلان کے باوجود کہ جو مسافر ’ریفنڈ‘ لینا چاہتے ہیں وہ ایسا کر سکتے ہیں اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی متبادل سواری لے سکتے ہیں ، میں نے درمیان سفر ایسا کرنے سے انکار کردیاکیونکہ میٹرو اسٹیشن کے باہر کا منظر بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ دور دور تک گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں۔ بارش ہو رہی تھی اور موسم کا مزاج پوری طرح پرسکون نہیں ہوا تھا۔ دوسرے میٹرو سے تو یہ امید تھی کہ دیر سے ہی صحیح لیکن گھر تک تو پہنچا دیگی لیکن بس ملے گی یا نہیں، ملے گی تو جام میں پھنسے گی یا نہیںیا پھر کوئی اور دقت تو نہیں آئے گی ، یہ سب سوچ کر فیصلہ لیاکہ اب سفر کرنا ہے تو میٹرو سے ۔ ایک گھنٹہ کے تعطل کے بعد میٹرو ٹرین سروس بحال ہو گئی اور میں اپنے گھر پہنچ گئی۔
گھر پہنچنے اور معمول کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سوچا کہ آج کے تجربہ کو قلم بند کرلوں۔ واقعات رقم کرتے ہوئے دہلی کے سیاسی منظرنامہ پر رونما ہونے والے حالیہ واقعات ذہن میں آنے لگے۔ یاد آیا، کس طرح’مودی کی لہر‘ ایک ’آندھی ‘میں تبدیل ہو گئی اور کس طرح اس نے اپنوں اور بیگانوں میں تفریق نہ کرتے ہوئے تناور درختوں کو زمین سے اکھاڑ پھینکا۔تمام تر خدشات، تحفظات و شکایات کے باوجوداس آندھی سے بچنے کے لئے کس طرح عوام اور باالخصوص اقلیتی فرقہ نے ملک کی گنگا جمنی تہذیب و آئین کا تحفظ کرنے والی جماعت کا انتخاب کیا جو بظاہر منزل کی جانب پیش رفت توکر رہی تھی لیکن اس میں توانائی کی کمی تھی۔ یا یوں کہیں کہ اسے توانائی کی ترسیل منقطع ہو چکی ہے۔ فی الحال یہ ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہے اور اس میں سوار مسافر ڈرائیور سے رجوع کر رہے ہیں کہ آیا انہیں ان کی منزل مقصود تک پہنچانے کا جو ذمہ اس نے لیا تھا وہ اسے پورا کرے گا بھی یا نہیں۔کچھ تذبذب کا شکار ہیں کہ انہیں توانائی بحال ہونے تک رکنا چاہئے یا ’ریفنڈ‘لے کر درمیان سفر سواری تبدیل کر لینی چاہیے۔کچھ بے چین ہیں انہیں منزل تک پہنچنے کی جلدی ہے۔ ان کے لئے موسم کی خرابی، سڑک کی بدحالی، متبادل کی عدم دستیابی اور بلا نظم ونسق ٹریفک سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کے لئے تو موقع اچھا ہے۔ ریفنڈ کا لالچ بھی انہیں سواری تبدیل کرنے کے لئے اکسا رہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کتنے مسافر ثابت قدم رہتے ہیں اور اس عظیم ملک کے اقدار میں یقین رکھتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرتے ہیں یا جزوقتی فائدہ یا راحت کے لئے لو کے گرم تھپیڑوںاور آندھی کے سبب راہ سے بھٹکتے ہیں اوربھیڑ میںگم ہو جاتے ہیں۔اچھا یہ ہوگا کہ گرم ہوائوں اور آندھی کے گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ موسم بدلے گاتو یہی گرم ہوائیں سردہوائوں میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ آندھی کا زور کم ہوگا تو فضا خوشگوار ہو جائے گی۔ بہار آئے گی تو چمن پھر کھل اٹھے گا۔نیا جوش و حوصلہ نئی توانائی فراہم کرے گااورمنزل مقصود تک پہنچنے کا سفر پھر شروع ہو جائے گا۔