Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

آپ کے بچے کی چھٹیاں برباد تو نہیں ہو رہی ہیں!

by | Jun 2, 2014

تنویر احمد، نئی دہلی

اسکولوں میں ہونے والی گرمی کی چھٹیوں کا انتظار سبھی بچوں کو بے صبری سے رہتا ہے، اور ہو بھی کیوں نہ۔۔۔ آخر یہی تو وقت ہوتا ہے جب وہ خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں، نانا-نانی کے گھر جانے کا منصوبہ بناتے ہیں، ممی اور پاپا کے ساتھ خوبصورت دنیا کی سیر کرنے کا انھیں موقع ملتا ہے۔ جون کا مہینہ شروع ہو چکا ہے یعنی موسم گرما کی نصف چھٹیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب آپ ان چھٹیوں میں اپنے بچوں کے روز مرہ کے معمولات کا جائزہ لیں اور پتہ کریں کہ کہیں آپ کے بچوں کی چھٹیاں برباد تو نہیں ہو رہی ہیں، کہیں ان کا وقت لایعنی چیزوں میں تو ختم نہیں ہو رہا ہے، کہیں آپ کے بچے چھٹیوں سے مثبت انداز میں لطف اندوز ہونے سے محروم تو نہیں ہیں۔ یاد رکھیے کہ بچوں کے لیے گرمی کی چھٹیوں کا مطلب ڈھیر ساری موج مستی ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں تو بس یہی ہوتا ہے کہ اب نہ ہی اسکول جانے کے لیے جلدی اٹھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ٹیچر کی ڈانٹ کا خوف۔ بچے 5 سال کے ہوں یا 10 سال کے، یا پھر اس سے بڑے، سبھی کی خواہش ہوتی ہے خوب کھیلنے کی اور گھومنے پھرنے کی۔ ایسی صورت میں والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کس طرح بچوں کی خوشیوں کا دھیان رکھتے ہوئے کچھ ایسے منصوبے بنائے جائیں جو ان میں مثبت تبدیلیاں پیدا کریں۔ یا پھر کچھ ایسا کریں کہ بچوں کو بوریت کا احساس بھی نہ ہو اور ان کی بہتر ذہن سازی بھی ہو جائے۔

حالانکہ ایسا سوچنا قطعی درست نہیں ہے کہ بچے گرمی کی چھٹیوں میں بالکل خالی رہتے ہیں۔ تقریباً سبھی اسکولوں کا یہ دستور ہے کہ چھٹی سے پہلے وہ بچوں کو اتنا سارا ’ہوم ورک‘ دے دیتے ہیں کہ روزانہ کچھ وقت انھیں پڑھائی کے لیے نکالنا ہی پڑے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کھیل کود کے چکر میں بچوں کی توجہ تعلیم سے بالکل بھٹک ہی نہ جائے۔ لیکن والدین اور خصوصاً ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ گرمی کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھائیں اور بچوں کے لیے پورے دن کا کچھ ایسا ’روٹین‘ تیار کریں کہ بچوں کو پتہ بھی نہ چلے اور ان کی شخصیت کی نشو و نما بھی قابل قدر طریقے سے ہو۔ بہت سی مائیں پریشان ہوتی ہیں کہ بچے اسکول چلے جاتے تھے تو آرام حاصل ہوتا تھا اور چھٹیوں میں 24 گھنٹے ان کی شیطانیاں جھیلنی پڑیں گی۔ کسی بھی ماں کے لیے ایسی سوچ سودمند نہیں۔ انھیں چاہیے کہ بچوں کو سخت روٹین میں باندھ کر رکھنے اور کسی ’ایکسٹرا کلاس‘ میں ڈال کر چھٹکارا حاصل کرنے کی جگہ کچھ ایسا کریں جو بچے کے لیے یادگار ہو۔ یقین جانیے، اگر آپ گرمی کی چھٹیوں میں اپنے بچوں کو پیش نظر رکھ کر منصوبہ تیار کریں گی تو نہ صرف بچے کی بہتر پرورش و پرداخت میں مدد ملے گی بلکہ آپ کے لیے بھی چھٹیاں کسی ’پکنک‘ سے کم ثابت نہیں ہوں گی۔ گرمی کی چھٹیاں آپ کے لیے اپنے بچوں کو سمجھنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان کی دنیا بدلتی چلی جاتی ہے۔ ان کی دنیا میں دوستوں کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے جس سے وہ اپنی ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور پھر ایک ہو جاتے ہیں۔ بڑے ہو رہے بچے اپنے والدین کے ساتھ محدود موضوعات پر ہی گفتگو کرتے ہیں۔ اب آپ کو دیکھنا یہ ہے کہ کیا آپ کے بچے آپ سے ہر بات کھل کر بیان کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر ان چھٹیوں میں آپ درمیان کے فاصلے کو ختم کرنے کی کوشش کیجیے اور بچوں کے ساتھ بچے بن جائیے۔ آپ ان کے ساتھ ’سمر کیمپ‘ جائیے، تاریخی مقامات کی سیر کیجیے۔ بچوں کو دل کھول کر موج مستی کرنے دیجیے اور ان کی چھوٹی موٹی شیطانیوں پر سرزنش کرنے سے پرہیز کیجیے۔
خوشگوار ماحول قائم کر کے ہی بچوں کے دل کو جیتا جا سکتا ہے اور انھیں قریب لایا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے کہ آپ بچوں کو مناسب آزادی دیں گی تو وہ آزادی کے ساتھ ساتھ آپ کے ذریعہ طے کیے گئے حدود پر ثابت قدم رہنا بھی سیکھ جائیں گے۔ لیکن یہ بھی توجہ رکھیں کہ بچوں کو کھیل کود اور گھومنے پھرنے کی آزادی دینے کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ان سے بالکل لاپروا ہو جائیں۔ کھیل کود کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے کھیل کھیل میں بچوں کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ مثلاً تخلیقی سرگرمیاں، تقریری و تحریری مقابلے اور کوئز بچوں کے ذہنی ارتقا میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آپ ایسا بھی کر سکتی ہیں کہ رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے ہم عمر بچوں کو جمع کریں اور پھر انھیں ضرورت کے مطابق الگ الگ ٹیموں میں تقسیم کر دیں۔ اب آپ جنرل نالج یا علمی صلاحیت میں اضافہ کرنے والا کوئی بھی کھیل شروع کریں، بچے اس سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس طرح سے آپ کے بچوں کی چھٹیاں مزیدار بھی ہو جائیں گی اور ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا۔
آپ اپنے بچوں کی دلچسپی کے مطابق انھیں گرمی کی چھٹیوں میں کچھ خاص چیزوں میں مصروف بھی رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ مصوری یا تیراکی میں دلچسپی رکھتا ہے یا پھر آپ کی بچی کو کھانا بنانے کا شوق ہے تو پھر آگے بڑھیے اور ان کی خواہش پوری کیجیے۔ قریب کے کسی اچھے انسٹی ٹیوٹ میں 20 یا 25 دن کے لیے ان کا داخلہ کرا دیجیے تاکہ ان کے اندر پوشیدہ صلاحیت نکھر کر سامنے آ جائے۔ اپنے بچوں کے شوق میں آپ بھی شامل ہوں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ اگر آپ کا بچہ تاریخی مقامات کی سیر کرنے کا خواہشمند ہے اور سمندروں و پہاڑوں کا دلدادہ ہے تو آپ ’آئوٹنگ‘ کا پروگرام بھی ضرور بنائیں اور مانڈو، گوالیر کا قلعہ، تاج محل، چار مینار، راجگیر جیسے مقامات کا دورہ کریں جہاں قدرت کے دلکش نظارے تو ہیں ہی، معلومات کا خزانہ بھی موجود ہے۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ضابطوں اور ٹائم ٹیبل میں بندھے بغیر اگر بچہ کچھ سیکھتا ہے تو وہ اسے تاحیات یاد رہتا ہے۔ بغیر کسی رکاوٹ اور اپنی دلچسپی سے بچہ کوئی بھی قدم آگے بڑھاتا ہے تو اس میں شدت موجود ہوتی ہے، کیونکہ اس کے لیے کوئی اسے مجبور نہیں کرتا ہے۔ پورے سال اسکول جانے کی وجہ سے بچہ روٹین میں بندھا ہوا تو رہتا ہی ہے پھر گرمی کی چھٹیوں کے دوران بھی اسے روٹین میں باندھ کر رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اپنے بچے کو کھل کر جینے دیجیے۔ اپنے بچے کو موقع دیجیے کہ وہ آسمان کو چھونے کے لیے کوئی ایسی چھلانگ لگائے کہ آپ کو بھی اپنے بچے پر فخر ہونے لگے۔ یقین جانیے، اگر آپ ایسا کریں گی تو بچے کی نظر میں آپ کی عزت نہ صرف پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی بلکہ وہ ان چھٹیوں میں آپ کو پریشان بھی نہیں کریں گے۔ آپ بھی اپنے بچوں کے ساتھ گرمی کی چھٹیاں جی بھر کر جینے کی کوشش کیجیے کیونکہ یہ بچے وہ تارے ہیں جو زمین پر اتر آئے ہیں۔

 رابطہ کریں Mob. : 8802786283

 

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...