تجارت كے فروغ میں سوشل میڈیا اهم كردار ادا كر رها هے

ٹیكنالوجی كےاس دور میں چھوٹا تاجر بھی سوشل میڈیا كے ذریعه اپنے پروڈكٹ كی تشهیر اس طور پركر رها هے كه كم لاگت میں اس كے پاس گراهكوں كی بھیڑ جمع هو رهی هے ۔ بڑی كمپنیوں كے ساتھ اب چھوٹے تاجر بھی سوشل نیٹ وركنگ سائٹس كا بهتر استعمال كر رهے هیں ۔ پیش هے دهلی سے عفان احمد كامل اور ممبئی سے آرزو شوكت علی كی رپورٹ

حال هی میںممبئی میں منعقده كانفرنس كے لئے مجھے ایك ایسے كیٹرر كی ضرورت تھی جو میرے بجٹ كے مطابق مهمانوں كی خاطر تواضع كرسكے ۔میں فیس بك پر یوں هی وقت گذاری كر رها تھا كه میری نظر “حیات كیٹررس” كے ایك پوسٹ پر پڑی جس میں اس بات كا آفر تھا كه جهاں بھی چاهیں هم وهاں اپنی خدمات انجام دینے كے لئے تیار هیں جبكه ملك كے تمام پكوان همارے یهاں بنائے جاتے هیں.فوری طور پر میں نے انهیں اپنا مدعا بیان كیا اور پل بھر میں ان كا جواب میری نظروں كے سامنے تھا۔میرے متعینه بجٹ میں وه كون كون سے پكوان میرے مهمانوں كو پروس سكتے تھے نه صرف اس كی تفصیلات تھیں بلكه مزید وه كیا كچھ فراهم كر سكتے هیں اس كا آفر بھی تھا۔
دراصل انٹرنیٹ استعمال کنندگان کیلئے فیس بک ،ٹوئٹر اورواٹس ایپ جیسی آن لائن خدمات محض خبروں سے آگاہ رهنے ،رکھنے ، تصویریں دیکھنے دکھانے ، دوستوں سے رابطہ قائم كرنے یا صرف وقت ضائع کرنے کے تفریحی سازوسامان نهیں ہیںبلكه دنیااب اس سے مزید استفاده كر رهی هے۔ــممبئی میں حیات كیٹررس كے مالكان محمد اختر شیخ اور محمد افسر شیخ كهتے هیں’’هم نےچھوٹے پیمانے پر اپنا كاروبار شروع كیا تھا اور دھیرے دھیرے اپنی تجارت كو فروغ دے رهے تھے كه اسی دوران فیس بك پر اپنا اكائونٹ Hayat Caterersكے نام سے بنایا اور اس كی تشهیر كرنے لگے ۔بعد میں همیں اس قدر بزنس ملنا شروع هوا كه همیں جس كی امید نهیں تھی‘‘۔اختر شیخ كهتے هیں’’شروع میں همارے پاس محض چند گراهك تھے جبكه ان كا اسٹینڈرڈ بھی كم تھا ،فیس بُك پر مسلسل پوسٹنگ كی وجه سے نه صرف اسٹینڈرڈ گراهكوں تك رسائی حاصل هوئی بلكه لوگوں كے مزاج كو سمجھنے كا بھی موقع ملا هے۔اب پورے ممبئی میں هم اپنی خدمات انجام دے رهے هیں اور نئے نئے گراهكوں كو اپنی طرف راغب كر رهے هیں‘‘۔
نئی دهلی كے تاجر اتُل گوتم بھی ویسے هی تاثرات بیان كرتے هیں جیسا حیات كے مالكان نے بیان كئے هیں وه كهتے هیں’’یه گلوبلائزیشن كادور هے ۔اب كنوینشنل ماركیٹنگ سے زیاده آن لائن اور سوشل ماركیٹنگ پر توجه دی جارهی هے ۔بڑے شهروں میں آن لائن اور سوشل ماركیٹنگ كے ذریعه هی لوگ تجارت كرنا پسند كر رهے هیںاورتاجر حضرات بھی اپنی تجارت كو فروغ دینے كے لئے اس كا استعمال كر رهے هیں۔مختلف آن لائن پورٹل ایسے هیں جهاں مفت میں آپ اپنے پروڈكٹ كا تعارف كر اسكتے هیںاور اپنا پروڈكٹ پوسٹ كر سكتے هیں ۔دراصل جتنی آن لائن پوسٹنگ هوگی گوگل اور دوسرے سرچ انجن بھی اسی طرح آپ كے پروڈكٹ كو دنیا كے سامنےپیش كرے گا اور نتیجے میں آپ كو زیاده خریدار ملیںگے۔‘‘ اتُل كے مطابق ’’ فیس بك،گوگل پلس،ریڈف شیئر،ٹوئیٹر، اوایل ایكس،كوئیكر ،لوكیشن،انڈیا مارٹ،ویوا اسٹریٹ وغیره ایسی سائٹس هیں جهاں سے بآسانی اپنی تجارت كو فروغ دیا جاسكتا هے۔‘‘
گڑگائوں ریئل اسٹیٹ فرم كے ذمه دار ایشان بریجا كهتے هیں ’’سوشل ماركیٹنگ برانڈنگ كے لئے ایك بهترین پلیٹ فارم هے ۔سب سے بڑی بات یه هے كه یه سب سے سستا اور ابتدا كے لئے بالكل فری پروموشنل سروس هے،برانڈنگ كے ساتھ ساتھ گراهك بنانے كے لئے بھی موثر ذریعه هے‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ نئے میڈیا کے ان تجارتی مہم جوؤں کیلئے ا س طرح کی اختراعات میں تجارت کے طاقت ور آلات بننے کا زبردست امکان موجود ہےاور یہ محض آغاز ہے۔هریانه كے نوجوان تاجر وكرم چوهان كهتے هیں ’’آن لائن،سوشل ماركیٹنگ مستقبل میں تجارت كا اهم ذریعه هوگا۔كیونكه همارے ملك كے برخلاف دیگر ترقی یافته ممالك میں یه كافی مقبول هو چكا هے۔البته گذشته سال دو سال سے دیكھیں تو هندوستان میں بھی آن لائن ماركیٹنگ كا شیئر بڑھا هے۔جس كے بنیادی وجوهات میں سوشل نیٹ وركنگ سائٹس كا رول انتهائی اهم شمار كیا جاسكتاهے۔‘‘
تجارت میں سوشل میڈیا کے استعمال کے امکانات کو تلاش کرنے کے لئے جب امریكه میں ریئل ٹائم این وائی11کے دوران ڈیلٹا ایئر لائنز ، سٹی بینک،پیپسیکو اور آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنیوں کے مقررین یکجا هوئے تو انهوں نے چھوٹی ٹیکنالوجی کی نئی کمپنیوں جیسے ایونٹ برائٹ یا غیر منافع بخش تنظیموں مثلاً نیویارک سٹی کی نیویاریکن پوئٹس کیفے کو بھی نمائندگی دی۔ بہت سے مقررین نے اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے بتایا کہ اپنی خدمات کی مارکیٹنگ کیلئے وہ کس طرح ٹوئٹر کااستعمال کررهےہیں۔ریئل ٹائم کانفرنس کی بانی اور مارکیٹنگ اور ایونٹس کی ایک فرم ماڈرن میڈیاکی چیف ایگزیکٹو افسر رائیز كے مطابق ’’فیس بک ، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کمپنیوں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے گاہکوں سے براہ راست ربط قائم رکھ سکیں۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ ’’کمپنیاںشروع میں کسٹمرسروس یعنی مسائل حل کرنے اور سوالات کے جوابات دینے کیلئے ان ذرائع کا استعمال کرتی تھیں ۔ مگر انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ ان ذرائع کو مختلف طریقوں سے استعمال کرکے وہ اپنے برانڈ کو اپنے گاہکوں سے وابستہ رہنے کا موقع دے سکتی ہیں۔‘‘میک ڈونلڈ میں سوشل میڈیا کے ڈائریکٹر رک ویون نے ریئل ٹائم این وائی 11کے شرکا کے سامنے اس کی ایک نمایاںمثال پیش کی۔ رک ویون نے بتایا کہ ’’ ایک عورت نے ایک ٹوئٹ لکھا کہ اس کے بیٹے کو میک ڈونلڈ کے ’’ Happy Meal ‘‘ میں غلط کھلونا ملا ہے۔ اس کمپنی کی سوشل میڈیا ٹیم نے جب یہ ٹوئٹ دیکھا تو اس عورت کو ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک کارڈ کے ساتھ درست کھلونابھیج دیا ۔ وہ عورت اس رد عمل سے اتنی خوش ہوئی کہ اس نے اس تجربہ کو اپنے بلاگ پرپوسٹ کیا اور اس کمپنی کی پرزور وکالت کی۔‘‘ رائیز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ اس بات کی بڑی اچھی مثال ہے کہ ایک کمپنی کس طرح ڈیجیٹل دنیا کو حقیقی دنیا سے جوڑسکتی ہے اور کسی ایسی چیز کی تخلیق کرسکتی ہے جس کی گاہک کی نگاہ میںسچ مچ قدر ہو‘‘۔
سوشل سائٹس آپریٹ كرنے والے ماهرین كهتے هیں کہ ’’یہ ضروری نہیں کہ اپنے کاروبار کیلئے ٹوئٹر جیسی خدمات کا استعمال آپ اسی وقت کرسکیں جب آپ کی کمپنی ایک بڑی کمپنی ہو۔كیونكه ان آلات کا استعمال بہت قدیم نہیں ہے۔ آپ اگر ابھی ان کا استعمال شروع کردیں تو آپ پیچھے نہیں رہیں گے۔ بہت سی کمپنیوں نے ابھی تک سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کیا ہے جبکہ ذرائع مسلسل بدل رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس مرحلے میں نئے ذرائع کے استعمال میں شریک ہورہے ہیں البتہ فرق اس وقت پڑے گا جب آپ آگے بڑھ کر اس کا تجربہ کریں گے‘‘۔چونکہ ہر کاروبار کی اپنی الگ ضرورتیں ہوتی ہیں، اس لئے ماهرین کا خیال ہے کہ ٹوئٹر، فیس بک اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کے بارے میں جتنی زیادہ واقفیت حاصل کرلی جائے، بہترہے ۔ آن لائن سہولت کو استعمال کرنے کی سمجھ جتنی زیادہ ہو،اچھا ہے۔ ماهرین كا كهنا هے کہ ’’آپ اپنے کاروبار اور گاہکوں کو جتنا سمجھتے ہیں، اتنا کوئی اور نہیں سمجھتا۔ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ آپ اپنی مہارت کیلئے ان ذرائع کو استعمال کرنے کی بہترین صورتیں سچ مچ نکال سکتے ہیں۔ لهذااس میں چھلانگ لگائیے ۔ آپ خود بخود واقف ہوتے چلے جائیں گے۔‘‘
البته بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو سوشل میڈیا میں اپنی تجارت کی موجودگی کو بڑھانے کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ان کا مشورہ ہے کہ ’’پہلے دوسروں کی باتیںسنئے۔ جب آپ کسی کاک ٹیل پارٹی میں یا میل جول کی کسی تقریب میں جاتے ہیں یا کسی ریستوران میں کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو وہاں پہنچتے ہی بولنا نہیںشروع کردیتے۔ آپ تھوڑا سا وقت یہ دیکھنے اور جاننے میں گزارتے ہیں کہ لوگ کیا بات کررہے ہیں۔ اس کے بعد آپ بھی گھل مل جاتے ہیں۔ پہلے ماحول سے واقفیت حاصل کیجئے اور ماحول کو اس معاملہ میں اپنی رہنمائی کرنے دیجئے کہ آپ اپنی بات کہنے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں۔‘‘
یه ایك حقیقت هے کہ ٹوئٹر اور فیس بک جیسے ذرائع نہ صرف تجارتی مہم جوؤں کو بلکہ گاہکوں کو بھی تقویت بخشتے ہیں۔آپ ذ رااس بات پر غور کریں کہ تجارت کس طرح کئی صدیوں میں ترقی کرتی ہوئی یہاں تک آئی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ آپ بازار جاتے تھے اور اس قصاب کو پہچانتے تھے جو آپ کیلئے گوشت مہیا کرتا تھا اور اس کسان کو بھی جانتے تھے جو آپ کیلئے غلہ اگاتاتھا۔ گزشتہ کچھ صدیوں میں اشیا کی قدر میں بڑی افزائش ہوئی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں میدان میں آگئی ہیں جو مثال کے طور پر کسی ایک کسان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہیں لیکن یہ کمپنیاں انفرادی طور پر کم توجہ مرکوز کرتی ہیں ۔ البتہ اب انسانی رابطہ پھر سے واپس آگیا ہے اور وہ ہے اپنے گاہکوں کو سچ مچ سمجھنے کی کسی کمپنی کی اہلیت۔ جب کمپنیاں اپنی تائیدکرنے والی برادریوں کی باتیں سنتی ہیں اور اپنے گاہکوں کی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے خود کو منظم کرتی ہیں تو کامیاب ہونے کی پوزیشن سے قریب آجاتی ہیں۔كیونكه کوئی بھی اچھی کمپنی بیداری اور ربط کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس اس کام کے کرنے کے حیرت انگیز آلات ہیںاور وه اس كا بھر پور فائده اٹھا رهے هیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *