سونے کی گرتی قیمت نے خریداروں کو لبھایا ہے

بازار میں اگر گولڈ بیچنے والوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے تو اس سے زیادہ لمبی قطار ان خریداروں کی ہے جو اس خاص موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔پیش ہے دانش ریاض کی رپورٹ
ان دنوں (Gold)سونے کی قیمت میں بتدریج گراوٹ نے گہنے کے خریداروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر دی ہیں۔خواہ ہندو ہو یا مسلمان ہر آدمی کی نظر صرف سونے کی خریداری پر ہی مرکوز نظر آتی ہے۔حالیہ دنوں میں سونے کے کئی ایک بیوپاری میدان میں قسمت آزمائی کے لئے آگئے آئے ہیں۔ممبئی کی مشہور سونے کی دکان ’’توحید جویلرس‘‘میں بھی ان دنوں گہما گہمی زیادہ نظر آتی ہے۔پابندی وقت کے ساتھ کھلنے اور بند ہونے والے دکان میں گاہکوں کو بھی پتہ ہے کہ کس وقت آرام سے خریداری کی جاسکتی ہے ۔نقاب پوش خواتین ،ماڈرن لڑکیاں حتی ٰ کہ نئے بیاہے جوڑوں کو بھی دکان میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے ۔دکان کے مالک اسرار احمد کہتے ہیں ’’اللہ کا شکر ہے کہ ہم شریعت کے مطابق خرید و فروخت کرتے ہیں تو ہمارے یہاں خریداروں کی بھی بڑی تعداد پورے اعتماد کے ساتھ خریداری کرنے آتی ہے ،انہیں اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ اگر وہ توحید جویلرس میں داخل ہو رہے ہیں تو انہیں کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کرنا پڑے گا‘‘۔ممبئی و مہاراشٹر کے مختلف برانچوں میں ہورہی تجارت سے مسرور نظر آنے والے اسرار احمدحالیہ دنوں مارکیٹ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ان دنوں کئی ممالک نے جن کی معاشی حالت بہتر نہیں ہے اپنا سونا (گولڈ)بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا ہے جبکہ سب سے زیادہ درآمد ہندوستان میں ہی ہوا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ سونے کی قیمت میں کافی کمی نظر آرہی ہے۔دراصل بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کا بھائو ڈالراور تیل پر منحصر ہوتا ہے اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو سونے کی قیمت میں کمی واقع ہوتی ہے اسی طرح تیل کا بھی معاملہ ہے کہ جب اس کی قیمت میں گرانی ہو تو سونے کی قیمت نیچے چلی آتی ہے۔ ‘‘
حالیہ دنوں ہی ہندوئوں نے دھن تیرس کا تہوار منایا ہے جبکہ مسلمانوں کے یہاں یہ شادیوں کا موسم رہا ہے ۔اس موقع پر جس طرح بڑھ چڑھ کر خریداری ہوئی ہے اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ۔لہذاہندوستان میں سب سے زیادہ سونے کی خریداری پر گفتگو کرتے ہوئے اسرار کہتے ہیں ’’بر صغیر (ہند و پاک اور بنگلہ دیش) کے ساتھ پورے ایشیا کا مزاج سونا پہننے ،سونا خریدنے اور سونا جمع کرنے کا ہے اس کے برخلاف سائوتھ افریقہ یا امریکہ و یوروپ میں یہ مزاج دیکھنے کو نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ ایشیا سونے کی سب سے بڑی منڈی قرار پایا ہے۔دراصل ہندو رسم و رواج میں بھی سونے کو اہمیت حاصل ہے ،شادی بیاہ میں سونا دینا تہذیب کا حصہ ہے جبکہ مسلمانوں میں عموماً ’’مہر ‘‘سونے کی شکل میں ہی ادا کی جاتی ہے۔جو لوگ اپنی پونجی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو وہ سونے کی ہی شکل میں اسے محفوظ کرتے ہیں۔اسی طرح ماں اپنی بیٹی کو،ساس اپنی بہو کو ،بھاوج اپنی نند کو اگر کوئی یادگار دینا چاہتی ہے تو سونے کی ہی شکل میں دیتی ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہندوستان سونے کا ’’Producer ‘‘نہیں بلکہ’’ Consumer ‘‘ہے۔افریقہ میںسینٹرل افریقہ سونے کا سب سے بڑا ’’پروڈیوسر‘‘ ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو ان چیزوں کا شوق نہیں ہے ۔چونکہ وہاں علم کی کمی ہے اور ٹیکنالوجی میںبھی وہ پیچھے ہیں لہذا سونے کی کان میں کام کرنے والے بیشتر مقامی مزدورافریقی ہیں جو یومیہ دو سو یا تین سو پر کام کرتے ہیں جبکہ یورپ و امریکہ کے ماہرین وہاں سے سونا نکالتے ہیں اور اسے خلیجی ممالک میں بیچ دیتے ہیں۔یہ بات کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان دنوں دبئی گولڈ کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔‘‘سونے چاندی ،ہیرے جواہرات کی تجارت میں مسلمانوں کی شمولیت پر گفتگو کرتے ہوئے اسرار کہتے ہیں ’’مسلمانوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے لیکن بنیادی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس تجارت میں آنا نہیں چاہتے۔ہندوستان میں بنگالی مسلمان کاریگر کی شکل میں توموجود ہے لیکن سودی کاروبار میں ملوث ہے لہذا وہ غیر مسلموں کے ساتھ کام کرنا تو پسند کرتا ہے لیکن ان لوگوں کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتا جو شریعت کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں۔لہذا اگر کوئی شروع بھی کرے تو کاریگر ہی اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔اسی کے ساتھ کئی ایک پریشانیاں ایسی بھی ہیںجو بیان نہیں کی جاسکتیں، لوگ اس کا اندازہ لگا کر ہی گھبرا جاتے ہیں۔دراصل سونے کا کاروبار اب سود پر منحصر ہوگیا ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ بیشترسنار کی دکانیں خالی پڑی ہیں وہاں خریدار نہیں ہیں لیکن پوری شان کے ساتھ وہ کاروبار حیات چلا رہے ہیں دراصل وہ سود پر پیسہ دینا اور مال گروی رکھنا پسند کرتے ہیں اور رہن کے مال میں ہی کمائی کرتے ہیں۔چونکہ تمام مارواڑی سود خور ہیں لہذا وہ سونے کے بزنس میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں اور سودی نظام کو بڑھاوا دیتے ہیں اگر کوئی شخص اس سودی سسٹم کے خلاف کھڑا ہو اور وہ کمال ایمانداری کے ساتھ سونے کی محض تجارت کرے تو یہ حضرات اس کا ناطقہ بند کر دیں گے اور اس کے خلاف ماحول تیار کریں گے۔ البتہ ان تمام پریشانیوں کے بعد بھی لوگ قسمت آزمائی کر رہے ہیں‘‘۔موجودہ دور میں منافع کے نئے نئے ٹرینڈ کے ساتھ سرمایہ کاروں کا لبھانے کے لئے کئی کئی گنا منافع دے رہے ہیں لہذامنافع کے سوال پر اسرار کہتے ہیں’’سونے میں منافع بہت زیادہ نہیں ہے جو کمپنیاںیا افراد لوگوں کا سرمایہ لے کر بلند بانگ دعوے کررہی ہیں ان کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ آخر وہ کہاں سے سرمایہ کاروں کو دوگنا اور تین گنا منافع دے رہے ہیں۔توحید جویلرس نے مارواڑیوں کی کالا بازاری دیکھی تو سب سے پہلے Re-Saleمیں 100%منافع دینا شروع کیا جبکہ عام سنار صرف 20%دیتا ہے۔ہماری کوششوں کے نتیجہ میں گاہکوں کے اندر بھی بیداری آئی اور وہ ہماری دکان کا رخ کرنے لگے جب دیگر تاجروں نے یہ مزاج دیکھا تو اب وہ بھی ہمارے اصولوں پر ہی کاربند نظر آرہے ہیں۔دراصل معاملہ یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ہمارے افراد کام کرتے ہیں اور وہاں سے پیسہ کماکر گھروں کو بھیجتے ہیں گھر والے اسے زیورات میں منتقل کر دیتے ہیں لہذا ایک طرف تو ہم زر مبادلہ کی شکل میں ہندوستانی معیشت کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور جب یہاں وہ رقم سونے میں منتقل ہو جاتی ہے تو مارواڑی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پھر اسی رقم کی کمائی سے وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی مدد کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف مہمات چلا رہے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس مارواڑی چراتے ہیں ۔یہ ہمارے علاقوں میں رہ کر تجارت تو کرتے ہیں لیکن رہائش اختیار نہیں کرتے ۔ہماری عورتیں ان کی دکانوں میں جاکر گھروں کے قصے بیان کرتی ہیں اور وہ ان خبروں کو مسلمان دشمنوں تک پہنچاتے ہیں۔آپ دیکھیں تو جو بنیادی تجارت ہے مثلاً اناج،میڈیکل،ہارڈویئر اور پھر گولڈ یہ غیرمسلموں کے ہی ہاتھ میں ہے جس میں مارواڑی پیش پیش ہیں۔اس روشنی میں دیکھیں تو اسلام اور مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر جولوگ میدان میں آئے ہیں اور ’’حلال‘‘’’شریعت کے مطابق‘‘نام لے کر تین گنا یا چار گنا منافع دے رہے ہیں ایسے لوگوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔البتہ ہمارے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ہی کمیونیٹی میں تجارت کریںجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری تجارت آپس میں فروغ بھی پائے گی اور لوگوں کو کسی طرح کا نقصان بھی برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘اسرار کہتے ہیں ’’اسلام کسی پر ظلم کرنا،کسی کا حق دبا لینا یاکسی کو نقصان پہنچانے کی دعوت نہیں دیتا ۔بلکہ وہ ہر ایک کو اس کا جائز حق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اگر کوئی کچھ خرید رہا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ تھوڑا جھکتا ہی دو تاکہ اس کا حق نہ مار لیا جائے۔دراصل اسلام کا فروغ تجارت کے راستے ہی ہوا ہے آج بھی چین کے ژین ژیانگ میں جائیں تو وہاں بیشتر تجارتی بورڈ عربی زبان میں ہی نظر آئیں گی ۔آخر کیا وجہ تھی کہ اسلام چین تک پہنچا ؟دراصل صحابہ کرام جب وہاں گئے تو وہ تجارت کے لئے ہی گئے تھے اور انہوں نے وہاں کے تجارتی ماحول کو دیکھا تو ناراض ہوئے اور اسلامی اصول تجارت کو متعارف کرایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا کا پورا علاقہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔‘‘موجودہ دور میں خواتین کو بھی تجارتی میدان میں آنے کا مشورہ دیتے ہوئے اسرار کہتے ہیں ’’پردے میں رہتے ہوئے اگر ہماری خواتین تجارت کریں تو وہ بآسانی تجارتی گُر سیکھ سکتی ہیں چونکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے تجارت کو فروغ دیا اور آقائے مدنی سرکار دو عالم ﷺ کی سر پرستی کی اور پھر حلقہ بگوش اسلام ہوکر زوجہ نبی ﷺ بن گئیں ۔اگر ہماری خواتین اسلامی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے گھر بیٹھ کر بھی تجارت کرنا چاہیں تو موجودہ دور میں وہ بہت آگے جاسکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *