Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سرکاری اسکول اور تعلیمی مافیا

by | Jun 13, 2014

نہال صغیر
مہاراشٹر کے اسکولی تعلیم کے وزیر راجیندر درڈا نے قانون ساز اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اس سے مہاراشٹر میں سرکاری اسکول کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں28 ایسے اسکول ہیں جس میں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔12789 اسکولوں میں بیس سے بھی کم طلبہ ہیں ۔ 54 ایسے اسکول ہیں جہاں صرف ایک ایک طالب علم ہے ۔پھر بھی انہوں نے ایوان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ کوئی بھی اسکول صرف اس لئے بند نہیں کیا جائیگا کہ وہاں کوئی طالب علم نہیں ہے ۔لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سرکاری اسکولوں کی یہ حالت کیوں ہے ؟اور نہ ہی سوال کرنے والوں نے ان سے یہ سوال کیا کہ اسکولوں کو ان حالات سے باہر نکالنے کیلئے حکومت نےکیا تدبیر اختیار کی ہے۔ یہ تو مہاراشٹر کی حالت ہے لیکن ملک کی بھی مجموعی حالت ایسی ہی ہے ۔یہ اس ملک کی یا ریاستوں کی تعلیمی حالت ہے جس کو دنیا کی قیادت کرنے کی طرف پیش قدمی کرنا ہے ۔یہ باتیں اس لئے کہی جارہی ہیں کہ اکثر یہ کہا جاتا ہےکہ ملک بہت جلد سوپر پاور میں شمار ہونے لگے گا ۔اور اس کی وجہ ملک میں ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی بڑھتی تعداد ہے ۔یہ اور بات ہے کہ غربت کا گراف بھی کچھ کم نہیں ہے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ آبادی ابھی بھی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔بہر حال ہمارا موضوع فی الحال تعلیمی پسماندگی اور اس کے محرکات ہیں جن پر دھیان دیا جانا از حد ضروری ہے ۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ دلی میں اروند کیجریوال کی 49 دن والی حکومت کے پہلے دن انہوں نے ایوان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ہمارا مقصد سرکاری اسکولوں کو اتنا معیاری بنانا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخلہ دلانے سے اعراض نہ کریں ۔انہوں نے ایوان میں سوال کیا کہ ہم میں سے کتنے لوگوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں ۔جواب سب کا نفی میں تھا ۔اطلاع کے مطابق عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اس طرف پیش قدمی بھی کی تھی لیکن ان کی حکومت 49 ویں دن گرگئی ۔سرکاری اسکولوں کے ان حالات کیلئے پہلی ذمہ داری حکومت کی ہے اور دوسری طرف عوام بھی اس کیلئے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے سرکاری اسکولوں کی بگڑتی حالت کا حل یہ نکالا کہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ دلانا شروع کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری اسکولوں کی طرف سے حکومت اور لا پرواہ ہو گئی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے قد آور لیڈروں نے بھی جب دیکھا کہ اسکول کا کاروبار کافی منافع بخش ہے تو انہوں نے حکومت سے ہی مراعات یافتہ زمین لے کر شاندار تعلیمی ادارے کھولنے شروع کئے ۔جس سے تعلیمی مافیا کا عروج ہوا ۔اب پورے تعلیمی نظام پر پوری طرح تعلیمی مافیا کا راج ہے اور سرکاری اسکولوں میں صرف وہی والدین اپنے بچوں کو داخل کرواتے ہیں جو بے چارے پرائیویٹ اسکولوں کی فیس دینے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان حالات میں ہم کیسے سوپر پاور بننے کا خواب دیکھتے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔
کہتے ہیں کہ جب جاگو تب ہی سویرا ۔ اگر ہم اب بھی بیدار ہو جائیں اور حکومت پر دبائو بنائیں تو حالات بدل سکتے ہیں ۔ یوپی اے 2 کی سابقہ مرکزی حکومت نے حق تعلیم کا قانون تو پاس کردیا لیکن خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے ۔بلکہ تعلیمی مافیا اتنا جری ہو گیا ہےکہ وہ اس قانون کا کھلم کھلا مذاق اڑاتا ہے اور غریب طلبہ کو داخلہ دینے میں آنا کانی کرتا ہے۔ اب چونکہ معاملہ پوری طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مرہون منت ہے اس لئے وہ صرف اسکولوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان اسکولوں کے علاوہ انہوں نے ٹیوشن کلاس کا ایک نیا جال پھیلا رکھا ہے ۔ وہ اسکولوں میں کورس پورا نہیں کرتے اور اس کیلئے طلبہ کو مجبوراً ٹیوشن کلاسس کا سہا را لینا پڑتا ہے ۔ حکومت کا کام عوام کو بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے ۔ تعلیم بھی آج کی دنیا میں لوگوں کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔اس لئے یہ پوری طرح حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرکاری اسکولوں کو بےشک طلبہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بند نہ کرے لیکن اسے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ دلانے سے کیوں ہچکچاتے ہیں ۔اس کی جو بنیادی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ ہے سرکاری اسکولوں کا گرتا معیار تعلیم،اساتذہ کی غیر ذمہ داری وغیرہ ۔مگر اس کی ذمہ دار بھی خود حکومت ہی ہے ۔کچھ مہینے قبل جب بہار میں مسرکھ کے ایک پرائمری اسکول میں غذائی سمیت سے کئی بچے ہلاک ہو گئے تھے تب ایک ہندی ہفتہ روزہ نے کور اسٹوری میں لکھا تھا کہ اسکول کے اساتذہ سے تعلیم کے علاوہ سبھی کام لئے جاتے ہیں ۔جو سراسر عوام کے ساتھ دھوکا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسکولی اساتذہ پر تعلیم کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی ۔ان پر صرف ملک کے مستقبل کے معمار کی زندگی بنانے کی ہی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جائےاور تعلیمی معاملات میں کسی بھی طرح کی کمی کیلئے ان کو ذمہ دار بنایا جائے اور اسکول یا طلبہ کی کارکردگی کو ان کے پروموشن سے بھی جوڑا جائے ۔اس سے یقیناً تعلیمی حالات اور سرکاری اسکولوں کو ابتری سے نکالنے میں مدد ملے گی ۔حکومت اپنے دیگر کام کیلئے دوسرے محکمہ سے ملازمین لے اور ملک کے مستقبل کے معمار کی زندگی سے نہ کھیلے کیوں کہ مستقبل کے معمار کی بربادی ملک کی بربادی ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...