
مسلمانوں کو قدامت پسند نظریہ فکر کو چھوڑنا ہوگا
ظفر آغا
سن 1857 میں دہلی کی گلیوں سے لے کر مودی کے خلاف لڑی جانے والی بیلٹ باکس کی جنگ تک ہر مورچہ ہارنے کے بعد کیا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ابھی بھی یہ ایک لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ آخر مسلمان مسلسل شکست سے باہر نکل کر جدید دور میں ترقی کی منزلوں کو کیسے حاصل کریں! یقینا کسی بھی زندہ اور باحس قوم کا شیوہ یہ ہے کہ وہ شکست کے بعد اپنی شکست کے اسباب پر غور کرے اور پھر ایک حکمت عملی کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کی کوشش کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے اپنی شکست کے بارے میں کبھی غور و فکر نہیں کیا اور اپنی ترقی کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ سن 1857 میں انگریزوں کے ہاتھوں پہلی شکست کے چند برسوں بعد ہی ہندوستانی مسلمانوں میں اپنے زوال کے اسباب پر غور و فکر شروع ہوگیا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ غور فکر ہوا بلکہ غور و فکر کے ساتھ ساتھ باقائدہ ایک لائحہ عمل بھی طے ہوا اور اس لائحہ عمل کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے مسلمانوں نے ادارے بھی قائم کئے تاکہ مسلمان انگریزوں سے شکست کے بعد پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں! سوال یہ ہے کہ فکری سطح پر 1857 کی شکست کے مسلمانوں نے کیا اسباب طے کئے اور پھر ان اسباب پر قابو پانے کے لئے کون سے ادارے قائم کئے تاکہ مسلمان پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے!
مغلیہ سلطنت کے زوال کے چند سالوں کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں جب اپنے زوال پر غور و فکر شروع کیاتو سن 1860 کی دہائی میں دو نظریہ فکر یعنی دوSchool of thoughts پیدا ہوائے۔ ایک نظریہ فکر علماء کرام کا تھا جس نے دارالعلوم دیوبند کی شکل لی اور دوسرا نظریہ فکر سرسید احمد خان کا تھا جس نے شروع میں علی گڑھ اسکول اور پھر بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل لی۔ یہ دونوں نظریہ فکر بنیادی طور پر ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ اس لئے ان دونوں نظریہ فکر کے اہم پہلو پر غور کرنا ضروری ہے۔ علماء کرام کا نظریہ فکر نے بنیادی طور پر مغرب کو نہ صرف اپنا سیاسی دشمن تسلیم کیا بلکہ اس نظریہ فکر نے پوری مغربی تہذیب کو ہی رد کر دیا۔ علماء کرام کے نزدیک مغرب وہی مغرب تھا جو صلیبی جنگوں کے دور کا مغرب تھا جو اسلام اور مسلمانوں کوشکست دے کر پورے ہندوستان میں عیسائی مذہب اور عیسائی تہذیب پھیلانا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب فکری سطح پر مغرب اسلام دشمن ہو گیا تو پھر مغرب سے جنم لینے والی جدید تہذیب بھی فکری سطح پر اسلام دشمن ہی قرار پائے گی۔ اس نظریہ فکر کا حال یہ تھا کہ علماء کرام یہ نہیں سمجھ سکے کہ انڈسٹریل انقلاب کے بعد جس مغربی تہذیب نے جنم لیا ہے اس میں تمام انسانیت کے لئے ترقی اور جدید دور میں Empowerment کے وہ راز مضمر ہیں جن کا اندازہ انسانیت کو انڈسٹریل انقلاب سے قبل تھا ہی نہیں ۔ اٹھارہ ویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں جنم لینے والی تہذیب بادشاہت کے بالمقابل دنیا کو جمہوریت کا پیغام دے رہی تھی جو یقینا ایک سیاسی انقلاب تھا۔ پھر سائنسی ایجاد پر مبنی اس تہذیب کا معاشی نظام انڈسٹری پر مبنی تھا جو زمیندارانہ معیشت کے بالمقابل انسان کے لئے معاشی ترقی کی نئی راہیں ہموار کر رہا تھا۔ یعنی یورپ کے انڈسٹریل انقلاب نے انسانیت کے لئے سیاسی اور معاشی سطح پر ایک نیا انقلاب بپا کر دیا تھا جس کے لئے اب ایک نئی تعلیم اور نئے اداروں کی ضرورت تھی۔ چونکہ یہ انقلاب مغرب کے راستے آیا تھا اور مسلمانوں کے ذہنوں میں مغرب ایک مسیحی مغرب تھا جس نے صلیبی جنگوں کے دوران اسلام کو شکست دینے کی کوشش کی تھی۔ اس لئے جب مغرب انیسویں صدی میں ایک نئی ترقی یافتہ جدید تہذیب کے ساتھ آیا تو علماء کرام نے اس مغرب کو صلیبی جنگوں کے دور کا مغرب سمجھ کر اس کو اپنا دشمن سمجھا۔ اور سیاسی سطح پر مغرب مسلمانوں کا دشمن تھا بھی کیونکہ مسلمانو کو شکست اور زوال مغرب کے ہاتھوں ہی ہوا تھا۔ لیکن علماء کرام یہ نہیں سمجھ سکے وہی مغرب اب سائنس اور ٹیکنا لوجی، ایک نئے تعلیمی نظام ، ایک نئے سیاسی و معاشی نظام کے ساتھ آیا ہے۔ جس میں تمام انسانیت کے لئے ترقی اور Empowerment کے جدید راستے مضمر ہیں۔ چنانچہ علماء کرام کے نزدیک مغرب کی ہر شے حرام ہو گئی اور وہ جمہوری نظام ہو یا مغرب کی معیشت مثلاً بینک، انگریزی تعلیم ہو یا تعلیم نسواں، کم و بیش علماء کے لئے مغرب سے پیدا ہونے والا انقلاب اولین دور میں پوری طرح حرام رہا۔ اس کے بر خلاف مسلمان زمیندارانہ قدروں پر مبنی میڈویل تہذیب کو اصل اسلام تصور کر شریعت کا سہارا لے کر پوری جدیدیت کو اپنا دشمن سمجھ کر رد کر تا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان نہ صرف زوال کا شکار ہوا بلکہ اس نے اپنی ترقی کے تمام راستے خود مسدود کر دیئے۔ تب ہی تو 1857 سے اب تک مسلمان ہر سطح پر محض شکست کا شکار ہے۔
یہ تو تھا علماء کرام کا نظریہ فکر اور ان کا لائحہ عمل ! اس کے بر خلاف دوسرا نظریہ فکر سر سید احمد خان نے پیش کیا تھا جو دیوبند کی طرح 1860 کی دہائی میں ہی ابھر کر سامنے آیا تھا۔ سر سید کے نظریہ فکر کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ مغرب میں ایک انقلاب بپا ہو گیا ہے اور مغرب کے انڈسٹریل انقلاب کی بنیاد پر جس جدید مغربی تہذیب نے جنم لیا ہے وہ مسلم تہذیب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ چنانچہ سر سید کی رائے میں مسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ یہی تھا کہ انگریزوں نے جس جدیدیت یعنی Modernity کو جنم دیا ہے وہ اس کو تسلیم کریں ۔ یعنی سر سید کیلئے 1857 کے بعد کا انگریزوہ صلیبی دشمن نہیں تھا جو علماء کے نزدیک تھا۔ چنانچہ سر سید نے مسلمانوںکی ترقی کی ایک نئی حکمت عملی بنائی۔ ہم ہندوستانی مسلمان عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ سر سید ترقی کے لئے محض انگریزی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے علی گڑھ میں ایک انگریزی اسکول کھولا تھا۔ ایسا نہیں تھا ۔سرسید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو ترقی کے لئے مغرب کی پوری جدیدیت یعنی Moderinty کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اس کے لئے انہوں نے تین نکاتی لائحہ عمل تیار کیا تھا۔ سر سید کے مطابق جدیدیت کی بنیاد سائنس، ٹیکنالوجی ہے۔ یعنی سرسید انیسویں صدی میں یہ سمجھ گئے تھے کہ جو قوم دور جدید میں سائنس و ٹکنالوجی پر قدرت نہیں حاصل کر ے گی وہ ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے علی گڑھ میں اسکول قائم کرنے سے قبل ایک سائنس سوسائٹی قائم کی جو باقائدہ برسوں ایک سائنسی جریدا چھاپتی تھی جس کا کام مسلمانوں میں سائنسی فکر کو عام کرنا تھا ۔ سرسید کی حکمت عملی کا دوسرا جز انگریزی تعلیم تھا۔ انگریزی تعلیم سے ان کا مقصد محض یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کو انگریزی بولنا آجائے ۔ بلکہ سر سید یہ چاہتے تھے کہ مسلمان انگریزی سیکھ کر جدید دور کے تمام جدید علوم پر قدرت حاصل کرے تاکہ اس دور میں ترقی کی راہیں کھل سکیں ۔ اس مقصد سے سر سید نے علی گڑھ اسکول قائم کیا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی شکل میں موجود ہے۔ پھر سر سید کی حکمت عملی کا تیسرا لیکن اہم جز دور جدید کے تقاضوں کے مد نظر مسلم شریعت میں خاطر خواہ تبدیلیاں پیدا کرنی تھی۔سر سید کا خیال تھا کہ جدید سیاست و معیشت نے زمینداراہ قدروں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو بھی دور جدید میں جدید قدروں کا سامنا ہوگا۔ اگر مسلمان اپنی شریعت کو دور جدید کی روشنی میں نہیں بدلتا ہے تو وہ قدامت پرستی کا شکار ہو جائے گا اور ترقی سے دور ہو جائے گا۔ اس نکتہ نگاہ سے سر سید نے تغیر قرآن لکھی جس کا مقصد جدید قدروں کو قرآن کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش تھی۔ یعنی سر سید نے ترقی کے لئے مسلمانوں کو جو راستہ دیکھا یا تھا اس میں انہوں نے مسلمانوں کو مغرب سے پیدا ہونے والی جدیدیت یعنی Modernity کو تسلیم کرنے کی تلقین دی تھی۔
افسوس کہ ہم مسلمان آج بھی علماء کرام کے نظریہ فکر کے پابند ہیں جو بنیادی سطح پر مغرب کو اپنا صلیبی دشمن سمجھ کر سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی مغرب کی پوری جدید تہذیب کو رد کر تا ہے۔ آج بھی مسلمان سر سید کے بتائے اس راستے سے دور ہے جس میں محض انگریزی تعلیم ہی نہیں بلکہ جدیدیت کو تسلیم کر نے کا راستہ بتا یا گیاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان قدامت پسند نظریہ فکر کو چھوڑ کر سر سید کے بتائے ہوئے اس راستے کو تسلیم کرے جس میں جدیدیت کے ذریعہ دور حاضر کی ترقی کے راستے مضمر ہیں ۔ لیکن اس کے لئے مسلمانوں میں فکری سطح پر ایک مکمل جنگ کی ضرورت ہے تا کہ مسلمان نہ صرف انگریزی تعلیم بلکہ فکری اور نفسیاتی سطح پر جدیدیت کو تسلیم کر سکے۔ اگر ابھی بھی مسلمانوں نے یہ نہیں کیا تو وہ پسماندگی کے غار میں اور دھنستا چلا جائے گا۔